السبت، 10 شوال 1445| 2024/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 18مئی 2018  

 

 

۔ پاکستان اور افغانستان کو لازمی ایک خلافت تلے یکجا ہوجانا چاہیے

- قرض کا کشکول توڑنے کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام لازمی ہے

- سرمایہ داریت مسلمانوں کو پہنچنے والے زبردست مالیاتی نقصانات کی ذمہ دار ہے

تفصیلات: 

 

پاکستان اور افغانستان کو لازمی ایک خلافت تلے یکجا ہوجانا چاہیے

15مئی 2018 کو ٹرمپ کی آشیر باد اور واشنگٹن کی نگرانی میں افغانستان-پاکستان ایکشن پلان برائے امن اور استحکام (اے پی اے پی پی ایس)  کے اجلاس میں سینئر پاکستانی اور افغان حکام نے تعلقات کو نئے سرے سے آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا جو زیادہ تر کشیدہ رہے ہیں۔  افغان ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے ملاقات  کے دوران اس بات پر اتفاق کیا کہ اے پی اے پی پی ایس کوکامیاب بنانے کے لیے کوششوں میں اضافہ کیا جائے اور "ایک تازہ ابتداء کی جائے، موجودہ خلیج کو پُر کیا جائے، تمام باہمی مفادات کے شعبوںمیں تعاون  کے لیے طریقہ کار واضح کیا جائے اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے لیے مشترکہ اقدامات اٹھائے جائیں"۔ اسی دن امریکی قابض افواج کے جہاز نے کٹھ پتلی افغان حکومت کی افواج کی معاونت کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت پرقبضہ کرنے کی کوشش کے بعد فرحا شہر میں قبائلی مزاحمت  کے ٹہکانوں کو نشانہ بنایا۔

 

پاکستان و افغانستان کے مسلمان اپنی حکومتوں کی جانب سے امریکہ کو فراہم کی جانے والی معاونت اور شراکت کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کو تقسیم کرنے والی ڈیورنڈ لائن کا بھی خاتمہ کریں۔ دونوںممالک کے مسلمانوں کو ویسٹ فیلیا کے قومی ریاستوں کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے ایک ریاست کے تحت یکجا اور اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہیں پاکستان و افغانستان کی افواج اور اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کو ایک ہی قوت کی صورت میں ڈھل جانے کامطالبہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اس سرحد کو ختم کردیں جس نے انہیں منقسم کررکھا ہے اور افغانستان سے امریکہ و بھارت کونکال باہر کریں۔ ڈیورنڈ لائن کا خاتمہ نا صرف خطے کے مسلمانوں  کو معاشی لحاظ سے بہتر اور مضبوط بنانے کا باعث بنے گا بلکہ  وہ زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے  کہ امریکہ اور بھارت کے خلاف مشترکہ سیاسی و دفاعی موقف اپنا سکیں گے ۔ منقسم رہنے میں ہمارا نقصان ہے جبکہ یکجا ہونے میں ہمارا فائدہ ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی فرمایا،

 وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

 "اور آپس میں اختلاف نہ کرو  ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی "(الانفال:46) 

 

یقیناً خطے میں امن اور استحکام صرف اور صرف پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام اور افغانستان کوامریکی تسلط سے آزادی دلانے کے لیے اس کے تمام تر معاشی ،سیاسی و فوجی وسائل کو حرکت میں لانے اور پاکستان و افغانستان کو خلافت کے جھنڈے تلے یکجا کرنے سے آئے گا جو پوری امت کویکجا کرنے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ حزب التحریر نے جلد ہی قائم ہونے والی نبوت کے طریقے پر خلافت کے مجوزہ آئین کی شق 189 میں لکھا ہے، "وہ ریاستیں جو عالم اسلام میں قائم ہیں ان سب کویہ حیثیت دی جائے گی کہ گویا یہ ایک ہی ریاست کے اندر ہے اور اس لیے یہ خارجہ سیاست کے زمرے میں نہیں آتیں اور نہ ہی ان سے تعلقات خارجہ سیاست کے اعتبار سے قائم کیے جائیں گے بلکہ ان سب کو ایک ریاست میں یکجا کرنا فرض ہے "۔

 

قرض کا کشکول توڑنے کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام لازمی ہے 

17 مئی 2018 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ پاکستان کا بیرونی قرض 91.8 ارب ڈالر ہو گیا ہےجس سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے چار سال اور نو مہینوں کے دوران اس میں 50 فیصد یا 31 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔  ان اعدادوشمار سے یہ پتاچلتا ہے کہ بہت جلد یہ قرض 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جبکہ پہلے ہی ملک کو بیرونی قرضوں اور دیگر  بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ 

 

موجودہ نظام میں پاکستان کا قرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ مشرف کے دور ِاقتدار(2008-1999) میں حکمرانوں نےقرض میں 18 ارب ڈالر کا اضافہ کردیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے صرف چار سال کے عرصے میں 19.6ارب ڈالر قرض میں مزید اضافہ ہوا۔  پاکستان مسلم لیگ –ن کی حکومت  بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف ثابت نہیں ہوئی  اور اب پچھلے قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لے رہی ہے۔  اور اگر حکمرانوں کی شکل تبدیل بھی ہوجائے تو عمران خان  بھی موجودہ معاشی نظام اور استعماری قرضوں  کے نظام پر یقین  رکھتا ہے اور اس کے پاس کوئی متبادل اسلامی وژن نہیں ہے۔  

 

جن ذرائع سے زبردست محاصل حاصل ہوسکتے ہیں موجودہ سرمایہ دارانہ معیشت ان کی نجکاری کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ ان ذرائع سے محروم ہوجاتا ہے جن کی مدد سے ان کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ اس کے بعد معیشت کا انحصار قرضوں پر ہوجاتا ہے  جن کے ساتھ سود اس شرح سے جڑا ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قرض کبھی ختم ہی نہ ہو چاہے قرض کی اصل رقم کتنی ہی بار کیوں نہ ادا کردی جائے۔  استعماری اداروں سے ملنے والے قرضوں کے ساتھ شرائط بھی ہوتی ہیں جو صورتحال کو مزید خراب کردیتی ہیں اور کمر توڑ ٹیکس، زرتلافی (سبسڈی) کا خاتمہ اور قیمتوں میں اضافہ ملکی  پیداوار  اور قوت خرید میں کمی کاباعث بنتا ہے۔عمران خان بھی بجٹ کے اعلان سے قبل دبئی میں آئی ایم ایف  کے حکام سے لازمی ملاقات کی روایت کو برقرار رکھیں گے تا کہ آنے والے بجٹ کے اہم نقات آئی ایم ایف کی اجازت سے طے کیے جاسکیں اور اس طرح تباہ کن سلسلہ چلتا رہے گا۔ 

خلافت حقیقت میں اس کشکول کو توڑ دے گی۔ خلافت قرضوں میں ڈوبی ا قوام کو ساتھ لے کر استعماری مالیاتی اداروں کو رقوم کی ادائیگی اس بنیاد پر روک دے گی کہ اصل ر قم ادا کی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود ممالک سود کی برائی کی وجہ سے قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا،

 وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

 "تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام"(البقرۃ:275) ۔

خلافت جارح استعماری کفار ممالک کے ساتھ معاہدوں کو توڑ دے گی تا کہ مسلمانوں کے امور پر ان کی بالادستی کو ختم کردیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا

 "اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا“(النساء:141) 

 

خلافت پاکستان کے معدنی و توانائی کے وسائل پر سے غیر ملکی و مقامی نجی ملکیت ختم کر کے انہیں عوامی ملکیت میں دے دے گی جن کی مالیت ہزاروں اربوں ڈالر ہے۔ اسلام نے ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جن سے حاصل ہونے والی تمام دولت کو ہماری ضروریات پر خرچ کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 

الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ

"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیںپانی ، چراہگاہیں اور آگ (توانائی)"(احمد)۔

 

سرمایہ دارانہ شئیر کمپنی کے ڈھانچے کا خاتمہ کرکے اور اسلام کے اپنے منفرد کمپنی قوانین کو لاگو کر کے خلافت ان شعبوں میں کلیدی کردار ادا کرے گی جہاں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے جیسا کہ بھاری صنعتیں، بڑی تعمیراتی ادارے، مواصلات اور ٹیلی کمیونی کیشن، اور ان سے حاصل ہونے والی دولت کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال پر خرچ کرے گی اور اس طرح دولت کے ارتکاز کو بھی روکے گی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ

"تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں(دولتنہ پھرتی رہے"(الحشر:7) ۔ 

 

اس طرح خلافت نہ صرف وہ صورتحال ہی پیدا نہیں ہونے دے گی جس کی وجہ سے استعماری قرضوں کی ضرورت پیش آئے بلکہ وہ غریب و مسکین پر لگنے والے ٹیکسوں کو بھی ختم کردے گی جس کی شریعت میں قطعی اجازت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

  لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ

"غیر شرعی ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا"(احمد)۔

 

 لہٰذا اوقت آگیا ہےکہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے تاکہ پاکستان کے مسلمان اپنے وسائل سے اسلام کی روشنی میں بھرپور فائدہ اٹھائیں۔   

 

سرمایہ داریت مسلمانوں کو پہنچنے والے زبردست مالیاتی نقصانات کی ذمہ دار ہے

اسٹاک مارکیٹ کے تاجروں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 35 فیصد نقصان کا سامنا کیا ہے  جس کا مطلب ہے کے ایس ای-100 اسٹاک میں ہونے والے 17 فیصد سالانہ نقصان سے بھی دوگنا زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ رمضان کے پہلے دن 17 مئی 2018 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار مندا رہا  جبکہ بینچ مارک انڈیکس گرتا ہی رہا۔  کے ایس ای-100 انڈیکس 423 پوائنٹس گھونے کے بعد  41870 پوائنٹس پر بند ہوا۔  اس بار بھی  چھوٹے سرمایہ کار  مارے گئے کیونکہ کم قیمت شئیرز ہی ان کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کاروں نے کم از کم اپنا آدھا سرمایہ کھو دیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹس کے تاجروں نے نقصان اٹھایا  ہے۔ اس سے پہلے 2008 میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں قیمتیں اچانک گر گئی تھیں  اور انڈیکس تقریباً 55 فیصد کم ہوگیا تھا یا دوسرے الفاظ میں 5600 پوائنٹس گرگیا تھا جس کے نتیجے میں  24 جون 2009 تک  1.4 کھرب روپے مارکیٹ کیپٹالائزیشن  کم ہوگئی۔ اسٹاک مارکیٹوں کا یہ اتار چڑھاؤ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا  بلکہ تمام سرمایہ دارانہ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اکتوبر 1987 میں نیو یارک میں شئیر کی قیمتوں میں ایک دن میں  22 فیصد کمی ہوگئی تھی اور اسی قسم کی صورتحال 1990 کی دہائی کے آخر میں ایشیاء کی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی دیکھی گئی تھی۔ 

 

اسٹاک مارکیٹس جوئے کے اڈوں یا مکڑی کے جالوں کی طرح ہوتے ہیں جو آسانی سے ہل جاتے ہیں۔  اسٹاک مارکیٹس سرمایہ داریت کی ہوس کی نشانی ہے۔  اگر سرمایہ دارانہ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں، سودی بینکاری نظام اور کاغذی کرنسی نہ ہوتی تو یہ جونک کے طرح خون چوسنے والی اسٹاک مارکٹیں بھی نہ ہوتیں۔ جہاں تک پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے نظام کا تعلق ہے  تو  اس کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ اس پر محدود ذمہ داری ہوتی ہے یعنی اگر کاروبار ناکام ہوجائے  اور نقصانات  درپیش ہوں تو وہ جن کا کمپنی کے ذمہ کوئی حق ہوتا ہے  تووہ کمپنی سے اپنا حق مانگنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور سودی بینکاری کا اسٹاک مارکیٹ میں کردار یہ ہے کہ بینک کاروبار کو بڑھاتے اور گھٹاتے ہیں۔ جب کسی مخصوص شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو بینک ان تاجروں کو بڑی تعداد میں قرض دیتے ہیں جو ان شیئرز میں خریدو فروخت کرتے ہیں اور اس طرح  اپنی رقم میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ دوسرے تاجر بھی ان شیئرز کو خریدتے ہیں اور اس طرح اس مخصوص شیئرز کی قیمت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور  کسی بھی مخصوص شیئرز کی قیمت کسی بھی وجہ سے گربھی سکتی ہے جیسا کہ کوئی افواہ یا اس منصوبے کی ناکامی تو ان کے قرض حاصل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے کیونکہ ان کے شیئرز کی قیمت کم ہوچکی ہوتی ہے اور اس طرح قیمت ناقابل یقین حد تک گرجاتی ہیں۔  اور بینکوں کے پاس کہاں سے اتنی بڑی رقم آتی ہے تو  سرمایہ داریت نے اس کا حل کرنسی چھاپ کر نکالا ہے، اس طرح اسٹاک مارکیٹس وہ کاروباری جگہ ہے جہاں کوئی پیداوار حاصل نہیں ہوتی  جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو اور تاجروں کے لیے اس کے علاوہ  اس میں کوئی کشش نہیں ہوتی کہ وہ یہاں سے جلدی اور آسانی سے نفع کماسکتے ہیں اور عموماً کم تجربہ کار اس دوران نقصان اٹھاتے ہیں۔ 

 

دنیا کبھی بھی سرمایہ دارانہ معیشت  اور منی مارکیٹ میں موجود اسٹاکس کے بیماری سے محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک یہ نظام موجود ہیں۔ جو چیز دنیا کو سرمایہ دارانہ معیشت کی کرپشن سے بچا سکتی ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں، سودی بینکاری نظام اور کاغذی کرنسی کو مکمل طور پر ختم کرکے اس کی جگہ اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائےکیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ر سرمایہ دارانہ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں، سودی بینکاری نظام  کو حرام قرار دیا ہے جبکہ  کاغذی کرنسی کی جگہ سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دیا ہے اور اس طرح اس مسئلے کو اس کی بنیاد سے حل کیا ہے۔

 

Last modified onپیر, 21 مئی 2018 03:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک