الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: شام کے مسئلے میں ترکی کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعلقات

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

شام کے مسئلے میں ترکی کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعلقات

 

سوال:

 ترک وزیر اعظم نے13 جولائی2016 کو ایک بیان میں کہا کہ ترکی شام کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے گا۔ "زمان عربی" نے 13 جولائی2016 کو خبر شائع کی کہ:"ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ ترکی شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائے گا"۔۔۔شام کے حوالے سے ترک پالیسی میں اس اچانک اور متضاد تبدیلی کے پس پردہ کون سے عوامل ہیں؟ کیا یہ ترکی اور شام کے درمیان صلح جوئی ہے؟ یا یہ امریکی پالیسی ہے جو ترک سیاست پر اثر انداز ہورہی  ہے؟ اللہ آپ کوبہترین جزا دے۔

 

جواب:

سوال میں مذکورہ مسائل کے جواب کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

اول: داود اوگلو کی برطرفی  اور بن علی یلدرم کے وزیر اعظم بننے کے بعد ترکی اور روس کے درمیان صلح صفائی کی بات چیت شروع ہوئی۔ ترکی پوسٹ نے4 جون2016کو یعنی  اردوگان کی جانب سے22 مئی2016 کو  وزیر اعظم نامزد کرنے کے تقریبا دس دن بعد " بن علی یلدرم نے  اعلان کیا کہ نئی حکومت  روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی  اور ایران کے ساتھ تعاون کو پائیدار کرے گی۔  پروگرام کے متن میں یوں آیا کہ:" ترکی بات چیت کے ذریعے روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی جدوجہد کر رہا ہے""۔ اس کے بعد جون2016 کے مہینے میں  روابط میں تیزی آئی  پھر معاملات  حیران کن اور مشکوک طور پرواضح ہونے لگے اور بیانات میں تضاددیکھنے کو ملا  جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

 

ا۔  ترکی یہ بات کہتا آرہا تھا کہ روسی جہاز نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی  کی تھی اس لئے معافی نہیں مانگی جائے گی مگر27 جون2016 کو معافی مانگ لی: " کرملین کے ترجمان دیمتری بیسکوف نے کہا کہ" ترک صدر نے  مرنے والے روسی پائلٹ کے اہل خانہ سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ  اردوگان نے کہا" وہ ترکی اور روس کے درمیان گرم جوشی پر مبنی روایتی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے اپنی بھر پور کوشش کرے گا" ( العربیہ27 جون2016)۔

 

ب۔ پہلے پوٹین دشمن تھا جو ترکمان پہاڑوں پر اپنوں پر بمباری کر رہا تھا، اب اس کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت شروع ہو گئی۔ چنانچہ اردوگان نے 29 جون2016 کو پوٹین سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور"  ترکی صدارتی ذرائع کے مطابق  ٹیلی فونک بات چیت انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی"( العربیہ الجدید 29 جون2016)۔۔۔

 

ج۔پہلے ترکی کے شام کے مسلح گروپوں  کی درجہ بندی کے حوالے سے  روس کے ساتھ اختلافات تھے  لیکن اب مکمل اتفاق اور ہم آہنگی ہو گئی(۔۔۔ روسی وزیر خارجہ لاو روف نےیکم  جولائی2016 کو  چوچی میں ترک وزیر خارجہ سے ملاقات کی،  جس میں شام کا موضوع دونوں ملکوں کے درمیان  افہام وتفہیم کے حوالے سے بات چیت میں اہم ترین موضوع تھا، اور دونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اتفاق کیا چنانچہ"روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شام میں دہشت گردوں کی درجہ بندی کے حوالے سے ماسکو اور انقرہ کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی نفی کی،  اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو طرفہ تعاون دوبارہ شروع کرنے کی تصدیق کی) (رشیا ٹوڈے یکم جولائی2016)۔

ترکی کی جانب سےشام میں  روس کے ساتھ"دہشت گرد جماعتوں " کی درجہ بندی پر اتفاق  قابل توجہ  مسئلہ ہے،  کیونکہ یہ گزشتہ کئی سالوں سے ترکی کی جانب سے شامی حزب اختلاف کی اعلانیہ حمایت کے موقف کےباوجود ہے۔ لہٰذا   اب یہ ایک نیا موضوع ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا ۔

 

د۔  پھر دونوں صدور پوٹین اور اردوگان کے درمیان  ملاقات میں جلدی کی گئی جو کہ ستمبر  2016میں چین میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس کے موقع پر متوقع تھی۔   ترک وزیر خارجہ کی جانب سے  سربراہی ملاقات میں  جلدی کا اعلان اور یہ کہنا کہ یہ اگست کے مہینے میں ہی روس میں ہو گی۔" انٹر فیکس نیوز ایجنسی نے ترک وزیر خارجہ سے منسوب یہ بیان شائع کیا کہ  روسی صدر ولادی میر پوٹین اور ترک صدر رجب طیب اردوگان اگست میں  میں ہی چوچی میں ملاقات کریں گے۔  دوسری طرف روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ : ہم توقع کرتے ہیں کہ روسی اور ترک فوج کے درمیان شام کے حوالے رابطے ہوں گے" (العربیہ نیٹ2 جولائی2016)۔۔۔

 

ھ۔"روسی صدر ولادی میر پوٹین کے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت  کے بعد روس نے سیاحت کے میدان میں ترکی پر لگی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے احکامات جاری کیے۔  پوٹین نے وزیر اعظم دیمتری مید ویدیف سے ترکی کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری قانونی ترامیم کے لیے اقدامات  کرنے کا مطالبہ کیا"( رشیا تو ڈے11 جولائی2016)۔

 

2۔ جہاں تک بیانات میں تضادات کا تعلق ہے:

ا۔ ترک وزیر خارجہ کی جانب سے4 جولائی2016 کو یہ اعلان کہ  ان کا ملک روس کی جانب سے اضنہ میں موجود  "انجرلیک" کے فضائی اڈے کو "شام میں دہشت گردوں " پر بمباری کے لیے استعمال کرنے کی مخالفت نہیں کرے گا۔ اس کے بعد ترکی نے اس کی تردید کی،(اس سوال کے جواب میں کہ کیا روسی جنگی جہازوں کے لیے  انجر لیک کے فضائی اڈے کو استعمال کرنا ممکن تھا ترک وزیر خارجہ نے کہا"روسی جہازوں کے انجر لیک اڈے میں آنے کے حوالے سے  میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا") (الجزیرہ نیٹ 4/7/2016)۔

 

ب۔ترک وزیر اعظم بن علی یلدم نے اعلان کیا کہ ان کا ملک  روس کے مارگرائے جانے والے ایس- 24  جنگی طیارے کا ہرجانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹین سے  اس حادثے پر معافی مانگ چکے تھے، اور روس ترکی تعلقات کو پہلے کی طرح بحال کرنے کی دعوت بھی دے چکے تھے( الغد28 جون2016)۔ اس کے بعد پھر  تردید کی گئی، " اس دوران ترک وزیر اعظم بن علی یلدم نے حادثے پر روس کو ہر جانہ ادا کرنے کے اپنے بیان سے مکر گئے۔ ذرائع ابلاغ نے یلدرم کا یہ بیان نقل کیا کہ " روس کو ہرجانے کی ادائیگی موضوع بحث نہیں"۔  اس کے بعد ٹی وی پر پھر ان کا بیان نشر ہوا کہ انقرہ  اس حادثے پر جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوئے ہر جانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے" (بی بی سی28 جون2016)۔ پھر ہرجانہ سے ملتی جلتی بات کی گئی کہ ، " جمعہ کے دن روسی قونصل جنرل کے ساتھ انطالیہ میں ملاقات کے دوران ساحلی شہر کیمر کے میئر نےہلاک ہونے والے روسی پائلٹ کے اہل خانہ  کو    گھر دینے کی تجویز پیش کی" (رشیا ٹو ڈےیکم جولائی2016)۔۔۔

 

دوم:  سب کچھ غور سے دیکھنے سے ان معاملات کے پس پردہ عوامل کا ادراک ممکن ہے۔۔۔ یہ جلد بازی اور یہ تضادات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ  یہ اقدامات مقامی نہیں  ورنہ یہ اس قدر عجیب وغریب طریقے سے پیش نہ آتے۔ جلد بازی اور شش وپنج اس بات کی دلیل ہے کہ کسی خارجی آمر کا کوئی اہم مفاد اس میں ہے جس کو وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔۔۔اب رہا یہ سوال کہ یہ خارجی آمر کون اور اس کا مفاد کیا ہے؟  تو یہ خارجی آمر امریکہ اور مفاد شامی حکومت کے ساتھ اس کا لبرل سیاسی حل ہے، اس کے دلائل مندجہ ذیل ہیں:

1۔ امریکہ نے شامی حکومت کو سہارا دینے اور انقلابیوں کو حکومت کے ساتھ مشترکہ لبرل حکومت تشکیل دینے پر مجبور کرنے کے لیے مقدور بھر کو کشش کی اور اس کے لیے ایران، اس کی تنظیم اور ملیشیاوں کو استعمال کیا مگر ناکام رہا۔۔۔پھر روس کے میزائلوں، راکٹوں اور آبدوزوں کو استعمال کیا مگر ناکام رہا۔۔۔ سعودیہ کو استعمال کیا اس کے ذریعے بعض مسلح گروپوں پر مشتمل مذاکراتی وفود تیار کیے مگر اس کی کوششیں رائیگاں گئی۔۔اب امریکہ یہ گمان کر رہا ہے کہ شاید ترکی وہ کر دار ادا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس میں اس کے سابقہ سارے وسائل ناکام ہوئے۔

 

2۔روس ترکی مفاہمت کا نمایاں موضوع شام ہے۔ طرفین اپنی ملاقاتوں اور رابطوں میں شام کے مسئلے کو حل کرنے پر ہی زور دیتے ہیں۔  دونوں یہ اعلان کرتے ہیں کہ "دہشت گرد جماعتوں" کی درجہ بندی کے حوالے سے دونوں میں کوئی اختلاف نہیں: (۔۔۔روسی وزیر خارجہ لاو روف کی ترک وزیر خارجہ سےیکم جولائی2016 سوچی میں ہونے والی ملاقات میں شام کا موضوع ہی دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کا اہم موضوع تھا،  دونوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے متفق ہیں، "روسی وزیر خارجہ سرگئی لاو روف نے اس بات کی نفی کی کہ شام میں دہشت گردوں کی درجہ بندی کے حوالے سے روس اور ترکی میں کوئی اختلاف ہے، انہوں نےدہشت گردی کے خلاف جنگ کے میدان میں دوطرفہ  تعاون کی یقین دہانی کرائی")(رشیا ٹو ڈےیکم جولائی2016)۔ اور "روسی وزیر خارجہ سرگئی لاو روف نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ کے ساتھ شام کے بحران کے  حل کےحوالے سے بات چیت زیادہ واضح ہو گی، اور یہ کہ روس اور ترکی کے درمیان تعلقات بھی  بحال ہوں گے۔  اور  "رشیا ٹوڈ ے"نے لاو روف کا یہ بیان نقل کیا کہ:"مجھے امید ہے کہ یہ شام کے مسئلے کو زیادہ سرگرمی سے حل کرنے میں مشترکہ نقطہ نظر تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو گا۔۔۔" ، اپنے بیان میں اپنے ترک ہم منصب مولود جاویش اوگلو کے ساتھ حالیہ ملاقات کی طرف بھی اشارہ کیا، جو کہ گزشہ ماہ کے اواخر میں ہوئی، کہ یہ بات چیت واضح تھی اور مزید کہا کہ" ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں اور  شام کے دوست ممالک کے فیصلوں  کو عملی جامہ پہنانے کے لیے معاہدے تک پہنچنے کے لیے زیادہ صراحت کے ساتھ مشاورت کریں گے" ( النباء العربی 12 جولائی2016)۔

 

3۔اپنے انتہائی قابل توجہ بیان میں جس سے ترکی کے گرنے کا اندازہ ہو تا ہے ترکی نے اعلان کیا کہ  وہ اپنے دوستوں کی نیٹ ورک میں اضافہ کرے گا جس میں شامی حکومت بھی شامل ہے، چنانچہ:" ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ شام کے مسئلے کا حل ممکن ہے مگر  اس حوالے سے سب کودرکار قربانی دینی ہوگی۔ یلدرم نے مزید کہا کہ"ہمارے تزویراتی شرکاء اور بین الاقوامی اتحاد میں ہمارے شرکاء کو شام کے زخم بھرنے کے لیے کام کرنا چاہیے"۔ اوراس نے یہ انکشاف کیا کہ ترکی اپنے ارد گرد سیکیورٹی دائرے کو مضبوط بنائے گا،  اپنے دوستوں کے نیٹ ورک کو وسعت دے گا، اوراس حوالے سے اس نے  ترکی کی جانب سے سب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا ذکر کیا جس میں روس،عراق، شام، مصر، اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں" (الجزیرہ نیٹ5 جولائی2016)۔ ۔۔ یہ بیان تو اجمالی تھا اس کے بعد13 جولائی2016 کو  شامی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے واضح بیان آگیا۔   ترک "زمان عربی" نے 13 جولائی2016 کو  خبردی کہ:" ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ  ترکی شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائے گا، اس خبر کو دوسرے ذرائع ابلاغ جیسے رائٹرز اور العربیہ وغیرہ نے بھی نقل کیا(نیوز نیٹ ورک)"۔۔۔

 

سوم: امریکہ ترکی کے موجودہ کردار کے ذریعے شامی اپوزیشن پر پوری قوت کے ساتھ دباؤ میں اضافہ کر کے جنیوا کے سفر کو دوبارہ شروع کر کے پرامن حل چاہتا ہے،  جس میں یہ بھی شامل ہے کہ اپوزیشن27 فروری2016 کو امریکہ اور روس کی جانب سے شام  میں"جنگ بندی"کے اعلان کی پابندی کرے۔۔۔ اگر  اپوزیشن مذاکرات کے سفر میں شامل ہونے سے انکار کرتی ہے تو  روس اور ترکی کے درمیان تعاون کے اظہار کے ذریعےاس کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی گئی: " روسی وزیر خارجہ نے کہا: ہم شام کے حوالے سے روسی اور ترک فوج کے درمیان رابطوں کی امید کرتے ہیں" (العربیہ نیٹ2 جولائی2016)۔۔۔ اور ترکی شام میں روسی مداخلت کی مزید مخالفت نہیں کرے گاکیونکہ  ترکی کو دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے اور شامی اپوزیشن کو"دہشت گرد جماعتوں"کی سرکو بی کرنی چاہیے جیسا کہ امریکہ، روس اور ترکی چاہتے ہیں۔۔۔ترکی کی یہ دھمکی شامی اپوزیشن میں سے ان گروپوں پر اثر ڈالے گی  جو اب بھی ترکی سے مدد کی آس لگائے ہوئے ہیں،  جن کے ترکی کے ساتھ روابط اور تعلقات ہیں،  جو یہ سمجھتے ہیں کہ اردوگان دوسرے حماۃ کی اجازت نہیں دے گا ۔ امریکہ کو امید ہے کہ ان جماعتوں کو شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا جائے گا ۔۔۔ اوریہ بھی بعید از امکان نہیں کہ ترکی دباؤ ڈالنے کے لیے سیاسی وسائل سے آگے بڑھے اور داعش تنظیم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عسکری کاروائی کرے کیونکہ وہ بھی دوسرے مسلح اپوزیشن سے الگ یا نمایاں نہیں۔ یعنی وہی بہانہ جو روس اپوزیشن پر بمباری کے لیے استعمال کرتا ہے! روسی وزیرخارجہ کا روسی اور ترکی فوج کے درمیان رابطوں کا بیان اس احتمال کی دلیل ہے۔۔۔

 

چہارم: اوباما بھی اپنے پیش رو ڈیموکرٹک کلنٹن کی طرح  کام کرنا چاہتا ہے جیسے اس نےاپنی حکومت کے آخری سال میں مسئلہ فلسطین کے فیصلہ کن حل کے لیے تنظیم آزادی فلسطین اور یہود کو مذاکرات کے میز پر بیٹھا نے کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کردیا تھا۔اگر چہ وہ اس میں نا کام ہوا تھا مگر یاسر عرافات اور ایہود باراک کو ایک میز پر بیٹھانے میں کامیاب ہوا۔۔۔ اب اوباما  شامی اپوزیشن اور حکومت کو مذاکرات کی میز پر اکھٹے بیٹھا نا چاہتا ہے تا کہ یہ ایک ایسا کام ہو جو اس کی حکمرانی کے آخری دنوں کی یادگار بنے۔  مگر کلنٹن اور اوباما کی کوشش میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر کی کوششیں اپنے ایجنٹوں کے سامنےواضح اور نمایاں تھی جبکہ  اوباما اپنے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کے پیچھے چھپ کر کام کر رہا ہے! ان کے دور میں امریکہ اپنے پیروکاروں پر زیادہ اعتماد کر رہا ہے، ایران اور اس کے چیلوں کے بعد، روس کے بعد، شام میں  امریکہ اپنی پریشانی کو حل کرنے کے لیے اردوگان اور روس میں سودا بازی کرادی، جو کہ اس کی حوصلہ افزائی اور شام میں انقلابیوں پر بمباری میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے تا کہ ان پر دباؤ میں اضافہ کر کے ان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے۔

 

پنجم: یوں ترکی کا روس کے ساتھ صلح کے لیے دوڑ پڑنا اورشام کے حوالے سے تند وتیز بیانات اور اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا سب صرف شام کی صورت حال کے حوالے سے امریکی پالیسی پر عمل میں جلدی کے لیے ہے۔ جب  شام میں ایرانی اور روسی مداخلت ناکامی سے دوچار ہونے لگی تب امریکہ نے ترکی کو روس اور ایران کے پلڑے میں ڈالنے کے لیے دوڑ لگائی تا کہ شام میں امریکی اثرو نفوذ کو بچایا جائے، اور شام کی تحریک کے اسلامی پہلو کو ختم کیا جائے۔۔۔ترک حکومت کا اس طرح بے نقاب ہونا  کہ وہ روس کے ساتھ تعاون کر رہی ہے جو حلب اور اس کے آس پاس علاقوں میں مسلسل بمباری کر رہی ہے، یہ بے نقاب ہو نا ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا  چاہیے جو اردوگان اور اس کی حکومت کےدھوکےاور گمراہی کا شکار ہیں تاکہ وہ اس سے الگ ہوں اور خود کو کفار کی سازشوں امریکہ اور اس کے مدد گار ترک حکمرانوں سے دور کرلیں۔ ترک حکومت کی جانب سے شامی تحریک کی حمایت کے جھوٹے دعوے اور حماۃ اور حلب کی مدد کے دعوے  روسی حملوں سے اور روس کے ساتھ تعاون سےمکمل بے نقاب ہو چکے ہیں۔۔۔یہ دعوے ہوا کے جھونکوں کے نظر ہو چکے ہیں اور دعوے کرنے والوں کے خلاف حجت بن چکے ہیں! صرف یہی نہیں بلکہ وہ   مسجد اقصی اور ارض مقدس کو غصب کرنے والے یہود کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر چکے ہیں: ( انقرہ/القدس رائٹرز – ترکی اور اسرائیل نے چھ سال کے بعد منگل کو تعلقات کو بحال کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔۔۔یہ تعلقات اسرائیلی بحریہ کی جانب سے  اس ترک کشتی پر حملے کے بعد منقطع ہو گئے تھے جو ترکی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو لے کر مئی 2010 میں غزہ کا محاصرہ توڑنے جا رہی تھی، جس میں دس لوگ قتل کیے گئے۔۔۔ ترکی اور اسرئیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق  غزہ کی پٹی کا بحری محاصرہ ترکی کی جانب سے انسانی بنیادوں پر سمندری راستے سے امداد کے لیے محاصرہ اٹھانے کے مطالبے کے باوجود جا رہی رہے گا۔اوراسرائیل  (جس نے  2010 میں مرمرہ کشتی پر حملہ کرنے پر معافی مانگی) نے مقتولیں اور زخمیوں کے اہل خانہ کو 20 ملین ڈالر ادا کرنے کی حامی بھری۔  معاہدے کے مطابق  ترک پارلیمنٹ میں قرار داد منظور کر کے حملہ کرنے میں شریک اسرائیلی فوجیوں کو معافی دے گی" ( رائٹرز28 جون2016)۔ ترکی اور اسرئیل کے درمیان صلح یہود کی شرائط پر ہوئی ہے، جس کی رو سے غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جائے گا۔  ترکی کی شرط کو قبول نہیں کیا گیا  جبکہ ترکی کی جانب سے  انسانی بنیادوں پرفلسطینوں کے لیے امداد غزہ بھیجنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے،  چنانچہ یہ امداد  اسدود کی بندر گاہ کے ذریعے بھیجی گئی یعنی یہود کی مکمل نگرانی میں،  پھر اس کو  کرم ابو سالم کی گزر گاہ سے غزہ بھیجا گیا!

 یوں مسجد اقصی اور ارض مقدس پر غاصبانہ قبضہ کرنے والا یہودی وجود ، اردوگان اور اس کی حکومت کے دوست بن گئے  مگر  ترکی کی منت سماجت کے باوجودغزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا،بلکہ جن یہود ی فوجیوں نے کشتی میں سوار نہتے لوگوں کو قتل کیا تھا ان کو معاف کرنے کے لیے ترک اسمبلی میں باقاعدہ قانون منظور ہوگا  اوربدلے میں چند ڈالر لیں گے!!

 

 یوں روس دن رات شام پر بمباری کر رہا ہے اور ترکی "شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر اس سے تعاون کر رہا ہے،  دونوں کے درمیان "دوستانہ ماحول میں باچیت " ہو رہی ہے،  بلکہ روسی وزیر خارجہ روسی اور ترک فوج کے درمیان شام کے حوالے سے رابطوں کا مطالبہ کر رہے ہیں!!

آخر میں ہم  یہ سب یہ سوچ کر نہیں کہہ رہے کہ کوئی ایجنٹ باز آجائے گا یا مشرق و مغرب کے ایجنٹ اور آلہ کار فلسطین یا شام کو آزاد کرائیں گے بلکہ ہم

 

﴿مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

"تمہارے رب کے سامنے معذرت کے لیے شاید کہ وہ ڈر جائیں" (الاعراف:164)

 

اور ہم یہ یاد دہانی اور نصیحت کے لیے کہتے ہیں 

 

﴿لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾...

   "جن کے پاس دل ہیں یا وہ کان لگا کرسن کر گواہ بن سکتے ہیں"(ق:37)۔

 

جہاں تک فلسطین یا شام کی آزادی کی بات ہے تو ان کو وہ لوگ آزاد کرائیں گے جن کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ

"وہ ایسے جواں مرد ہیں کہ تجارت اور کاروبار ان کو اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتے"(النور:37)

اور یہ اللہ کے اذن سے ضرور ہونے والا ہے، 

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ

"اور کچھ عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"(ص:88)۔

 

9 شوال 1437 ہجری

بمطابق 14 جولائی 2016                                   

Last modified onبدھ, 14 ستمبر 2016 20:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک