الجمعة، 16 شوال 1445| 2024/04/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

سعودی عرب اور قطر کے درمیان بحران کی وجہ کیا ہے؟

 

سوال:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رومانیہ کے صدر کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں 9 جون2017 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران  کہا کہ "... خطے کے اہم ممالک دہشت گردی کی حمایت کو حتمی طور پر روکنے پر متفق ہیں خواہ وہ مالی حمایت ہو ، فوجی یا کسی قسم کی اخلاقی حمایت ہو۔  بدقسمتی  ہے کہ تاریخی  لحاظ سے قطر دہشت گردی کا بڑے پیمانے پر مالی معاون رہا ہے۔  اس کانفرنس کے  دوران مختلف ممالک ساتھ مل کر آئے اور قطر کے اس رویّے سے نپٹنے کے بارے میں مجھ سے بات کی۔ لہٰذا ہمیں فیصلہ لینا ہی تھا کہ ہم آسان راستہ اختیار کریں یا پھر کوئی سخت مگر ناگریز قدم اٹھا ئیں۔  ہمیں دہشت گردی کی مالی امداد کو روکنا ہوگا۔  میں نے سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن، ہمارے بڑے جنرلوں اور فوجیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ اب  وقت آ گیا ہے کہ قطر کو اس مالی معاونت کو ختم کرنے کے لیے  کہا جاۓ ..." (الیوم السابع ،9 جون2017)۔ کیا  اس کا یہ مطلب ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان بحران ٹرمپ کے اشارے پر شروع ہوا ہے؟ اور اگر یہ سچ ہے ،تو ٹرمپ نے ایسا کیوں کیا جبکہ وہ جانتا ہے کہ اس علاقے میں امریکہ کا سب سے بڑا  اڈہ قطر  ہی میں ہے؟  ایران، اخوان المسلمین، یا حماس کی جانب قطر کے مؤقف کو بھی میڈیا نے سعودی عرب اور قطر کے درمیان سیاسی تنازعہ کی وجہ بتایا ہے۔ میڈیا میں جس بات پر ہنگامہ کیا جارہا ہے اس کی روشنی میں ہم ٹرمپ کے بیان کوکیسے سمجھیں؟ اور اس  بحران کا انجام کیا ہوگا؟ کیا خلیج گروپ سے قطر الگ ہو جائے گایانکال دیا جائے گا؟ شکریہ

 

جواب :

اوّل:جی ہاں، اس بحران کے پیچھے امریکہ ہی کا ہاتھ ہے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ امریکی صدر ٹرمپ کے ہی حکم سے ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کی تفصیلی وضاحت کی جاۓ ، میں سوال کے آخری حصے سے شروع کروں گا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قطری  بحران کی وجہ قطر کا ایران کے ساتھ  اسٹریٹیجک اتحاد اور اخوان المسلمین کی حمایت وتعاون ہے جیساکہ میڈیا نے رپورٹ کیا ہے یا اس بات کو پھیلا رہا ہے جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ اس بحران کا حقیقی سبب حماد اور زید خاندان کے درمیان  پرانا تنازعہ ہے جو1970 عیسوی میں شروع ہوا تھا جب متحدہ عرب امارات قائم ہوئی تھی اورنتیجتاً سعودی عرب نے اپنے اتحادی متحدہ عرب امارات کی حمایت میں قطر پر حملہ کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی  کہا ہے کہ قطر کے بائیکاٹ  کا یہ  بحران"اسرائیل" سےجڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سی این بی سی کے حوالے سے جیک نووک کا بیان:

 

'' سطحی طور پر یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان یہ دراڑ ایران کی وجہ سے ہے کیونکہ سعودی عرب مشرق وسطی میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اوراس کے اثر و رسوخ پر روک لگانے پر بضد ہے۔ لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جاۓ تو اس وقت قطرکوالگ تھلگ کرنے کا تعلق کسی دوسرے ملک یعنی اسرائیل کےساتھ ہے "(عربی 21، 7 جون2017)۔

 

 جب گہرائی سے غوروفکراور تجزیہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس کا ان تمام باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں اور طویل عرصے سے قطرکا یہی برتاؤ رہا ہے اوراس میں کوئی بھی نئی بات   پیدانہیں ہوئی۔ ایران سے قطر کی دوستی مشہور ہے اور حماس کے ساتھ تعلقات بھی  در پردہ نہیں ہیں۔اس کے علاوہ قطر اور غاصب یہودیوں کی ریاست کے درمیان تعلقات ، اوران  کے اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات بھی پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ ہی قبائلی تنازعات اس حد تک جا سکتے ہیں کہ اس بحران کی نوبت آۓ۔ یہ سب باتیں بحران سے پہلے سے موجود ہیں اور بحران کے بعد بھی ایسے ہی ہیں۔ لہٰذایہ وجوہات حقیقی نہیں ہیں۔

 

دوم: اس بحران  کی اصل وجہ، جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ، امریکہ یا ٹرمپ ہے اور اس کوسمجھنے کے لئے ہم مندرجہ ذیل امور کا جائزہ لیں گے:

 

1۔ اس صدی کے آغاز سے، قطر خطے میں برطانوی سیاست کا ایک بڑا "اڈہ" اور مختلف حربے استعمال کرنے کے لئے ایک  لیبارٹری بن گیا۔  امریکی  پالیسی کو ناکام بنانے اور امریکہ کے ایجنٹوں پر سیاسی حملے کرنے کے لئے الجزیرہ ایک اہم میڈیا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ ایک اور اہم عنصر سیاسی دولت ہے جو سیاسی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک  موثٔرمقناطیس کے طور پر کام کر رہی ہے۔  قطر نے ان دونوں وسائل کا استعمال کرتے ہوئے خاصی کامیابی بھی حاصل کی ہے، خاص طور پر اسلامی تحریکوں میں جن کو فلسطین، مصر، لیبیا، تیونس اور دیگر ممالک میں "اعتدال پسند" تصورکیا جاتا ہے۔  قطر میں دوحہ ان تحریکوں اور ان کے رہنماؤں کے لئے رہائشی پناہ گاہ اور امریکی پالیسی اور امریکہ کے ایجنٹوں کوختم  کرنے کی منصوبہ بندی کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ اور جیسا کہ برطانیہ کی عادت ہے ، یہ ظاہر کرنا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہے جبکہ وہیں پس پشت امریکی کھیل کو بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔  قطر اس برطانوی کھیل میں مہارت رکھتا ہے۔ اس نے کافی پہلے یعنی 1991 سے ہی اپنے یہاں العدید امریکی ائر بیس بناکرامریکہ  کودے رکھا ہے  جو امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر اور بڑا اسٹریٹیجک ائر بیس ہے جہاں سے عراق، افغانستان، شام اور یمن میں مسلمانوں کے  قتل اوران کی تباہی کے لئے امریکی جہازپرواز کرتے ہیں ۔یہ سب اس وقت سے ہو رہا تھا جب برطانیہ قطر میں اپنے سیاسی "باورچی خانے" یا لیبارٹری کی تعمیر کررہا تھا ۔لہٰذا جب اس کی تعمیر مکمل ہوگئی  تو پھر اس صدی کے شروعات سےیہ "باورچی خانہ "فعال ہو کرنظر آیا۔پھر برطانیہ کے خادم کے طور پر قطر کا کردارباآسانی بڑھتاگیااور برطانیہ کے  تیار شدہ منصوبے کے مطابق ڈھل گیا۔ امریکہ کو قطر کے اس کردار سے اس قدر تشویش ہوئی تھی کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 22 نومبر 2005 کو ڈی ڈبلیوDW کی شائع کردہ خبر کے مطابق، الجزیرہ چینل پر بمباری کرنے  پر بھی غور کیاتھا:

"برطانوی اخبار ' دی ڈیلی مرر' نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے برطانوی حکومت کو دئیے گئے ایک  خفیہ خط کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ  2004 میں بش نے قطر میں "الجزیرہ" سیٹلائٹ چینل کے ہیڈکوارٹر پر بمباری کرنے کے فیصلے پر غور کیا تھا" (DW 22/11/2005)۔ خلیج میں یہی صورت حال بدستور جاری   تھی حتی کہ سعودی عرب میں بادشاہ سلمان اقتدار میں آگیا۔  چنانچہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور پھراس وقت اوبامہ انتظامیہ نے اپنے ایجنٹ سلمان کوخلیج میں ایک اہم کردار عطا کیا کہ ایک طرف تو وہ  قطر کے  خلاف کھڑے ہوکر قطر کے کردار پر غالب آئے اور دوسری طرف نئے امریکی منصوبے پر کاربند رہے۔ لہٰذااس نے امریکہ کے ایجنٹوں کے کردار کواس قدر مضبوط بنا دیا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازعات   سے قطر کے کردار کو مکمل طور پر خطرہ لاحق  ہواہے، اور خاص طورپر  اس سال نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کےبعد  امریکی پالیسی اور بھی زیادہ شدید اوربین الاقوامی معاملات میں کھلم کھلا دوٹوک ہو چکی ہے ، جن میں قطر بھی شامل ہے۔

 

2۔ اس سال  ٹرمپ کے سعودی دورے میں اس نے اپنے ارد گرد 50 حکمران جمع کر لئے تھے اورسعودی بادشاہ سلمان اس کے پہلو میں ہی کھڑا تھا ۔ برطانوی اطلاعات کے ذریعے قطر کو یہ معلوم ہو گیا تھا  کہ امریکہ نے سعودی  کردار کو مستحکم کرنے کے لئے اور خلیج میں قطرو برطانیہ کے کردار کو ختم کرنے کے لئے  سنگین اقدامات کیے ہیں۔ قطر کے امیر کی ریاض سے واپسی کے دو دن بعد ہی اس کا رد عمل سامنے آ گیا تھا۔   قطر نیوز ایجنسی نے قطر کے امیرتمیم الثانی کے23 مئی  کے بیان کاحوالہ دیتے ہوۓ رپورٹ کیا کہ "امریکہ کے صدر کے دورے کے ساتھ ساتھ قطر کو ایک غیر منصفانہ مہم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےجس میں اسے دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔۔ ہم دہشت گردی کی حمایت کے الزام کی مذمت کرتے ہیں ۔۔کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہم  پر دہشت گردی کا الزام  لگاۓ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں رکھا ہے۔اس نے مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے قطر مخالف  پوزیشن پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔۔امریکہ کی موجودہ انتظامیہ کے منفی رجحانات کے باوجود ہمارا امریکہ سے بہت مضبوط رشتہ ہے اور ہمارا اعتماد ہے کہ امریکی صدر کی بدعنوانیوں اور سرکشیوں کی عدالتی تحقیقات کی وجہ سےموجودہ حالات ایسے ہی نہیں رہیں گے۔العدید ائر بیس کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قطرکو پڑوسی ممالک کے عزائم سے استثناء حاصل ہے لیکن یہ امریکہ کے لئے خطے میں اپنافوجی اثر قائم کرنے کا واحد موقع ہے اور قطر کا دہشت گردی اور انتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔قطر کی یہ  خواہش ہے کہ حماس، جو فلسطینی عوام کے حقیقی نمائندے ہیں، اور اسرائیل کے درمیان مسلسل رابطے  کے ذریعےسے امن قائم ہونے میں وہ تعاون کرے۔قطر نے امریکہ اور ایران دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ ایران ایک علاقائی اور اسلامی  طاقت کی نمائندگی کرتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ دانشمندی نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کشیدگی کو ہوا دی جاۓ"۔  قطرکےیہ بیانات  ظاہر کرتے ہیں کہ  اپنے خلاف مہم اور دہشت گردی کی حمایت یا مالی معاونت کے الزام  لگانےپر ٹرمپ کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔اسلامی ممالک کی موجودہ حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ ٹرمپ کے اجلاس کے فوراً بعدقطر کے یہ بیانات آئے تھے جس میں ٹرمپ نے یہ دکھایا تھا کہ امریکی اہداف اور امریکی اطاعت کی طرف ان ممالک کی قیادت کرنے میں اس نے کامیابی حاصل کر لی ہےاورٹرمپ نے کہا تھا کہ کچھ ممالک نے اس سربراہی اجلاس میں قطرکی طرف  دہشت گردی کی مدد کرنےکے لئے انگلی اٹھائی ہے۔  لہٰذا اجلاس میں  ٹرمپ کے بیان کے جواب میں قطر کے  بیانات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ ٹرمپ برباد ہو جاۓ اور وہ امید کرتا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف عدالتی  تحقیقات کی وجہ سے وہ معزول ہو جاۓ۔

 

3۔ سعودی عرب نے  عرب اور اسلامی ممالک کے 55 بادشاہوں، صدور اور سربراہوں (جہالت اورتباہی کےلیڈران) کو اکٹھا کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی پالیسیوں پر عمل در آمدکرنے اور کرانے  میں سعودی عرب ان سب لوگوں  کی قیادت کرتا ہے۔  یہ واشنگٹن کی طرف سے ایک غیر معمولی طورپر واضح  اشارہ تھا جس میں ایران کو خطرہ بتا کر ایک طرف تو وہ تیل کے ذخائر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے اور دوسری طرف امریکہ کے منصوبوں کے تحت  خلیج کے ممالک پر سعودی قیادت کو غالب کرکے خلیج کےاسلامی ممالک  پر برطانوی اثرات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔اس طرح  سعودی عرب ان لوگوں کو قطعاً برداشت نہیں کرے گا جو اس خطے میں اس کی قیادت کے خلاف کھڑے ہوں گے اور اس کی  نظریں قطر پر جمی ہوئی  تھیں تاکہ موقع ملتے ہی وہ قطر کو ٹھکانے لگا سکےچنانچہ قطر نیوز ایجنسی کے ذریعے23 مئی2017 کو سعودی عرب اور امریکہ کے خلاف بیانات کے شائع ہوتے ہی اس نے سخت رد عمل ظاہر کیا ۔قطر کے معافی مانگنے اوریہ ظاہر کرنے کہ قطری نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ  ہیک ہوئی تھی، اس کے باوجود سعودی عرب نے قطر کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیابلکہ اس نے ان بیانات کا مطلب، امریکہ سے عطا کردہ سعودی پالیسی اور سعودی عرب کےشاہ سلمان کے کردار کی  کھلم کھلا مخالفت کے طور پر لیا ، اور پھر بحران شروع ہوگیا۔سعودی عرب کا  رد عمل بڑا سخت تھا اور اس نے قطر کے ساتھ تعلق توڑنے کا بڑاشدید مظاہرہ کیا، اوریہ بات خلیج میں قطر کی جانب سےسعودی مخالفت میں کھڑے ہونےپر سعودی  عرب کی طرف سے پرزورمظاہرہ تھااورامریکی ٹرمپ انتظامیہ کے موقف میں شدت  کی عکاسی کرتی ہے۔ سعودی عرب کے اقدامات قطر کے خلاف کافی سخت گیر  تھے اور ان دونوں کے درمیان حالات5 مارچ 2014 کے حالات سے بھی زیادہ خراب ہو گئے جب  سعودی نے قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا اورنتیجتاً قطر کی حالت زیرمحاصرہ ملک کی سی ہو گئی اور  اپنے اس قدم کو اور زیادہ سخت و موثٔر بنانے کے لئےاور امریکی روش پر چلتے ہوۓ سعودی نے دوسرا چونکانے والا قدم اٹھایا جس میں  قطریوں کو سعودی عرب  کے علاقے کو  چھوڑنے کے لئے صرف 48 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔

 

جھٹکا دینےاور چونکانے والی امریکی  روش یا طریقہ کے ساتھ ہم آہنگی میں ، سعودی  اقدامات کے متوازی اورشانہ بہ شانہ چلتے ہوۓ مصر نے قطری تجارتی طیارے کو واپس بھیج  دیا اور بغیر انتباہ کے اپنے علاقے میں داخل ہونے کے لئے منع کر دیا اور اسی طرح کا طرز عمل دیگر  دوسرے ملکوں نےبھی اپنایا جو قطر کے خلاف سعودی عرب کے  ساتھ متحد ہوگئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ قطر اپنے بائیکاٹ کے ان فیصلوں سے چونک کرحیران تھا اور اس نے ان اقدامات کی توقع نہیں کی تھی۔ قطر کے وزیر خارجہ، محمد بن عبد الرحمان الثاني نے بی بی سی کے ساتھ6 جون 2017 کواپنےایک انٹرویو میں کہا کہ "اس کے ملک کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات شدید اور خوفناک تھے، اور جو کچھ بھی ہوا " اس میں اس خطے کے تین ممالک کی طرف سے ہمیں  اجتماعی سزا  دی گئی جنہوں نے  قطر اور اس کے عوام پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔۔"۔

 

قطر اتنا مضبوط  نہیں کہ وہ امریکہ یا سعودی عرب جیسے اس  کے ایجنٹوں کو چیلنج کرسکے، جب تک کہ کوئی بڑا ملک اس کی پشت پناہی نہ کر رہا ہواوربلا شبہ اس کے پیچھے برطانیہ ہے جس کی پالیسیوں پر بجائے  کھلم کھلا قطر خفیہ طور پر عمل کرتا ہے۔برطانیہ کا مقصد امریکہ کونقصان پہنچانا اوراس خطے کے کنٹرول، خاص طور پر خلیج کے علاقے پر قابو پانے کے اس امریکی منصوبے کو روکناہےجس کے لئے اس نے قطر میں اپنے ایجنٹوں کو ایسا کرنے یعنی بیانات جاری کرنے کی  ہدایت کی تھی ، البتہ برطانیہ نے یہ توقع نہیں کی  تھی کہ  ردعمل اتنا حیران کن ہو جائے گا۔اسے لگا کہ 2014 کی طرح سفیروں کی واپسی  ہوگی اور معاملہ کوئی شدید نتائج  پیدا کیے بغیرختم ہوجائے گابالخصوص اس وجہ سے کہ  قطر  اپنے یہاں امریکی بیس کی موجودگی کواپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہےاور اسی لئے اس بات کا اعتراف قطرکے امیرنے  اپنے بیان میں کیا تھا جس کو  قطری نیوز ایجنسی  نے23 مئی 2017 کو  شائع کیا تھا اور بعد میں  اس بیان کو ہٹادیا گیا اور دعوی کیا گیا کہ اس کی ویب سائٹ ہیک ہوئی ہے جو یہ تھا: "العدید ائر بیس کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قطرکو پڑوسی ممالک کے عزائم سے استثناء حاصل ہے۔ لیکن یہ امریکہ کے لئے اس خطے میں فوجی اثر قائم کرنے کا واحد موقع ہے۔۔۔'' اس کا مطلب ہے کہ، قطر اس اڈے کی وجہ سے پُراعتماد ہے کہ یہ بات امریکہ کو خاموش کردے گی جبکہ قطراس علاقے میں امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا کھیل بگاڑتا ہے اوران کے خلاف کھڑا ہےاور اپنے چینل الجزیرہ کے ذریعہ ان سے بر سر پیکار ہے۔اور اس کی دانست میں حالانکہ اس خطے  میں قطر ہی  نے امریکہ کو سب سے بڑا فوجی اڈہ دیا ہے،لہٰذا وہ اس قدر شدید اقدامات سے حیران  ہواہے۔

 

4۔ اس طرح بحران کی اصل وجہ وہ نیا کردار ہے جوخطے کے لئے ٹرمپ نے سلمان کوبنا کر دیا ہے، یعنی خلیج  کا حاکم ، جو خطے میں امریکی پالیسی کو نافذ کرے اور کسی بھی برطانوی ایجنٹ کو اس میں مداخلت اور خلل پیدا کرنے سے باز رکھے۔  قطر برطانیہ کی پالیسی میں اس کا اہم کھلاڑی ہے جس کو برطانیہ نے خطے میں امریکی منصوبےمیں مداخلت اور خلل پیدا کرنے کے لئےاور برطانوی منصوبے کو نافذ کرنے کے لئے چن رکھا ہے۔چنانچہ اسی وجہ سےقطر کے خلاف ایسا زبردست اور شدیدموقف اختیار کیا گیا اور سلمان کی پشت پر امریکہ ہے جو اس بحران  کو شدید کررہا ہےجس  کواس نے چھپانے کی بھی  کوشش نہیں کی  اور جو کچھ ہوا اور جو ہورہا ہے اس کے پیچھے اپنے ہاتھ کو رفتہ رفتہ ظاہربھی  کیا۔

 

العربیہ نے 6 جون 2017کوایک سینئر امریکی انتظامیہ کے آفیسر کارائٹر نیوز ایجنسی کو دیا گیا بیان رپورٹ کیا ہےکہ: "اکثر قطر کا رویہ ّ نہایت تشویش کا باعث رہا ہے نہ صرف ہمارے خلیج کے پڑوسیوں  کے لئے بلکہ امریکہ کے لئے بھی  یہ تشویشناک رہا ہے "، ایک سینئر امریکی آفیسر نے پیر کے روز بتایا کہ امریکہ خلیجی  ممالک کے درمیان مستقل  دراڑنہیں دیکھنا چاہتاہے اور اس کا یہ بیان خلیجی ممالک اور دیگر عرب ممالک  کی جانب سےقطرپر دہشت گرد تنظیموں اور ایران کی حمایت کا الزام لگا کرقطر سے اپناتعلق توڑنے کے بیان کے بعد آیا ہےاور مزید اس نے کہا کہ: "ہم ان کو صحیح  رخ پر لانا چاہتے ہیں"۔

 

بی بی سی  نے 6 جون 2017 کو رپورٹ کیا: "امریکی صدر ٹرمپ  نے اپنے خلیج کے حالیہ دورے کے اثر یعنی قطر سے تعلقات توڑنے کے فیصلہ کی طرف اشارہ کیا اور ٹرمپ نے کہاکہ اسے دورے کے دوران معلومات ملی تھی کہ دوحہ "انتہاء پسند نظریاتی " تحریکوں کی مالی امداد کررہا ہے۔

"حالیہ میرے مشرق وسط ایشیاء کے دورے پر میں نے بتادیا ہے کہ انتہاپسند آئیڈیالوجی کی کوئی مالی امداد نہیں کی جائے گی، تو ریاستی  سربراہوں  نے قطر کی طرف اشارہ کیا  کہ اس کی جانب کو دیکھو"

مزید اس نے کہا کہ "بڑاہی اچھا ہے کہ سعودی عرب کے دورے، اس کے بادشاہ  اور دیگر50 ممالک کے ساتھ ہوئی  ملاقات نےاپنے پھل دینے شروع کردئیے ہیں اوران لوگوں نے کہاہے کہ وہ لوگ انتہاپسندی کی مالی معاونت کے خلاف کڑا موقف اختیار کریں گے اور تمام تر اشارے قطر کی جانب  اٹھے تھے، شائد یہ دہشت گردی کے خاتمے کی شروعات ثابت ہوگی"۔

 

ٹرمپ کے 9 جون 2017 کو دئیے گئے بیانات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ تنازعہ کی پشت پر امریکہ ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے جمعہ کوکہا کہ قطر کوفوری طور پر دہشت گردی کی امداد بند کردینی چاہیےاور امید ظاہر کی کہ ریاض سربراہی اجلاس دہشت گردی کے خاتمہ کی شروعات ہوگا۔  وہائٹ ہاؤس میں9 جون 2017کوہوئی ایک پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے رومانیہ کے صدر سے کہاکہ تاریخی طور پر قطرکی ریاست دہشت گردی کومالی  امدادفراہم کرتی رہی ہے۔ (Sky News Arabia, 9/6/2017)

 

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ"خطے کے اہم ممالک دہشت گردی کی حمایت کو حتمی طور پر روکنے  پر متفق ہیں خواہ وہ  مالی حمایت ہو ، فوجی یا کسی قسم کی اخلاقی حمایت ہو۔ بدقسمتی  ہے کہ تاریخی  لحاظ سے قطر دہشت گردی کا  بڑے پیمانے پر مالی طورپرمعاون رہا ہے۔  اس کانفرنس کے  دوران مختلف ممالک ساتھ مل کر آئے اور قطرکے اس رویےّ سے نپٹنے کے بارے میں مجھ سے بات کی ۔لہٰذا ہمیں فیصلہ لینا ہی تھا کہ ہم آسان راستہ اختیار کریں یا پھر کوئی سخت مگر ناگریز قدم اٹھا ئیں۔ ہمیں دہشت گردی کی مالی امداد کو روکنا ہوگا۔ میں نے سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن، ہمارے بڑے جنرلوں اور فوجیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ اب  وقت آ گیا ہے کہ قطر کو اس فنڈنگ کو ختم کرنے کے لئےکہا جاۓ ۔'' (Al-Youm As-Sabi’,9/6/2017)

 

5۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ قطر کا یہ بحران کس سمت میں آگے بڑھے گا توقطر ان امریکی ایجنٹوں سعودی عرب، مصراور دیگربرطانوی ایجنٹ جیسےمتحدہ عرب امارات، بحرین و دیگر (جنہیں برطانیہ نے قطر سے الگ اورمختلف کردار عطاء کیا ہے) وغیرہ کے سخت موقف کے جھٹکوں کے زیراثربری طرح دھچکا کھاکر زیر ہوچکا ہے۔ اس سے قبل بھی ان مختلف برطانوی ایجنٹوں کے درمیان تقسیم کئے گئے برطانوی کردار کے متعلق ہم نے 9 اپریل 2017 کو ایک سوال کے جواب میں یہ بیان کیا تھا کہ" اس طرح واضح ہے کہ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کے کردار اس طرح تقسیم کرتا ہے کہ وہ بظاہر متضاد نظر آتے ہیں البتہ آخر میں یہ برطانوی مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ برطانیہ اپنےتمام ایجنٹوں کو ایک رخ پرنہیں ڈالتا ہے بالخصوص ایسے ممالک میں جہاں مختلف کارڈ موجود ہوں"۔قطر نے اتنے سخت گیرتنازعہ اور اقدامات کی توقع نہیں کی تھی جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے۔ سعودی اقدامات نہایت چونکا دینے والے تھے قطر کے سفیروں کو سعودی علاقوں سے باہرجانے کے لئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی تھی  اورچونکانے اورجھٹکا دینے والے امریکی طریقہ کار اور سعودی اقدامات کے متوازی ہی مصر نے بھی قطر کے تجارتی ہوائی جہازکو واپس بھیجا اور پیشگی وارننگ دئیے بغیران کو اپنی فضاؤں میں داخل ہونے سےمنع کیا اور اسی طرح کے اقدامات قطر کے خلاف سعودی عرب کے دیگر اتحادی ممالک نےبھی  کیے۔

 

6۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قطر خلیج گروپ سے باہر ہوجائے گا؟ یہ ممکن ہے البتہ یہ بالکل آخری حربہ ہوگا ۔ لیکن اس بحران کو حل کرنے کا ایک راستہ ہے ، اس معاملے سے جڑی دونوں بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں کہ قطر خلیج گروپ کا حصہ بنا رہے البتہ دونوں قطر سے حاصل کرنے کے لئے اپنے پاس مختلف مقاصد رکھتے ہیں۔

 

جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو وہ قطر کو سعودی عرب کے قابو میں دیکھنا چاہتا ہے یعنی وہ چاہتا ہے کہ قطربلامداخلت اورکسی بھی  وجہ سے بلاخلل امریکی مفادات کا تحفظ کرے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ قطر میں اس کا  امریکی فوجی اڈہ مستقل برقراررہے اور قطربلا خلل اپنی خدمات انجام دیتا رہےاور وہ جانتا ہے کہ قطر کی پشت پر برطانیہ ہے اور اگر قطر خلیج گروپ سے باہر ہوجائےگا تو برطانیہ اپنی مکاری کے ذریعےقطر میں امریکی اڈے کو قائم رکھنے میں رکاوٹیں پیدا کرسکتاہے چنانچہ امریکہ چاہتا ہے کہ قطراس کے منصوبوں پر کام کرے اور سعودی  عرب کی  سربراہی  کے تحت کام کرتے ہوئےخلیج گرو پ میں بھی رہے۔

 

برطانیہ بھی چاہتا ہے کہ قطرخلیج گروپ میں رہے  کیونکہ اس گروپ کے اندر رہتے ہوئے وہ پس پردہ برطانوی منصوبوں پر برطانوی طرزپر کام کرتا رہےجودورخ طریقہ ہے یعنی  ایک رخ میں وہ دوستانہ چہر ہ سامنے رکھتا ہے اور دوسرے میں پس پشت چھرا گھونپتا ہے۔ چنانچہ بحران کا متوقع حل یہی طے پانا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ایک راستہ ہے جو خلیج گروپ سے قطر کاتعلق ٹوٹنے سے روکنے کے گرد گھومتا ہےاور اس میں سےقطر کا ٹوٹنا آخری حربہ کے طور پرموجود ہےچنانچہ اس حل کے ذریعے تعلق کو ٹوٹنے سے روک لیا جائے گا۔ اور اس کا ٹوٹنا ویسے مشکل ہےکم ازکم مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتا ہےجس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

 

ا۔ اوپر بیان ہوئی ٹرمپ کی تقریرنے قطر کے لئے سمجھوتے کا کوئی راستہ نہیں رکھا تھا کیونکہ یہ اس کااپنا یکطرفہ خطاب تھا جو اس طرح تھا:

"تاریخی طور پر بدقسمتی سےاعلی سطح  پر قطرکی ریاست دہشت گردی کومالی  امدادفراہم کرتی رہی ہےاور اس کانفرنس کے دوران مختلف ریاستیں میرے پاس آئیں تاکہ قطر کے برتاؤکے لئے اس سے بات کروں،  تب  ہمیں ایک فیصلہ  کرناتھا : یا تو ہم آسان راستہ اختیارکریں یا پھر آخری اور تکلیف دہ لیکن لازمی کام کریں گے؟ ہمیں دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنا ہے، میں نے سیکریٹری  خارجہ  ریکس ٹلرسن ، ہمارے جنرلوں اور لوگوں کے ساتھ مل کر طے کیا کہ وقت آگیا ہے کہ قطر کو آواز دی جائے تاکہ دہشت گردی کی مالی معاونت  کو ختم کرے"۔  

(Al-Youm As-Sabi’,9/6/2017)

 

اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ قطر اپنی پالیسی خود طے نہیں کرتا  بلکہ برطانیہ کرتا ہےاور موجودہ برطانوی پالیسی  کھلے طورپر امریکہ کا سامنا کرنے کی نہیں ہے بالخصوص ایسے وقت جب کہ  اس کے لئےیورپی یونین سے باہر نکلنے یعنی Brexit کا مرحلہ ہے:ایسے میں وہ امریکہ کے قریب ہونا چاہتا ہے خواہ یہ سطحی طور پر کیوں نہ ہو۔

 

ب۔ ٹرمپ کی ذہنیت تاجر انہ ہے جس کو مالیاتی میدان سے جڑا پہلو زبردست طور پرمتا ثر کرتا ہے: اگر قطر ٹرمپ کے لئے دلکش مالیت کا مال اس کو اداء کردے تو وہ سلمان کو اس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا حکم دے سکتا ہے! امریکی ریسرچر جوناتھن کرسٹول نے کہا جو کہ World Policy Institute,کے ساتھ جڑا ہوا ہے: "وہائٹ ہاؤس میں موجود ٹرمپ کے ہاتھ میں "دولت کا آنا" ایسی کنجی ہے جس سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، بحرین  کےذریعہ قطر کے بائیکاٹ کا حل مل جائے گا"، اس نے اپنے مضمون میں بیان کیا کہ قطر کے لئے اس سعودی سفارتی اور معاشی تناؤپر قابو پانے کے لئےواحد راستہ امریکہ کے ذریعہ اس کے سعودی اتحادیوں  کے ساتھ امریکی مداخلت  ہے جو قطری  دولت کے ذریعہ ہوگی  CNN  کے مطابق ۔۔"(Arabi 21, 6/6/2017).

 

یہی رائے  ہے جونہایت  متوقع ہے کہ ایک حل موجود ہے جو قطر کی دولت یا قطرکے مان جانے کی صورت میں  ہےاور ہم اسے نہایت متوقع کہتے ہیں کیونکہ  جب برطانیہ کو اس بات کا یقین ہو کہ اس کے مفادات کے لئے ضروری ہے کہ قطر خلیج گروپ کے باہرچلا جائے تو قطراسے چھوڑ دے گااور اگر اس کے برطانوی مفادات کے لئے گروپ میں قطر کی موجودگی  درکار ہوتو قطراندرہی  رُکے گا  کیونکہ قطر اپنی  پالیسی خود طے نہیں کرتا بلکہ برطانیہ کرتا ہے۔

 

7۔ خلاصہ ، امریکہ کےایجنٹ جوسعودی عرب، مصر اور جوبھی  بائیکاٹ میں ان کے ساتھ شریک ہیں ان تمام کی جانب سے کوئی بھلائی متوقع نہیں ہےاور انہوں نےاپنے اقتدار کی کرسی بچانے کے عوض میں اسلامی ممالک  اور اس کے لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے حوالے کردیا ہےاوروہ بھی  ایسی ذلالت اور کمزوری کے ساتھ جو کبھی بھی  گر کرمسمار ہوسکتی ہے۔ اسی کے ساتھ قطر سے بھی کسی بھلائی کی امید نہیں ہےجو برطانیہ کی دم پکڑ کر چلتا ہے تاکہ مسلمانوں کی بربادی کے منصوبےاس کے سپرد کئے جائیں۔  ایک طرف وہ امریکہ کو سب سے بڑا فوجی اڈہ عطا کرتا ہے جہاں سے امریکہ کے جہاز اڑان بھرتے ہیں اورشام اور عراق کے مسلمانوں کے گھروں پر دھماکے کرتے ہیں اور ان کے بیٹوں پر بمباری کرکے قتل عام  مچاتے ہیں وہیں قطر دوسری طرف یہودی دھڑے اسرائیل کے ساتھ صلح و صفائی کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتا ہےاور اس نے حماس پر دباؤ  ڈال  کر اسےمجبور کیا تاکہ حماس بھی الفتح کی طرح یہودیوں کے ساتھ رعایت کے سمجھوتے کرے۔ مزید اس نےاپنی زہر آلوددولت کے ذریعےملک شام میں چند تنظیموں پر اپنا دباؤقائم  کرکے ظالم بشار کےاقتدار کے ساتھ مفاہمت کرنے کے لئے مجبور کیا ہے۔ قطر ان سب کو دھوکہ دے رہا ہے جوبھی  اسلامی میلان رکھتے ہیں اوراپنی دولت اور رہائش کی اجازت کے استعمال کے ذریعےان  اسلامی افراداور تنظیموں کوورغلاء کراس بات کے لئے سدھاتا ہےکہ وہ سمجھوتہ اور مفاہمت کرلیں اور اپنے افکار اورموقف کو تبدیل کریں اوریہ مہلک ومضرکردارقطر کوبرطانیہ نےدیا ہوا ہے۔ چنانچہ یہ بدبختی ہوگی کہ ان دونوںشیطان میں سے چھوٹے شیطان کے نام پر کسی ایک کی جانب بھی ہمدردی رکھی جائے۔ امت کے معاملات چھوٹے شیطان یا بڑے شیطان کی میزان پر طے نہیں کیے جاتے بلکہ امت کے معاملات حق و باطل کی میزان پر قائم ہیں۔ امت کے فرزندوں کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے خلاف غداری میں ملوث ایسی حکومتوں کو سرے سے مسترد کریں اور وفاداری اور سنجیدگی سے کام کرنے والوں کا ہاتھ بٹائیں تاکہ ان کو اقتدار سے بے دخل کیا جائے اور مومنوں کی اپنی  ریاست قائم کی جائے، جیسا کہ ان کےعظیم  نبی ﷺ نے کی، اس کے متعلق پیشن گوئی ہے کہ خلافت راشدہ جومعاشرہ میں  امت کی دیکھ بھال کرے گی اور ان کی مکین گاہوں اور ان کی گذرگاہوں میں امن لائے گی تاکہ وہ اپنے گھروں میں سکون سے رہیں اور امان کے ساتھ سفر کرسکیں اور اسلام اورمسلمانوں کی عظمت واپس لوٹائے گی اور جو نوآبادیاتی کفار کو ذلیل کرے گی اور پھر ٹرمپ اور اس کےکرائے کے قاتلوں اور ایجنٹو ں کے جسموں اور گھروں پر تباہی وبربادی ہوگی ۔

 

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

"اوراللہ اپنے  معاملات پر غالب ہےلیکن اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے"(سورۃ یوسف:21)

 

16 رمضان المبارک 1438 ہجری

11 جون 2017

Last modified onپیر, 10 جولائی 2017 04:20

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک