الأربعاء، 14 شوال 1445| 2024/04/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز13اکتوبر2017

۔ جہاد اسلامی ریاست پر فرض ہے اور وہ امت کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے ان کی قیادت کرتی ہے

- پاکستان کے خلاف امریکہ و بھارت کا گٹھ جوڑ: ایک بار پھر بلی تھیلے سے باہر آگئی

- دہشت گردی سے متعلق امریکی الزامات کو قبول یا مسترد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ وہ خود سب سے بڑا دہشت گرد اور  دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ہے

 

تفصیلات:

جہاد اسلامی ریاست پر فرض ہے اور وہ امت کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے ان کی قیادت کرتی ہے

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے 6 اکتوبر 2017 کو قومی اسمبلی میں کہا کہ"صرف ریاست ہی جہاد کا اعلان کرسکتی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ختم نبوت کی شق میں تبدیلی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف انتہائی خطرناک فتوے جاری کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں ان عناصر کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت سخت ایکشن لینا چاہیے جو اس قسم کے اعمال میں ملوث ہیں"۔

 

9/11 کے بعد سے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے حکمران امت مسلمہ کو یہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست ہی کرسکتی ہے اور کسی غیر ریاستی کردار (نان اسٹیٹ ایکٹر) کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل نہیں۔ یہ بات انتہائی عجیب نظر آتی ہے کیونکہ 1980 کی دہائی کے بعد سے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے مختلف جہادی گروہوں کی بھر پور معاونت اور سرکاری سرپرستی کی جب امریکہ کو افغانستان میں سوویت روس کی پیش قدمی کو روکنے کی ضرورت تھی۔ 1980 کی دہائی سے 9/11 تک کا دور پاکستان میں جہادی گروہوں کی آب کاری کا دور تھا لیکن 9/11 کے بعد امریکہ کی ضروریات اور ترجیحات یکسر تبدیل ہوں گئیں۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا اور افغان طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا تو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف جہاد شروع ہوگیا اور پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقے کے مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے۔ یہ صورتحال پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹوں کے لیے ایک چیلنج بن گئی کہ وہ کیسے قبائلی مسلمانوں کو اپنے آقا امریکہ کے خلاف جہاد کرنے سے روکیں کیونکہ پہلے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے خودانہوں نے جہاد کے تصور کی ترویج کی تھی اور یہ کہا تھا کہ سوویت یونین  کافر ریاست ہے جس نے ایک مسلمان ملک پر قبضہ کرلیا ہے لہٰذا اس کے خلاف لڑنا عین جہاد ہے۔  اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے خلاف لڑنا بھی عین جہاد تھا  لیکن امریکی ایجنٹ حکمرانوں نے قبائلی مسلمانوں کو امریکہ کے خلاف لڑنے سے روکنے کی کوشش کی ۔ ایجنٹ غدار  حکمرانوں کی یہ کوشش کیونکہ کسی شرعی دلیل سے عاری تھی لہٰذا انہیں فوراً ہی یہ احساس ہوگیا کہ  انہیں اپنے غدارانہ عمل کی پردہ پوشی کے لیے کسی  ایسی دلیل کی ضرورت ہے جو اسلامی نظر آتی ہو ۔ اور اُس وقت سے یہ کہا جانے لگا کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست ہی کرسکتی ہے کوئی غیر ریاستی گروہ یا جماعت جہاد کا اعلان نہیں کرسکتا۔

 

جہاد اسلامی ریاست پر فرض ہے اور اس فرض کی موثر اور بھر پور ادائیگی کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ایک اسلامی ریاست کی موجودگی میں کسی غیر ریاستی گرو ہ کو جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ اسلامی ریاست اس ذمہ داری کی ادائیگی میں مسلمانوں کی خود قیادت کرتی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا

"بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا"(النساء:75) ۔

 

لہٰذا ہم مسلمان حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کب اسلام کی دعوت اور جہاد کو خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیں گے ؟ آپ کب مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور افغانستان کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جہادکا اعلان کررہے ہیں؟ آپ کب روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی قصائی فوج کے وحشیانہ مظالم سے بچانے کے لیے جہاد کا اعلان کررہے ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ جب امت حکمرانوں کی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے غفلت کی وجہ سے خود مساجد، ہسپتال، یتیم خانے، بلڈ بینک وغیرہ بنانا شروع کردیتی ہیں تو یہ حکمران اس وقت تو یہ نہیں کہتے کہ صرف ریاست کو ان امور کی انجام دہی کا حق ہے کسی غیر ریاستی گروہ یا جماعت کو یہ کام کرنے کا حق نہیں؟ اور اگر موجودہ ریاست جہاد کی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی تو کیا پھر یہ بات مسلمانوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرتی کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لائیں تا کہ تمام ذمہ داریاں اور فرائض ادا ہوں جیسا کہ ان کی ادائیگی کا حق ہے؟

 

پاکستان کے خلاف امریکہ و بھارت کا گٹھ جوڑ: ایک بار پھر بلی تھیلے سے باہر آگئی

3اکتوبر 2017 کو امریکہ کے سیکریٹری دفاع جنرل میٹس نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ "چین کامنصوبہ ون بیلٹ ون  روڈ  متنازع علاقے سے گزررہا ہے، اور اس طرح سے وہ خودہی اپنی کمزوری ظاہر کررہا ہے"۔ یہ بیان پاکستان کے خلاف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا واضح اعلان ہے جہاں امریکہ نے کھلے عام اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

  

امریکی سیکڑیٹری دفاع  کے بیان کے جواب میں پاکستان کی کمزور قیادت کے نمائندہ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے انتہائی کمزور ردعمل کا اظہار کیا اور کہا"سی پیک خطے اور اس سے باہر تک کے لوگوں کی بہتری کے لیے ترقی اور انہیں جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ بین الاقوامی برادری کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے"۔ حکومت نے اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا کہ امریکہ نے کھلم کھلا بھارتی موقف کو قبول کیا ہے اور کمزوری کامظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے اس کے بیان پر وضاحت تک طلب کرنے کی ہمت نہیں کی چہ جائیکہ وہ کوئی مضبوط قدم اٹھاتی۔

  

میٹس کایہ بیان حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی جانب سے دیے جانے والے جارحانہ بیانات کا تسلسل ہے۔ امریکہ نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ اس کے عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس الزام کا نام نہاد سخت جوا ب دیا۔ ان تمام بیانات کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان کی حکومت امریکہ  کی مخالفت کررہی ہے اور اپنی وفاداری امریکہ کی جگہ چین اور روس سے منصوب کررہی ہے ۔ یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے امریکہ کے وفادار اتحادی امریکہ سے اختلافات کااظہار کر کے بظاہر روس اور چین سے تعلقات مضبوط کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ترکی اور سعودی عرب دو مثالیں ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں دیکھاوے کا امریکہ مخالف رویے کا مقصد افغانستان میں مجاہدین کو   مذکرات کی میز پر لانے کے لیے قائل کرنا ہے۔ حقیقت میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی آرہی ہےکیونکہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے معمولات، امریکہ اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادتوں کے درمیان ملاقاتیں، پاکستان اور امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت کے درمیان روابط اور دیگر دوسرے معاملات ویسے کے ویسے ہی چل رہے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ  یہ حکمت عملی کہ اپنی وفاداریاں بدل کر چین اور روس کے ساتھ منسلک کردیں جائیں تو یہ بھی گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ اس کی بنیاد بین الاقوامی قوانین ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نافذ کراتی ہے اور جو بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہیں اور اس کے تحت ایک قو م کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی ایک سپر پاور کا اتحادی بننا لازمی ہے۔ اس طرح اس  چھوٹی قوم کے مفادات کا تعین  ہمیشہ بڑی طاقت کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے جس سے اس نے اتحاد کیا ہوتا ہے۔ جب کسی قوم کے بین الاقوامی تعلقات کسی مخصوص نظریہ حیات (آئیڈیالوجی)  کی بنیاد پر تعمیر نہ ہوں تو وہ آسانی کے ساتھ  کسی سپرپاور کے زیر اثر آجاتی ہے اور اس کی محکوم بن جاتی ہے۔

اسلام مسلمانوں کو غیرمسلم طاقتوں کی محکومی اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

ولن یجعل الله للکافرین علی المومنین سبیلا

"اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا "(النساء:141)۔

 

اس کے علاوہ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کو دیگر تمام نظریہ حیات پر غالب کردیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا

 

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ،

"وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کردے"(الصف:9)۔ 

 

طاقت کے حصول کے لیے ہمیں اسلام کے دشمنوں سے اتحاد نہیں بنانا چاہیے بلکہ تمام مسلمانوں کو ایک طاقتور ریاست خلافت میں یکجا کرنا چاہیے کیونکہ وہی ایک واحد عزت و طاقت کے حصول کا ذریع ہے۔

دہشت گردی سے متعلق امریکی الزامات کو قبول یا مسترد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے

جبکہ وہ خود سب سے بڑا دہشت گرد اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ہے

پاکستان کی موجودہ سیاسی و فوجی قیادت نے اچھائی و برائی کے امریکی پیمانوں کوقبول اور نافذ کر کے اپنی کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔  قیادت کا کام یہ نہیں کہ وہ جارح دشمن کے الزامات کو قبول یا مسترد کرے  کیونکہ چاہے الزام قبول یا مسترد کیاجائے دونوں صورتوں میں دشمن کے بنائے ہوئے پیمانے کو قبولیت کی سند ملتی ہے اور اس کا رتبہ بلند ہوتا ہے جس کا وہ حقدار نہیں ہوتا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے 9 نومبر 2017 کو کہا کہ، "پاکستان نے امریکی عہدیداروں کو پیشکش کی ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے جتنے ٹھکانوں کا پتہ ان کے پاس ہے وہ لے کر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر ہمارے ساتھ ان علاقوں کا اچانک دورہ کرلیں اور حقانی نیٹ ورک کی کوئی سرگرمی دکھائی دے تو پاکستان اور امریکہ مل کر ان عناصر کو وہیں ملیا میٹ کردیں گے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ دورہ کابل میں افغان صدر کو بھی یہی پیشکش کی ہے۔ یہ  پیشکش اُس وقت کی گئی ہے جب ٹرمپ نے پاکستان پر یہ الزام لگایا کہ وہ "دہشت گردوں" کو پناہ فراہم کرتا ہے جبکہ یہ الزام بھارت لگاتا آیا ہے۔ کیا پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت ہوش و حواس کھو چکی ہے اور یہ زہریلی پیشکش اس حقیقت سے آگہی کے باوجود کررہی ہے کہ اس طرح کی الزام تراشی کو امریکہ دوسری اقوام پر حملے کے لیے استعمال کرتا ہے جیسا کہ اس نے عراق پر قبضہ کرنے سے پہلے اس پر جھوٹے الزامات لگائے تھے ۔

 

اگر اسلامی قیادت ہو تی تو وہ دہشت گردی کی امریکی تعریف اور پیمانوں اور اس کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتی۔  کیا یہ دہشت گردی نہیں جب امریکی افواج نے افغانستان اور عراق پر حملہ اور قبضہ کیا؟ کیا یہ دہشت گردی کی حمایت نہیں جب امریکہ اپنے اتحادی یہودی وجود اور بھارت کی حمایت کرتا ہے جبکہ وہ دونوں قابضین ہیں؟ اور جب مسلمان اپنے علاقوں پر دشمنوں کے حملوں اور قبضوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں تو اس عمل کو دہشت گردی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

باجوہ اور آصف کے کمزور موقف نے یہ بات ثابت کردیا ہے کہ انہیں امت کی کوئی پروا نہیں ہے اور وہ امت کو شدید تکلیف میں مبتلا کررہے ہیں جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

اَللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا, فَشَقَّ عَلَيْهِ, فَاشْقُقْ عَلَيْهِ

"اے اللہ اسے تکلیف دے جو میرے لوگوں پر کوئی  اختیار رکھتا ہو اور انہیں تکلیف پہنچاتا ہو"(مسلم)۔ 

ہمیں لازمی ان حکمرانوں نے منہ موڑ لینا چاہیے  جیسے انہوں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے منصوبے کو مکمل طور پر اختیار کرلینا چاہیے۔ صرف اُسی صورت میں ہمارے پاس ایسی قیادت ہو گی جو امریکی استعماریت اور پوری مسلم دنیا سے امریکی دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی۔ اور پھر خلیفہ راشد، جو امت سے اور امت اس سے محبت کرتی ہو گی، مظلوموں کو امریکی دہشت گردی سے نجات دلانےکے لیے مسلم افواج کو حرکت میں لائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا

"بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا" (النساء:75)

 

Last modified onہفتہ, 14 اکتوبر 2017 22:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک