Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب :

 

لیبیا میں سیاسی پیش رفت

سوال:

4 نومبر2017 کو مشرقی وسطیٰ نے" لیبیا کے عسکری ادارے کے اتحاد پر قاہرہ اجلاس کا اختتام"کے عنوان سے خبرشائع کی۔30 اکتوبر2017 کو قاہرہ میں لیبیا کے فوجی افسران نے نیشنل آرمی کی تعمیرِ نو کے اعلان کے بعد ملاقات کی ۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ  میں لیبیا کے سفارتی نمائندے غسان  سلام نے 21 ستمبر2017 کے بعد سے اپنے  پیش کردہ "روڈ میپ" پر سراج حکومت اور "مجلس النواب" کے ساتھ ہونے والے لیبیائی مذاکرات کی رہنمائی خود شروع کر دی ہے۔لیکن اِن مذاکرات کو چلے  ایک ماہ سے قبل ہی سخیراط معاہدے،جس پر 17 دسمبر 2015 کو دستخط کیے گئے تھے ، کے آرٹیکل 8 میں دشواری کے باعث  ملتوی کر دیا گیا۔اب سوال یہ ہےکہ کیا عسکری ملاقاتوں کی شروعات  یہ ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی ملاقاتیں ناکام ہو گئی ہیں؟دوسرے الفاظ میں کیا فوجی  مذاکرات کا مقصدسیاسی مذاکرات کی ناکامی کے بعد  آرٹیکل 8 کا عسکری حل  نکالنا ہے؟ اب ان دو سالوں میں کیا کچھ نیا ہوا ہے کہ سخیراط معاہدہ جس پر فریقین متفق ہوئے تھے آج  اُسی پر غیر متفق ہیں؟ شکریہ

 

جواب۔

کچھ نیا نہیں ہوا، فریقین میں معاہدہ طے پایا جبکہ جھگڑے کے بیج  پہلے سے ہی موجود تھے۔دونوں نے مختلف مقاصد اور مختلف مفادات کی بنا پر  معاہدے پر دستخط کیے تھے۔معاملے کو واضح کرنے کے لیے مندجہ ذیل نقات کو دیکھنا ہوگا۔

1۔ قذافی کے دور میں ملک کا  متحرک سیاسی حلقہ برطانیہ کا وفادار تھا، اوراُس وقت امریکہ کا اتنا اثر و رسوخ نہ تھا۔جب قذافی کا دور ختم ہوا تب پُرانی حکمران جماعتیں پھر سے کھڑی ہوئیں کیونکہ اُن کی جڑیں موجود تھیں جنہیں مکمل ختم نہیں کیا گیا تھا۔جب کہ امریکہ کے وفادار سیاست دانوں  کا اثر ورسوخ موجود نہ تھا۔اسی وجہ سے برطانیہ انتخابات کا خواہاں تھا تاکہ  جلد از جلد ایک حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آئے، کیونکہ پُرانے سیاسی دائرہ کار کی وجہ سے اُسے امید تھی کہ نتائج اُس کے حق میں آئیں گے۔امریکہ کسی بھی صورت انتخابات کو رکوانا چاہتا تھا  تاکہ ایک نیا سیاسی دائرہ کاروجود میں آئےجو برطانوی وفادار سیاسی حلقے کے مد مقابل کھڑا ہو سکے۔اس لیے برطانیہ جلد سے جلد انتخابات کروانا چاہتا تھا جبکہ امریکہ انتخابات میں تب تک تاخیر چاہتا تھا جب تک کہ وہ ایک سیاسی حلقہ قائم نہ کر لے۔اور امریکہ کے پاس یہ حلقہ بنانے کے لیےعادت سے مجبور عسکری طاقت کے استعمال کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔

 

2۔ امریکہ نے لیبیائی افسر حفتارکواپنے مفادات کی  خاطر بھیجا ہےجو کہ مکمل طور پر امریکی وفادار ہے۔حفتار کومارچ 1987میں  300 لیبیائی سپاہیوں سمیت یرغمال بنایاگیا۔امریکہ نے "چاڈ" سے مذاکرات کیے اور1990 میں " یو-ایس سنٹرل انٹلیجنس کمیٹی"سے اس کی رہائی کی بات چیت کی۔حفتار کو امریکی طیارے سےزائر اور پھر امریکہ لایا گیا،اُسے سیاسی پناہ  دی گئی اور امریکہ میں بیٹھ کر  اُس نے لیبیا کی مخالفت کی تحریک چلائی۔اگلے 20 سال (17 فروری 2011)کے انقلاب تک وہ لیبیا واپس نہیں آیا یہ وقت اُس نے امریکہ میں ہی گزارا جہاں اُ سے  سی-آئی-اے کی جانب سے گوریلا فوج کی تربیت دی گئی۔امریکہ نے اُسے لیبیا بھیجااور اپنے ایجنٹ سیسی کے ذریعےیا براہ راست اسی کواسلحہ اور پیسہ دیتا رہا۔امریکہ لیبیا میں کسی بھی سیاسی حل کی مخالفت کرتا رہا اور یہ انتظار کرتا رہا کہ وہ موثر اثرورسوخ  بنا لے۔ اُس نے مشرق  پر زیادہ توجہ دی کیونکہ طرابلس  میں مغربی بالخصوص برطانوی سیاسی اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا اور مشرقی لیبیا میں وہ بہت حد تک اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیااور طبرق کی پارلیمنٹ میں چھایا رہا۔

 

3۔ 2015 میں  یورپ  ایک سال سے زیادہ انتظار کیے بغیر کوئی سیاسی حل نکالنا چاہتا تھا قبل اس کے کہ لیبیا کے سیاسی حلقے کی حقیقت  تبدیل ہو۔یورپ لیبیا میں ایسے  سفارتی نمائندے کو بھیجنے پر غور و فکرکرتا رہا جو کہ مغرب کا وفادار ہو اور اقدامات کو تیز کرے، وہ "لیونینڈ" کو بھیجنے میں کامیاب ہو گیاجس نے  سیاسی حل کو فروغ دیا اور سیکیورٹی کونسل میں ماحول بنانے میں کامیاب ہو گیا،ساتھ ہی ساتھ امریکہ اگر  سیاسی حل کی مخالفت کرے تو اُس کے لیے شرمندگی کا ماحول  بھی بنا دیا۔ایک جانب امریکہ معاملے کو ایک اور رخ سے دیکھ رہا تھا کہ سیاسی حل کے فروغ کے بعد اس کی مخالفت کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں، دوسری جانب سخیراط معاہدے  پر اتفاق کر کے اُس کا غلبہ حاصل کرکے اسے بدلنے یا منسوخ کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس لیے آرٹیکل 8 عسکری طاقت پر کنٹرول حاصل کرنے سے متعلق تھا۔یورپی کمیونٹی یہ جانتی تھی کہ حفتار امریکی ایجنٹ ہے اور امریکہ اُسے فوجی کمانڈربنانا چاہتا ہے،اسی لیے انھوں نے اس آرٹیکل کو شامل کیا کہ  فوج وزیرِاعظم  کے ماتحت ہو گی کیونکہ سراج اُن کا وفادار ہے۔پس یہ آرٹیکل ایسا سنگِ راہ بنا جس میں امریکہ کو ایک اچھا موقع مل گیا کہ معاہدے کی مخالفت تب تک کرے جب تک حفتارفوج سمیت اُس زمین میں ایک طاقت بننے میں کامیاب ہو کر ایک ایسا سیاسی حلقہ نہیں بنا  لیتا جو طرابلس اور اِس کے اطراف میں یورپی سیاسی حلقہ سے اختلاف کرے۔

 

4۔ یہ موجودہ صورتِ حال ہے جو2015سے  سخیراط معاہدے کی ابتداءسے اب تک زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔اس لیے فریقین  کے کوئی نئے مقاصد اور سیاسی و عسکری مفاد نہیں ہیں۔سخیراط معاہدے کے بعد سے لیبیا کے بارے میں ہم مختلف سوالات  کے جوابات دے چکے ہیں جس میں ہم نے اس معاملے کواُن کے لیے واضح کیا ہے جو  حاضر دماغی سے معاملات  پر نظر رکھتے ہیں:

- 3 جون 2014کو دیے  گئے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا تھا:"امریکہ مانتا ہے کہ  لیبیا کا سیاسی  حلقہ برطانیہ اور کچھ فرانسیسی    ہے جو  برطانیہ کے وفادار سیاسی حلقے  کو طاقتور بناتا ہے،جس کا مطلب  یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں  یورپی بندے اور کچھ آزاد امیدوار جیتیں گے ۔پھر حالات مستحکم ہوجائیں گے اور امریکہ کے ارادوں پر پانی  پھِر جائےگا جو کہ قذافی کے دور کے آخر میں اپنے عسکری اثر و رسوخ کو استعمال  کر کےاپنا بہت گہرا اثر قائم کرنا چاہتا تھا،  اوریہ حاصل کرنا موجودہ حالات میں انتخابات کے ذریعے ممکن نہیں ہے کیونکہ ماحول یورپ کے زیر اثر ہے ۔وہ (امریکہ) چاہتا تھا کہ فوجی طریقہ اپنا کر  حالات کو دوبارہ اپنے مطابق  بنا کر اپنا وفادار سیاسی حلقہ بنائے  اور پھر انتخابات کروائے۔ پہلا قدم موجودہ   نظام کو  فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹانا تھا جس پر نیشنل کانگرس کا غلبہ تھا جہاں  مغربی اکثریت تھی۔الیکشن ملتوی کروانا ضروری تھا تا کہ حالات کو پہلےاس قدر بہتربنادیا جائے کہ میدان میں امریکی غلبہ یقینی ہو، اوراگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو   پھر یورپ کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی اور یورپ کو مکمل طور پر بالادستی حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔صرف اسی صورت ممکن تھا کہ پورے میدان پر برطانوی قبضہ نہ ہو۔لہٰذا  حفتار اس میدان میں  اس کردار کے ساتھ داخل ہوتا ہے   کہ وہ امریکہ کا وفادار ہے ۔"

-ـ 11 اپریل2015 کو دیے گئے جواب  میں کہا گیا تھا:"یورپ جانتا ہے کہ امریکہ  مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے  سرگرمِ عمل ہے،اسی  لیے اُس  نے ایک قابلِ اعتماد یورپی سفیر "برناڈینو لیون"کو چُنا۔برناڈینو نے ایک سیاسی حل تک پہنچنے کے اقدامات کیے،اُس کی کوشش تھی کہ اپنی مدت کےابتدائی دنوں میں ہی اپنا کام مکمل کر جائےجو کہ مارچ2015 کے آخر میں ختم ہو جانا تھااور  جس میں سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 2213 کے تحت 15ستمبر تک توسیع ہونی تھی۔وہ اس سب کو پہلے مرحلے میں حل کرنا چاہتا تھا جو کہ جنیوا سے شروع ہوا ، وہاں سے لیبیا اور مراکش تک گیا،وہاں سے الجیریااور واپس مراکش میں آ گیا۔مراکش میں12 مارچ2015 بروز جمعرات طبرق پارلیمنٹ کے اراکین نےلیبیا کی جماعتوں کے درمیان دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات کو  مزید ایک ہفتے(19 مارچ2015) تک ملتوی کرنے کی بات کی۔لیون  نے جلد ازجلد سیاسی حل کی اہمیت پر زور دیا۔16 مارچ2015 کو یورپی یونین نے مشترکہ بیان میں مذاکرات کی ناکامی کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئےکہا "سیاسی حل تک رسائی نہ ہونے سے  لیبیا کا امن  خطرے کا شکار ہوگیا ہے ۔قومی اتحاد اور اس سے متعلقہ معاملات کی بنا پر جتنی جلدی ایک حکومت بنائی جائے گی،یورپی یونین لیبیا   میں اُس کی حمایت  پر رضامند ہوگی۔(جرمن نیوز ایجنسی16/3/2015)۔"

-ـ 19 جنوری 2016 کو دیےگئے جواب میں لکھا گیا کہ"برطانیہ کو معلوم تھا کہ سیاسی مرکز یا اس میں سے اکثر اس کی طرف تھے، لہٰذا یہ یقین تھا کہ کوئی بھی وقتی حکومت، لیون کے تجاویز کے مطابق ،اس کی طرف رہےگی، اور وہ لیون کے دور میں سخیراط معاہدے کو تیز کرنے اور اسے منظور کرانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔جب یہ نہیں ہوسکاتو کابلر کو مقرر کیا گیا اور ترامیم کی گئیں۔ برطانیہ کو یہ احساس ہوا کہ یہ ترامیم کابلر پر امریکی دباؤ کی وجہ سے تھیں، جیسا کہ امریکہ اس معاہدے کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرتارہا  ہے، تاکہ یہ مکمل طور پر امریکہ کی خواہش کے مطابق ہو جائے۔ امریکہ کی طرف سے چلنے والی سیاسی سازشوں کے ساتھ مل کر حفتار کی طرف سے کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اس نے ایک نیا سیاسی طبقہ تشکیل دیا۔ اس وجہ سے برطانیہ،کسی  دوسرے غیر معمولی واقعے سے قبل  اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا، معاہدہ ترمیم کے ساتھ بھی قابل قبول رہے،اور یہ سب کام جلدی جلدی میں کیے گئے، اور 17 دسمبر2015 کو سخیراط کے حتمی معاہدے پر مراکش میں دستخط کرنے اور بین الاقوامی طور پر قابل قبول بنانے کے لیےسیکیورٹی کونسل نے حتمی معاہدے کے فیصلے کی حمایت کے لئے مسودہ قرارداد 2259 کو پیش کیا۔امریکہ کی جانب سے معاہدے کو روکنے کی کوششوں نے برطانیہ کو جلدبازی کرنے پر اُکسایا۔عیسیٰ عبدالقیوم،لیبین کونسل  کے سابق   صدر کے مشیر،نے 13 دسمبر2015 کوالغد العربی ٹی وی پر اس بات کی جانب اشارہ کیا:"ا مریکی سیکرٹری خارجہ کیری کے بیانات نے یہ واضح کیا کہ برطانیہ اور فرانس کے برعکس، جو اس کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں،اس بحران کو حل کرنے کے لئے امریکیوں کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ "

-ـ اور 12 مارچ 2016 کو دیے گیے  جواب میں کہا گیا کہ:"ا س" امریکی "مذاحمت کی وجہ سےلیبیا میں سیاسی وسائل کا زیادہ حصہ قذافی کے دور کے باقیات سے تعلق رکھتا ہے، یعنی وہ یورپ کے وفادار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی وزارت اس پیمائش کے مطابق ہو گی جیسا کہ یہ نئی وزارت کے اندر ہے۔اسی لیے امریکہ حفتار اور اس کے ارد گرد فوج پرانحصار کررہا ہے۔ اس وجہ سے، امریکہ حفتار اور اس کے ماتحتوں کی طرف سے فوجی مداخلت کے ذریعے سے سیاسی حل کو روکنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے، جب تک وہ اس اقتدار  کی ضمانت  حاصل نہیں کرلیتا جس میں اس کا خاطر خواہ  حصہ ہو۔ یورپ اس کے برعکس اس معاہدے کو کامیاب بنانے اور حکومت قائم کرنے کے لئے کام کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کی بہترین کوشش کے باوجود اب بھی سیاسی وسائل پر کنٹرول یا اقتدار اسی کاہے اوراس کے  متعدد اشارے بھی ہیں۔برطانوی وزیر خارجہ، فلپ ہامون نے 19 فروری 2016 کو الجزائر کا دورہ کیا اور وہاں کے  وزیر خارجہ، رامتن لامامرا سے ملاقات کی اور  زور دیا کہ "لیبیا میں فوجی مداخلت اس بحران کو حل کرنے کے لئے مناسب حل کا نمائندہ نہیں ہے۔اس زمین نے اس کا مشاہدہ کیا ہے، اور اس نے سیاسی حل کا مطالبہ کیا "(الجیریا نیوز19/2/2016)۔

 

5۔لہٰذا، تمام اہلِ نظر افراد کویہ  واضح ہے کہ دسمبر 2015 کے مہینے میں یا اس سے پہلے بھی سخیراط معاہدے پر دستخط کر کے  یورپ یہ معاملہ جلدی سےحل کررہا تھا کیونکہ موجودہ سیاسی طبقے اس کے وفادار ہیں، جبکہ امریکہ کو روکنے کا موقع ملا تھاکہ  جب تک اس کے ذریعہ فوجی طاقت کو فعال نہیں کر سکتا ہے اور پھر وہ   ایک نئی سیاسی اتھارٹی تیار کرے گا۔نتیجے کے طور پر، مذاکرات شروع کیے گئے۔ کبھی کبھی وہ اپنے مقصد کے قریب ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دور ہوجاتے ہیں۔اس طرح، ان کے آغاز کے ایک ہی  ماہ کے بعد، طبرق  وفد کو واپس بلالیا گیا ، اور پھر ان کو معطل کر دیا گیا۔سلام تجاویز پیش کرنے کے لئے اِدھر اُدھر ہر کسی سے ملاقاتیں کر رہا تھا  اور اُس نے وفد کی تیونس سےلیبیا اور مذاکرات کے حوالے سے مشورہ کرنے کی حمایت کی۔ شاید وہ جانتا تھا  کہ حتمی حل میں  مقامی جماعتوں کے اتفاق  کے پیچھے بین الاقوامی طاقتوں  کی منظوری کی ضرورت  تھی، جو کہ نہ تو غسان کے پاس تھی ، اور یہاں تک کہ جماعتیں یہ کام خود سے نہیں کرسکتی تھیں  جب تک کہ ان کے پیچھے ان پر بین الاقوامی طاقتیں اتفاق نہیں  کرتیں۔ اور اسی طرح ان سے  متعلقہ حوالہ جات کے ساتھ مشاورت کی بنیاد پر وفد کی  تیونس سے لیبیا واپسی ہوئی:

الجزیرہ کے صحافی نے کہا کہ لیبیا کے نمائندوں کے وفد نے تیونس میں سخیراط معاہدے میں ترمیم  کرنے سے متعلق مذاکرات کے دو ادوار کے بعد ریاستی سپریم کونسل سے دو طرفہ مذاکرات کے بعد اس کی وجوہات کو ظاہر کیے بغیر واپسی اختیار کر لی ہے۔ تاہم رپورٹر نے کہا کہ وجوہات آرٹیکل 8 کے الفاظ سے منسلک ہوسکتی ہیں، جس میں آج صبح ایک گرماگرم سیشن پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا، جس میں صدارتی کونسل اور حکومت کے معاملہ پر بحث کی گئی تھی(الجزیرہ 16/10/2017)۔"ایک ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ میں لیبیا کے سفیر ، غسان سلام اور مذاکرات کمیٹی کے دو سربراہان ،موسی فرج اور عبدالسلام نسیح، کے درمیان تیونس میں اقوام متحده کے مشن  ہیڈکوارٹر میں ایک ملاقات ہوئی ، جس میں پیر کے دن  دونوں  وفود کے درمیان ملاقاتوں  کے التواپر بات  ہوئی(الجزیرہ  17/10/2017)۔تیونس میں الجزیرہ  کے ایک صحافی نے بھی رپورٹ کیا کہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے مشن نے لیبیا کی مذاکرات کے دو نوں فریقین کو ایک دستاویز فراہم کی جس میں اتفاق رائے کے مسودے اور ان کے درمیان ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بحث کی جائے گی اور ان کی رائے الگ الگ  لی جائے گی(الجزیرہ 18/10/2017)۔تیونس میں 21 اکتوبر2017 بروز ہفتہ منعقد ایک پریس کانفرنس میں، سلام نے نشاندہی کی کہ لیبیا کے وفد اور ریاست کی سپریم کونسل  کے  متعدد نمائندوں کے درمیان تفہیم اور اتفاق موجود ہے، جو ان کے لئے لیبیا واپس لوٹ کر وہاں  کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت، آرٹیکل 8 سمیت متعدد نقطہ نظر کی موجودگی  جو کہ اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق  ان کو دور کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کررہے ہیں(الجزیرہ 24/10/2017)۔

 

6۔ اس لیے حفتار فوجی کارروائی کرنے کا سوچ رہا تھا، اور یہ  بات خفیہ نہیں تھی۔حفتار کی فوجی تیاری اور21 ستمبر2017 کو غسان سالم کے تحت شروع ہونے والے  صدارتی کونسل اور طبرق پارلیمنٹ کے مذاکرات کے دوران اس کے بیانات فوجی کارروائی پر توجہ مرکوز کررہے تھے، اور اس کے بیانات  اُن مذاکرات پر سوالات اُٹھا رہے تھے۔14 اکتوبر2017 کو شائع کردہ الجزیرہ خبر میں کہا گیا: ریٹائرڈ میجر جنرل خلیفہ حفتار نے لیبیا کے بحران کو اقوام متحدہ کے بتائے ہوئے  طریقے یعنی  مذاکرات کر کے حل کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا۔حفتار نے بن غازی میں پہلی سیکیورٹی کانفرنس میں ایک تقریر میں کہاکہ عوام کو اس بات کا یقین کرنے کے لئے اشارے نہیں ہیں کہ جاری مذاکرات سیاسی بحران کا واحد حل ہے۔اس نے فوجی اور تمام سیکیورٹی خدمات  سمیت دیگر متبادل کو سیاسی بات چیت کی طرف گھمایا جو "لوگوں کی خواہشات کی تعمیل کرے گی"۔حفتار نے اگست 2017 کے وسط میں اعلان کیا: "ہم  استقامت کے ساتھ کوشش کرتے رہیں گے  جب  تک کہ فوج پورے لیبیا کے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کرلیتی" (مشرق وسطی، 15/8/2017)۔لہٰذا لیبیا میں سیاسی حل کی قیادت کے لئے فوجی حل پر امریکہ کی توجہ اس کے کام کا سب سے اہم حصہ ہے؛ وہ سیاسی حل تب تک  روکے گا جب تک کہ وہ اپنے فوجی کنٹرول کی گنجائش کو بڑھا سکے اور پھر اس سے یورپی اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک مضبوط امریکی اثر و رسوخ  سے معاملہ حل کر سکے۔ دراصل امریکہ سیاسی حل کی قیادت کرنے کے لئے فوجی حل پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور اس کے لئے ہر مناسب موقع  کی تلاش میں رہتا ہے۔ جب اسے فوج میں حفتار کے مؤثر اثر و رسوخ کو یقینی بنانے کے لئے قاہرہ میں ایک فوجی اجلاس منعقد کرنے کا موقع مل گیا، تو اس نے حفتار کو30 اکتوبر2017 کو یہ اجلاس کرنے کاحکم دیا تھا۔ اس طرح لیبیا کے فوجی گروہوں کے درمیان قاہرہ میں ایک اجلاس منعقد کیاگیا  جس میں سے ہر ایک نے حفتار کی حمایت کی ،کوئی بھی اُس کے خلاف نہیں تھا۔ اور اجلاس2 نومبر2017 کی شام کو ختم ہوگیا۔ مشرقی وسطی نےجان لیا کہ  قائرہ میں لیبیا کے آفیسرز کے درمیان  فوجی اتحاد کے بارے میں مذاکرات کا تیسرا دور کل پچھلی شب کو مکمل ہوا  اوراپنے اختتام کو پہنچا جس میں لیبیا آرمی کے اتحاد اور سول اتھارٹی سے اس کے تعلق،جو 2011 سے فوجی اور سیکیورٹی افراتفری کی وجہ سے کمزور ہے، پر  بات ہوئی(مشرق وسطیٰ4/11/2017)۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ہتھیار، مصر اور حفتار نے کچھ حد تک ترقی کی ہے خاص طور پر مشرقی اور آئل کریسنٹ میں، یورپ کے فوائد میں کچھ کم  کے بدلے میں جہاں حفتار ایک مشکل شخص بن گیا ہے جس کا  علاقے کے بڑے حصے پر کنٹرول  ہے۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنازع ختم ہوگیا ہے کیونکہ یورپی یونین کی  لیبیا میں  ابھی بھی طاقت ہے اور امریکہ کے مقابلے میں سیاسی کاموں میں یورپ زیادہ شاندار ہے۔ اس طرح یہ توقع ہے کہ لیبیا پر بین الاقوامی تنازع ایک طرف امریکہ اور اس کے آلہ کار  اور دوسری جانب یورپ اور اس کے آلہ کاروں کے درمیان جاری رہے گا ۔ اور اس تنازعے کے شعلے لیبیا کے لوگوں پر پڑیں  گے۔

 

7۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے مسائل  مسلمانوں کے ہاتھوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں ، اوروہ  حل آسانی سے ممکن ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسان بنا دیا ہے۔اس طرح کے حل کا ہتھیار اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور  رسول ﷺ کے ساتھ خلوت و جلوت میں اخلاص اور صداقت میں  ہے  اور پھر مذاکرات کرنے والے یہ دیکھ لیں گے کہ وہ ایک قدیم اسلامی ملک کے سامنےکھڑے ہیں جو کہ اسلامی  خلیفہ عمر ابن الخطاب کے وقت فتح ہوا تھا  اور اس کے تمام لوگ مسلمان ہیں  اور اس کے مسائل کےحل اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت میں ہیں جس کا کافر  استعمار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

﴿وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ﴾ 

"اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں ،پھر مدد نہ پاؤ  گے"(ھود: 113)۔

 

آخر میں، ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر کہہ رہے ہیں: یہ دردناک ہے کہ مسلم ممالک جہاں سے فتوحات کا آغاز ہوا جہاں سے  اسلام کو پھیلایا گیا جو دنیا بھر میں انصاف اور نیک کام کرتے رہے، آج  جنگ کے میدان بن گئے ہیں جس کو کافر نہ صرف خود بلکہ اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے ہمیں قتل کرنے اور ہمارے  مال کو لوٹنے  کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب مسلمانوں کے خون کے قطرے بہتے ہیں تو دل سے خوش ہوتے  ہیں۔کافر استعمار ہمارے دشمن ہیں لہٰذا کوئی حیرت نہیں ہے کہ وہ ہمیں مارنے کے لئے اپنی تمام  کوشش بروئے کار لاتے ہیں، لیکن جب لیبیا کی مخالف جماعتیں کھڑی   ہوئیں اور ان میں سے کچھ امریکہ کی ساتھی بن گئی، اور بعض نے یورپ سے دوستی کرلی تو پھر وہ خود آپس میں  لڑتے ہیں، اسلام کے لئے نہیں بلکہ کافر استعمارکے مفادات کے لئے لڑتے ہیں۔یہ بڑے گناہوں میں سے ایک ہے، اسلام میں مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کا قتل  ایک بڑا جرم ہے۔ 

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ

"ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون،مال اور عزت حرام ہے(مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے)

اور نبی ﷺنے فرمایا

«لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ»

"اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کا قتل دنیا کی تباہی کے مقابلے میں کم ہے"(نسائی نے عبداللہ بن امر سے نقل کیا)

 

﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

"بےشک اس میں نصیحت ہے اُس کے لیے جو دل رکھتا ہو یا کان لگائے اور متوجہ ہو"( ق:37)

17 صفر 1439 ہجری

بمطابق 6 نومبر 2017

Last modified onاتوار, 04 فروری 2018 23:05

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.