Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 27 جولائی 2018

 

۔ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی ریاست پاکستان کی دہلیز پر امریکہ  اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے

- خیبر پختونخوا میں بارشوں نے جمہوریت  کو بے نقاب اور خلافت کی ضرورت کو واضح کر دیا 

- عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کے زیر سایہ پاکستان  کی برآمدات میں  تسلسل سے اضافہ نہیں سکتا

تفصیلات:

 

دنیا کی واحد مسلم ایٹمی ریاست پاکستان کی دہلیز پر امریکہ اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے

رائٹرز کے مطابق 23 جولائی 2018 کو افغانستان میں اعلیٰ امریکی کمانڈرز نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن بات کے بڑھتے امکانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ  اس بات کے باوجود کہ  تشدد  اور ملک کے مختلف علاقوں میں مزاحمت کاروں کاکنٹرول بڑھ رہا ہے،  افغانستان میں امریکی حکمت عملی کام کررہی ہے۔  نیٹو کے تحت ریزولوٹ سپورٹ مشن  کے کمانڈر جنرل جون نکولسن نے  رپورٹرز کو بتایا، "صلح جوئی کے ہدف کی صدر ٹرمپ کی حکمت عملی میں پچھلے ایک سال کے دوران جو پیش رفت ہوئی ہے وہ اس سے پہلے گزرے 17 سالوں میں نہیں ہوئی اور یہ ایک اہم پیش رفت ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ امن کی جانب  یہ پیش رفت انتہائی اہم ہے اور کچھ حوالوں سے  دوسرے معاملات سے زیادہ اہم ہے جنہیں ہم استعمال کررہے ہیں"۔  لیکن جنرل جوزف ووٹل، اعلیٰ امریکی کمانڈرجو کابل کے دورے پر ہیں، نے اب تک ہونے والی پیش رفت پر محتاط امید کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ  ہماری حکمت عملی، جس کے تحت امریکہ نے افغانستان چھوڑنے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی ، نے طالبان کو دبایا ہے اور سفارتی اور معاشرتی دباؤ کے لیے جگہ پیدا ہوئی ہے تا کہ امن کی تعمیر ہو۔ 

 

ماضی کی برطانوی سلطنت اور سوویت روس کی طرح  آج امریکہ بھی یہ جان گیا ہے کہ وہ افغانستان کے سخت جان اور نہ جھکنے والے مسلمانوں کے خلاف عسکری کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔لہٰذا اب امریکہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی فتح حاصل کرنا چاہتا ہے، ایک ایسی فتح  جو دنیا کی واحد مسلم  ایٹمی طاقت  کی دہلیز پر اس کی افواج، انٹیلی جنس اور نجی افواج کی مستقل  موجودگی کو یقینی بنادے۔  امریکی فوج  کے حالیہ  محدود حملوں کا مقصد بھی افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والےمسلمانوں کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہے۔  22 اگست 2017 کو امریکہ کے سیکریٹری خارجہ ریکس ٹِلرسن نے اعلان کیا کہ، " میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدر (ٹرمپ) نے ان تمام (عسکری) کوششوں کی منظوری اس مقصد سے دی ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے، طالبان کو یہ سمجھا دیا جائے  کہ تم میدان جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ شاید ہم نہ جیت سکیں لیکن تم بھی جیت نہیں سکو گے۔ آخر کار ، ہمیں مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔۔۔"۔ 

 

پاکستان کی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹ  امریکہ کو وہ چیز فراہم کرسکتے ہیں جس کو امریکہ محض اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا۔  لہٰذا جب امریکہ کو سات سمندر پار سے افغانستان  پر قبضہ کرنے کی کوئی صورت  نظر نہیں آرہی تھی تو مشرف نے "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگاتے ہوئے، امریکہ کو  انٹیلی جنس اور ہوائی اڈے فراہم کیے۔  اس کے بعد جب محض روایتی ہتھیاروں سے لیس لیکن جوش  اور جزبے سے سرشارمسلم جنگجوؤں نے امریکہ کی بزدل افواج کے چھکے چھڑا دیے  تو کیانی اور راحیل نے ہماری انتہائی قابل اور طاقتور مسلح افواج کو قبائلی علاقوں میں افغان مسلم جنگجوؤں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے روانہ کیا اوردعویٰ یہ کیا کہ امریکہ کی بھڑکائی ہوئی صلیبی جنگ دراصل "ہماری جنگ "ہے۔      

 

پاکستان کے کمزور  حکمران  ایک ایسے وقت میں زخمی امریکہ کی مدد کررہے ہیں کہ جب اس کی معیشت تنزلی کا شکار ہے،  اُس کی شکستہ دل فوج میدان چھوڑ کر بھاگنے کے لیے تیار بیٹھی ہے اور وہ اپنی عالمی  حیثیت کھوتا جارہا ہے۔  اور موجودہ حکمران امریکہ کو "سلطنتوں کے قبرستان" افغانستان میں دفن ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں   ۔ یہ جانتے  ہوئے  کہ صلیبی امریکہ ، خبیث ہندو ریاست کو افغانستان میں اپنااثرورسوخ بڑھانے کے لئے  ہر طرح کی  مدد فراہم کررہا ہے کیونکہ ہندو ریاست کو اِس خطے کی طاقت ور ترین ریاست بنانا امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔

 

جرأت سے عاری یہ قیادت ہمارے اوپر سب سے بڑا بوجھ ہے جو اپنی ذاتی دولت میں اضافےکی خاطرہمارے دشمنوں کو ہمارے ہی وسائل اور صلاحیتوں کے ذریعےمضبوط کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔  یہ بڑی طاغوتی قوتوں کے اتحادی بنتے ہیں جبکہ یہ اتحاد ہماری معیشت کی تباہی، عدم تحفظ اور خارجہ تعلقات میں ذلت ورسوائی  کا موجب بنتا ہے۔ بڑی طاقتوں سے فوجی اتحاد کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری افواج اورانٹیلی جنس ان بڑی طاقتوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں ، اور اس کا ثبوت کئی دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد اور اب حالیہ دنوں میں روس کے ساتھ فوجی اتحاد ہے۔  معاشی اتحادکے نتیجے میں ہم سودی قرضوں کے دلدل میں ڈوب جاتے ہیں، ہمارے وسائل پر غیرملکی قابض ہوجاتے ہیں ، ہماری معیشت پر غیر ملکی اثرورسوخ قائم ہو جاتا ہے، اور اس کا ثبوت  کئی دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ معاشی  اتحاد اور اب حالیہ دنوں میں چین کے ساتھ معاشی اتحاد ہے۔  اور سیاسی اتحاد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں اپنے ناکام ہوتے منصوبوں کو سہارا دینے اور انہیں قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ہمارے بے پناہ علاقائی اثر و رسوخ کو استعمال کریں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا ہے،

 

 

الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا

"جن کی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ (تو یاد رکھیں کہ) عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے"(النساء:139)۔

 

خیبر پختونخوا میں بارشوں نے جمہوریت کو بے نقاب اور خلافت کی ضرورت کو واضح کر دیا 

23 جولائی 2018 کو خیبر پختونخوا میں ہونے والی بارش نے پشاور اور نوشہرہ ڈسٹرکٹ میں سیلاب کی صورتحال پیدا کردی جس میں ایک لڑکی جاں بحق اور کئی افراد زخمی ہوگئے۔ پی ڈی ایم اے نے کہا کہ نوشہرہ ڈسٹرکٹ کے نالہ چمکار  میں سیلاب نے کنڈی تزادن اور پبی کے علاقوں میں کئی گھروں کو گرادیا۔ ریسکیو 1122 نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے گڑھی قاسم، علی بیگ ، وزیر کالی اور مینا گاوں  متاثر ہوئے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 100 افراد،  جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، کو  پبی کے سیلاب سے متاثرہ کئی گاوں سے نکالا گیا۔ ڈی سی آفس نے کہا کہ گورنمنٹ ڈگری کالج پبی کی عمارت، اسسٹنٹ کمشنر کا آفس اور چوکی ممریاض پانی میں ڈوب گئے جب پانچ سے چھ فٹ پانی ان میں داخل ہوگیا۔ 

 

پاکستان میں زبردست بارشیں ہوتی ہیں اور سیلاب آتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جمہوری حکومتیں  مناسب اقدامات لینے میں ناکام رہی ہیں کہ جن سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔ 17-2014 کے درمیانی عرصے میں پاکستان میں مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب آئے جن میں 297 افراد  جاں بحق اور لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ 2012 میں 520 لوگ جاں بحق  اور 1180 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 2010 کے سیلاب میں ،جو کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، 1800 افراد جاں بحق اور 21 ملین افراد اس سے متاثر ہوئے تھے۔  جب پاکستان کے لوگ مارے جارہے ہوتے ہیں تو حکومت اور حزب اختلاف اپنی سیاسی مہموں، مارچوں اور ایک دوسرے پر الزام دہرانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ جمہوری حکومتیں،چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، سیلاب کے نیتجے میں قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہیں اور  اس کی وجہ جمہوریت خود ہے۔  جمہوریت کا مقصدلوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ وہ صرف سیاسی اشرافیہ کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اگر کوئی عوامی مفاد کا کام کیا  بھی جاتا ہے تو وہ بھی انتخابات سے قبل ترقیاتی کاموں یا فیتے کاٹنے کی تقریبات تک محدود ہوتا ہے۔  جمہوریت میں ہر حکمران، وفاقی ہو یا صوبائی، کو صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی فکر رہتی ہے۔  تو ہم دیکھتے ہیں کہ  پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے کئی چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے دعوے کےباوجود کے پی کے میں بارشوں نے  تباہی مچادی۔ لہٰذا پچھلی ایک دہائی میں آنے والے یک بعد دیگرے تمام جمہوری حکومتیں سیلاب کے مسئلے کو اس کی بنیاد سے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔  جمہوریت ایسے سیاست دان پیدا کرتی ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتا ہے تو صرف اپنے ذاتی مفادات کی پروا کرتا ہے اور صرف اس قدرہی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ منتخب ہو سکے۔ 

 

اسلام میں جمہوریت امت کے امور کی دیکھ بھال کا نام ہے اور یہ ایک فرض ہے۔ اس میں ناکامی پر حکمران کا روز آخرت سخت محاسبہ کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

" تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا "۔ 

 

تو ہم کہتے ہیں کہ خلیفہ راشد عمر فاروقؓ  نے مسجد الحرام میں سیلابی پانی آجانے کے بعد مکّہ میں دو ڈیم بنوائے تا کہ مستقبل میں تباہی سے بچا جا سکے۔ مسلمانوں کو درپیش آج کے مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جمہوریت کا خاتمہ کیا جائے اور نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے۔ جس کے بعد وہ مخلص اور باخبر سیاست دان جو آج  خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں وہی ایک ایسا زبردست ماحول دیں گے جہاں امت کے مخلص رہنما پیدا ہوسکیں گے، جو اتنے باصلاحیت اور ذہین ہوں گے کہ امت کے مسائل کوان کی جڑ سے ہی ختم کردیں گے۔

 

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کے زیر سایہ پاکستان کی برآمدات میں تسلسل سے اضافہ نہیں سکتا

24 جولائی 2018 کوسرکاری حکام نے ڈان اخبار کو بتایا کہ حکومت نے پچھلے 18 ماہ میں تقریباً 32 ارب روپے ٹیکسٹائل اور کپڑوں  کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے برآمدکنندگان کو جاری کیے۔ یہ زبردست مالیاتی مدد وزیر اعظم کے خصوصی پیکج اور ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت دی گئی۔ اس عمل سے برآمدات خصوصاً ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ   ہوا۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی برآمدات 18-2017 میں 13.53 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال یہ 12.45 ارب ڈالر تھی یعنی 8.67 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے اس حکومتی مالی مدد نے جزوی طور پر برآمدات میں اضافہ کیا۔ 

 

ہر بار کچھ سال گزرنے کے بعد پاکستانی برآمدکنندگان حکومت سے مالی معاونت یا دیگر مراعات کی فراہمی کامطالبہ کرتے ہیں تا کہ ان کی مصنوعات سستی ہوں ، وہ عالمی مارکیٹ میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں  اور غیر ملکی زرمبادلہ کماسکیں۔ لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام اور ہدایات کے باعث حکمران مسلسل بجلی، گیس، تیل کی مصنوعات اور پیداوار کے لیے درکار اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکمران ٹیکس بھی بڑھاتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی کاروبار کرنے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔  جب معیشت سے وابستہ کئی شعبے خصوصاً برآمدکنندگان پیداواری لاگت میں کمی کا مطالبہ کرنا شروع کردتے ہیں تو حکومت خصوصی پیکجز دینے کا اعلان کرتی ہے جو انہیں کچھ عرصے کے لیے مالیاتی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ یہ مدد کچھ عرصے کے لیے تو سودمند ثابت ہوتی ہے لیکن تھوڑے عرصے کے بعد اس کی افادیت کم ہوجاتی ہے کیونکہ اسی دوران  حکومت آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجلی، گیس، تیل کی مصنوعات اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتی ہے جن کی پیداواری عمل کے دوران ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح یہ عمل دہرایا جاتا رہتا ہے لیکن مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوتا۔

 

یہ صورتحال صرف اسی وقت تبدیل ہو گی جب پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی جو اسلام کا معاشی نظام نافذ کرے گی۔ اسلام کا معاشی نظام بجلی،گیس،تیل کی مصنوعات کو عوامی اثاثہ قرار دے کر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صنعتوں کو یہ سستی قیمت پر مل سکیں۔ اس کے علاوہ اسلام کامعاشی نظام پیداواری شعبے پر کمر توڑ ٹیکس لاگو نہیں کرتا جیسا کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کرتا ہے جہاں پیداواری عمل شروع ہونے سے لے کر صارف کو بیچنے تک ہر مرحلے پر کئی کئی ٹیکس لاگو ہوتے ہیں جیسا کہ جی ایس ٹی،  ویدھ ہولڈنگ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز وغیرہ۔ اس طرح  اسلام کا معاشی نظام پیداواری عمل کی لاگت کو کم سے کم رکھنے میں بھر پور مدد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار کرنے کی لاگت بھی کم ہوجاتی ہے۔ یہ صورتحال مقامی مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹوں میں دوسری مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے اور برآمدکنندگان کو مالیاتی مدد اور کسی خصوصی مراعات کی ضرورت نہیں پڑتی۔     

Last modified onمنگل, 31 جولائی 2018 01:58

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.