الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

اعمال میں کوتاہی ایک مسلمان کو اس کے عقیدہ سے محروم نہیں کرتا

بنام عبدالجلیل زین

 

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

اللہ ﷻ آپ پراپنا کرم فرمائے ،آپ کا حامی و ناصر ہو اور جزائے خیر عطا کرے۔

مکرّمی امیر محترم

کتاب "اسلامی شخصیت" جز اول میں درج ہے کہ مسلمانوں کے بعض ایسے اعمال ہیں جو کہ اسلامی عقیدہ کے برعکس ہیں تاہم ان کے عقیدہ سے اخراج کا باعث نہیں بن سکتے۔اور توضیحاً درج ہے کہ ایک مسلمان غفلت سے ایسے مفاہیم کو اپنے عقیدے یا اسلامی شخصیت سے جوڑ لیتا ہے یا پھروہ ان کے تناقض سے یکسر لا علم ہو سکتا ہے اور بسا اوقات شیطان کے وسوسے دلوں میں جگہ کر لیتےہیں اور ان کے زیراثرعمل اپنے عقیدے سے دوری کا سبب بنے جاتے ہیں۔

ایسی صورت میں پھر کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے جبکہ اس کا عمل اسلامی عقیدے سے بر عکس ہے؟

اب اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی تکفیر کرتا ہے تو کیا یہ تکفیر دو میں سے ایک پرلاگو نہیں ہوتا جبکہ اس کا اعلان کفر پر مبنی تھا؟

میں جانتا ہوں کہ اعمال میں اقوال اور افعال دونوں شامل ہیں۔ چنانچہ جب ایک مسلمان نے کسی بت کو سجدہ کیا تو ایس صورت میں وہ کافر ہوا۔ میری خواہش ہے کہ آپ ان افعال کے معاملے میں مزید وضاحت فرمائیں جو عقیدہ کے تو  برعکس ہوں تاہم ایک مسلمان کے ایسے افعال کر گزرنے کے باوجود اس کے مسلم رہنے پر اثر انداز نہ ہوں؟

کیا ان افعال میں اللہﷻ کے نازل کردہ سے ہٹ کر ،دہریت پر مبنی لادینی نظام سے یا اس جیسے دوسرے نظام سے حکمرانی کرنا،  بھی شامل ہے؟

جزاک اللہ خیر

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اولاً، آپ کا سوال "اعمال میں تضاد"کے موضوع کے تحت اسلامی شخصیت جز اول میں جو درج ہے اس کی بابت ہے وہی یہ مندرجات بھی موجود ہیں کہ کئی مسلمان اپنے عقیدے سے متضاد عمل بروئے کار لاتے ہیں اور یہ کہ بعض لوگ لا علمی سے اپنے عقائد اور مفاہیم میں ہم آہنگی لانے میں ناکام رہے یا پھر ایسے مفاہیم اور عقیدہ یا اسلامی شخصیت میں تضاد ہی سے یکسر نا واقف ہوتے ہیں یا پھر شیطانی وسوسے دلوں میں جگہ کر لیتے ہیں اور ان کا اثر ایسا عمل کرتے ہوئے اسے اس کےعقیدے سے دوری کا باعث بنتے ہیں یعنی ایسے عمل کر بیٹھتے ہیں جو اس کے عقیدے سےموافقت نہیں رکھتے۔ اور اسی نوعیت کےاور بھی مندرجات موجود ہیں۔ ان مندرجہ بالا فقرہ جات کا مدعا وہ نہیں جس کا ذکر آپ کے سوال میں ہے کہ ایسا عمل جو کسی کو اسلامی عقیدے سے خارج کر دے بلکہ ان کا مطلب تو ایسے افعال کی سرزردگی ہے جو کے یا تو حرام ہیں یا پھر اصل میں سرکشی اور نافرمانی کے ہیں  بنصبت ان احکام شرعیۃ کی عمل برداری کے جو کہ عقیدہ لازم کرتا ہے نا کہ ان سے روگردانی۔ اس کی وضاحت کئی جگہ مزکور ہے :

 

۔ مثلاً اس بات کا ذکر موجود ہے کہ”حق یہ ہے کہ ایک مسلمان کے برتاؤ میں کوئی بھی  کوتاہی اسے اس کی اسلامی شخصیت سے محروم نہیں کرتا۔ شاید وہ لا علمی سے اپنے عقائد اور مفاہیم میں ہم آہنگی لانے میں ناکام رہا یا پھر ایسے مفاہیم اور عقیدہ یا اسلامی شخصیت میں تضاد ہی سے یکسر نا واقف تھا  یا پھر شیطانی وسوسے دلوں میں جگہ کرگئے اور ان کے اثر کےتحت ایسا عمل کیا جوعقیدے سے دوری کا باعث بنتے ہیں  یعنی ایسے عمل کر بیٹھتے ہیں جو ایک دین کے پابند مسلمان کے لائق نہیں یا پھر وہ اللہﷻکے احکام (اوامر و نواہی) کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو۔ وہ یہ سب یا کچھ، حالتِ ایمان میں کر رہا ہوتا ہے اور اپنے عقیدے ہی کو اپنے افکار اور احساسات کی اساس سمجھتا ہے۔  تو پھر ایسی تمام صورتوں میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے شخص نے اسلام چھوڑ دیا یا کہ ایسے فرد کی شخصیت غیراسلامی ہے۔ جب تک وہ اسلامی عقیدہ قبول کیے ہوئے ہے مسلمان ہی ہے چاہے اس سے دیگر عمور کے ہمراہ گناہ اور نا فرمانی کا عمل ہی کیوں نا ہو جائے"۔

 

۔"چنانچہ یہ حیرانگی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ کسی مسلمان سے کسی عمل میں اللہﷻ کےاوامر و نواہی میں سے کسی ایک کی حکم عدولی ہو جائے۔ ہو سکتا ہے اس کے نزدیک اپنے برتاؤ کو عقیدہ کے ساتھ جوڑنے کے لیے حالات سازگار نا ہوں یا پھر جو کچھ کیا اس کو اس وقت اپنے مفاد میں بہتر سمجھا پر بعد میں نادم ہوا اور اپنی خطا کو پہچانا اور تائب ہو کر اللہﷻ کی طرف واپس لوٹ پڑا۔ اللہﷻ کے احکام کی ایسی نافرمانی عقیدے کی نفی نہیں لیکن عقیدے سے وابستگی کی کمزوری پر دلالت ہے۔ چنانچہ گناہگار (عاصی) اور فاسق کو مرتد نہیں سمجھا جاتا بلکہ صرف اسی نافرمانی کےعمل کے معاملے میں نافرمان مسلمان سمجھا جاتا ہے اور اسی عمل کی پاداش میں سزا دی جاتی ہے۔ اور اس وقت تک مسلمان ہے جب تک عقیدہ اسلام قبول کیے ہوئے ہے۔" یہاں اسلامی شخصیت جز اول میں درج وضاحت مکمل ہوئی۔

 

۔ اس وضاحت سے واضح ہے کہ ایک مسلمان کا منکرات اور غیر شرعی اعمال میں مشغول ہو جانا اس کے عقیدہ وایمان کی نفی  نہیں ہے جیسےکہ کوئی شراب پیے یا چوری کرے، اس ستر کی طرف دیکھے جس کی اجازت نہیں وغیرہ۔ یہ تمام معاملات کسی کو گناہگار(عاصی) اور فاسق تو بنا سکتے ہیں مگر کافر نہیں جب تک کہ وہ عقیدہ اسلام پر یقین رکھے ہوئے ہے۔

 

دوئماً: جہاں تک ان اعمال کا تعلق ہے جیسے کہ بتوں کو سجدہ کرنا یا یہود یا نصارٰی کی عبادات میں شامل ہونا تو یہ صرف عقیدہ کی خلاف ورزی اور دوری ہی نہیں بلکہ اس سے بیزاری اور  کل دین اسلام سے اخراج کا بھی اعلان ہے۔ جو کوئی ایسا عمل کرتا ہے ارتداد کا مرتکب ہو تا ہے۔ ہم نے حال ہی ایک جواب از سوال بتاریخ 30 اپریل 2017 میں سیرحاصل تفصیل فراہم کی ہے جو کہ فیس بک پردرج ذیل لنک پر دستیاب ہے۔

https://web.facebook.com/AmeerhtAtabinKhalil/posts/622272917969783:0

 

سوئم: جہاں تک "بما انزل اللہ" سے ہٹ کر حکمرانی کی بات ہے تو اس حوالے سے کئی  جوابات میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ مختصراً یہ کہ کفر سے حکمرانی کرنا کفریہ اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ اگر یہ عمل کرنے والے کے ایمان اور اعتقاد کی نشاندہی کرتا ہے یعنی کہ کوئی عمل کسی کے اسلام پر ایمان نہ رکھنے پر دلالت کرے اوراس عقیدہ کے ساتھ کفر سے حکومت کرے کہ حاضر دور میں اسلامی قواعد معقول نہیں ہیں تو پھر ایسا کرنے والا ہر کوئی کافر ہے۔

تاہم ایسا ہر بندہ جو کفر سے حکمرانی کریں مگر اسلام کو ہی درست اور اس سے حکمرانی کو جائز سمجھتا ہے تو وہ ظالم ہے اور فاسق ہے لیکن کافر نہیں۔ سورۃ المائدۃ کی تین آیات میں " بما انزل اللہ" سے ہٹ کر حکمرانی کی طرف توجہ دلائی گی ہے۔ پہلی آیت میں بما انزل اللہ سے ہٹ کر حکمرانی کرنے والے کو کافر قرار دیا گیا، دوسری میں فاسق اور تیسری میں ظالم۔

اللہﷻ کا فرمان ہے کہ 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

"اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں" (المائدۃ:44)

 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ 

"اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ  ظالم ہیں" (المائدۃ:45)

 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 

"اور جو اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ فاسق ہیں"(المائدۃ: 47)

 

ان حکمرانوں پر صحیح فیصلےسے پہلے جو کہ بما انزل اللہ سے ہٹ کر حکمرانی کرتے ہیں ان کے حقیقت حال سے واقف ہونا ازبس ضروری ہے۔

اس بات کی طرف توجہ ازحد ضروری ہے کہ کسی کی تکفیر ہرگز معمولی معاملہ نہیں۔ جو کوئی مسلمان والدین کی اولاد ہے وہ مسلمان ہے۔ اگر کسی پر کفر کا حکم لگنا ہے تو اس کی بنیاد  اس کے کفر کے قطعی شواہد ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر90 فیصد شواہد کفر کی طرف دلالت کریں اور 10 فیصد ایمان کی طرف تو بھی کافر ہونے کا حکم نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کے معاملات کی تحقیق کی جائے گی اور وہ معاملات جو کہ شریعت کے خلاف ہیں ان کی بنیاد پر فاسق، عاصی یا ظالم ہونے کا حکم تو لگ سکتا ہے مگر کافر کا نہیں جب تک کہ اس کے کفر کے قطعی شواہد دستیاب نا ہوں۔ تکفیر کا معاملہ  جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے اور اس میں ارتداد سے متعلق حدود کا اطلاق ہوتا ہے اور اگر ایسے معاملات کو ٹھوس اور قطعی شواہد کی اساس پر نہ پرکھا جائے تو سنگین جرائم اورالمیوں کے واقع ہونے کا حقیقی خدشہ رہے گا۔

یہ ایک حساس اور اہم موضوع ہے اور شرعی نصوص میں اس طرف واضح دلائل موجود ہیں۔

 

1۔ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

"مومنو! جب تم اللہ کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ 'تم مومن نہیں' اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو اللہ کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو اللہ کو سب کی خبر ہے" (النساء:94)

 

اس آیت کے اسباب نزول میں کئی احادیث روایت کی گئیں ہیں۔ ان میں سے ایک امام احمدؒ نے اپنی مسند میں ابو ظبیان سے روایت کی کہ میں نے اسامہ بن زیدؓ سے سنا کہ،

 

«بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ r إِلَى الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: فَصَبَّحْنَاهُمْ فَقَاتَلْنَاهُمْ، فَكَانَ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِذَا أَقْبَلَ الْقَوْمُ كَانَ مِنْ أَشَدِّهِمْ عَلَيْنَا، وَإِذَا أَدْبَرُوا كَانَ حَامِيَتَهُمْ، قَالَ: فَغَشِيتُهُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا غَشِينَاهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَكَفَّ عَنْهُ الْأَنْصَارِيُّ وَقَتَلْتُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ r فَقَالَ: “يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا كَانَ مُتَعَوِّذًا مِنَ الْقَتْلِ. فَكَرَّرَهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ إِلَّا يَوْمَئِذٍ»

"رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ الحرقۃ کی طرف بھیجا۔ ہم صبح کے وقت ان لوگوں پر پہنچے اور انہیں شکست دی۔ان میں ایک شخص تھاجو کہ ہم سے لڑنے میں بڑا شدید تھا اپنے لوگوں کی طرف لوٹ پڑا۔میں اور ایک انصاری ساتھی نے اس کا پیچھا کیا۔ جب ہم نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو اس نے کہا 'نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوا ئےاللہ کے" تو انصاری ساتھی اس کے مقابلے سے ہٹ گئے مگر میں نے قتل کر دیا۔ جب اس وقع کی خبر رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :'اے اسامہ! تم نے اسے قتل کر دیا حالانکہ اس نے کہہ دیا کہ نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوا ئےاللہ کے'۔ میں نے کہا کہ ،'یا رسول اللہ ﷺ اس نے تو ایسا تو اپنی جان بچانے کے لیے کہا'۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر فرمایا 'تم نے اسے قتل کر دیا حالانکہ  اس نے کہہ دیا کہ نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے'۔ اور یہ ہی دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے خواہش ہوئی کہ اس دن سے پہلے اسلام قبول نہ کیا ہوتا"۔

 

2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،

 

«لَا أَزَالُ أُقَاتِلُ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمُوا مِنِّي أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»

" میں لوگوں سے اس وقت لڑنے سے توقف نہیں کروں گا جب تک کہ وہ نہ کہہ دیں کہ نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے۔ اور جب انھوں نے تسلیم کر لیا کہ نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے تو پھر انھو نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، سوائے اس کے جس کا حق ہے اور ان کی آخرت(حساب کتاب) اللہ عزوجل کے ہاتھ ہے" (مسند امام احمدؒ)۔

 

3۔ صحیح امام  بخاریؒ  میں عبداللہؓ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،  

 

أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا

"تم میں سے جس نے اپنے بھائی کواے کافرکہا تو یہ دونوں میں سے ایک کے لیے لازم ہوا"۔

 

اور امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں نافع سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،

 

إِذَا كَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا

"کسی شخص نے اپنے بھائی کی تکفیر کی تو یہ دونوں میں سے ایک لیے لازم ہوئی"۔

 

یعنی کہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ کسی مسلمان کے معاملے میں کفر کے الزام میں جلد بازی کی جائے اور اس معاملے کو معمولی سمجھا جائے۔ بلکہ متعلقہ شواہد اور ان کی صحت کی تصدیق ضروری ہے۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابوالرشۃ

10 شعبان 1438 ہجری

Last modified onجمعہ, 14 جولائی 2017 21:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک