Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب
ادلب کی محاذ پر بین الاقوامی اور علاقائی ممالک کا حقیقی کردار

 

سوال:

شامی حکومت نے اپنی فوج کوصوبہ ادلب کے جنوب کی طرف  روانہ کیا  ہے اور روس نے ادلب کے محاذ  پر"آخری عظیم جنگ!" کے لئے اپنی  فوجی تیاری کا اعلان کیا،جس کے لئے اس نےبحیرہ روم کے مشرق میں اپنی جدید تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں شروع کر رکھی ہیں۔بہت سے لوگ 7 ستمبر 2018کو تہران میں منعقد روسی-ترکی اور ایرانی سربراہ  اجلاس  کے بعد لڑائی کے آغاز کے انتظار  میں تھے۔ترک صدر اردوان نے ادلب پر فوجی مہم کے خلاف اپنے اعتراضات کا اظہار کیا، اور اس طرح ادلب پر حملہ غیر فوجی علاقے(demilitarized zone)کے معاہدے میں تبدیل کردیاگیاجو ترک صدراردوان اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان17 ستمبر 2018 کو ہوا۔ اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ امریکہ نے بھی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف سخت ردعمل کی  دھمکی دی ہے ، اور کچھ یورپی ممالک نےبھی یہی زبان استعمال کی ہے۔ادلب کی جنگ پر بین الاقوامی اور علاقائی ممالک کا حقیقی کردار کیا ہے؟


جواب:

ادلب کی جنگ پر بین الاقوامی ممالک کی پوزیشن کو سمجھنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل حقائق پر نظر ڈالنی ہوگی:


1- ابتدا  سے ہی  سےہم بتاتے آ رہے  ہیں کہ امریکہ اپوزیشن سے تعاون  اور اس کی حمایت میں مخلص نہیں ہے۔ امریکہ، ترکی اور سعودی حکومتوں کے پیچھے کھڑا ہے جو شام کے گروہوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور"انعام اور سزا" کی پالیسی کے تحت انہیں شامی حکومت کے ساتھ مصالحت اورعارضی صلح  پر مجبور کرکے ان سے علاقے   خالی    کرواکے ان پربشارحکومت کا قبضہ کروارہے ہیں۔یقیناً، جنوب میں حزب اختلاف کے ان گروہوں کے لئے امریکہ کا پیغام بہت واضح اور کھلا تھا،کہ وہ شام کی فوج کی جارحانہ کارروائی کو روکنے کے لئے امریکی حمایت کی توقع نہ رکھیں۔ادلب کے بارے میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا:"یہ ایک دردناک صورتحال ہے، اورشام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اس کے اتحادیوں روس اور ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ شام  پر قبضے کےراستہ پر جانا چاہتےہے تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔۔۔"  اس نے مزید کہا: "لیکن وہ کیمیائی ہتھیاراستعمال نہیں کر سکتے"( رائٹرز4ستمبر 2018)۔


امریکہ نے شام پر شامی حکومت کے کنٹرول کےبجائے اس کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کیا۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ، جوزف ڈینفورڈ نےبھی کچھ اس طرح کہا ،"وسیع پیمانے پر روایتی عسکری آپریشن کے برعکس ترکی، شام اور روسیوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پرواضح طورپر مزید بات چیت صحیح نقطہ نظر ہے"۔انہوں نے مزید کہا: "میرا  مشورہ  ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عسکری کارروائیوں کو اس انداز سےہوناچاہیے کہ معصوم زندگیوں کے نقصان کا خطرہ کم ہو"(رائٹرز4ستمبر 2018)۔ امریکہ جب بھی چاہتا ہے کیمیائی ہتھیاروں کامسئلہ اٹھاتا ہےتاکہ شامی حکومت سےاپنی پالیسیوں کا نفاذکرواسکے ۔حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت امریکہ کی حمایت ہی کی  وجہ  سےاتنےسکون میں ہےاورامریکہ کی اجازت کے بغیر، ایران اور روس شام  میں داخل نہیں ہوسکتے تھے ۔اور یہ امریکہ ہی ہے کہ جس کےمطالبے پر   ترکی اور سعودی عرب نے مسلح گروہوں کومصالحت اورعارضی صلح کے معاہدوں اورعلاقےخالی کرکےبشارحکومت کے حوالےکرنےپر مجبور کیا ہے۔اور امریکہ کے بغیر، ظالم  بشار حکومت بین الاقوامی برادری اور جنیوامذاکرات میں واپس نہیں آسکتی تھی  اورانقلاب کے شروع کے سالوں کی اپنی کھوئی ہوئی قانونی حیثیت بھال نہیں کرواسکتی تھی۔


2- امریکہ ہی نےشام میں روسی فوج کو مداخلت اور حکومت کی حمایت کی اجازت دی ہے۔روس، ایران اور ایران کے حمایت یافتہ  مسلح گروہوں نے اہم امور مکمل کیے جس کی وجہ سےشامی حکومت نےبہت  سے علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیےہیں۔باقی رہ جانے والے علاقوںمیں سے سب سے اہم اور اہمیت رکھنےوالا شہر ادلب بچاہے۔۔۔ روس شام کے دلدل میں پھنساہوا ہے اورفوجی کارروائیاں مکمل کرکے سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے ادلب میں گھسنا چاہتا تھاجبکہ امریکہ ادلب کے اختتام سے قبل سیاسی حل کا انتظام کرنا چاہتا ہے اور روس کو شام سے نکالنے کے لئے ادلب کے معاملے کو استعمال کرتے ہوئے کبھی فوجی خطرے کو بڑھادیتا ہے تو کبھی کم کردیتا ہے۔ روس نےشام کے حل کے لئے امریکی منصوبے کی منظوری دےدی ہے کہ جس کے مطابق امریکہ نے سیاسی حل کے لئےروسی فوجی اڈوں کو ہٹانے کی شرط رکھی ہے اور شامی  حزب اختلاف کوروسی فوجی اڈوں کو ہٹانے کوشام کے حل کی ایک شرط کے طور پر زور دینے کے لئےاستعمال کیا ہے،یعنی روس اپنازیادہ نقصان کیے بغیر چھوڑنے کے لئے مطمئن ہے!لہٰذا،روس کی فوجی کارروائیوں کی شکل میں ادلب پر حملہ کرنے کے لئے کیے گئے منصوبےکی مخالفت ترکی نےامریکہ کے کہنے پر کی ہے۔


3- روس نے شام میں اپنے فوجی مشن کو ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد بغیر کسی سیاسی حل کو ذہن میں رکھےجاری رکھا،لہٰذا امریکہ کی رضامندی کے مطابق ترکی کے تعاون سے غوطہ پر قبضہ ہوا،اور اسی سیاق و سباق میں جنوب کے قبضے کا آغاز ہوا۔۔۔۔اوراُسی وقت، امریکہ نے روس کے ساتھ شام پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا،کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کم از کم  جب تک فوجی مشن مکمل نہیں ہوجاتا  روس کے لئے کوئی سیاسی کردار نہیں دیکھتی۔ جب ادلب میں مسلح شام کے انقلاب کو کچل دیا گیا تھا تو روس چاہتا تھا کہ اس کا فوجی آپریشن جاری رہے،لہٰذا اس نےاپنی فورسز کو متحرک کیا اورفوجی مشقیں شروع کیں، بڑے بڑے جنگی بحری جہاز،اسٹریٹجک ایئر لانچرزاور بحیرہ روم کی تاریخ میں پہلی بارفضائی آمدورفت کو بند کیا گیا ۔ جلد روس نے خود کو بڑی مصیبت میں پایا ؛روس نے ایسی صورتحال کا سامنا کیا کہ جس کا اُس نے حساب نہیں لگایا تھا، بشمول  :
ا-ادلب میں بلا تفریق آپریشن کی ترکی کی مخالفت:ترکی نے ادلب شہر پربلا تفریق جنگ مسلط کرنے سے اتفاق نہیں کیا(ترکی کے وزیر نے کہا کہ "دہشت گردوں" کی شناخت کرنی چاہیے اور صرف ان سے لڑائی کرنی چاہئے، اور یہ صحیح نہیں ہے کہ ادلب پر ایک  مکمل جنگ مسلط کردی جائے اور شہرپربلا تفریق بمباری کی جائے) ایناب بالادی14 اگست 2018۔روس، ترکی اور ایران کے صدور کے درمیان تہران کانفرنس میں ترکی کی جنگ کی مخالفت واضح طور پر ظاہرہوگئی۔ترکی نے روس کو تعجب زدہ کردیا جب اُس نے ادلب پر جنگ سے متعلق اپنے خطرات اور اس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی آمد پر  اپنا نقطہ  نظرپیش کیا۔اُس نے یہ کہتے ہوئے روس کوالُجھن میں ڈال دیا کہ جنگ کو ایک آلہ کے طور استعمال کرتے ہوئےشام میں سیاسی حل کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔( ترکی کے صدر طیب اردوان نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے کنٹرول  کئے جانے والے صوبے ادلب پر جاری مسلسل حملے، شام میں سیاسی عمل کے خاتمے کا سبب بن جائیں گے۔۔۔الیوم الصبی '2018/09/07)۔اس کے بعد ادلب پر جنگ مسلط کرنے کی روسی کوششوں کے خلاف امریکی لب و لہجہ میں سختی کے ساتھ ہی ترکی نے ادلب میں فوجی اہمیت کے حامل خاص مقامات  پر اپنے ہتھیار نصب کردیئے،یہ وہ مقامات ہیں جو کےروس اور ایران کے ساتھ لڑائی کی شدت کو کم کرنے کے لئےایک معاہدے کےتحت قائم ہوئے،( بروز اتوارلڑائی کے مقام پر موجود ذرائع اور گواہوں نے"اسکائی نیوز عرب" کو بتایا کہ ترک فوجی قافلے ترکی سے متصل سرحد کے قریب کیفر لیوسن کے علاقے سے، شام کے حزب اختلاف کے گروہوں اور دیگر گروپوں کے زیر انتظام ادلب شہر اُس کے مصافات اور  شمالی شام میں داخل ہوئے ہیں  ان فوجی قافلوں میں ٹینک، فوجی سازوسامان اور گولہ بارود تھا۔۔۔ اسکائی نیوز عرب 9 ستمبر 2018)۔


لہٰذا، ترکی ادلب میں فوجی گروہوں کو ختم کرنے کی روسی کوششوں میں ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔اوراسی وجہ سےتہران کی ملاقات کے صرف نوں دنوں کےبعد ہی اردوان اور پوٹن کے درمیان  دوسرا اجلاس سوچی میں16ستمبر 2018 کو ہوا۔


ب- ایرانی موقف میں تبدیلی کے اشارے:ایران نے7 ستمبر 2018کو تہران میں ہونے والے سربراہ  اجلاس میں ادلب میں موجوداعتدال پسند مسلح  اور "دہشت گرد"گروہوں کے درمیان غیر معمولی طور پر امتیاز کرنے کا اظہارکیا کہ جیسےوہ ترک صدر اردوان کےموقف کی حمایت کرتا ہے جو جنگ کو مسترد اور روس کی لڑائی  جاری رکھنے  کےموقف کی مخالفت کررہا ہے،جس سے ایران کاموقف واضح ہونے لگا۔( ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے ہفتے کے روز، پریس بیان میں اپنے ملک کے موقف کا اعتراف کیا کہ شام کے حالات کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے،جاوید ظریف نے جرمن اخبار (ڈیر سپیگل) کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران ادلب کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے،اورخطے پر کسی بھی فوجی حملے کوانہوں نے" خون کی ہولی" سے تعبیر کیا۔۔۔(ترک زمان اخبار15 ستمبر 2018)۔ لہٰذااگر ایران کا یہ موقف  ہے، تو روس خود کو ادلب  کے محاذ پراکیلا پائے گا  ، اور روس اکیلے یہ لڑائی نہیں لڑ سکتا۔


ج-لیکن سب سے زیادہ خطرناک امریکی موقف ہے: امریکہ ادلب میں کیمیائی ہتھیاروں کےاستعمال  پر فوجی حملےکا ڈھول پیٹ رہا ہے۔ روس جانتا ہے کہ امریکہ بشارحکومت کے ذریعے کیمیائی حملوں کو روکنے اور کنٹرول کرنے  کی طاقت  رکھتاہے۔اسی وجہ سے روس  نےمسلح مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ
 خود اپنے خلاف کیمیائی حملے کی تیاری کررہے ہیں تاکہ امریکی حملےکاجوازپیدا کیا جا سکے۔ روس نےبرطانیہ پر بھی اس" کیمیائی سازش"  میں ملوث ہونےکا الزام لگایاہے جس کےمتعلق اس نےکہا تھاکہ  شام میں عام طور پر امریکی حملےروس کے لئے بہت پریشان کن ہیں،لیکن اس دفعہ امریکی حملے زیادہ شدید اور بڑےہو سکتےہیں!امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایک پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ"ہم نے حالیہ دنوں میں پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کیمیائی ہتھیاروں کا تیسری دفعہ استعمال ہوا تو جواب بہت زیادہ شدید ہوگا۔  اس نے مزید کہا کہ ہم برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مشورہ کرچکے ہیں جو دوسرےحملے میں ہمارے ساتھ شامل ہوئےتھے اور اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کاایک اور  استعمال بہت شدید ردعمل کا باعث ہوگا"(عربی 21 ،10 ستمبر 2018)۔ روس نہ صرف کسی امریکی اورمغربی مشترکہ حملے سے ڈرتا ہے جو کے شام میں اس کو شرمندہ کرسکتا ہے بلکہ وہ  وہاں اپنے فوجیوں پر ہونے والے حملے سےبھی ڈرتا ہے۔


د-اس کے علاوہ،4ستمبر 2018 کواسرائیل نےشام میں حماة  اور بنیاس کےمغربی دیہی علاقے طرطوس میں مصیاف کے  قریب وادی العیون پر  ،روسی فوجی اڈوں کے پاس(خمیم میں روسی ہوائی اڈے سے 50 کلومیٹر دور)اورطرطوس میں روسی فوجی اڈے کے اوپر اُن دنوں میں فوجی حملہ کیا جبکہ روس پہلی سے لے کرآٹھ ستمبر  2018کے دوران بحیرہ روم میں اپنی موجودہ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں میں مصروف تھا جس میں روسی بحری  اورفضائی افواج کے درجنوں گروپوں بڑے پیمانے پر شریک ہوئے تھے۔ایسے دنوں میں اسرائیل کا یہ فوجی حملہ روس کے لیے ایک انتہائی بڑاچیلنج تھا۔سانا نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ"بشار حکومت کے فضائی دفاعی نظام نےاسرائیلی میزائلوں کا جواب دیا جوکہ مغربی بیروت سے کم اونچائی پر داخل ہونے والےاسرائیلی جہازوں سے شمال کی طرف صوبہ حماة اور  طرطوس کے علاقوں میں وادی العیون پرداغے گئے تھے"۔راکٹوں سے نمٹا گیا "اور ان میں سے کچھ کو مار گرایا گیا اور حملہ آورجہازوں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا گیا "(العربیہ نیٹ،4 ستمبر 2018)۔ یہودی وجود بغیرامریکی تعاون اور ہدایت کےروسی فوجی اڈوں کے قریب اس طرح کا حملہ کرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا،لیکن مقصد شایدیہ پیغام دینا تھا کہ روسی فضائی دفاعی نظام(یس-500) کے پاس ابھی امریکی فضائی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے،اور روس اس بات سے خوفزدہ ہوجائےکہ شام میں اس کے طیاروں اوراس کے فوجی اڈوں پرامریکہ  اور اُس کےمغربی اتحادی بمباری کرسکتےہیں۔


ڈ-اوریہ ہواکہ روس کے ایک ہوائی جہاز کو ادلب کے دیہی علاقوں میں مار گر ایا گیا تھا،جس کی وجہ سے روس ایک طرح مصیبت میں پڑگیا:"روسی فضائیہ کے ترجمان میجر جنرل اگور کوناشنیکوف نے کہا کہ (اسرائیلی) پائلٹوں نے روسی طیارے کے راستے  میں مداخلت  کی جس کی وجہ سے طیارہ شامی  فوج کی فائرنگ کی زد میں آگیا اورمارا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ:"یہ ممکن نہیں تھا کہ (اسرائیلی) فلائٹ کنٹرولرز  اور' ایف -16' کےپائلٹوں نےروسی طیارےکو نہ دیکھا ہو ،کیونکہ طیارہ 5 کلومیٹر کی اونچائی تک اُترگیا تھا، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اُسے مصیبت میں ڈال دیا"۔ اس طرح پیر کی شام  
ای ایل-20  کا یہ طیاره  جو کہ ساحلی شہر لاٹاکیہ کے قریب خمیم کےروسی ہوائی اڈے کی طرف واپس لوٹ رہا تھاپندرہ روسی فوجیوںسمیت دشمن کے میزال حملےمیں مار گرا گیاتھا۔"اسرائیلی" ترجمان کے مطابق "اسرائیل" نے شام میں روسی افواج کو  پہلےسے کوئی پیشگی اطلاع  نہیں دی تھی، بلکہ روس کو حملہ سےصرف ایک منٹ پہلے ہاٹ لائن کے ذریعہ آپریشن کی رپورٹ دی گئی تھی، انہوں نے مزید کہا: "اس ہی وجہ سے ہمیں روسی طیارے کو  کسی محفوظ علاقے میں لے جانے کاموقع نہیں مل سکا۔۔۔"( اسکائی نیوز عربیہ،منگل کو دوپہر،18 ستمبر 2018)


روسی دفاعی وزارت کے ترجمان اگور کوناشنیکوف نے 18 ستمبر 2018بروز منگل بتایا کہ (اسرائیل) نےشام میں لاٹاکیہ کے قریب اپنےفوجی آپریشنوں کے بارے میں روسی افواج کےذمہ داران کوآگاه نہیں کیا۔ اگور کوناشنیکوف نے کہا: "اسرائیل نےشام میں اپنی منصوبہ بندی سے روسی افواج کے رہنماؤں کو مطلع نہیں کیا۔اطلاع حملے سے صرف ایک منٹ پہلے"ہاٹ لائن" کے ذریعے دی گئی، جس کی وجہ سے روسی طیارے کو محفوظ علاقے کی طرف واپس جانے کاموقع نہیں مل سکا۔"ترجمان نے کہا کہ (اسرائیلی) جہاز  کی وجہ سے روسی طیارہ شامی حکومت کےفضائی دفاعی نظام کی زد میں آکر تباہ ہوا۔ انہوں نےمزید کہا کہ (اسرائیلی) ایئر فورس کے چار ایف-16 طیاروں نے17 ستمبر 2018کولاٹاکیہ شہر کے قریب اہداف پر بمباری کی۔حملہ کم اونچائی سے کیا گیا تھا۔ اگور کوناشنیکوف نے کہا کہ غیر ذمہ دارنہ اقدامات کی وجہ سےروس کے 15 فوجیوں کی ہلاکت ہوئی، جو روسی-اسرائیلی تعاون  کی روح کے مطابق نہیں ہیں( سپٹنک عربیک نیوز18 ستمبر 2018)


ان تمام حالات نے روس کو عسکری طور پر ادلب کے معاملے کو حل کرنے میں ناکام بنا دیا ہے اور وہ امریکہ کی حمایت سے یہودی وجود کی اشتعال انگیزیوں کا سامناکرنے کے قابل  نہیں ہے!


4-لہٰذا، امریکہ چاہتا ہے کہ روس شام میں پھنسا رہے،اور اس سے باہر نکلنے میں ناکام رہے جب تک کےامریکہ اپنےمنصوبوں کے مطابق شام میں سیاسی حل کے عمل کو مکمل نہیں کرلیتا۔امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بدھ کو رائٹرز کوخصوصی انٹرویودیتے ہوئے  کہا،"روس شام میں پھنس گیا ہے اور دوسروں کو وہاں جنگ کےبعد کے تعمیراتی فنڈز فراہم کرنے کے لئے تلاش کررہاہے"، جس سے یہ اشارہ ملتاہے کہ واشنگٹن کےپاس ماسکو سے بات چیت کرنےکے لیےکمزوری ہاتھ آگئی ہے۔بولٹن نے کہا کہ "اس وقت روس وہاں پھنس گیا ہے۔"انہوں نے مزید کہا: "مجھے نہیں لگتا کہ وہ وہاں پھنسنا  رہناچاہتا ہے۔۔۔"(ماخذ:سپٹنک عربیک نیوز،22 اگست 2018)۔


روس اس امریکی پالیسی سے آگاہ ہو گیا ہے، اور شاید امریکہ کے اُسے  شام میں پھنسائے رکھنے کےاثرات کا احساس کرچکاہے۔روس واقعی شام میں پھنس چکا ہے اور امریکہ کہ جس کے پاسں شام میں اثر و رسوخ کا تمام کنٹرول ہیں،اُس کی اجازت کے بغیرشام سے نہیں نکل سکتا،اور اس ہی وجہ سے یہ اُس  فوجی حملے پرعمل درآمد نہیں کرسکا جو اُس نے ادلب کے بحران کو ختم کرنے کے لئے تیار کیا تھاجو اُس کی منصوبہ بندی میں تھا کیونکہ ترکی نے(امریکہ کے اُکسانے پر) اعتراض کیا تھا  اور ایران خاموش رہا تھا۔۔۔۔لہٰذا،7 ستمبر 2018 کو ہونے والی ملاقات میں ایران نے روسی منصوبے کو منظورنہیں کیا جس میں روس ادلب پر حملے کے ذریعے شام کےبحران کو ختم کرنا چاہتا تھا۔  اردوان اور پوٹن کے اجلاس کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ ادلب پر حملے کو غیر فوجی علاقے (demilitarized zone) میں بدل  دیاگیا تھا!ایسا امریکی مطالبے پر ہوا تھا۔ نوووسٹی نیوز  ایجنسی نے18 ستمبر 2018کو ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا :"ہم ادلب کے صوبے کو اسد اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فوجی حملے سے بچانےکے لئے روس اور ترکی کی  طرف سے کیے گئے اقدامات کاخیرمقدم اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔۔۔"پیر کے روز، روسی صدر ولاڈامیر پوٹن نے ترکی کے اپنے ہم منصب رجب طیب اردوان کے ساتھ معاہدہ کا اعلان کیا کہ ،"شمال مغربی صوبے ادلب میں15 دسمبر تک ایک"غیر فوجی علاقے(demilitarized zone) "کا قیام کیا جائے گا جوکہ جنگ میں شریک ملکوں کے کنٹرول میں ہوگا۔ روسی تفریحی مقام'سوچی' میں ترکی کے اپنے ہم منصب کے ساتھ روسی صدر نے ملاقات کے اختتام پر کہا: "ہم نےاس سال 15 اکتوبر سے لڑائی زدہ علاقوں کی سرحد کے ساتھ سے15 سے 20 کلو میٹراندر تک ایک"غیر فوجی علاقے(demilitarized zone)"کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔پوٹن نے کہا کہ یہ معاہدے "اس مسئلہ کو حل کرنے میں پیش رفت"  کرنے کے لئے "سنجیدہ حل" کی نمائندگی کرتا ہے۔ روسی وزیر دفاع سرگئی شیوگو نے روسی ایجنسیوں کو بتایا کہ یہ معاہدے شام کے مختلف گروہوں کے آخری علاقے ادلب پر آنے والے دنوں میں ہونے والے حملوں کی روک تھام کاباعث بنے گا۔ انٹرفیکس اور تاس نیوز ایجنسیوں کے مطابق ایک سوال کے جواب میں کہ کیا اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ادلب پر کوئی فوجی حملہ نہیں ہوگا، وزیر نے جواب دیا "ہاں" ۔اس کے برعکس، دونوں صدور کے درمیان ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اردوان نے کہا: "روس اس بات کویقینی بنانے کے لئےکہ ادلب میں ڈی ایسکلیشن زون( de-escalation)  پر کوئی حملہ نہ ہو ضروری قدم اٹھائے گا( فرانس 24 / اے ایف پی 17 ستمبر 2018)۔


اسی لیے روس نے ادلب پر بمباری روک دی اور اپنے اُن بحری جہازوں کو واپس بھجوادیاجنہوں نے بحیرہ روم میں فوجی مشقیں کیں تھیں۔روس  اب بھی براہ راست امریکہ سےیا پھر بالواستہ ترکی کےذریعےالتجا کررہا ہے کہ ادلب میں سیاسی حل سے پہلے فوجی  کارروائی کی جائے۔مگر امریکہ ادلب میں فوجی  کارروائی سے پہلے سیاسی حل چاہتا ہے تاکہ وہ  اسےروس پردباؤ برقرار رکھنے کےلیے استعمال کرتے ہوئےشام میں اُس کے فوجی اڈوں کےمعاملے پر اُسے بلیک میل کرسکے اور پھر حزب اختلاف کو  استعمال کرتے ہوئےسیاسی حل میں اِن فوجی اڈوں کے معاملے کو اُٹھوائے۔۔۔اس تمام معاملے کے پیچھے ترکی اور امریکہ کامفادیہ ہے کہ ادلب پر روسی حملہ بنیادی طور پر امریکہ کے مفادات کے لئے تھا  نہ کہ بشار حکومت کو ادلب پہنچنے سے روکنے کے لیےیا شہریوں کومحفوظ بنانےکے لئے،مگر درحقیقت  اس وقت امریکہ ادلب پر وہ حل نافذ کرناچاہتا ہے کہ جس کی وہ خواہش رکھتا ہے اور روس کو اس  کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔اوراس کے بعد اُسے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی کہ ادلب میں کس کا   خون بہے، شہریوں کا یا دوسروں کا ، غیر فوجہ علاقہ  (demilitarized zone) ہویا نہ ہو۔شام کے مختلف علاقوں میں امریکہ کی تاریخ اُس کے جرائم کامنہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔


-5 یہ ادلب پر جنگ کی علاقائی اوربین الاقوامی صورتحال کی حقیقت ہے ۔۔۔لیکن ایک چیز ہے جواگراللہ تعالى چاہےتو  ہوسکتی ہے  اور جوعلاقائی اوربین الاقوامی صورتحال کو یکسر بدل سکتی  ہے اوروہ یہ ہے کہ اگر ادلب میں مختلف گروہ اپنا کردار صحیح طریقے سے، اللہ تعالیٰ سےمخلص ہو کے ایمانداری سے  ادا کریں ۔ ادلب  میں یہ گروہ  دو قسم کی ہیں:


پہلاگروہ: ترکی کے ساتھ منسلک فوجی گروہوں ہیں جنہوں نے، مختلف علاقوں  سے انخلاء کیا    اوردھوکہ دیا۔اور ترکی کےشدید دباؤ کی وجہ سے مصالحت اور جنگ بندی  کی اور ان خیالات کو پھیلارہے ہیں،یہ گروہوں کے لیڈروں کی ضمیر فروشی اور سعودی پیسے کی فراوانی کی وجہ سے ہے۔یہ وہ گروہ ہیں کہ جن کو ترکی نے آستانہ مذاکرات میں گھسیٹا  تھا اورجس کے نتیجے میں ان گروہوں نے علاقے خالی کر کےبشار حکومت کے حوالے کردیے۔یہ وہ گروہ ہیں جو آج حق کےراستے  میں  رکاوٹ بن کے کھڑے ہیں،یعنی یہ ایسے آلہ کار بن گئے  ہیں کہ جنہوں نے نے شام کے انقلاب کو کمزور کیا اور بہت سے علاقوں کوترکی  کے جھوٹےوعدوں کی وجہ سے گنواں بیٹھے۔۔۔ لیکن چونکہ ان گروہوں کی صف میں مخلص افرادموجود  ہیں، لہٰذا ان کے درمیان سنجیدگی سے ترکی کی دھوکہ دہی کے بارے میں سرگوشیاں گردش کررہی ہے۔اردوان نے ان سرگوشیوں کومحسوس کیاجس کا اُس نے روس کے صدر، پوٹن اور ایران کے روہانی کے ساتھ تہران سربراہی اجلاس میں اظہار کرتےہوئےکہا کہ "اپوزیشن  غیر فوجی علاقے کے قیام کے بعددھوکہ محسوس کررہی ہے(الجزیرہ.نٹ2018/9/7)۔اردوان نے مانا ہے کہ شام کے گروہوں کو دھوکہ دینے کے منصوبوں کا ان کو پتاچل گیا ہے، جس سے اردوان سب سے زیادہ  خوف زدہ ہے، اسی لیے ترکی کے منصوبے کے مطابق امن و امان کے حل کو مسترد کرنے والے گروہوں سے لڑنے کے لئے اب تک ان گروہوں  نے کوئی  جلدی نہیں کی۔۔۔۔اور ترکی کی دھوکہ دہی کو نمایا کرتے ہوئے ان گروہوں کو آمادہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ  ادلب پر حملےکی صورت میں شدید لڑآئی کریں۔۔۔


دوسراگروہ:اس دوسرے گروہ کو اکثرمیڈیا میں"دہشتگردوں" کے نام سے پکارا جاتا ہیں۔ اس گروہ نےشام کے مختلف علاقوں غوطہ، جنوب، حمص، مشرقی حلب اور دوسری جگہوں سے انقلابیوں کو جلاوطن ہونے پر مجبورکیا ہے۔ یہ  گروہ  شام کے قابل  ذکر حصے پر اپنا  کنٹرول رکھتا ہے۔


اور اس کے باوجود   کہ  یہ تعداد میں کتنے ہیں اور ان کے پاس  اسلحہ کس قسم کا ہے ان کے خوف کا خلاصہ شام پرامریکی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے،کہ جن میں لکھا ہے کہ شامی اپوزیشن میں "انتہا پسند"قوتیں، اگرچہ تعداد  میں زیادہ نہیں ہیں، مگر شام کے ہرمحاذ  پر بڑی لڑائیوں میں مصروف ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا   جاسکتا ہے کہ یہ  گروہ ایک مضبوط طاقت ہے کہ جسےآسانی سےشکست  نہیں دی جاسکتی۔۔۔خاص طور پر جب ادلب انقلابیوں کا آخری علاقہ سمجھا جاتا ہے، تو اس میں لڑائی عام طور  پرشدید ہو گی کیونکہ انقلابی یہاں پھنسے ہوئے ہیں اور اس  میں سے باہرنکلنے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔اس لیے جنگی لحاظ سے لڑائی ابھی تک بشار  حکومت کے حق میں نہیں ہے اس کے باوجود  کہ روس نے لڑائی کے لیے وسیع پیمانے پر فوجی تیارئیاں کی ہیں۔بلکہ ادلب میں جنگ کی صورت میں اس کی مدت میں طوالت اوربشار حکومت  کی مقامی افواج اور اس کے پیروکاروں کی اس میں  شمولیت حکومت کی جانب سے پہلے  سےکنٹرول میں  لیے گئے دیگر علاقوں کو اس کے کنٹرول سے باہر نکال سکتے ہیں۔


لہٰذا، تمام قسم کے یہ گروہ اگر  اللہ تعالیٰ سے مخلص ہیں،تو وہ امریکہ کے روس کو بلیک میل کرنے کے اس دباؤ کےحالات کا فائدہ اٹھائیں،اور ترکی کی  دھوکہ دہی اور سعودی عرب کے پیسے کورد کر دیں۔۔۔۔ اوران سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا  یہ ذکر یاد رکھیں:


﴿كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ﴾
"بار ہا بڑی جماعت پرایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب آئی"( سورة البقرة:249)


لہٰذا اگر یہ  گروہ شکست تسلیم نہیں کرتے اور اخلاص سے اللہ کے  حکم   پر عمل کرتے ہیں تو ان شاءالله  یہ ادلب   میں  ہی اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی منصوبہ بندی کو ختم کردیں گے اور انہیں شکست دے  دینگے۔


﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
"اور اللہ یقینا اس کی مدد کرے گا جو اس کی حمایت کرتا ہے. بے شک اللہ طاقتور اور غالب ہے۔"( الحج:40)


12 محرم الحرم 1440 ھ
9/22/ 2018 عیسوی

Last modified onپیر, 29 اکتوبر 2018 23:56

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.