Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 2 مارچ 2018 

 

- اقوام متحدہ سرمایہ دار ریاستوں کے مفادات کو یقینی بناتی ہے اور کبھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے مدد فراہم نہیں کرے گی

- جمہوریت میں کرپشن فرد کی نہیں بلکہ نظام کی خرابی ہے

- بحران سے نکلنے کا تقاضا ہے کہ خارجہ پالیسی قرآن و سنت کے مطابق ہو

تفصیلات: 

 

اقوام متحدہ سرمایہ دار ریاستوں کے مفادات کو یقینی بناتی ہے

اور کبھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے مدد فراہم نہیں کرے گی

25 فروری 2018 کو آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے مقبوضہ کشمیر میں  مزاحمتی تحریک میں حالیہ دنوں میں ہونے والے اضافے  پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے زیادہ وسیع حمایت کامطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ  اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے  لازمی مداخلت کرنی چاہیے  اور قتل و غارت گری اور غیر قانونی گرفتاریوں کو روکنا چاہیے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ ہم مقبوضہ کشمیر  کو جہاد کے ذریعے  بھارتی تسلط سے آزاد کروا اس مسئلے کو  ختم کرسکتے تھے جیسا کہ ہم نے کشمیر کے کچھ حصے کو آزاد کرایا تھا جسے آج ہم آزاد جموں و کشمیر کہتے ہیں۔  لیکن جس دن  بھارت  اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے  اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی بالادستی کو قبول کرلیا ، اس دن سے کشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان کے مقصد کے جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ یا بین الاقوامی برادری کی مدد سے آزاد نہیں ہوگا۔  اقوام متحدہ صرف کفار کے مفادات کے تحفظ کے لیے مداخلت کرتی ہے جیسا کہ ہم نے ایسٹ ٹیمور کی انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کے حوالے سے اس کا کردار دیکھا ہے ۔ لیکن ان واضح حقائق کو نظر انداز کرکے حکمران اسی بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مداخلت کرے۔

 

اقوام متحدہ جس بنیاد پر کھڑی ہے وہ صلیبیوں کا اسلام اور جہاد کے ذریعے  اس کے پھیلاؤ کاخوف ہے۔ یہ بین الاقوامی  برادری پہلی بار  مغربی یورپ کی عیسائی ریاستوں  کے درمیان بنائی گئی تھی جس کامقصد یہ تھا کہ ایک ایسا دھڑا بنایا جائے جو وسعت پزیر اسلامی ریاست ، عثمانی خلافت کا سامنا کرسکے۔ پھر  عیسائی ریاستوں کا یہ دھڑا پھیلا اور اس میں مشرقی یورپ  کو بھی شامل کیا گیا اور اس طرح یورپ کی عیسائی ریاستوں کی برادری بن گئی۔ لہٰذا بین الاقوامی برادری  درحقیقت یورپین عیسائی ریاستوں کی برادری کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ یہ صورتحال    اسی طرح پہلی جنگ عظیم تک چلتی رہی جب اسلامی ریاست کا خاتمہ کردیا گیا۔ جب اقوام متحدہ وجود میں آئی تو امریکہ نے اس کی رکنیت کو  چند ممالک تک محدود نہیں رکھا بلکہ دوسرے ممالک کوبھی اس میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ وہ دنیا میں اپنے اثروررسوخ میں اضافہ کرسکے اور دنیا کی ریاستوں کو اپنی کنٹرول میں لاسکے۔  تو اس طرح حقیقت میں بین الاقوامی برادری اب بھی عیسائی ریاستوں کی برادری یا دورے لفظوں میں سرمایہ دار ممالک کی برادری ہے اگرچہ اب ان میں دوسرے ممالک بھی شامل ہیں۔

مقبوضہ کشمیر صرف اسی صورت میں آزاد ہوگا جب خلیفہ راشد مسلم افواج کی قیادت کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکلے گا کیونکہ ریاست خلافت نام نہاد بین الاقوامی برادری کو کوئی اہمیت یا وقعت نہیں دیتی۔ نبوت کے منہج پر قائم خلافت  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس  حکم کی پیروی میں تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی،  

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 

"اور (مسلمانو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ اللہ (سب کچھ) جانتا ہے"(البقرہ:244)۔ 

 

جمہوریت میں کرپشن فرد کی نہیں بلکہ نظام کی خرابی ہے 

25 فروری 2018 کے ڈان اخبار کے مطابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پاکستان تحریک انصاف  کے رہنما فواد چوہدری کو 5 ارب روپے کے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا ہے۔ یہ نوٹس  اس لیے بھیجا گیا ہے کہ فواد چوہدری نے سعد رفیق کے خلاف کرپشن کے جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔  اس سے پہلے فواد چوہدری نے الزام لگایا تھا کہ سعد رفیق پیراگان ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک ہے  اور یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وزیر ریلوے  لینڈ مافیا کے رکن ہیں "جنہوں نے عام عوام کو ان کی جائدادوں سے محروم کیا ہے "۔

کرپشن اور مافیا سے تعلق کے الزامات لگنا سیاسی اشرافیہ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے ہی ہفتے قومی احتساب کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر علیم ڈار کو ان کی ایک مبینہ آف شور کمپنی کے حوالے سے نوٹس بھیجا تھا۔ اور اس سے بھی پہلے پاکستان مسلم لیگ-ن کے نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسی قسم کے کرپشن کے الزامات پر نااہل قرار دے دیا تھا۔  کرپشن افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر جمہوریت  کا لازمی جزو ہے جسے جمہوریت خود پیدا کرتی ہے۔ جمہوریت کا یہ بنیادی اصولکرپشن کی وجہ ہے کہ   منتخب نمائیدگان  صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اسی  وجہ سے پارلیمنٹ طاقتور افراد اور گروپز کاہدف بن جاتی ہے جو  خود کو سیاست دان کے طور پر ظاہر کرتے ہیں یا پھر سیاست دانوں کی وفاداریاں رشوتوں اور کمیشنوں کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ جمہوریت میں اس قدر کرپشن ہے کہ وہ جمہوریت کے داعی جو کرپشن کے خاتمے کی مہمات شروع کرتے ہیں  اب خود کرپشن کے الزامات اور نااہلی  کا سامنا کررہے ہیں۔

 

چاہے پاکستان ہو یا کوئی بھی اور ملک ،جہاں جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں وہاں کرپشن ہوتی ہے  اور دولت کا ارتکازان چند ہاتھوں میں ہوجاتا ہے جو قانون سازوں پر اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ 16 جنوری 2017 کو اکسفام انڑنیشنل نے اس بات کی تصدیق کی کہ آٹھ افراد کے پاس 3.6 ارب غریب ترین   افرادکےپاس موجود کل دولت کے برابر دولت ہے ۔جمہوریت میں لابینگ، مالیاتی مہمات اور استثناوں کے ذریعے امیر باقی معاشرے پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پنے مفادات کو یقینی بناتے ہیں۔ 17 اپریل 2014 کی بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن گیلنز اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر بین جامن نے جمہوریت پر اپنے تحقیقی پیپر میں لکھا کہ، "کئی تجزیوں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ معاشی اشرافیہ اور منظم گروہ، جو کاروباری مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں ، کا امریکی حکومت کی پالیسیوں پر کافی اثرات ہیں جبکہ عام شہری اور ان کی ترجمان تنظیموں کا بہت ہی کم یا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے"۔  یقیناً جمہوریت نے عام آدمی کی فلاح و بہبود کی قیمت پر سیاسی اشرافیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیا ہے۔

صرف اسلام کا نظام حکمرانی معاشرے کو کرپشن کی لعنت سے نجات دلا سکتا ہے کیونکہ اسلام نے افراد کو حلال و حرام یا صحیح و غلط کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسلام میں یہ حق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے کہ وہ حلال و حرام کے فیصلے کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ للَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ

"یقیناً حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے، وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرو"(یوسف:40) ۔

 

اس لیے ریاست خلافت میں مسلمانوں کا خلیفہ ان قوانین کو نافذ کرتا ہے جو صرف قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہوں نہ کہ وہ قوانین جو لوگوں کی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوں۔ اسی طرح خلافت میں  لوگوں کے منتخب نمائندگان، مجلس امت، بھی قانون سازی نہیں کرسکتی۔ لہٰذا  جمہوریت کے برخلاف نبوت کے منہج پر قائم خلافت  معاشرے میں کرپشن کا ذریع نہیں بنتی ۔

 

بحران سے نکلنے کا تقاضا ہے کہ خارجہ پالیسی قرآن و سنت کے مطابق ہو

28 فرور ی 2018 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی  نے خارجہ پالیسی  کی نوک پلک سنوارنے کی حمایت کی تا کہ اس کا محورو  مرکز زیادہ سے زیادہ   علاقائی ہو، کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی مفاد کے مطابق لڑی جائے گی۔ اس  کمیٹی نے ، جو سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان مشاورت کا سب سے بڑا فورم ہے، اس پر اتفاق کیا کہ خطے کے دوست ممالک کے ساتھ معاشی شراکت داری بڑھانے کے لیے نئی کوششیں کیں جائیں گی۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ کیا  کہ انسداد دہشت گردی  اور انتہاپسندی کے خلاف کوششیں جاری رہیں گی۔ کمیٹی نے کہا ،"ہماری پالیسیاں ہمارے قومی مفاد کے مطابق بنائیں اور نافذ کیں جائیں گی"۔

آج پاکستان خارجہ امور کے جس گرداب میں پھنس گیا ہے اس کی وجہ قرآن و سنت کے احکامات سے روگردانی ہے۔ حکمران اجلاس کررہے ہیں اور اعلامیے جاری کررہے ہیں جبکہ مسلمان  امریکہ کے ساتھ اتحاد پر شدید غصے میں ہیں جس نے  ہمیں شدید جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ہماری عزت و وقار کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔  مسلمانوں کے لیے اسلام اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون ہمارا دوست اور کون ہمارا دشمن ہے۔ صرف اسلام ہی مسلمانوں کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اسلام دنیا کے دیگر نظام زندگی پربالادستی حاصل کرے۔ اسلام جارح دشمن ریاستوں کے ساتھ اتحاد کی ممانعت کرتا ہے اور مسلم ممالک کے یکجا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ تمام مسلمان بھائی ہیں۔

اسی لیے خلیفہ جارح غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ جنگی پالیسی کے مطابق رویہ اپنائے گا۔ یہ وہ اقوام ہیں جنہوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے یا اسی قسم کے دوسرے جارح اقدامات میں ملوث ہیں۔ خلافت امت کے وسائل کو مقبوضہ اسلامی علاقوں کی آزادی کے لیے استعمال کرے گی جیسا کہ کشمیر اور فلسطین۔ خلافت دشمن ریاستوں کی جانب سے جارحیت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے  مسلم علاقوںمیں ان کے تمام اڈے،  سفارت خانوں  کو بند اور عملے کو ریاست بدرکردے گی۔ خلافت ان جارح ریاستوں کے ساتھ تمام سیاسی و فوجی تعلقات کو ختم کردے گی جنہیں استعمال کرکے دشمن ریاستیں سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اپنے ایجنٹوں کو حکم  دیتے ہیں اور ان کے ذریعے مزید ایجنٹ تلاش کرتے ہیں۔  ماضی ہی کی طرح خلافت ان معاملات پر کسی مصلحت کا مظاہرہ نہیں کرے گی چاہے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کئی دہائیوں ہی کیوں نہ لگ جائیں جیسا کہ صلیبیوں سے مسجد الاقصی کی آزادی کے لیے تقریباً ایک صدی تک جدوجہد کرنی پڑی تھی ۔

 

خلیفہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اس نظر سے دیکھے گا کہ انہیں ایک ریاست میں یکجا کرنا ہے کیونکہ خلافت تمام مسلمانوں کی واحد ریاست ہوتی ہے اور امت کو لازمی اسلام کے نفاذ کے حوالے سے خلیفہ کا احتساب کرنا ہوتا ہے۔ خلافت کے قیام کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی خلیفہ مسلمانوں کے درمیان قائم سرحدوں کو ختم کرنے کے لیے کام شروع کردے گا اور ایک فوج، ایک بیت المال اور اتنی بڑی ریاست میں رہنے والوں کے لیے ایک ہی شہریت کا معیار قائم کرے گا۔

اور خلیفہ غیر مسلم غیر جارح ریاستوں سے تعلقات قائم کرے گا جس کا مقصد اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک لے جانا ہوگا جیسا کہ خلافت تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمل انجام دیتی رہی تھی۔ اس امت کا مقصد، جو انسانیت کے لیےآخری نبیﷺ کی امت ہے، یہ ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی پیغام کو پوری دنیا تک لے جائے۔ خلافت تمام زمانوں میں انسانیت کے لیےہدایت اور رہنمائی کا ذریع رہی تھی۔ خلافت  حکمرانی، انصاف، خوشحالی، علم اور تحفظ کے اعلیٰ معیار ایک ہزار سال تک قائم کرتی رہی۔ خلافت نے مسلسل اسلام کی روشنی کو پھیلایا اور انسانوں پر مسلط انسانوں کے بنائے نظاموں کے ظلم سے نجات دلائی۔ اس کی افواج کو لوگ خوش آمدید کہتے تھے کیونکہ وہ استعماری قاتل افواج نہیں ہوتی تھیں جو لوٹتی اور قتل و غارت کرتی ہیں بلکہ وہ فوج مخلص مجاہدین کی فوج ہوتی تھی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے تھے۔  اس طرح لوگوں نے براہ راست اسلام کے نفاذ کا مشاہدہ کیا اور  اسلام قبول کرتے چلے گئے جیسا کہ ہمارے علاقے میں ہمارے آباواجداد نے کیا۔ لہٰذا خلافت اس بات کی کوشش کرے گی کہ مختلف ریاستیں دوستانہ طریقے سے اسلام قبول کرلیں، ان سے تعلقات قائم کرے گی، ان سے تجارتی  و ثقافتی  اور اچھے ہمسائیگی کےتعلقات قائم کرے گی۔ خلافت ان تعلقات کو  ان کے سامنے سرمایہ داریت کے ظلم  کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ خلافت اسلام کو ایک عملی نظام کی صورت میں پیش کرے گی اور دیگر ریاستوں کے شہریوں کو خلافت میں زیادہ سے زیادہ عرصے تک رہنے کی حوصلہ افزائی کرے گی تا کہ وہ اسلام کی برکات کا براہ راست مشاہدہ کریں۔  ان تمام اقدامات کا مقصد یہ ہوگا کہ ایک معاشرے کو خلافت کا حصہ بننے سے پہلے تیار کیا جائے  اور  اگر اس کے درمیان کوئی رکاوٹ آئے تو اسے جہاد کے ذریعے سے ہٹا دیا جائے تا کہ نئے علاقے دارالسلام میں داخل ہو جائیں۔ 

 

 

Last modified onمنگل, 06 مارچ 2018 06:29

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.