السبت، 10 شوال 1445| 2024/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ریاستِ خلافت میں حکمرانی کی کمزوری کے اسباب اورا ن سے حاصل ہونے والا سبق

تحریر : عثمان عادل 

یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اسلامی ریاستِ خلافت نہایت شاندار اور پُر شکوہ ریاست تھی جو ایک مستحکم اور مؤثر نظامِ حکومت  رکھتی تھی۔  اگرچہ مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی اس وقت کی دو سپر پاورز یعنی روم و ایران کو مسخر کر لیا تھا جن کی اپنی تہذیب اور طرزِ حکمرانی تھا مگر مسلمانوں نے حکومت کو چلانے اور ریاستی اداروں کو استوار کرنے کے لیے اس وقت کی اِن عظیم سلطنتوں میں رائج  نظاموں کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ ہی انہیں اس کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ ان کا نافذ کردہ نظام اور ریاستی ڈھانچہ سب کا سب قرآن و سنت سے اخذ کردہ تھااور یہی اس ریاست کی مضبوطی کی بنیاد تھا۔  

تاہم  تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست ، خلافت میں حکمرانی کے مسائل نے جنم لیا اورحکمرانی کے بحران پیدا ہوئے ۔    حکمرانی رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئی، ریاستِ خلافت شکست و ریخت کا شکار ہوئی یہاں تک کہ 3 مارچ 1924 بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو  اس کا انہدام ہو گیا۔

 

وہ کیا عوامل تھے کہ جو ریاستِ خلافت کی حکمرانی کو کمزور کرنے کا باعث بنے اورآج خلافت کے دوبارہ قیام کے بعد اس کی حکمرانی کو مستحکم رکھنے اور کمزورہونے سے بچانے کے لیے ریاستِ خلافت کی اس تاریخ میں ہمارے لیے کیا سبق ہے، اس مضمون میں ہم اس بات کو جاننے کی کوشش کریں گے ۔ اس مضمون کا مقصد خلافت کی کمزوری کے تمام تر عوامل اور ریاستِ خلافت کے  انہدام کی تمام تر وجوہات کا احاطہ کرنا نہیں ، بے شک یہ ایک وسیع موضوع ہے،پس  ہم اپنے موضوع کو صرف حکمرانی اور حکومتی نظام تک ہی محدود رکھیں گے۔  ہم اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں گے کہ کیا خلافت میں جنم لینے والے اِن بحرانوں  کی بنا پر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں انسانی عقل اور تجربے سے حاصل ہونےوالےنتائج سے استفادہ کرتے ہوئے ریاستِ خلافت کے ڈھانچوں اور حکمرانی سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی جانے چاہئے۔  جیسا کہ خلافتِ راشدہ کے بعد حکمرانی کے موروثی بن جانے اور نتیجتاً مسندِ خلافت کم اہلیت کے لوگوں کے ہاتھ میں چلے جانے کی بنا پر کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ آج کے جمہوری سیٹ اَپ کی طرح خلیفہ  کی مدتِ خلافت بھی چند سالوں تک محدود ہونی چاہئے۔  اور وہ اس رائے کو اجتہاد کا نام دیتے ہیں۔ تواسلام میں ایسے 'اجتہاد' کی کس حد تک گنجائش ہے؟ کیا ماضی کے ریاستی ڈھانچے سے ہٹ کر آج کوئی نیا ریاستی ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا ۔ اگر نہیں ، اور اسلام کے نظامِ حکمرانی کو من و عن نافذ کیا جانا چاہئے توکیا آج یہ دوبارا انہی مسائل کو جنم نہیں دے گا کہ جن کا ماضی میں مشاہدہ ہو چکا ہے۔

 ان سوالات کے درست جوابات حاصل کرنے کے لیے ہم  سب سے پہلے ان عوامل پر نظر ڈالتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ماضی میں حکمرانی کمزوری سے دوچار ہوئی یا ریاستِ خلافت میں مختلف بحرانوں نے جنم لیا۔

 

1) ولایتِ عامہ اور والیوں کی خود مختاری

اسلام میں صوبوں کے والی یعنی گورنردو قسم کے ہوتے ہیں، ایک والیٔ عام اور دوسرا والیٔ خاص۔ والی عام ایسا والی ہوتا ہے جو صوبے کے تمام حکومتی معاملات کا ذمہ دارہوتا ہے اور خلیفہ اسے وسیع اختیارات کے ساتھ حکمران مقرر کرتا ہے، صوبے میں فوج، عدلیہ اور اموال اسی کے ماتحت ہوتے ہیں ۔ جبکہ والی خاص ایسا والی ہوتا ہے جسے کچھ شعبوں کے  اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔  خلیفہ کے لیے جائز ہے کہ صوبے پر ایک ہی والیٔ عام مقرر کرے اور تمام ترمحکمے اس کے ماتحت ہوں یا ایک صوبے پر دو یا دو سے زیادہ والیٔ خاص مقرر کرے جن کا اپنا اپنا دائرہ اختیارہو ۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو صرف صوبے کے مالیاتی امور پر والی مقرر کیا جائے جبکہ حکمرانی کے باقی امور ایک اور والی کے تحت ہوں یا کسی والی کو مالیات،عدلیہ  اور عسکری امور کے علاوہ  دیگرمعاملات کیلئے مقرر کیا جائے جبکہ یہ امور علیحدہ علیحدہ  والیوں کے تحت ہوں۔

تاہم تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صوبوں پر والیٔ عام کی تقرری ریاست کی کمزوری کا باعث بن سکتی ہے ۔  جیسا کہ حضرت امیر معاویہ کے معاملے میں ہوا۔ عثمانؓ کی شہادت کے بعد علیؓ کے دورِ خلافت میں حکمرانی کے شدید بحران نے اس وقت جنم لیا جب امیر معاویہ نے علیؓ کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے خلاف بغاوت کر دی جو کہ بعد میں جنگِ صفین کا موجب بنی۔ حکمرانی کے اس بحران کی وجہ سے  اسلامی ریاست اندورنی مسائل میں اُلجھ گئی، ریاست کی توجہ خارجہ پالیسی سے ہٹ گئی  اور جہاد کے ذریعے اسلامی ریاست کی سرحدوں کا پھیلاؤ تقریباً رک گیا۔

 امیر معاویہ علیؓ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے قابل اس وجہ سے ہوئے کہ انہیں شام کے صوبے میں ولایتِ عامہ حاصل تھی۔ امیر معاویہ کو عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں شام کے صوبے پر والی مقرر کیا تھا۔ شام اسلامی ریاست کا اہم صوبہ تھا جس کی سرحدیں رومی سلطنت سے لگتی تھیں اور یہاں پر ایک قابل اور مضبوط شخص کے تقرر کی ضرورت تھی جسے حکمرانی کے وسیع اختیارات حاصل ہوںتاکہ رومیوں کی طرف سے کسی بھی پیش قدمی کا فوری اور مؤثر جواب دیا جا سکے۔ عمرؓ نے حضرت امیر معاویہ کو اس ذمہ داری کے لیے چُنا۔ عمرؓ والیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ان کا سخت محاسبہ کرتے تھے۔عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب علی ؓخلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے اپنی حکمرانی کے ابتدائی ایام میں ہی بڑے پیمانے پر والیوں کو تبدیل کرنا شروع کیا جبکہ باغیوں کے ہاتھوں عثمانؓ کی شہادت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے باعث ان کی اپنی حکمرانی ابھی مستحکم نہیں ہوئی تھی۔  امیر معاویہ بھی تبدیل کیے جانے والے والیوں میں  سے ایک تھے ،تاہم امیر معاویہ نے نہ صرف اپنی معزولی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ شام کے صوبے میں اپنے اقتدار کو علیؓ کی خلافت کو چیلنج کرنے کا ذریعہ بنایا۔

پھرعباسی خلفاء کےدورِزوال میں بھی ایسا ہی ہواکہ جب صوبوں کے والیوں کو ولایتِ عامہ حاصل تھی  توصوبےخودمختارہوگئےتھےاوران پرخلیفہ کی اتھارٹی کم ہوکرمحض اس قدررہ گئی تھی  کہ ان کےلیےجمعہ و عیدین  کے خطبات میں دعاکی جائےاورجوسکےجاری کیےجائیں ان پرخلیفہ کانام کندہ ہو۔ 

حاصل کلام یہ کہ والی کوولایتِ عامہ تفویض کرنااسلامی ریاست کےلیےنقصان کاموجب بن سکتاہے۔  لہٰذاوالی کوولایت خاصہ تفویض کی جانی چاہیے جو اسےخلیفہ کی ماتحتی سےآزادہونےسےبازرکھے۔  جوچیزولایہ کوریاست سے جداکرنےمیں بنیادی کردار ادا کرتی ہے وہ افواج، اموال اور عدلیہ کا والی کے ہاتھ میں ہونا ہے ۔  کیونکہ افواج قوت کا ذریعہ ہیں، اموال کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کہ جسم میں خون کی ہوتی ہے اور عدلیہ کے ذریعے حدود کا نفاذ اور حقوق کا تحفظ ممکن ہوتا ہے۔   ان تینوں امور کو والی کے ہاتھ میں دینا ولایہ کے ریاست سے جدا ہونے کا سبب پیدا کرنا اور ریاست کی اتھارٹی کو کمزور بنانا  کا سبب بن سکتا ہے۔ پس حزب نے ریاستِ خلافت کے لیے تیار کردہ مسودہ دستور کی شق نمبر 54میں اس بات کی صراحت کی ہے:

والی کوخلیفہ کےنائب ہونےکی وجہ سےاپنی ولایہ میں حکمرانی اورولایہ کےمحکموںکی نگرانی کااختیار حاصل ہو گا ۔اس کواپنے ولایہ میں محکمہ مالیات،قضاء(عدلیہ)اور فوج کوچھوڑکرباقی تمام محکموں کے اوپرتمام اختیارات حاصل ہوں گے ۔

 

2) والیوں کا ایک ہی ولایہ پر طویل عرصے تک مامور رہنا:

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ حکمرانی کا وہ بحران جس نے اسلامی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا وہ حضرت امیر معاویہ کی قیادت میں شام کے اہم صوبے کی خلافت سے علیحدگی تھی۔اوپر ہم نے بیان کیا کہ کس طرح امیر معاویہ کو ولایتِ عامہ حاصل ہونے نے اس میں  اہم کردار ادا کیا ۔ وہ دوسری چیز جو اس میں ممد و معاون ثابت ہوئی وہ  امیر معاویہ کا طویل عرصے تک شام  کے والی کے طورپر برقرار رہنا تھا۔  امیر معاویہ عمرؓ کے دور میں والی بنے اور عثمان ؓ کے پورے دورِ خلافت میں والی کے طور پر کام کرتے رہے۔ یوں وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک صوبے کے حاکم تھے اور انہیں حکمرانی کے تمام تر اختیارات حاصل تھے۔ اس طویل دورِ حکمرانی نے امیر معاویہ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ صوبے میں اپنے اقتدار کی جڑیں مضبوط کر لیں ۔ اس طویل دورِ اقتدار کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بلادِ شام کے لوگ ان کی شخصیت سے منسلک ہو گئے اور ان کی وفاداری ریاست سے زیادہ امیر معاویہ کے ساتھ ہو گئی۔ چنانچہ جب انہوں نے علیؓ کے خلاف صف آرا ہونے  کا فیصلہ کیا تو تمام صوبہ ان کے اس فیصلے کی پشت پر کھڑا تھا اور صوبے کے لوگوں  نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا۔

چنانچہ بہتر یہ ہے کہ  کچھ سالوں کے بعد صوبے کے والی کو اس کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جائے اور اس کی بجائے نیا والی مقرر کر دیا جائے ۔ اسی طرح اگرصوبے میں موجود لوگوں کی نمائندہ مجلسِ ولایہ کی اکثریت اپنے والی سے ناراضی کا اظہار کرے تو خلیفہ والی کو برطرف کردے ۔  جیسا کہ رسول اللہﷺنے بحرین میں اپنے والی علاء بن حضرمی کو اس لئے معزول کردیا تھا کیونکہ عبد قیس کے وفد نے علاء بن حضرمی کی شکایت کی تھی۔  اس بنا پر حزب نےریاستِ خلافت کے لیے تیار کردہ  اپنے مسودۂ دستور میں بیان کیا ہے:

ایک ولایہ پرایک ہی شخص کاطویل مدت تک والی رہنا مناسب نہیں ۔خاص طور پرجب وہ کسی ولایہ میں مرکزی شخصیت بن جائےیااس کی وجہ سےلوگوں کےفتنےمیں پڑنےکاخطرہ ہو۔

اور

جب خلیفہ والی کومعزول کرنا مناسب سمجھے تو اسے معزول کرسکتاہے۔  یاپھر مجلسِ امت اس پرعدم اعتماد کا اظہار کردے، یا مجلس اس سے ناراضگی کا اظہار کرے، تو اسے معزول کیا جائے گا ۔

 

3) ولی عہدی کا آغاز اور خلافت کا ایک ہی خاندان میں محدود ہو جانا

ولی عہدی کے متعلق پہلے ہم یہ واضح کر دیں کہ اسلام میں ولی عہدی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ یعنی کوئی شخص خلیفہ کے انتقال کے بعد محض اس بنیاد پر خود بخود خلیفہ قرار نہیں پاتا کہ سابق خلیفہ نے اسے اپنا ولی عہد نامزد کیا تھا۔ خلفائے راشدین کے چناؤ کے سرسری جائزے سے بعض لوگ اس بارے میں کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ابوبکرؓنےبھی تو عمرؓکواپنےبعدخلیفہ مقررکیاتھا اورپھر عمرؓنےاپنی طرف سے چھ افرادکونامزدکر دیاتھا اورتمام صحابہؓ اس پر خاموش رہےتھے اوران کایہ سکوت اس بات پر اجماع ہے کہ جانشین مقررکرنا جائز ہے ۔  تاہم یہ استدلال درست نہیں اس لیے کہ ابوبکرؓ نے بذاتِ خود اپنے بعد خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا،بلکہ مسلمانوں نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ کسی کو اپنی جگہ مقرر کر جائیں ۔ امت کا یہ تقاضا دراصل امت کی طرف سے  خلیفہ کے تقرر کا اختیار ابو بکر ؓ کو سونپنا تھاکہ وہ امت کی نمائندگی کرتے ہوئے امت کے نمائندے  کےطور پر خلیفہ کے چناؤ کا کام سرانجام دیں۔ اور پھر ابوبکرؓ نے لوگوں سے  مشورہ کیا کہ وہ کسے خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ اوراسکےنتیجےمیں ابوبکرؓنےعلیؓ اورعمرؓکونامزدکیا۔  اس کےبعدلوگوں نےابوبکرؓکی زندگی ہی میں تین ماہ کے دوران اکثریت کے ساتھ عمرؓکو منتخب کرلیا۔  پھر لوگوں نے ابوبکرؓکی وفات کے بعد عمرؓکی بیعت کی،تب جاکر عمرؓکی خلافت قائم ہوئی ۔  بیعت سے پہلے عمرؓخلیفہ نہیں تھے اور ابوبکرؓ کی نامزدگی اورمسلمانوں کے انتخاب سے خودبخودان کی خلافت قائم نہیں ہوئی تھی ۔  بلکہ یہ خلافت اس وقت قائم ہوئی تھی جب مسلمانوں نے رضا مندی و اختیار سے آپکی بیعت کی تھی اور عمرؓنے خلیفہ بننا قبول کیا۔  اسی طرح عمرؓنے اپنے زخمی ہونے کے بعد جن چھ افراد کو مقررکیا تھاتووہ مسلمانوں کی درخواست پر کیا تھا۔  پھر علیؓ کواس شرط پرخلیفہ منتخب کیاگیا کہ وہ ابوبکرؓو عمرؓکےطریقےپرکاربندرہیں گے،بصورتِ دیگر (یعنی اس شرط پرعلیؓ کےانکارکی صورت میں)عثمانؓ خلیفہ بنیں گے ۔  جب علیؓ نے ابوبکرؓ اور عمرؓکے طریقے پر کاربند رہنے کی پابندی کو قبول کرنے سے معذرت کی تو عبد الرحمن بن عوفؓ نے (اسی شرط پر)عثمانؓ کی بیعت کرلی۔  چنانچہ دوسرے لوگوں نے بھی پھر ان کی بیعت کی۔  یوں عثمانؓ کی خلافت لوگوں کی بیعت سے قائم ہوئی،نہ کہ عمرؓکی نامزدگی سے،اور نہ محض لوگوں کے انتخاب سے۔  اوراگرلوگ ان کی بیعت نہ کرتے یا عثمانؓ اسے قبول نہ کرتے تو ان کی خلافت بھی قائم نہ ہوتی۔ چنانچہ خلیفہ کے لیے مسلمانوں کی بیعت ضروری ہے اورخلافت ولی عہد یا جانشین مقررکرنے سے قائم نہیں ہوسکتی۔  کیونکہ یہ حکمرانی کا عقد(contract)ہے اور اس پر دیگر شرعی معاہدات کی طرح معاہدات سے متعلق شرعی احکامات کا اطلاق ہوتا ہے۔

ولی عہدی کی رسم کو سب سے پہلے اسلامی تاریخ میں امیر معاویہ نے ایجاد کیا جب انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اپنی زندگی میں ہی اس کے لیے امت سے بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی۔  تاہم امت نے ولی عہدی کے ذریعے خلیفہ کے تقرر کے عمل کی سخت مزاحمت کی جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سےمذکور ہے۔ حرہ کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔  

یزید کی جانشینی اور اس کے بعد امام حسین ؓ کی شہادت نے اسلامی ریاست کو شدید دھچکا پہنچایا۔  اس کے بعد خلافت کے تمام ادوار میں کوئی شخص بیعت کے بغیرمحض جانشینی سے خلیفہ نہیں بنا تاہم سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے خاندانوں کی طرف سے خلافت کو ایک ہی خاندان میں محدود کرنے کی کوششیں جار ی رہیں۔ چنانچہ خلافت اموی پھر عباسی اور اس کے بعد عثمانی خاندان میں محدود رہی۔  خلفاء خلافت کو اپنےخاندان میں ہی باقی رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں اپنے ہی بیٹے،بھائی،یا کسی خاندان والےکوولی عہدنامزد کردیتے تھے اورپھرخلیفہ کے انتقال کے بعدعوام اس کی بیعت کرلیتے تھے۔  عوام صرف اُسی شخص کو بیعت دے سکتے تھے جسے خلیفہ نے نامزد کرکے ولی عہد بنا دیا ہوتا تھا، شاذ و نادر ہی کبھی عوام اس کےخلاف بیعت کرپائے۔  اس صورتِ حال کا ردِ عمل یہ ہوا کہ عام  لوگوں یا کسی  سیاسی گروہ کے لیے خلافت کا منصب حاصل کرنے  کاکوئی  سیاسی راستہ نہ رہا  نتیجتاً وہ اس منصب کے حصول کے لیے عسکری جدوجہد کی طرف مائل ہوئے۔  چنانچہ اسلامی ریاست میں مختلف گروہ اٹھےاور انہوں نے اتھارٹی اور حکمرانی کوحاصل کرنے کے لیے عسکری ذرائع اپنائے۔ عباسی کھڑے ہوئے اور انہوں نے فارس اورعراق پر قبضہ کر لیا تاکہ تمام ریاست پر حاوی ہونے کیلئے اِن علاقوں کو نقطۂ آغاز بنائیں اورحکومت کو خاندانِ بنو ہاشم میں لے آئیں۔  ان کے بعد فاطمی آئے اورمصرکے صوبے پر قبضہ کر کے وہاں سے پوری ریاست پر نظریں جما لیں تاکہ وہ اپنے اسماعیلی افکار، جو خلاف ِ شریعت تھے،کی بنیاد پر حکمرانی کو قائم کر سکیں۔  اس سیاسی کشمکش سے ایک طرف تو اسلامی ریاست کوجھٹکا لگا اور فتوحات کا سلسلہ کسی حد تک معطل ہوگیا اور ریاست اندرونی معاملات میں الجھ گئی، تودوسری جانب اس کے باعث اقتدار کا دوسرا مرکز وجود میں آیا اور مسلمانوں کی ریاست تقسیم ہو گئ  جبکہ مسلمانوں کیلئے یہ جائز ہی نہیں کہ اُن کے ایک سے زیادہ  حکمران ہوں۔

 اس طرح بیعت سے متعلق حکمِ شرعی کا غلط نفاذ مسلمانوں کواپنی پسند کےشخص کوبیعت دینے کے حق سےمحروم کرنے کا سبب بنا اور ریاست کی کمزوری کاباعث بنا۔  البتہ یہ کمزوری اُس دور میں ظاہر نہ ہوئی جب تک ریاست فی نفسہ مضبوط تھی، لیکن جب اُس کی طاقت کمزور پڑی تو اس کے اثرات بھی ظاہر ہوگئے۔ حزب اپنے مسودہ ٔدستور میں بیان کرتی ہے:

صرف وہی شخص خلیفہ ہوسکتاہے جسے مسلمان منتخب کریں۔  کسی بھی شخص کو خلیفہ کے اختیارات اس وقت حاصل ہوں گے جب دوسرے شرعی عقود کی طرح اس کی بیعت کا عقد شرعی طورپر مکمل ہوجائے۔

اور

ہر عاقل وبالغ مسلمان کو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے اور خلیفہ کی بیعت کرنے کا حق حاصل ہے

 

4)خلیفہ کے چناؤ کے لیے متعین اسلوب کی عدم موجودگی

جس چیز نے خلافت کو ایک ہی خاندان میں محدود کرنے میں مدد فراہم کی وہ یہ امر تھا کہ خلیفہ کے چناؤ کے لیے ایک واضح اور مخصوص اسلوب کا تعین نہیں کیا گیا کہ جس سے صاف طور پر یہ ظاہرہو جائے کہ امت کی اکثریت کی رائے کیا ہے ،اور امت کس شخص کو خلیفہ کے منصب پر دیکھنا چاہتی ہے۔

 اگرچہ شرع نے خلیفہ کے تقرر کے لیے متعین طریقہ کار دیا ہے جو بیعت کا طریقہ ہے مگر بیعت سے قبل یہ معلوم کرنا کہ لوگوں کی اکثریت کسے بیعت دینا چاہتی ہے اس کے لیے اسلوب کا تعین درکار ہے تاکہ کوئی ابہام پیدا نہ ہو اور کوئی سیاسی صورتِ حال کو اپنے حق میں  کرنے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست میں کہیں مگن نہ  ہوجائے۔  خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں کو ایک اسلوب متعین کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ اس وقت اہلِ حل و عقد معلوم تھے کہ جن کی رائے سیاسی امور میں امت کی رائے کی نمائندگی کرتی تھی،یہ صحابہ کرام کا گروہ تھا۔ اور اس وقت مسلمان تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے، چناؤ صحابہ کے درمیان تھا اور وہ سب کے سب عادل تھے۔پس ایسا ہوا کہ چاروں خلفائے راشد ین کے چناؤ کے لیے مختلف اسلوب اپنایا گیا اگرچہ خلیفہ کی تقرری کا طریقہ کار ایک ہی تھا یعنی بیعت کا طریقہ۔  چنانچہ ابوبکرؓ کی مرتبہ انصار اور مہاجرین سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ ان کی اکثریت کسے خلیفہ بنانا چاہتی ہے۔ عمرؓ کی مرتبہ امت نے چناؤ کا اختیار ابوبکرؓ کو سونپ دیا اور انہوں نے امت کی نمائندگی کرتے ہوئے معلوم کیا کہ لوگوں کی رائے کس شخص کے حق میں سب سے زیادہ ہے۔ عثمانؓ کی مرتبہ عمرؓ نے امت کی نمائندگی کرتے ہوئے چناؤ کو چھ لوگوں میں محدود کر دیا جو عشرہ مبشرہ تھے کہ وہ اپنے میں سے جسے چاہیں خلیفہ کے طور پر منتخب کریں اور پھر ان کے منتخب کردہ دو اصحاب میں سے ایک یعنی عثمانؓ کومدینہ کے لوگوں نے بیعت دے کر خلیفہ بنایا۔ علیؓ کی مرتبہ ان کا مدمقابل کوئی نہیں تھااور مدینہ و کوفہ کے لوگوں نے براہِ راست ان کی بیعت کی تھی ۔ تو یہ وہ مختلف اسلوب تھے کہ جو اس بات کو معلوم کرنے کے لیے اختیار کیے گئے کہ لوگوں کی اکثریت کسے خلیفہ کے طور پر پسند کررہی ہے۔ 

تاہم بعد میں سیاسی صورتِ حال میں تبدیلی آ گئی۔ سیاسی مرکز ایک سےزیادہ بن گئے۔ علیؓ کے چناؤ کے وقت مدینہ کے علاوہ کوفہ بھی ایک سیاسی مرکز تھا۔ اور پھر امیر معاویہ کے دور میں شام بھی ایک سیاسی مرکز بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تقویٰ کا وہ اعلیٰ معیار باقی نہ رہا جو کہ خلفائے راشدین کے دور میں تھا۔ چنانچہ بعد کے ادوار میں ایسا ہوا کہ خلافت کو ایک ہی  خاندان میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور لوگوں کی رائے اُس کھلے اور واضح طریقہ سے معلوم نہیں کی گئی کہ جیسے اس کا حق ہے۔ خلیفہ کے چناؤ کا ایک جامع اسلوب متعین نہ کرنا  اس کی بنیادی وجہ تھا ۔ چنانچہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے آج ضروری ہے کہ خلیفہ کی تقرری کے عمل کے دوران خلافت کے مسلمان شہریوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے ایک خاص اسلوب متعین کر دیا جائے تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ ہو اور نہ ہی کوئی اسلوب کے عدم تعین کی وجہ سے اپنے لیے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔

حزب نے اس مسئلے پرگہری تدریس کی ، خلفائے راشدین کے چناؤ کے لیے اختیار کردہ مختلف اسالیب کا جائزہ لیا، اور اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ  شرعی احکامات کی روشنی میں خلیفہ کی تقرری کے عمل میں ریاستِ خلافت کے مختلف اداروں کا کردار کیا ہو گا اورپھر اپنے مسودہ ٔدستور میں خلیفہ کے چناؤ کے لیےمندرجہ ذیل  اسلوب اختیار کیا:

 

دفعہ نمبر33:    (نئے خلیفہ کے تقرر کے سلسلے میں)عبوری امیر کا تقرر کیا جائے گا جو کہ مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کرے اور منصبِ خلافت کے خالی ہونے کے بعد نئے خلیفہ کے تقرر کے عمل کا آغاز کرے، جو کہ یہ ہو گا:

       ١ ) سابق خلیفہ جب یہ محسوس کرے کہ اس کی موت کا وقت قریب ہے یا وہ استعفیٰ دینا چاہتا ہو، تو اس صورت میں اسے حق حاصل ہے کہ وہ عبوری امیر کا تقرر کرے۔

             ب)  اگر عبوری امیر کے تقرر سے قبل خلیفہ کا انتقال ہو جائے یا وہ استعفیٰ دے دے یا خلیفہ کے انتقال یا استعفیٰ کے علاوہ کسی اور وجہ سے منصبِ خلافت خالی ہو جائے تو وہ معاون جو معاونین میں سب سے عمر رسیدہ ہو گا، وہ عبوری امیر ہو گا۔  ماسوائے یہ کہ وہ معاون بذاتِ خودخلافت کا امیدوار ہو۔  ایسی صورت میں وہ معاون عبوری امیر ہو گا جو عمر میں اس سے کم ہو، علیٰ ھذا القیاس۔ 

               ج)  اگر تمام ترمعاون خلافت کے امید وار ہوں، تو پھر وزراء تنفیذ میں سے سب سے عمر رسیدہ معاون عبوری امیر ہو گا، علیٰ ھذا القیاس۔  

       د)  اگر تمام تر وزراء تنفیذ خلافت کے امیدوار ہوں، تو وزراء تنفیذ میں سے سب سے کم عمر وزیرہی عبوری امیر ہو گا۔

       ھ)  عبوری امیر کو احکامات کی تبنی کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔

       و)  عبوری امیر اپنی پوری کوشش صرف کرے گا کہ وہ خلیفہ کے تقرر کے عمل کو تین دن کے اندر اندر مکمل کرے۔  اس مدت میں توسیع کی اجازت نہیں، ماسوائے یہ کہ محکمہ مظالم کسی شدید سبب کی بنا پر اس مدت میں توسیع کر دے۔ 

دفعہ نمبر34:    خلیفہ کے تقررکا طریقہ بیعت ہے۔  خلیفہ کے تقرر اور اسے بیعت دینے کا عملی طریقہ یہ ہے:

       ١ ) محکمۂ مظالم منصبِ خلافت کے خالی ہونے کا اعلان کرے گا۔

             ب)  عبوری امیر اپنی ذمہ داری سنبھالے گا اورفوری طور پرنامزدگیوں کے کھل جانے کا اعلان کرے گا۔

             ج)  وہ درخواستیں قبول کی جائیں گی جو کہ انعقادِ خلافت کی شرائط پر پوری اترتی ہوں۔  اس کے علاوہ پیش کی جانے والی درخواستیں محکمة المظالم کے فیصلے کی بنا پر مسترد کر دی جائیں گی۔

              د)  وہ امیدوارجن کی درخواستوں کو محکمہ ٔمظالم نے قبول کیا ، مجلسِ امت کے مسلمان رکن ان امیدواروں کی فہرست کو دو مرتبہ مختصر کریں گے۔  پہلے اختصار میں وہ اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پرچھ لوگوں کا انتخاب کریں گے۔  دوسرے اختصار میں وہ اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر دو امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔ 

              ھ)  ان دو امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا اور مسلمانوں کوان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرناہو گا۔ 

              و)  انتخاب کے نتیجے کا اعلان کیا جائے گا اور لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا کہ دونوں میں سے کسے زیادہ لوگوں کے ووٹ حاصل ہوئے۔ 

              ز)  وہ شخص جسے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے، مسلمان اسے قرآن و سنت پر عمل پر بیعت دیں گے۔

             ح)  بیعت کے مکمل ہونے کے بعدعوام الناس کے لیے اس بات کا اعلان کیا جائے گا کہ کون مسلمانوں کا خلیفہ ہے یہاں تک کہ یہ خبر پوری امتِ مسلمہ تک پہنچ جائے۔  اوراس خبر میں خلیفہ کے نام کا اور ان شرائط کا اعلان کیا جائے گا جنہوں نے اُسے اس  بات کا اہل بنایا کہ اس کی خلافت کا انعقاد کیا گیا۔        

             ط)  نئے خلیفہ کی تنصیب کے عمل کے مکمل ہونے کے بعد عبوری امیرکی اتھارٹی اختتام کو پہنچے گی۔ 

 

 

5) سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی

اسلام کےنفاذ،اسلام کی دعوت کوپہنچانے،نیزاسلام کے مسلسل اور بطریقِ احسن نفاذ کی طبعی ضمانت حکمران کا متقی ہونا ہے کیونکہ اللہ کا خوف حکمران کو اسلام کے متعلق اس کی اپنی ذات اور ضروریات سے زیادہ فکر مند بنا دیتا ہے۔   البتہ یہ ممکن ہےکہ کسی حکمران کا دل تقویٰ سے خالی ہو جائے لہٰذا ایسے مادی ذریعہ کا ہونا ضروری ہے جو اسے اسلام کے نفاذ پر کاربندرکھے اور جسے یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ اس کی جگہ ایسا حکمران مقرر کر سکے، جو اسلام کو نافذ کرے اور اسلام کی دعوت کی ذمہ داری اٹھائے۔  یہ عملی ذریعہ امتِ مسلمہ ہے۔ امتِ مسلمہ پر فرض ہے کہ اگر وہ یہ دیکھے کہ حکمران اسلام کے نفاذ میں کوتاہی کر رہا ہے یا اسلام کے احکامات سے رُوگردانی کررہاہےیااسلام کےنظاموںکوغلط اندازمیں نافذکررہاہےتووہ حکمران کامحاسبہ کرے۔

تاہم اس کام کے لیے امت کے اندر سیاسی جماعتوں کا وجودہونا ضروری ہے ۔  سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے بغیر امت کے لیے ریاست کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنا اور ریاست کا محاسبہ کرنا محال ہے ۔ ایک فرد یا کچھ غیر مربوط افراداس کام کو مؤثر انداز میں سرانجام نہیں دے سکتےاور نہ ہی وہ  امت کی سیاسی تربیت کر سکتے ہیں اور اسے فکری طور پر بلند  رکھ سکتے ہیں۔  اگر اسلامی ریاست میں شفاف اور بلند افکار پر مبنی ایک یا ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود نہیں ہو ں گی تو رفتہ رفتہ حکمرانی میں کمزوری پیدا ہوتی جائے گی خواہ ایک حکمران عادل ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ اگر حکمران عادل نہ ہو اور اسلام کے قوانین کا غلط نفاذ کرے یا اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتے تو امت میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی حکمرانی کو واپس درست حالت پر لے آئے گی۔

اسلامی ریاست کی تاریخ اس کی واضح دلیل ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں اپنی دعوت کے آغاز کے بعد ارقم بن ارقم ؓ کے گھر میں اسلامی افکار کے ذریعے اسلام قبول کرنے والے افراد کی شخصیت سازی اورتربیت کی اور ایک منظم گروہ تشکیل دیا ۔ اس گروہ نے عملی طور پر اسلام کا علمبردار بننے کی ذمہ داری کواپنے کندھوں پر اٹھایا۔  پھر مدینہ ہجرت کے بعد شخصیت سازی اور افراد سازی کا یہ عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ کا وصال ہوا تو آپﷺنے اپنے پیچھے ساٹھ ہزار صحابہؓ کی جماعت چھوڑی۔  یہ صحابہؓ ایک اسلامی گروہ یا جماعت تھے، جو باقی مسلمانوں سے ممتاز تھے اور جنہوں نے عملی طور پر اسلام کی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا۔ صحابہؓ نے آگے مسلمانوں میں سے مزید لوگوں کی تربیت کی اور یوں تابعین اور تبع تابعین کا گروہ وجود میں آیا ۔  لیکن جب صحابہؓ،تابعین اورتبع تابعین کادورختم ہواتوامت کے اندر سے ایک ایسے گروہ کا خاتمہ ہو گیا جو اپنی فکر میں شفاف تھا اورعملی معاملات میں  امت کی قیادت کررہا تھا اور حکمرانوں کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ پس جب بعد کے ادوار میں اسلام کے احکامات کے نفاذ میں کوتاہی ہوئی تو ان کی بروقت نشاندہی کرکے اس پر مؤثر انداز میں حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والا کوئی منظم گروہ موجود نہ تھا۔  چنانچہ ایسا ہوا کہ بیعت کے حکم کو غلط طور پر نافذ کیا گیا اور خلافت کو چند خاندانوں تک محدود کر دیا گیا جیسا کہ امویوں نے کیا ،اورایسا ہوا کہ جہاد کے ذریعے اسلام کی دعوت کو دنیا تک پہنچانے میں سستی برتی گئی اور جہاد کے لیے محض رسمی طور پر موسمِ سرما اور موسمِ گرما میں ایک مہم بھیج دی جاتی جیسا کہ عباسیوں نے کیا ،سپین پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا اور عباسی خلافت نے عیسائیوں کے اس اقدام کے خلاف حرکت میں آنے میں سستی برتی ، عباسی دور میں مرکز کی اتھارٹی انتہائی کمزور ہو گئی اور صوبے خود مختار ہو گئے،جبکہ عثمانیوں نے خلافت کی وحدت اور جہاد کو دوبارا رائج کرنے کو بہت اہمیت دی مگر امت کی اسلام کی سمجھ میں جو کمزوری آ گئی تھی اسے دور کرنے پر توجہ نہ دی ، نہ ہی انہوں نے امت کی  فکری کمزوری کو دور کرنے کے لیے عربی زبان کو رائج کرنے اور اسے ریاستی سطح پر اپنانے پر توجہ دی ،جی ہاں  اسلامی ریاست میں یہ سب کچھ ہوا مگر اس پر حکمرانوں کو نصیحت کرنے، ان کا محاسبہ کرنے، امت میں اسلام کی گہری سمجھ کو پھیلانے اور اسلام کا علمبردار بننے کے لیے امت کی رہنمائی و قیادت کرنے والا کوئی سیاسی گروہ امت میں موجود نہ تھا۔ جس کی وجہ سے اسلامی ریاست کے زوال کو بروقت روکا نہ جا سکا۔ اس لیے یہ امر انتہائی ناگزیر ہے کہ آج خلافت علی منہاجِ نبوت  کےقیام کے بعد اس میں ایک یا ایک سے زیادہ  سیاسی جماعتیں موجودہوں جو ریاستِ خلافت کی ترقی و عروج کو مستقل طور پر یقینی بنائے رکھیں۔  چنانچہ حزب نے اپنے مسودہ دستور میں اس بات کی صراحت   سے وضاحت کی ہے:

حکام کے محاسبے یا امت کے ذریعے حکومت تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کو سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ یہ پارٹیاں اسلامی عقیدے کی بنیاد پرہوں اور جن احکامات کی ان پارٹیوں نے تبنی کی ہو، وہ شرعی احکامات ہوں۔  پارٹی بنانے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔  غیر اسلامی بنیاد پر ہر قسم کی پارٹی سازی ممنوع ہوگی۔

 

6)مجلسِ امت کا معدوم ہونا :

رسول اللہﷺصحابہ کرامؓ کے ساتھ معاملات میں کثرت سے مشورہ فرماتے تھے۔  آپ ﷺ کا کثرت سے مشورہ کرنااور اس کا اہتمام کرنا اس کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔   ترمذی نے ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا: ((ما رأیت أحداً أکثر مشورة لأصحابہ من رسول اللّٰہ))''میں نے کوئی شخص ایسانہیں دیکھا جو رسول اللہﷺسے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتا ہو''۔  آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں شوریٰ کا بھرپوراہتمام کیا۔   ابوبکرؓنے اپنے دورِ خلافت میں مہاجرین اور انصار میں سے کچھ لوگوں کو مخصوص کیاہوا تھا اور جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتاتھا تو آپؓ مشورے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتےتھے۔  گویا یہ ایک مجلس تھی کہ جس کی طرف ابوبکرؓ حکمرانی کے معاملات میں مشورے کے لیے رجوع کیا کرتے تھےجس کے اراکین اہلِ شوری علما اور اہل ِ فتویٰ صحابہ تھےاور وہ آپ ؓ کے ارد گرد ہوا کرتے تھے۔  تاہم خلفائے راشدین کے بعد شوریٰ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ خاص طور پر جب حکمرانی ایک ہی خاندان میں محدود ہو گئی تو حکمران امت سے دور ہو گئے اور حکمرانی کے معاملات میں امت کا عمل دخل محدود ہو گیا۔ حکمران اور عوام میں دوری لازمی طور پر حکمرانی کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔  ایک حکمران تبھی لوگوں کے امور کی احسن طریقے سے دیکھ بھال کر سکتا ہے جب وہ عوام کی صورت حال سے بخوبی واقف ہو ،جس کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور حکمران میں کوئی فاصلہ موجود نہ ہو۔  اور حکمران کمزور فیصلوں سے اسی وقت بچ سکتا ہے جب اسے امت میں سے باخبر اور سیاسی لحاظ سے بیدار لوگوں کاساتھ حاصل ہو جو اسے حکمرانی کے مختلف امور پر مشورہ دیں ، کسی بھی غلط اقدام اور فیصلے پر اس کا محاسبہ کریں اور حکمران تک اپنی رائے کو پہنچاتے رہیں۔ نیز ریاستِ خلافت اسلام کی دعوت کی علمبردار اسی وقت بن سکتی ہے جب امت اسلام کی بنیاد پر سیاست کو سرانجام دینے میں سرگرمِ عمل ہواور ریاستی معاملات سے لاتعلق نہ ہو۔ امت یہ سب کام اپنے  نمائندوں کے ذریعے ہی مؤثر انداز میں کر سکتی ہے جو ایک مستقل مجلس کی صورت میں خلیفہ کے اردگرد موجود ہوں۔ اوراسی طرح صوبائی سطح پر والیوں کی معاونت کے لیے صوبے کے لوگوں کی نمائندہ مجلس تشکیل دی جائے۔  پس حزب نے ریاستِ خلافت کے لیے اپنے تیار کردہ مسودہ ٔدستور میں یہ طے کیا ہے:

ہر عاقل وبالغ شخص ،جوریاست کا شہری ہو، کو مجلسِ امت کا رکن بننے کا حق حاصل ہو گا۔  خواہ مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو یا کافر، البتہ غیر مسلم رکن کا مشورہ حکام کے مظالم یا ان پر اسلامی احکامات کی غلط طریقے سے تنفیذ کی شکایت تک محدود ہوگا

 مجلسِ امت کو تمام معاملات میں ریاست کے محاسبے کا حق حاصل ہوگا۔  خواہ ان کا تعلق خارجہ امور سے ہو یا یہ داخلی امورہوں یا یہ مالیات ، فوج یا دیگر امور سے متعلق ہوں۔

نیز

ہر ولایہ میں رہنے والے لوگ اپنی مجلسِ ولایہ کے اراکین کا چناؤ براہِ راست انتخاب کے ذریعے کریں گے۔  ولایات کی مجالس کے ممبران کی تعداد ولایہ میں رہنے والے لوگوں کی تعداد کی بنا پر ہو گی۔  مجلسِ اُمت کے ممبران کا چناؤ ان مجالسِ ولایات سے براہِ راست کیا جائے گا۔

 

7)محکمہ ٔمظالم کا حکمران کے ہاتھ میں ہونا

لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور تنازعات کا فیصلہ کرنا بنیادی طور پر حکمران کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺبطورِ حکمران مدینہ میں لوگوں کے درمیان خود فیصلے فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺنے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے قاضی بھی مقرر فرمائے جیسا کہ آپ ﷺنے علیؓ کو یمن میں قاضی بنا کر بھیجا۔ عدلیہ کےضمن میں مظالم کے اموربھی داخل ہیں جو کہ حکام کے خلاف شکایتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ قضاء کا اختیار حاصل ہونے کے سبب خلافت میں حکمران بذاتِ خود مظالم پر مبنی شکایات کی سماعت کیا کرتے تھے۔ اور یہ اسلام کی رُو سے غلط نہیں تھا  کیونکہ رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین نے اسی بات  کو اختیار کیاتھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا دورِ خلافت عدل و انصاف کے لحاظ سے بے مثال تھا ۔قاضی فیصلہ کرنے میں ہر قسم کے دباؤ سے آزاد تھے اور حکمران بھی عادلانہ فیصلے کیا کرتے تھے خواہ یہ فیصلہ ان کے قریبی رشتہ دار ، خاندان کے کسی فرد یا دوست یا خود ان کے اپنے خلاف ہی ہو۔ البتہ بعض موقعوں پر ایسا ہوا کہ جب کچھ حکمرانوں نے ظلم کیا تو اس کا سدِ باب نہ ہو سکا۔ اگر حکمرانوں کے ظلم کے ازالے کے لیے علیحدہ محکمہ تشکیل دے دیا جاتا جسے شرعی وجوہات کی بنا پر خلیفہ کو ہٹانے کا اختیار حاصل ہوتا تو اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ یہ حکمران ظلم کرنے اور رعایا کے حقوق غصب کرنے سے باز رہتے۔ علاوہ ازیں یہ امر ناممکنات میں سے نہیں کہ  خلیفہ یا والی کا دل تقویٰ سے خالی ہو جائےاور وہ اسلام کے نفاذ میں کوتاہی کرے یا اقتدار کو اپنے یا اپنے منظورِ نظر افراد کے ذاتی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے یا خلافت کے شہریوں کے مال میں یا عوامی ملکیت میں ناحق تصرف کرے، یا لوگوں کو سزا دینے میں حد سے تجاوز کرے۔ چنانچہ آج ایسی کسی بھی صورتِ حال کی روک تھام کو مؤثر بنانےکے لیےبہتر یہ ہے کہ مظالم کی دادرسی کو مستقل طور پر علیحدہ محکمے کی شکل دے دی جائے اور مظالم کے مقدمات کی سماعت حکمران کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے اس محکمہ کے قاضی کے ہاتھ میں ہو۔ یہ اسلوب مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ امت کے لیے بھی اطمینان بخش ہے کیونکہ یہ جانبدارانہ فیصلے کے امکان کو دور کرتا ہے۔ چنانچہ  حزب نے اپنے تیار کردہ مسودہ ستورمیں یہ طے کیا ہے:

قاضی مظالم وہ قاضی ہوتاہے جس کاتقرر ریاست کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے والے ہر شخص پرہونے والے ریاستی ظلم کا تدارک کرنے کے لیے ہوتاہے۔  خواہ وہ شخص ریاست کی رعایامیں سے ہویا نہ ہو۔  یہ ظلم خواہ ریاست کے سربراہ کی طرف سے ہویا اس کے علاوہ کسی اور حاکم یا سرکاری ملازم کی طرف سے۔

محکمہ مظالم کو ریاست کے کسی بھی حاکم یا ملازم کو معزول کرنے کا حق حاصل ہے، جیساکہ اسے خلیفہ کو معزول کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔  اور یہ اس صورت میں ہے، جب اس ظلم کو دور کرنے کے لیے خلیفہ کو ہٹانا لازمی ہو جائے۔

 

8)عثمانیوں کا ریاست کے لیے قوانین کی تفصیلی تبنی  کرنا

اسلامی ریاست کی مضبوطی کا راز اسلام کے بطورِ آئیڈیالوجی نفاذمیں ہے۔ کیونکہ یہ اسلام ہی ہے جو زندگی کے تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے اور انسانوں کے امور کو درست طور پرمنظم کرتا ہے۔  اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے مآخذ سے لوگوں کے معاملات سے متعلق قوانین کو اخذ کیا جائے۔ یہ عمل اجتہاد کہلاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں خلیفہ ریاست  کے امور کو اسلام کے مطابق چلانے کے لیے یا تو خود اجتہاد کرکے قوانین کو اخذ کرتا ہے یا کسی اورمجتہد کے اجتہاد کو نافذ کرتا ہے۔  اسلام کا احسن طریقے سے نفاذ اس بات کا تقاضا کر تا ہے کہ اجتہاد کو فروغ دیا جائے اور اس بات کا اہتمام کیا جائے  کہ ریاست میں مجتہدین کی وافر تعداد موجود ہوتاکہ ریاست ہر وقت اس قابل ہو کہ وہ نئے جنم لینے والے کسی بھی حکومتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسلام سے رہنمائی حاصل کرسکے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی بھی ایسا امر جو اجتہاد کے ماحول کی حوصلہ شکنی کرے وہ مسلمانوں کے فکری جمود اور حکمرانی کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ 

اجتہاد کے فروغ کے لیے بہتر یہ ہے کہ ریاست کے لیے کوئی ایسا ہمہ گیردستور تیار نہ کیا جائے،جوتمام احکامات پرمشتمل ہو۔  بلکہ ریاست کا دستور ان عام احکامات پرمشتمل ہونا چاہئے،جوریاست کی شکل وصورت کاتعین کریں اوراس کی وحدت کی بقاء کی ضمانت دیں۔جبکہ  اجتہاد واستنباط کووالیوں اور قاضیوں پر چھوڑدیاجائے ۔   خلافتِ راشدہ کے بعد اموی و عباسی خلافت تک ایسا ہی تھا۔ خلفاء خود مجہتد ہوا کرتے تھے ، انہیں عربی زبان اور اسلامی علوم سے گہری آگاہی حاصل ہوتی تھی۔ یہی حال والیوں اور قاضیوں کا بھی تھا۔ اورخلفاء صرف اُن مخصوص قوانین کی تبنی پراکتفاء کرتے رہے،جووحدتِ حکم (حکومت کے ایک ہونے) وحدتِ تشریع (قانون کے ایک ہونے) اور وحدتِ ادارہ(انتظامی امورکے ایک ہونے) کے لیے ناگزیرتھے، اوراس بات سے اجتناب کرتے رہے کہ تمام احکامات کی ہمہ گیر تبنی کرتے ہوئے ایسا دستور نافذ کریں جو تمام تر جزئیات کو طے کرتاہو۔

تاہم خلافتِ عثمانیہ کے خلفاء جواگرچہ جنگی مہارت کے لحاظ سے زبردست تھے، مگر انہیں عربی و اسلامی علوم سے وہ آگاہی حاصل نہ تھی کہ جو ان سے پہلے آنے والے خلفاء کا خاصا تھی۔ اس وقت مسلمانوں میں اجتہاد کا ماحول مفقود ہوچکا تھا اور تقلید کا رجحان غالب آ چکا تھا۔ نیزعثمانیوں نے ریاستی معاملات کو چلانے کے لیے تفصیلی قوانین پر مبنی دستور کو نافذ کیا، جس میں قوانین کو مغربی دساتیر کی طرز پر شرعی دلائل کو بیان کیے بغیر شق وار ترتیب دیا گیا تھا۔ قوانین کا یہ مجموعہ مجلۃ عثمانیہ کہلاتا ہے۔ جبکہ اس وقت  ریاست کے لیے ضروری تھا کہ وہ ریاست میں پھیل جانے والی سنگین فکری کمزوری کا ازالہ کرتی ،اجتہاد کی حوصلہ افزائی کرتی اور عربی زبان کو ترویج دیتی اورسرکاری  سطح پر بھی عربی زبان کو رائج کرتی، مگر ریاست نے اس سے غفلت برتی۔چنانچہ خلافت کے والیوں اور عاملوں کی  فقہ کی سمجھ مزید کمزور ہوئی  اور قاضی بھی صرف ان دستوری قوانین کو سمجھنے پر اکتفاکرنے کی وجہ سے فقہ کے بارے میں  لاعلمی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ یہ امر ریاستِ خلافت کے زوال میں مزید اضافے کا باعث بنا اور اس کے اثرات جلد ہی ظاہر ہو گئے۔

اس بات کا  ادارک کرتے ہوئے ہی حزب نے ریاستِ خلافت کے لیے مسودۂ دستور تیار کیا ہے تاکہ امت خاص طور پر اسلامی مفکرین پر یہ واضح ہو سکے  کہ اسلامی دستور میں کن باتوں کو طے کرنا ضروری ہے اور اسے کس طرح ترتیب دیا جانا چاہئے ۔ حزب نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب مقدمہ دستور میں ان تفصیلی شرعی دلائل کو بھی بیان کیا ہے کہ جن کی بنا پر اس دستور کو اختیار کیا گیا ہے۔ یہ اپنے طرز کی نہایت منفرد کاوش ہے اور ان سنجیدہ لوگوں کے لیے ایک تحفہ ہے جو ایسی خلافت کے قیام کے خواہشمند ہیں جو علی ٰمنہاجِ نبوت ہو اور ان خامیوں سے پاک ہو جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستِ خلافت میں پیدا ہو گئی تھیں۔  نیز حزب نے اس دستور میں بیان کیا ہے :

عربی زبان ہی چونکہ اسلام کی زبان ہے، اس لیے ریاست صرف عربی زبان استعمال کرے گی۔

اجتہاد فرضِ کفایہ ہے، ہر مسلمان کو اجتہاد کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ اس کے اندر اجتہادکے لیے درکار شرائط پائی جاتی ہوں۔

 

9)خلافتِ عثمانیہ کا ریاست میں مغربی قوانین کو رائج کرنا

انیسویں صدی میں مسلمانوں کا فکری انحطاط اپنی انتہاء تک پہنچ چکا تھا۔  اس وقت کے علماء بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔  چنانچہ جب مغرب صدیوں کی کوشش کے نتیجے میں ریاستِ خلافت میں اپنے ایجنٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا اور انہوں نے مغربی قوانین کو ریاست میں نافذ کرنے کی مہم چلائی تو اس وقت کے علماء ان مغربی قوانین اوراسلام میں تناقض کو محسوس نہ کر پائے اور انہوں خاص طور پر شیخ الاسلام نے ان قوانین کے حق میں فتوے دیے کہ یہ اسلام کے مخالف نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ فتویٰ بھی جاری کیا گیا کہ جمہوری نظام اسلام سے  متناقض نہیں ہے اور یہ کہ اسلام ایک جمہوری دین ہے۔ انہی فتوؤں کی بنا پر خلافت کی عدالتوں میں حدود کو معطل کیا گیا اور مغرب کی سزاؤں کے نظام کونافذ کیا گیا۔

عثمانی خلافت کے آخری دور میں مغربی دستور و قانون کو اپنانے نے اسلام کی حکمرانی پر کاری ضرب لگائی۔  اس نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلامی عقیدہ و افکار کو متزلزل کر دیااوروہ اسلام کے عملی اور اسلامی نظامِ حکومت  کے درست ہونے کے متعلق ہی شک و شبہ میں مبتلا ہو گئے۔  جس کے نتیجے میں کفار کے لیے دولتِ عثمانیہ کو مٹانا آسان ہو گیا۔جب کفار ممالک نے مسلمانوں کو قومیت میں اور بالخصوص ترک قومیت اور عرب پرستی میں بانٹ دیا،اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے افکار و تصورات اور پیمانوں کومتزلزل کر دیا،اورشرعی احکامات کو جمہوری نظام اور مغربی قوانین سے بدل دیاتویہ سب کچھ کر نے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ اب خلافتِ اسلامیہ میں ظاہری نام کے سوا کچھ باقی نہیں پس وہ ریاستِ خلافت کے مکمل خاتمے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔

آئندہ قائم ہونے والی خلافت کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ صرف اسلام کی آئیڈیالوجی کو اپنائے اور اس کے تصورات، ڈھانچوں ،نظام ہائے حیات اورقوانین صرف اور صرف اسلام پر مبنی ہوں اور کوئی غیر اسلامی چیز ان میں داخل نہ ہو سکے ۔ آج اسلامی ریاست میں کسی بھی کفریہ تصور یا قانون کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دستور میں  اس بات کی صراحت   سے وضاحت کر دی جائے کہ اسلامی عقیدہ ہی ریاست کے تمام  پہلوؤں کی بنیاد ہو گا اوردستور و قانون کو شرعی مآخذ کے علاوہ کسی اور جگہ سے اخذ نہیں کیا جا سکتا۔   یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ حزب کے تیار کردہ مسودہ دستور کی پہلی شق اسی کے متعلق ہے، پس حزب نے بیان کیا ہے:

اسلامی عقیدہ ہی ریاست کی بنیاد ہے،یعنی ریاست کی ساخت، اس کے ڈھانچے، اس کا محاسبہ یا کوئی بھی ایسی چیز جو ریاست سے متعلق ہو، وہ اسلامی عقیدے ہی کی بنیادپر استوار ہوگی۔  دستور اور شرعی قوانین کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ہے۔  دستور اورقوانین سے متعلق صرف اس چیز کو قبول کیا جائے گا، جواسلامی عقیدے سے اخذ کردہ ہو۔

نیز

کتاب اللہ، سنتِ رسول، اجماعِ صحابہ او رقیاس ہی شرعی احکامات کے لیے معتبر ادِلّہ ہیں۔

یہ ہیں وہ وجوہات اور عوامل جو ریاستِ خلافت میں حکمرانی کی کمزوری کا باعث بنے اور انہوں نے خلافت کے انہدام میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ جب مسلمانوں کی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باعث ریاستِ خلافت کی حکمرانی کمزوری سے دوچار ہوئی تو پھر مغرب کو خلافت کی تباہی کا ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے خلافت میں پیدا ہونے والی کمزوریوں کا ازالہ کرنے میں سستی کی ایک وجہ یہ تھی کہ روم و فارس کی فتح کے بعد سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک خلافت ہی دنیا میں سپر پاور تھی۔  خلافت  راشدہ کےبعد کے  ادوار میں بھی مسلمان یورپ کے قلب پر حملے کر رہے تھے اور خلافتِ عثمانیہ نے یورپ کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس بات نے مسلمانوں کو ان اندرونی کمزوریوں کو دور کرنے سے غافل رکھا جو کہ اندر ہی اندر خلافت کو کھوکھلا کر رہی تھیں۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں نے خلافت میں پیدا ہونے والی کمزوریوں کو بر وقت نہیں پہچانا اور انہیں دور کرنے میں سستی برتی  تاہم جہاں تک خلافت کے انہدام کے عوامل میں سے سب سے بڑے عامل کا تعلق ہے تو وہ مغرب ہی ہے۔ کیونکہ اگرچہ مسلمانوں کی ریاست کمزور پڑ گئی تھی اور زوال کا شکار ہو گئی تھی مگر قوموں اور ریاستوںکا وقتی طور پر کمزور پڑ جانا عین ممکن ہے اور اس لحاظ سے یہ کوئی انہونی بات نہ تھی کہ خلافت بھی زوال کا شکار ہوئی۔ مگر اس صورتِ حال کا حل مسلمانوں کی دسترس میں تھا اور مسلمانوں کے لیے زوال سے نکلنا عین ممکن تھا اگر وہ اسلام کے عقیدہ کی طرف رجوع کرتے ، اسلام کے افکارمیں شامل ہو جانے والی  آلائشوں  کو دور کرتے ،اسلام کو بطورِ آئیڈیالوجی اپنے ذہنوں میں واضح کرتے اورحکمرانی کو ٹھیک ٹھیک بنیادوں پر استوار کرتے۔  مسلمانوں کو پہنچنے  والے پے در پے جھٹکوں کی وجہ سے یہ عمل شروع ہو چکا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی کہ اس موقع پر مغرب نے بھرپور مداخلت کی۔  مغرب نے خلافت کے خلاف فکری ، ثقافتی اور سیاسی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس نے اپنے کرپٹ افکار مسلمانوں میں داخل کیے ،جو  مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو اسلامی عقیدہ سے پھوٹنے والے صاف ستھرے افکار سے رہنمائی حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہو گئے۔ دوسری طرف یورپ میں برپا ہونے والے فکری انقلاب اور اس کے نتیجے میں صنعتی و سائنسی ترقی نے طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا تھا اور اب یورپ کے لیے ممکن ہو گیا تھا کہ وہ خلافت پر کاری ضرب لگائے۔   چنانچہ پہلی جنگِ عظیم میں خلافت کی شکست کے بعد مغرب نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ریاستِ خلافت کی حکمرانی کی بنیادوں کو ہی تبدیل کر دیا اور ترکی خلافت سے تبدیل ہو کر ایک جمہوری ریاست بن گیا اور ان تمام علاقوں سے دستبردار ہو گیا جنہیں مغرب نے خلافت سے چھیناتھا ۔  اس وقت سے مغرب مسلمانوں میں اٹھنے والی نشاۃِ ثانیہ کی ہر لہر کو کچلنے اور اسے غلط سمت میں موڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پس یہ کہنا غلط نہیں کہ مغرب ہی مسلمانوں کی ریاستِ خلافت کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور اس کے دوبارا قائم ہونے سے روکنے کا بھی ذمہ دار ہے۔   

مسلمانوں کی خلافت کا رفتہ رفتہ کمزور ہونا اور اس کا انہدام ایک نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ امرتھا تاہم خلافت کی یہ پوری تاریخ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ یہ تاریخ اسلامی ثقافت کا حصہ ہے بالکل اسی طرح جس طرح اسلامی علوم اور عربی زبان اسلامی ثقافت کا حصہ ہیں ۔ یہ تاریخ ہمیں اسلام کے نفاذ کی کیفیت سے آگاہ کرتی ہے ۔ البتہ اسلامی تاریخ کے مطالعے سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ایک اسلامی سیاست دان کے طور پران واقعات کا جائزہ لیتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو اسلامی طرزِ حکمرانی کا از سر نو آغاز چاہتا ہے وہ خلافت کے اتار اور چڑھاؤ کو محض دلچسپ  واقعات  اور معلومات کے طور پر نہیں دیکھتانہ ہی اسے مسلکی تعصب کی سان پر چڑھاتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کا جائزہ عملی نقطۂ نظر سے لیتا ہے تاکہ آئندہ قائم ہونے والی خلافت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو، اس کی حکمرانی مستحکم ہو اور وہ ان خامیوں سے پاک ہو جو آہستہ آہستہ ریاستِ خلافت کے ڈھانچے اور طرزِ حکمرانی میں سرایت کر گئیں ۔ ایک اسلامی سیاست دان جو چاہتا ہے کہ اگر وہ حکمرانی کی ذمہ داری کو سنبھالے تو ان سیاسی غلطیوںکو نہ دوہرائے جو کہ ماضی میں ہوئیں اور جن کا خمیازہ امتِ مسلمہ کو بھگتنا پڑا۔ اور اگر وہ مجلسِ امت میں ہے تو حکمرانوں کونصیحت و  محاسبہ کرے اور اس چیز کو یقینی بنائے کہ حکمران اسلام سے حاصل ہونے والی مضبوط ترین سمجھ کو نافذ کریں۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خلافت کا زوال اور بالآخر انہدام اس بات کی دلیل ہے کہ ریاستِ خلافت کے ڈھانچے اور حکمرانی کے قوانین میں ردوبدل کیا جانا چاہئے اور اس سلسلے میں انسانی ارتقاء سے حاصل ہونے والے تجربے سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے ،خاص طور پر مغرب کہ جس نے ایک طویل جدوجہد کے بعد بادشاہت سے چھٹکارا حاصل کر کےنئے جمہوری افکار کی بنیاد پر ریاستیں قائم کیں۔ کیونکہ ریاستِ خلافت میں پیدا ہونے والے حکمرانی کے بحران اسلام کے غلط نفاذ اور اسلام کی صاف شفاف تعبیر کو ترک کرنے کا نتیجہ تھے  نہ کہ اسلام کو نافذ کرنے کا۔ یہ بات اوپر بیان کردہ تمام تر تفصیل سے واضح ہو جاتی ہے۔

اگر آج کےمغربی ریاستی تصور  اور اسلام کے ریاستی ڈھانچے میں کوئی مماثلت ہے تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ جمہوریت بادشاہت کے مقابلے میں اسلام کے قریب تر ہے کیونکہ جمہوریت ہو یا بادشاہت یا پھر شخصی آمریت سب اسلام سے ماخوذ نہ ہونے کی وجہ سے کفریہ تصورات ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور ان میں سے کسی کو بھی اپنانا جائز نہیں ۔ نہ ہی اس سوچ کا اسلام سے کوئی تعلق  ہے  کہ اسلام کا کوئی متعین نظامِ حکومت اور ریاستی ڈھانچہ نہیں پس  جمہوریت ، بادشاہت یا آمریت میں سے کوئی بھی  نظام اگر لوگوں کی ضروریات پورا کر رہا ہو اور انہیں عدل و انصاف فراہم کر رہا ہو تو وہ اسلام کے مقصد کو پورا کر رہا ہے۔ کیونکہ جس طرح اسلام نے عبادات ،طعام و لباس، تجارت، نکاح و طلاق کے متعلق احکامات دیے ہیں جو شریعت کا حصہ ہیں اسی طرح اسلام نے نظامِ حکمرانی  اور ریاستی ڈھانچے کے متعلق بھی احکامات دیے ہیں جو شریعت کا حصہ ہیں۔ اور شریعت کسی بھی انسانی مسئلے کے متعلق خاموش نہیں ہے۔ دینِ اسلام کے مکمل ہونے اور اسلام کے ضابطہ حیات ہونے کا یہی مطلب ہے ۔

  آج اسلام کے عطا کردہ ریاستی ڈھانچے اور نظامِ حکمرانی میں کسی قسم کے ردوبدل کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔  ہم آج کے فیڈرل طرزِ حکمرانی کی مانند صوبائی خودمختاری کے تصور کو نہیں اپنا سکتے اور نہ ہی صوبوں کے والیوں کے تقرر کا اختیار خلیفہ سے لے کر صوبے کے لوگوںکو منتقل کر سکتے ہیں۔ اوراگر فوج ، عدلیہ اور مالیاتی امور آج کے فیڈرل طرزِ حکومت میں بھی مرکز کے تحت  میں  ہوتے ہیں اور صوبوں کے گورنروں کے کنٹرول میں  نہیں ہوتے اور اسلام بھی ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے توہم اختیارات  کی  اس تقسیم کو اس بنا پر اختیار نہیں کرسکتے  کہ فیڈرل طرزِ حکومت اسلام سے ہی ہے بلکہ اسے صرف اس بنا پر اختیار کیا جانا چاہئے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ۔  اسی طرح یہ جائز نہیں کہ اگر ماضی میں بعض اوقات ایسا ہوا کہ خلافت کا منصب کچھ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا تو اس بنا پر یہ سوچ اپنا لی  جائے کہ جمہوری سیٹ اَپ کی مانند خلافت کے عہدے کی مدت کو چند سالوں تک محدود کر دیا جائے۔ کیونکہ قرآن و سنت نیز اجماعِ صحابہ و قیاس سے ہمیں اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ ہمیں حکمرانی کے مسائل کا حل اسلام کے مآخذ سے ہی تلاش کرنا ہے۔   مثال کے طور پر آج کے دور میں فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے کئی واقعات نظر آتے ہیں، ان فوجی بغاوتوں کے ذریعے ہی امریکہ نے تیسری دنیا میں برطانیہ کے کئی ایجنٹوں کی بجائے اپنے ایجنٹوں کو مسلط کیا۔  اس کا حل اسلام سے یہ نکلتا ہے کہ خلیفہ عملاً فوج کا قائدِ اعلیٰ ہو، فوج کا قائد ہونے کے ناطے وہی چیف آف سٹاف اور ہر بریگیڈ اور ڈویژن کے کمانڈر کا تقرر کرے ،جہاد کی براہِ راست نگرانی کرے اور امیر جہاد خلیفہ کی براہِ راست نگرانی اور ماتحتی میں کام کرے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں تھا۔ نیز شعبۂ صنعت، شعبۂ داخلی امن اور شعبۂ بین الاقوامی تعلقات امیر جہاد کی ماتحتی کی بجائے براہِ راست خلیفہ کی نگرانی میں ہوں تاکہ امیر جہاد کے اختیارات حد سے تجاوز نہ کریں اور وہ قوت کا ایک اور مرکز نہ بن سکے۔  نہ کہ ریاستِ خلافت  دنیا میں رائج طریقہ کار کی نقالی کرتے ہوئے امیر جہاد کو فوج میں بڑی حد تک خود مختاری عطا کرے اور پھر بغاوتوں کے سدِ باب کے لیے فوجی افسران کے گھروں کی جاسوسی کا حرام طریقہ اختیار کیا جائے۔

پس آج ہمیں اسی طرزِ فکر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو شروع کے ادوار کے مسلمانوں میں موجود تھی۔ جب مسلمانوں نے نئے علاقوں کو فتح کیا اور حکمرانی کے نت نئے مسائل نے جنم لیا تو مسلمانوں نے ان کے حل کے لیے روم و فارس کی تہذیب ، ریاستی فلسفے، دساتیر اور نظم ہائے حیات کی نقالی نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا اور ان مسائل کے حل کے لیے احکامات کا استنباط کیا۔  

آج جب بعض لوگوں کو اسلام غیر عملی دکھائی دیتا ہے یا اسلام اور حقیقت میں ایک فاصلہ  محسوس ہوتا ہے تو اس میں  قصور اسلام کانہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی عینک سے مسائل کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں،ہمارے علما ء بین الاقوامی صورتِ حال کے درست فہم اور گہری سیاسی بصیرت سے محروم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس بات کا تصور نہیں  کر پاتے کہ کس طرح اسلام کو موجودہ صدی میں نافذ کرنا ہے ، اسلام کے لحاظ سے حقیقت کو کس طرح تبدیل کرنا ہے اور اس کے لیے کیا کیا اقدام کیے جا سکتے ہیں۔ نتیجتاً ہماری کوششوں کا محور یہ ہو چکا ہے کہ کس طرح موجودہ کرپٹ صورتِ حال  کے مطابق اسلام میں پیوند لگایا جائے اور اسلام کے کچھ احکامات سے دستبردار ہوتے ہوئے موجودہ جمہوری نظامِ میں ہی کسی طرح اسلام کوفٹ کیا جائے۔ اگر ہم خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا احیاء چاہتے ہیں تو ہمیں مغرب کے ریاستی ڈھانچےسے یکسر منہ موڑنا ہو گا اورحکمرانی کے اس تصوراتی فریم ورک سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جومغرب نے دنیا میں پھیلا رکھا ہے۔ ہمیں قوتِ استنباط اور صلاحیتِ اجتہادکو دوباراپیدا کرنا ہو گا تاکہ آج کے دور میں کسی بھی پیدا ہونے والے نئے ریاستی مسئلے کے لیے  شرعی مآخذ سے ٹھیک ٹھیک احکامات اخذ کیے جا سکیں۔ تبھی آئندہ قائم ہونے والی خلافت ماضی کی کمزوریوں سے محفوظ رہ سکے گی۔    

Last modified onپیر, 26 فروری 2018 04:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک