Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کے قیام کے لیے بڑھتی ہوئی عالمی حمایت

الحمد للہ خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے دنیا بھر میں حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایک مثبت بات ہے اور اس بات پر اس وقت غور و فکر ہونا چاہیے کہ جب مسلمان  90 سال ختم ہونے والی    خلافت کی یادمنارہے ہیں۔ گذری دہائیوں میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے مغربی نظام کو مسترد کرنا شروع کردیا جو اُن پر مسلط کیا گیا ہوا ہے، اور وہ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ اگر اس دنیا  اور آخرت میں صحیح معنوں میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو خلافت کا دوبارہ قیام لازم ہے۔

 

                  یہاں کچھ اعدوشمار پیش کیے جارہے ہیں جو اسلامی طرز حکمرانی کی بڑھتی حمایت  کی نشاندہی کرتے ہیں:

 

1۔ سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز،یونیورسٹی آف جورڈن،فروری 2005

                  یونیورسٹی آف جورڈن  میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز نے سروے شائع کیا جس کا عنوان تھا:"عرب گلیوں کا دوبارہ دورہ"۔ اس سروے میں انہوں نے مصر، اردن، شام، فلسطین اور لبنان کے بہت سارے لوگوں سے انٹرویو کیے جس میں یونیورسٹی کے طلباء، میڈیا کے نمائندے،کاروباری حضرات اور عام لوگ بھی شامل تھے۔ یہ انٹرویوز 2004 میں مارچ اور جون کے درمیان کیے گئے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مصر، اردن، فلسطین،شام اور لبنان میں جن لوگوں سے انٹرویو  کیے گئے ان کی بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ قانون سازی کا ماخذ شریعت کو ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا کہ صرف شریعت کو ہی قانون سازی کا ماخذ ہونا چاہیے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ عرب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی معاشرتی ا قدار مغربی ا قدار سے بالکل مختلف ہیں اور وہ مغربی معاشروں کو لبرل ازم، انفرادی آزادیوں اور جمہوریت کے ساتھ ساتھ بڑھتے معاشرتی مسائل کے حوالے سے دیکھتے اور جانتے ہیں۔

 

2۔ بین الا قوامی پالیسی رویے پر پروگرام، یونیورسٹی آف میری لینڈ، اپریل 2007 

                  یونیورسٹی آف میری لینڈ کی اس رپورٹ،جس کا عنوان ہے:"امریکی پالیسی پر مسلم عوامی رائے" میں یہ بتایا گیا کہ مسلم معاشرو ں میں ایک واحد اسلامی ریاست کے قیام اور مغربی ا قدار کو دور رکھنے  کی زبردست حمایت موجود ہے۔ اس رپورٹ میں کہاگیا کہ:"کئی جواب دینے والوں نے اپنے ممالک میں اسلام کے بڑھتے کردار کی زبردست حمایت کی۔۔۔۔اکثر ممالک میں بڑی اکثریت نے اسلامی شریعت کے سختی سے نفاذ، مغربی ا قدار کو دور رکھنے، اور یہاں تک کہ تمام مسلم ممالک کو ایک واحد اسلامی ریاست میں یکجا کرنے کی حمایت کی۔"

                  2015 میں انڈی پنڈنٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ انکشاف کیا گیا کہ جن ممالک میں قانون میں اسلامی شریعت کی حمایت موجود ہے وہاں شرعی قوانین کو ملک کا سرکاری قانون بنانے کی زبردست حمایت موجود ہے۔

(https://www.independent.co.uk/news/world/the-countries-where-a-majority-of-muslims-want-to-live-under-sharia-law-a6773666.html)

4۔ پیو ریسرچ سینٹر سروے 2013

                  اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کئی مسلم ممالک کی بڑی اکثریت اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ شریعت کوملک کا سرکاری   قانون ہونا چاہیے:

افغانستان- 99 فیصد

پاکستان- 84 فیصد

بنگلا دیش- 82 فیصد

ملیشیا- 86 فیصد

انڈونیشیا- 72 فیصد

نائیجر-  86 فیصد

جبوتی- 82فیصد

نائیجیریا- 71 فیصد

عراق- 91 فیصد

فلسطین اتھارٹی- 89 فیصد

(http://www.pewforum.org/2013/04/30/the-worlds-muslims-religion-politics-society-beliefs-about-sharia/)

5۔ پیو ریسرچ سینٹر سروے 2017

                  2017 میں پیو ریسرچ سینٹر نے ایک سروے کیا جس میں انہوں نے 39 مختلف ممالک  میں رہنے والے مسلمانوں سے سوالات کیے، جس کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے ممالک میں شریعت کو سرکاری قانون کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔  اس سروے کے نتائج بھی اوپر بیان کیے گئے سروے کے نتائج جیسے ہی نکلے:

افغانستان- 99 فیصد

عراق- 91 فیصد

پاکستان- 84 فیصد

(http://www.pewresearch.org/fact-tank/2017/08/09/muslims-and-islam-key-findings-in-the-u-s-and-around-the-world/)

فاطمہ معصب، رکن مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر ، نے یہ مضمون حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا

Last modified onپیر, 08 اپریل 2019 01:14

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.