Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 13 جولائی 2018  

 

 

۔ بڑی آبادی نعمت ہے جبکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اصل مسئلہ ہے

- پاکستان صرف نبوت کے طریقے  پرخلافت کے قیام کے ذریعے ہی اسلامی ریاست بن سکتا ہے

- افواج کا کردار جمہوریت کے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کرنا نہیں  بلکہ نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کرنا ہے

تفصیلات: 

 

بڑی آبادی نعمت ہے جبکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اصل مسئلہ ہے

ڈان اخبار نے 3 جولائی 2018 کو یہ خبر شائع کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک میں بڑھتی آبادی کے حوالے سے ایک ازخود  نوٹس کی سماعت کے دوران پریشانی  اور تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، "کیاملک فی خاندان سات بچوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے"، اور کہا کہ جس  ملک میں بچے پیدا ہورہے ہیں وہاں مناسب پانی اور خوراک مہیا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ، "جس شرح سے  ملک کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، وہ کسی بھی طرح بم سے کم نہیں ہے"۔ انہوں نے بڑھتی آبادی کے حوالے سے اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تا کہ اس صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ انہوں نے مقدمے سے منسلک تمام متعلقہ افراد  کو حکم دیا کہ وہ عدالت کو تجاویز دیں اور کچھ عرصے کے لیے سماعت  ملتوی کردی۔

 

چیف جسٹس ثاقب نصار  اصل نقطہ چھوڑ گئے۔ مسئلہ بڑی آبادی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے وسیع وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اگرچہ تسلسل سے آنے والی جمہوری حکومتیں زرعی اور صنعتی شعبے پر مناسب توجہ دینے میں ناکام رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا شمار کھانے کی اشیا  برآمدات کرنے والے دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا میں گندم،چاول، چھولے، خوبانی، کپاس،  کھجور،دودھ، گنا،پیاز، کینو اور آم  کی برآمدات  میں بل ترتیب  ساتویں، گیاروے،تیسرے، چھٹے، چوتھے، پانچوے، چوتھے،پانچوے، ساتویں، چھٹے اور چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان زرعی پیداوار میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے اور اس قدرغفلت اور عدم توجہ کے باوجود اپنی پوری آبادی کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ 

 

یہ بات امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں کہ مسلم ممالک میں آبادی تیزی سے بڑھے کیونکہ زیادہ نوجوانوں کی تعداد کا مطلب ہے مسلمانوں کی مزید بڑی افواج اور صنعتوں اور زراعت کے لیے  وسیع لیبر فورس دستیاب ہوگی۔ 26 نومبر 1975 کو امریکی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی ڈیسیجن میمورنڈم 314 میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور عالمی صحت تنظیم کے ذریعے مختلف مسلم ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول کرے گا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔  اس میمورنڈم کے صفحہ 21  پر "امریکی سیکیورٹی  اور بیرون ملک عالمی آبادی  میں اضافے کی وجہ سے درپیش پیچیدگیاں" کے تحت کونسل نے یہ بیان کیا کہ کس طرح ایک مسلم ملک میں بڑی آبادی کی وجہ سےاس کے " سیاسی و اسٹریٹیجک  کردار" میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ  یہ نوجوان ہی ہیں جو ہمیشہ بنیادی تبدیلیاں لاتے ہیں جبکہ پہلے سے ہی بہت سارے نوجوان مرد و خواتین  اسلامی علاقوں سے امریکہ کی بالادستی کو ختم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ اسی میمورنڈم کے صفحہ 80 پر کونسل یہ بیان کرتی ہے  کہ"بین الاقوامی مسائل پر موقفوں میں سختی آجائے گی جو کہ لازمی طور پر کئی اہم امور میں امریکی مفاد کے مخالف ہو گی"۔  اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی آبادی کی بڑھتی شرح کو کم کرکے امریکہ کو مسلم علاقوں میں موجود عظیم قدرتی وسائل تک زیادہ رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس میمورنڈم کی صفحہ 43 پرکونسل یہ بیان کرتی ہے، "امریکی معیشت کو بیرونی ممالک سے وسیع معدنیات کی ضرورت ہو گی خصوصاً ترقی پزیر ممالک سے"۔ 

 

اسلام نے مسلمانوں کو  زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«تَزَوَّجوا الوَدودَ الوَلودَ فإني مُكاثِرٌ بِكُمُ الأنبياءَ يومَ القيامَةِ»

"صحت مند اور زرخیز خاتون سے نکاح کروکیونکہ میں چاہتا ہوں کہ روز قیامت  میری امت دوسری امتوں سے تعداد میں زیادہ ہو"(احمد)۔ 

 

ریاست خلافت اصل مسئلے پر توجہ دے گی جو کہ معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے تا کہ مسلمان اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرسکیں اور یہ ان بچوں کا حق بھی ہے اور ایسا کرنا بالکل ممکن ہے کیونکہ مسلم علاقے وسائل سے مالا مال ہیں۔  زیادہ بڑی آبادی  صنعتوں  اور افواج کے لیے بڑی  تعدادمیں نوجوانوں کی  دستیابی کو یقینی بنائے گی اور مسلم علاقے آزاد ہوں گے اور نئے علاقے اسلام کے نفاذ کے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔     

 

پاکستان صرف نبوت کے طریقے  پرخلافت کے قیام کے ذریعے ہی اسلامی ریاست بن سکتا ہے

9 جولائی 2018 کو پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے 2018 کے انتخابات کے لیے اپنی جماعت کے منشور کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ پاکستان کو ایک رفاحی ریاست میں تبدیل کردیں گے۔ یہ منشور "نئے پاکستان کی راہ پر" کے عنوان سے جاری کیا گیا ہے۔ یہ منشور سات ابواب پرمشتمل ہے اور تفصیل سے اگلی حکومت کے لیے پی ٹی آئی کے پروگرام کو بیان کرتا ہے۔  منشور کے ایک اہم نقطے کے متعلق خان صاحب نے کہا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہے-جو کہ ایک نمونہ ہے جس کے اصولوں کی سکینڈینیوین ممالک  بھی پیروی کرتے ہیں۔

 

پاکستان صرف نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے ذریعے ہی اسلامی ریاست بن سکتا ہے۔ صرف خلافت ہی زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و سنت سے اخذ شدہ قوانین کو نافذ کرے گی۔ 25 جولائی 2018 کوہونے والے انتخابات  میں حصہ لینے والی پاکستان کی کئی جمہوری سیاسی جماعتیں "اسلامی فلاحی ریاست"، "ریاست مدینہ" یا "خلافت جیسی" اصطلاحات کو استعمال کررہی ہیں،جس سے یہ بات واضح بھی ہوتی اور ثابت بھی ہوتی ہے کہ پاکستان کے مسلمان اسلام کے نفاذ کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن  جمہوری سیاسی جماعتوں کی جانب سے جاری ہونے والے منشور کسی بھی حوالے سے اسلامی نقطہ نظر سے خالی ہیں۔ یہ بات اس طرح سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ جو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا دعوی کررہے ہیں وہ  اگلے ہی جملے میں اس کا موازنہ سکینڈینیوین ممالک کے ساتھ کرتے ہیں جو کہ سیکولر، لبرل اور  سرمایہ دار ہیں اور جہاں اقتدار اعلیٰ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا  نہیں بلکہ عوام  کا ہے۔ 

 

ہم یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ریاست مدینہ اسلام کی بنیاد پر قائم کی تھی۔ اسلامی ریاست میں زندگی کے ہر شعبے میں اقتدار اعلیٰ یعنی حکم  صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہی نافذ  ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق حکمرانی، معیشت، عدلیہ، خارجہ پالیسی، تعلیم یا معاشرتی معاملات سے ہو۔  اگر پی ٹی آئی کےمنشور کا مقصد پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا ہے تو پھر  اس میں تمام غیر اسلامی ٹیکس جیسا کہ جی ایس ٹی، انکم ٹیکس اور وید ہولڈنگ ٹیکس  کے خاتمے اور اسلامی ٹیکس جیسا کہ خراج، عشر، رکاز، زکوۃ اور جزیہ کے نفاذ کا اعلان  کیوں نہیں کیاگیا؟  اس منشور میں سودی بینکنگ نظام کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا گیا جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ہے۔ اس منشور میں کاغذی کرنسی کے خاتمے اور سونے اور چاندی کی بنیاد پر کرنسی کے اجرا  اعلان نہیں کیا گیا جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔ پی ٹی آئی نے تیل، گیس، بجلی اور معدنی ذخائر کو عوامی ملکیت قرار دینے کا اعلان نہیں کیا  جبکہ اسلام انہیں عوامی ملکیت قرار دیتا ہے۔  پی ٹی آئی نے برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا جو انسانوں کے بنائے قوانین کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ پی ٹی آئی نے ایسی عدلیہ کے قیام کا اعلان نہیں کیا جو صرف اور صرف قرآن و سنت کے احکامات کی بنیاد پر فیصلے کرے گی اور مسلمانوں کو سستا اور بروقت انصاف فراہم کرے گی۔  اس منشور میں امریکہ اور بھارت سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان  نہیں کیا گیا جو کہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے کھلے دشمن ہیں۔ اس منشور میں ایسی تعلیم کا بھی وعدہ نہیں کیا گیا جو اسلام کی بنیاد سے دی جائے گی اور جس کے نتیجے میں اسلامی شخصیات پیدا ہوں گی۔ اوپر بیان کی گئی تمام باتوں میں سے کسی ایک بات کو  بھی سکینڈینیوین ممالک نہیں اپنایا ہوا اور اسی  وجہ  یہ ممالک خود کو لبرل، سیکولر اور سرمایہ دار جمہوریتیں کہتے ہیں۔ 

 

پاکستان کے مسلمانوں کو ان سیکولر، سرمایہ دارانہ جمہوری منشوروں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ یہ منشور موجودہ صورتحال کو برقرار رکھیں گے اور ان کے بنانے کا مقصد حقیقی تبدیلی لانا نہیں ہے۔ حقیقی  تبدیلی نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ہے اور حزب التحریر وہ واحد اسلامی سیاسی جماعت ہے  جو حقیقی تبدیلی کے لیے تمام مسلم ممالک میں جدوجہد کررہی ہے۔ لہٰذا مسلم عوام کو جمہوریت اور جمہوری جماعتوں سے تعلق ختم کرکے حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جدوجہد کا حصہ بن جانا چاہیے جس نے  پاکستان کے لیے اپنے منشور کا اعلان 9 رمضان 1439 ہجری بمطابق 25مئی 2018 کو کیا تھا اور جسے اس لنک سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے:

https://goo.gl/XaRnFg

 

افواج کا کردار جمہوریت کے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کرنا نہیں

  بلکہ نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کرنا ہے

10جولائی 2018 کو آئی ایس پی آر کے ترجمان نے عام انتخابات کے لیے ملکی تاریخ  میں سب سے بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا اور فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عام انتخابات میں  مداخلت اور ان پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے لگنے والے الزامات پراپنی خاموشی کا خاتمہ کیا۔ اس کے علاوہ فوج نے اس بات کی تجدید کی کہ وہ  انتخابی ووٹنگ کے عمل میں غیر جانبدار رہے گی لیکن ووٹرز سے کہا وہ قومی و صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے اپنے نمائندگان کو چنتے وقت احتیاط اوردانائی کامظاہرہ کریں۔فوج کےترجمان میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا "آپ  انتخاب کے دن جو بوئیں گے وہی  آپ آنے والے پانچ سالوں میں کاٹیں گے۔ آپ کو ہی بونا ہے اور آپ کو ہی نفع کما نا ہے۔ اس سے افواج کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا"۔ انہوں نے افواج کی جانب سے اس بات کا اعادہ کیا کہ انہیں جو کردار سونپا گیا ہے اسے وہ  "غیر سیاسی اور غیر جانبدار "رہتے ہوئے ادا کریں گے۔

 

ہماری افواج کے لیے جمہوریت کے مسئلے پر غیرجانبدار رہنا کسی صورت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ ایک کفر نظام ہے جو کہ قرآن و سنت سے اخذ کردہ قوانین پر نہیں بلکہ  انسانوں کے بنائے قوانین پر چلتا ہے۔ اسلام نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ اہل قوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کفر نظام کا خاتمہ کریں اور اس کی جگہ اسلام کو اپنی حمایت فراہم کریں۔ 

 

رسول اللہﷺ  کفر نظام کو تبدیل یا اسے ہٹانے کے لیے اس کا حصہ نہیں بنے تھے جب انہیں اس کا سردار بنانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اور آپ ﷺ نے اس وقت بھی اقتدار قبول نہیں کیاتھا  جب انہیں صرف ایک شرط کے بدلے اقتدار مل رہاتھا۔ اس کی جگہ آپ ﷺ نے کفر کی حکمرانی کو نکال باہر کیا اور معاشرے سے اس کو حاصل ہونے والی ہر حمایت سے اسے محروم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کفر نظام کو لوگوں کی حمایت سے ایسے محروم کیا کہ اس کی بہادرانہ مخالفت کی اور لوگوں کو اسلام کی دعوت کھلم کھلا دی۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ نے  کفر نظام کو ان لوگوں کی مادی حمایت سے محروم کیا جن کی قوت کی بنیاد پر کفر نظام چل رہاتھا۔ آپ ﷺ بذات خود ان افراد سے ملے جو طاقتور، جنگجو تھے اور  ان سے دین اسلام کی حمایت کا مطالبہ کیا۔  آپ ﷺ نے اسلام کو ریاست کی صورت میں قائم کرنے کے لیے درکار مادی قوت،نصرۃ، کو حاصل کرنے کے لیے سختی اور آسانی دونوں صورتوں میں بھر پور کوشش کی۔ آپ ﷺ  اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ جن سے وہ نصرۃ طلب کررہے ہیں کہ آیا وہ اس کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں ان سے پوچھتے تھے، و هل عند قومك منعة؟"کیا تمہارے لوگوں میں طاقت ہے؟" اور ان سے نصرۃ نہیں لیتے تھے جو کمزور تھے اور اسلام کی اس کے دشمنوں سے حفاظت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ ﷺ کئی قبائل سے ملے جن میں بنو کلب، بنو حنیفہ، بنو عامر بن سعسہ، بنو کندہ اور بنو شیبان شامل تھے۔  آپ ﷺ اس طریقہ کار پر مستقل مزاجی سے چلتے رہے جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انصار مدینہ کی صورت میں نصرۃکے ذریعے کامیابی عطا نہیں کردی۔   اور اس طرح اسلام کی حکمرانی کے لیے  رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار  کے مطابق نصرۃ حاصل کی گئی جس نے تباہ حال اور منقسم یثرب  کو اسلام کے طاقتور قلع مدینہ المنورہ میں تبدیل کردیا۔    

Last modified onبدھ, 18 جولائی 2018 19:07

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.