Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز21 ستمبر 2018


۔ پاکستان کابیرونی قرضوں  پر نا ختم ہونے والا انحصار اور اس کے تباہ کن نتائج
- نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی کراچی کے اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ کرے گی
- گیس کی  قیمت میں اضافہ ثابت کرتا ہے کہ تبدیلی کے لیے جمہوریت کاجانا ضروری ہے

تفصیلات:


پاکستان کابیرونی قرضوں پر نا ختم ہونے والا انحصار اور اس کے تباہ کن نتائج


17 ستمبر 2019 کو آخر کار حکومت نے ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے قدرتی گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافے کا اعلان کردیا جس سے وہ 116 ارب روپے حاصل کرسکے گی۔  موجودہ حکومت قرضوں اور خسارے کے صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے زبردست بھاگ دوڑ کررہی ہے۔  بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں  کے لیے حالیہ تخمینے کے مطابق مالیاتی سال 19-2018 میں پاکستان کو 11.7ارب ڈالر کی ضرورت ہے ۔وزارت خزانہ کےمطابق مجموعی طور پر پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے 31 ارب  ڈالر کی ضرورت ہےجبکہ  کرنٹ اکاونٹ خسارا 18.5ارب ڈالرتک پہنچ جائے گا۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ برآمدات اور بیرونی ملک موجود پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم   درآمدات کے لیے درکار رقم سے بہت کم ہیں۔ براہ راست  بیرونی سرمایہ کاری اور اسٹیٹ بینک  آف پاکستان  کے ذخائر   اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ 31 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کے لیے صرف 20 ارب ڈالر میسر ہیں جس میں 13.2ارب ڈالر کےمتوقع بیرونی قرضوں سے حاصل ہونے والی رقوم اور 2.8 ارب ڈالر کے کم مدتی قرض کی واپسی میں التوا بھی شامل ہے۔  اس کے باوجود حکومت کو 11.1ارب ڈالرکی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے پاس اس قدر زرمبادلہ نہیں  کہ وہ اپنی مختصر مدت کی مالیاتی ذمہ داریوں اور تجارتی ضروریات  کو پورا کرسکے۔ اور چونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈالر چھاپ نہیں سکتا  تو حکومت استعماری اداروں سے مزید سودی قرضے لیے کی جانب مائل ہوجاتی ہے۔
ادائیگیوں میں توازن کی غیر موجودگی میں دوسرے سرمایہ دار جمہوری ریاستوں کی طرح  پاکستان بھی آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے پرمجبور ہوجاتا ہے۔  آئی ایم ایف کا پروگرام  فوری طور پر ادائیگیوں کے بحران کو ٹال سکتا ہے۔ اس کے ذریعے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے سستے قرضے ملنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کاپروگرام قرضے فراہم کرنے والےبین الاقوامی کرداروں کی نظر میں پاکستان کی ساکھ کوبہتر بناسکتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف  کے پروگرام مالیاتی  اور  کرنسی سے متعلق پالیسیوں پر شرائط عائد کرتے ہیں جس کی وجہ سے کرنسی کی قدرمیں مزید کمی، ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور سود  کی شرح میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔  ان اقدامات کے نتیجے میں معیشت کی ترقی کی رفتار میں کمی  اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں پاکستان کو چین کی صورت میں قرض فراہم کرنے والا ایک نیا کردار مل گیا ہے۔ چین کے دوسرے کئی ترقی پزیر ممالک کے ساتھ تعلقات  کے حوالے سے یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ جن ممالک کو قرض دیتا ہے ان کی معیشت کی مائیکرو منجمنٹ نہیں کرتا  لیکن وہ اس کے بدلے کچھ مراعات ضرور لیتا ہے۔  ان مراعات میں سی پیک کے تحت چلنے والے منصوبوں میں زیادہ حصہ داری،مستقبل کے منصوبوں میں زیادہ کردار اور چینی کمپنیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مقامی منڈیوں میں کام کرنے   کی اجازت کی مراعات شامل ہیں۔ اس حوالے سے سری لنکا کی ہمبکٹوٹا کی بندگاہ کامعاملہ خاص اہمیت کا حامل ہے، جہاں  چین نے 2017 میں اس بندرگاہ کو 99 سال کی لیز پر اپنے اختیار میں لے لیا جب سری لنکا اس منصوبے پر حاصل کیا گیا قرض واپس کرنے میں ناکام رہا۔ حال ہی میں مالائشیا کے دوبارہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے چینی قرضوں سے شروع ہونے والے 22 ارب ڈالرمالیت کے منصوبوں کو ختم کردیا   اور ان کےمعاشی فوائد اور قرضوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔  ان مثالوں سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ چین سے مزید کوئی نیا قرضہ لینے سے قبل اس کی شرائط کا اچھی طرح سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ سعودی حکومت سے بیل آوٹ پیکج ملنے کے امکانات ہیں۔ لیکن  اس قسم کے کسی بھی مالیاتی پیکج یا امداد کے بدلے سعودی حکومت علاقائی معاملات میں پاکستان کی معاونت مانگے گی جس میں یمن کا تنازع بھی شامل ہے۔  اس کے علاوہ حکومت پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بانڈز میں زبردست سرمایہ کاری کی توقع لگائے بیٹھی ہے۔ لیکن پاکستان کے متعلق برے تاثر اور  بیرون ملک مقیم اکثرپاکستانیوں کی مالی مشکلات کی وجہ سے اس منصوبے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی۔


خسارے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ادائیگیوں میں عدم توازن کا بحران مزید قرضوں کی جانب لے جاتا ہے۔   سود اور مزید شرائط قرضوں  کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں   جو معیشت کو مزید کمزور کردیتے ہیں۔ سرمایہ داریت کے نفاذ کی وجہ سے پاکستان نے بہت نقصان اٹھا یا ہے اور  مزید نقصان ہی اٹھائے گا۔  اسلام کے نفاذ سے کم کوئی چیز بھی پاکستان کو اس بحران سے نہیں نکال سکتی۔  یہ نبوت کے طریقے پر خلافت ہی ہو گی  جو توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دےگی اور بھاری صنعتوں میں بھر پور کردار ادا کرے گی جس کی وجہ سے خلیفہ کے پاس  لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وافر وسائل موجود ہوں گے۔ اس طرح خلافت    قرض لینے کی روایت کو ختم کردے گی۔  

 

نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی کراچی کے اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ کرے گی


16 ستمبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کا پہلا سرکاری دورہ کیا  اور شہر میں حالیہ دنوں میں اسٹریٹ کرائم کی شرح میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور شہر کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں  پر زور دیا۔  وزیر اعظم نے شہر میں بچوں کے اغوا کا سخت نوٹس لیا اور اغوا کاروں کے خلاف مشترکہ  ایکشن لینے کی ہدایت دی۔


یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ کسی حکومت نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے مسئلے کومحسوس کیا ہو اور اس کے خلاف ایکشن لینے کے لیے منصوبہ بندی کی ہو۔ پچھلی حکومتوں نے  ایسا ہی کیا تھا اور ستمبر 2013 میں کراچی میں ایک آپریشن شروع کیا گیا  جو اب بھی جاری و ساری ہے۔ لیکن موجودہ نظام  جرائم خصوصاً اسٹریٹ کرائمز کے خلاف نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔   اس ناکامی کے پیچھے  ایک اہم وجہ وہی ہے جس کی وجہ سے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد کبھی بھی اسٹریٹ کرائمز کو قابو کرنا نہیں تھا۔ شہر کو اسٹریٹ کریمنلز کے حوالے کردیا گیا تھا تا کہ شہر میں آپریشن کاجواز پیدا کیا جاسکے۔  ریاسست کے جن اداروں اور سیاسی جماعتوں نے ان جرائم پیشہ افراد کو تحفظ فراہم کیا تھا  انہیں تو انگلی تک نہیں لگائی گئی۔  اس آپریشن کامطالبہ تو امریکہ کی جانب سے آیا تھا جو ان لوگوں کے خلاف آپریشن کرانا چاہتا تھا جو افغانستان میں اس کے قبضے کے خلاف  لڑنے والوں کی حمایت کررہے تھے اور انہیں وسائل فراہم کررہے تھے۔ اس کے علاوہ طاقت کے استعمال نے  کئی دیگر مسائل پیدا کردیے۔ شہر کی سڑکوں پرجگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، شہر کی حدود میں بکتر بند گاڑیاں  اور مسلح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جدید ترین اسلح سے لیس ہوکر  ایسےگشت کرنے لگے جیسے وہ کسی جنگ زدہ علاقے میں گشت پر معمور ہیں۔  اس صورتحال نے عوام میں خوف پیدا کیا بلکہ اس کی وجہ سے کئی اموات بھی ہوئیں  جیسا کہ 13 اگست 2018 کو دس سال کا عمال دوطرفہ فائرنگ میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی کلاشنکوف کی گولی کا نشانہ بن گیا۔


جمہوری حکومتوں نے تسلسل سے جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سرپرستی کر کے انہیں تحفظ فراہم کیا ہے۔ جمہوریت طاقتور قانون سازوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ  پولیس اور عدلیہ کو ایسے استعمال کریں کہ جس سے سڑکوں پر مجرموں کے لیے آسانی پیدا ہو۔ تو یہ بات حیران کن نہیں کہ جرائم پیشہ کراچی کی سڑکوں پر کھلم کھلا پورے تحفظ کے ساتھ گھومتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو سفارش اور امتیازی سلوک سےخبردار کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا،


 إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا
"تم سے پہلے لوگ اس لیے تباہ ہو گئے کہ جب ان کا کوئی عزت دار آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر قانونی سزا لاگو کرتے۔ اللہ کی قسم اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمؓہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا"(بخاری)۔


کراچی کے مسائل اور مشکلات نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی حل کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف لوگوں کے لیے پہلی باڑ ہو گی جبکہ اللہ کی حدود کو بغیر کسی امتیازی سلوک کے نافذ  اور فوری انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔  نوجوان جرائم پیشہ گروہوں سے منہ موڑ لیں گے کیونکہ ان کی تربیت ایک اسلامی ماحول میں ہو گی،انہیں عالمی پیمانے کی تعلیم دی جائے گی اور انہیں زبردست معاشی مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ ایک اچھی اور بامقصد زندگی گزار سکیں۔

 

گیس کی  قیمت میں اضافہ ثابت کرتا ہے کہ تبدیلی کے لیے جمہوریت کاجانا ضروری ہے


17ستمبر 2018 کو حکومت نے ایک اہم فیصلے میں قدرتی گیس کی قیمت میں 143 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی جس کے تحت 116 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان  نے کہا کہ گیس کی دو کمپنیاں ، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل،  2013میں پاکستان مسلم لیگ-ن کی حکومت آنے سے قبل منافع میں چل رہی تھیں ، لیکن پانچ سال بعد انہیں 152 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن مہنگی گیس خرید کر اسے سستے داموں فروخت نہیں کیا جاسکتا۔


ہر گزرتے دن کے ساتھ "تبدیلی کی حکومت" کا طرز عمل یہ ثابت کررہا ہے کہ جمہوریت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ-ن کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا کردار ادا کررہی تھی اور اس دوران وہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے سخت خلاف تھی۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اقتدار میں آنے سے قبل کئی مواقعوں پر یہ کہا تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو گیس کی قیمت کم کریں گے۔  لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے ہی وعدے کے برخلاف عمل کررہے ہیں۔ فیصل آباد کے ضیاء لمر،  پاکستان ہوئزی مینوفیکچر ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) کے سابق صدر ،(ٹیکسٹائل کی صنعت کے اس شعبے میں سب سے زیادہ گیس استعمال ہوتی ہے  ) نے کہا کہ "پانچ سال تک پی ایم ایل-ن ہمارے ساتھ یہ کھیل کھیلتی رہی، اور اب ان لوگوں (پی ٹی آئی) نے بھی وہی کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے"۔


پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ فیصلہ اس بنیاد پرکیا ہے کہ ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل 40 مختلف گیس کے پیداواری اداروں سے 630 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی اوسط قیمت پر گیس خریدتے ہیں اور اپنے صارفین کو 399 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی قیمت پر فروخت کرتے ہیں ، لہٰذا ہر ایک ایم ایم بی ٹی یو پر انہیں 231 روپے کے خسارے سامنا ہے۔ اگر اس اعدادوشمار کو دیکھیں تو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے پاس اس مسئلے  کے دو ہی حل ہیں۔ پہلا یہ کہ نقصان کوکم کرنے کے لیے قیمت میں اضافہ کردیا جائے لیکن اس کے نتیجے میں صنعتی اور زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔  دوسرا یہ کہ سبسڈی (زرتلافی)  دی جائے تا کہ صارفین کو گیس کم قیمت پر میسر ہو  لیکن حکومت یہ زرتلافی لوگوں پر ٹیکس لگا کر ادا کرتی ہے یا پھر قرضہ لے کر دیتی ہے اور یہ قرضہ بھی آخر میں لوگوں کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت میں جو بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ گیس یا بجلی کی قیمت کم کردے گا ، جھوٹ بولتا ہے کیونکہ ان کے پیداواری ادارے نجی ملکیت ہیں اور ان کے مالکان  اپنے منافع کو یقینی اور زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق قیمت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔


صرف اسلام ہی اس مسئلے کو اس طرح سے حل کرتا ہے کہ وہ توانائی کے وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جو کسی بھی صورت میں نجی یا ریاست کی ملکیت میں نہیں جاسکتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،


 «الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ»
"مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ"(احمد)۔


  اس حدیث میں "آگ" سے مراد توانائی کی وہ تمام اقسام ہیں جو صنعتوں ، مشینوں اور پلانٹس میں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں جس میں گیس اور کوئلہ بھی شامل ہے۔    لہٰذا خلافت میں گیس کے ذخائر کی ملکیت نجی شعبے کے پاس نہیں ہوسکتی بلکہ ریاست اپنے شہریوں کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کا انتظام سنبھالتی ہے۔ ریاست خلافت گیس کی پیداواری لاگت کا تخمینہ لگائے گی جو  کسی بھی صورت 630 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو نہیں ہوگی بلکہ اس سے بہت زیادہ کم ہو گی۔ اس طرح گھریلو صارف، صنعت اور رزاعت کو گیس سستے داموں ملے گی، پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور ہماری اشیاء بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کرسکیں گی۔ پاکستان کے مسلمانوں کو لازمی جمہوریت سے منہ موڑ لینا چاہیے، ان تمام سیاست دانوں کو مسترد کردینا چاہیے جو جمہوریت کے داعی ہیں، اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکی جدوجہد کا حصہ بن جانا  چاہیے۔ حقیقی تبدیلی  کا یہی واحد رستہ ہے۔

Last modified onجمعہ, 28 ستمبر 2018 19:06

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.