الأربعاء، 14 شوال 1445| 2024/04/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 5 جولائی 2019

 

۔جمہوریت میں سیاست دان ذاتی مفادات کے غلام ہوتے ہیں

-مینوفیکچرنگ کی صنعت سرمایہ ادارنہ ٹیکسوں کی وجہ سےزوال کا شکار ہے

-پاکستان کی معیشت کی ابتر صورتحال کی وجہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام ہے

تفصیلات:

 

جمہوریت میں سیاست دان ذاتی مفادات کے غلام ہوتے ہیں

29 جون 2019 کو پاکستان مسلم لیگ-ن کے پندرہ اراکین پنجاب اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے بنی گالا میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی قیادت پر "مکمل اعتماد" کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئےبتایا کہ" پنجاب کے وزیر اعلیٰ انہیں لائے تھے اور انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا"۔

 

پرانے پاکستان کی طرح نام نہاد نئے پاکستان میں بھی اراکین کی وفاداریاں بدلنے بلکہ ان کی  خریدو فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔  وزیر اعظم عمران خان سابق وزیر اعظم نواز شریف پر یہ تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے کہ نواز شریف  نے سیاست میں اراکین کی وفاداریاں بدلنے کی روایت ڈالی تھی۔ لیکن ابھی عمران خان کو اقتدار میں آئے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا لیکن اراکین کی وفادریاں بدلوانے کے عمل پر  اپنی سوچ سے "یو ٹرن" لے لیا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو پنجاب اور وفاق میں بہت ہی کم اکثریت حاصل ہے، لہٰذا تما م اخلاقیات اور نام نہاد "جمہوری اصولوں"کو پس پشت ڈالتے ہوئے عمران خان کی تبدیلی سرکار نے بھی تبدیل ہونے سے انکار کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے بولیاں لگانی شروع کردی ہیں تا کہ اپنی حکومتوں کو برقرار رکھ سکیں۔ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی  نے چونکہ مستقبل میں بھی انتخابات لڑنے ہے تو اگر موجودہ انتخابات کا "خرچہ "نہیں نکالیں گے تو اگلے انتخابات کیسے لڑسکیں گے؟لہٰذا انہوں نے اپنی وفاداریاں بدلنا شروع کردی ہیں۔

 

جمہوریت میں وفاداریاں بدلنا کوئی مشکل اور بری بات نہیں ہوتی بلکہ سیاست دان کے لیے ایسا کرنا اُس وقت انتہائی ضروری ہوجاتاہے اگر وہ کسی ایک جماعت میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کو پورا نہ کرسکے۔ لہٰذا جمہوریت میں عملاً کوئی اصول، اخلاق ، قاعدہ یا ضابطہ نہیں ہوتا ، اگر ہوتا ہے تو صرف اور صرف ذاتی مفاد  ہوتا ہے اور ذاتی مفاد اقتدار میں آئے بغیر تو پورا ہو نہیں سکتا۔ اور اس بات کا اعتراف  4 جولائی 2018 کو عمران خان نے یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ: "آپ جیتنے کے لیے انتخابات لڑتے ہیں۔ آپ اچھے بچے کے طور پر انتخابات نہیں لڑتے۔ اور میں جیتنا چاہتا ہوں"۔   یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت وفاداریاں بدلنے والے لوگوں سے بھری ہیں۔ جب تک جمہوریت کو ختم کر کے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا پاکستان میں ذاتی مفادات کی  سیاست ہی چلتی رہے گی۔ خلافت میں خلیفہ  صرف قرآن و سنت کے قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے اور مجلس امت کا رکن صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر خلیفہ کا احتساب کرسکتا ہے۔ لہٰذا جب خلیفہ اور مجلس امت قوانین ہی نہیں بنا سکیں گے تو اپنے ذاتی مفادات کو بھی پورا کرنا ان کے لیےناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح خلیفہ کو اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مجلس امت کے اراکین کی اکثریت کی حمایت درکار نہیں ہوتی بلکہ وہ اُس وقت تک خلافت کے منصب پر فائز رہتا ہے جب تک وہ قرآن و سنت کو نافذ کرتا رہے اور اس طرح خلیفہ اراکین اسمبلی کی بلیک میلنگ سے محفوظ رہتا ہے۔

 

مینوفیکچرنگ کی صنعت سرمایہ ادارنہ ٹیکسوں کی وجہ سےزوال کا شکار ہے

ڈان اخبار کی 29  جون 2019 کی خبر کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور بجٹ 20-2019 میں 2.5 سے 7.5 فیصد تک کی شرح سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(ایف ای ڈی) عائد ہونے کے بعد انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) نے اپنی مختلف گاڑیوں کی قیمتیں 2 لاکھ 30 ہزار روپے سے لے کر 8 لاکھ 30 ہزار روپے تک بڑھادی جس کا اطلاع یکم جولائی سے ہوگا۔

 

پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ایک کثیر تعداد نجی ٹرانسپورٹ  استعمال کرتی ہے ۔ پاکستان میں آٹوموبائل کی مارکیٹ مکمل طور پر جاپانی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی من مانی قیمت وصول کرتی ہیں اور اب ڈالر کی قدر اور ٹیکس میں اضافے سے  عوام  کے لئے گاڑی کا حصول بھی مشکل ہو جائے گا۔پاکستان کے حکمرانوں  نےکبھی بھی آٹوموبائل سمیت دیگر صنعتوں میں خود انحصاری کی پالیسی نہیں اپنائی اور اس وجہ سے  پاکستان  کا خطیر زرمبادلہ ضروری اشیاء کی درآمد پر خرچ ہوتا ہےجس کی وجہ سے  پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی مستقل بڑھتا جا رہا ہے۔اس حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں کی عدم توجہ کی واضح مثال مینوفیکچرنگ سیکٹر ہے جس کامعیشت میں حصہ تو12.1 فیصد  ہے لیکن اس پر ٹیکس کی شرح کل ٹیکس آمدن  کا 58 فیصدہے ۔ بھاری ٹیکسوں کے علاوہ بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی پاکستان کی مینوفیکچرنگ سیکٹرکی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

 

اس مسئلے کی بنیادی وجہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام  عوامی اثاثہ  جات اور بھاری صنعتوں کی نجکاری کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے تیل ، گیس ،بجلی  اور بھاری صنعت کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جبکہ ریاست کے پاس اپنے معاملات چلانے کے لیے بنیادی طور پر ٹیکس لگانے کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں بچتی۔اس کے علاوہ کیونکہ  جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار انسان کے پاس ہوتا ہےلہٰذاحکمران اپنے مفاد کے مطابق جس شعبے میں چاہیں زیادہ ٹیکس لگائیں اور  جس شعبے میں چاہیں کم  ٹیکس لگادیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں زراعت کے شعبے میں بہت کم ٹیکس لگایا جاتا ہے جبکہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھاری ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔

 

سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس اسلام میں صنعتی شعبے کے لئے درکار وسائل پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں  ہوتا جیسے بجلی، تیل،گیس اور پانی وغیرہ۔ لہذا اشیاء کی پیداواری لاگت کم ہو تی ہے اور وہ عام لوگوں کی پہنچ  میں ہونے کی وجہ سے صنعتی ترقی کا باعث بنتی ہے۔  اللہ رب العزت ہمیں کفار پر امحصار کر نے سے منع کرتا ہے۔جیسا کہ  اللہ رب العزت نے فرمایا،

وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا

"اللہ تعالٰی ایمان والوں  کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کفار کو اپنےمعاملات پر اختیار دیں"(النساء:141)۔

چنانچہ آنے والی خلافت ایسی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کھڑی کرے گی  جو کہ کسی اور ملک کی محتاج نہیں ہوگی۔

 

پاکستان کی معیشت کی ابتر صورتحال کی وجہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام ہے

آل پاکستان ٹیکٹائل  پراسیسنگ مل ایسوسی ایشن  نے زیرو ریٹیڈ جی ایس ٹی کے خاتمے اور  17 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے  ملک بھر میں 600 پروسیسنگ مل بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیرمین حبیب گجر  نےکہا کہ  ابھی انہوں نے اِن ملوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو فارغ کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن اگلے دس دن میں اس انتہائی اقدام  کوبھی  کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اگر حکومت  نے جائز مطالبات کو نظرانداز کیا۔

 

آئی ایم ایف کے اشاروں پر تیار کردہ  حالیہ بجٹ کے بعد سے مختلف کاروباری طبقوں سے اسی طرح کی مخالفت نظر آرہی ہے۔تبدیلی کے نعرے پر اقتدار میں آنے والی عمران خان حکومت نے پچھلی حکومتوں کے طرز پر آئی ایم ایف(IMF) کے اشاروں  پر ایسے اقدامات کیے جس نے معیشت  کا پہیہ بٹھا دیا ہے۔ عوام اور کاروباری طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھا دیا گیا ہے اور ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کرتے ہوئے استعماری سودخوروں کا پیٹ بھرا جارہا ہے۔  ڈالر کے مقابلے میں  روپے کی قدر میں  35 فیصد تک کمی اور بجلی اور گیس  کے نرخوں میں ہوشربا  اضافےپیدا ہونے والی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ جس سے عوام الناس کی قوتِ خرید میں کمی واقع  ہوئی ہے اور نتیجتاً   اشیاء صرف کی طلب  گر جانے سے اندرونی معیشت کا پٹھا بیٹھ گیا ہے۔ جہاں تک کاروباری  طبقہ کا تعلق ہے تو  ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ، روپے کی قدر میں عدم استحکام ، پیداواری لاگت میں اضافے اور بیرونی  کمپنیوں کو ترجیحی مراعات دینے کی وجہ سے پاکستان کے کاروباری طبقے کے اعتماد میں کمی آئی ہے جس سےسروس انڈسٹری سے لے کر چھوٹی بڑی تمام صنعتوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔معیشت کی یہ بدحالی صرف  پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پچھلے ستر سال میں آنے والی تمام حکومتوں نے پاکستانی معیشت کو ایک پستی سے دوسری پستی تک پہنچایا ہے کیونکہ ان سب نے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو اپنایا  جو عوام  کا خون چوس کر دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرتا ہے  اور عالمی مالیاتی اداروں  جیسے آئی ایم ایف اور عالمی بینک وغیرہ کے ذریعےملکی معیشت کو استعماری شکنجوں میں دھکیل دیتا ہے۔

 

پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج  صرف  جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کے  انکار اور اسلامی خلافت کے دوبارہ قیام میں ہے۔ اسلام نے غیر شرعی ٹیکسز کے لگانے کو حرام کریا ہے۔ اسلام نے آمدن اور اخراجات پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ اسلام میں ایک شخص پو را سال کماتا ہے اور خرچ کرتا ہے اور اس میں سے جو بچاتا ہے پھر اس پر سال کا عرصہ گزرتا ہے  تو زکوۃ لاگو ہوتی ہے۔   اس طرح اسلام کاروبار یعنی آمدن اور اخراجات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لہٰذا خلافت میں سیلز ٹیکس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوگا کیونکہ اس کی شریعت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ صنعتوں اور تجارتی اشیاء پر ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں اور تجارت کو زبردست فروغ حاصل ہوگا اور پاکستان ایک صنعتی اور معاشی طاقت بنے گا جس کا تصور بھی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں محال ہے۔

Last modified onجمعہ, 12 جولائی 2019 00:21

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک