السبت، 24 شوال 1445| 2024/05/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

کراچی کی خراب صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434ہجری،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے دنیا کے تیسرے بڑے شہرکراچی کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔


ا)مقدمہ:کراچی ایک سیاسی،نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز بننے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن ایک کے بعد دوسرے امریکی ایجنٹ حکمران نے ایک پالیسی کے تحت کراچی کواس کے کردار کی ادائیگی سے روک رکھا ہے۔

کراچی جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے ،آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر،پاکستان کا سب سے بڑا شہر،پاکستان کا سابق دارلحکومت اور ایک ساحلی شہر ہے جس کے پاس دو بندرگاہیں ہیں۔تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔اس شہر میں پشاور اور کابل سے بھی زیادہ پشتون مسلمان بستے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ اور پنجابی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے ،مہاجر،مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے وقت شمالی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پانچ سو سال سے بھی زائد عرصے تک یہ اردو بولنے والے مسلمان برصغیر میں اسلامی حکومت میں اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کے خلاف برپا ہونے والی مزاحمت میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ لہذا کراچی کے مسلمانوں کا نہ صرف پورے پاکستان سے قدرتی رابطہ اور تعلق ہے بلکہ ان کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی تعلق اور روابط ہیں۔ ایک طرح سے کراچی قدرتی طور پر پورے پاکستان کو سیاسی و نظریاتی طاقت فراہم کرتا ہے۔کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہے اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔لیکن اقتدار میںآنے والی ہر حکومت نے کراچی کو اسلام کی قوت سے محروم کرکے اس خطے میں کراچی کو اس کے قدرتی کردار کی ادائیگی سے روکا ہے۔ ایجنٹ حکمرانوں نے اس شہر میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کی اور مسلسل فسادات کے ذریعے اس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔حکمرانوں کے انتہائی منفی کردار کے باوجود کراچی نے ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم تھیں ،چاہے ہندوستان سے جنگ ہو یا اسلامی تحریکوں کی پرورش اور ان کو پروان چڑھانا یا ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران اپنے بھائیوں کی بھر پور مددو معاونت ہویا رفاحی کاموں کے لیے سرمائے کی فراہمی، ہر اہم موقع پر اس شہر اور اس کے رہنے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔


ب)سیاسی قدرو اہمیت:کراچی کو مفلوج کرنے کا مقصد
ب1۔جمہوریت حقیقت میں صرف ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اقتدار میں ہوں کیونکہ وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگوں کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ایک طرف جمہوریت ایک پوری آبادی سے لاتعلق ہو جاتی ہے اور انھیں مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریت اقتدار میں بیٹھے لوگو ں کو دوسروں کے حقوق کو غصب اور ان کے خلاف جرائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصراور گروہوں کوسیاسی جماعتوں کے ذریعے ر یاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔یہ پشت پناہی ریاستی اداروں پر اثرو رسوخ کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہو کر ، اسمبلیوں کے ذریعے قوانین بنوا کر اور انتظامی احکامات کے اجرأ کے ذریعے۔ جمہوریت طاقتور گروہوں ،قانون سازوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تعلق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لہذا اس حقیقت میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر مکمل تحفظ کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ب2۔جمہوری نظام میں لوگوں کا خصوصاً نسل کی بنیاد پر جماعتیں تشکیل دینا جمہوریت کا اہم مظہر ہے کیو نکہ اکثریتی گروہوں کی ضروریات کو اقلیتی گروہوں کی ضروریات پر فوقیت دی جاتی ہے۔پھر یہ لسانی گروہ اپنے حقوق اور ریاست کے مال میں اپنے حصے کے حصول کے لیے دوسرے گروہوں سے لڑتے ہیں۔یہ صورتحال ریاست کے مختلف شہریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے میں اس تقسیم کو قوت فراہم کرتی ہے۔اور کراچی کئی دہائیوں سے لسانی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
ب3۔امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کراچی مسلسل اس دشمنی کی آگ میں جلتا رہے۔وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

د)قانونی ممانعت:دشمنی کا خاتمہ اور کراچی کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد و یگانگت
د1۔جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیااور یثرب کومدینے میں تبدیل کرکے پہلی اسلامی ریاست قائم کی،بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے ،اسلام پر مبنی ہے۔اسلام احکامات اور حرمات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں،جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے ۔لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوءں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ7میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست ان تمام افراد پر جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں مسلم ہوں یا غیر مسلم حسب ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذکرے گی :ا)مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تما م اسلامی احکامات نافذکرے گی۔ب)غیر مسلموں کو ایک عام نظام کے تحت ان کے عقیدے اور عبادت کی آزادی دی جائے گی‘‘۔
د2۔خلافت میں سیاسی جماعتیں کسی لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہیں۔سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی فرد یا حکومتی اہل کار کو غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ21میں اعلان کیا ہے کہ'' حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔کوئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی N.O.C(اجا زت ) کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پارٹی ممنو ع ہو گی جس کی اسا س اسلا م نہ ہو‘‘۔
د3۔معاشرے کی عمومی فضأ اسلام کی بنیاد پر ہو گی جو تمام لسانی اکائیوں کے درمیان مشترک رشتہ ہے۔تعلیمی نظام،میڈیا،حکمرانوں کا طرز عمل اور امت جو ان کا احتساب کرے گی، ان سب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوگی جس کے نتیجے میں لسانیت پر مبنی پست سوچ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اگر چہ علاقائی زبانیں موجود ہوں گی لیکن ریاست کی سرکاری زبان صرف عربی ہو گی جو کہ قرآن کی زبان ہے، اللہ کے رسولﷺ کی زبان ہے اور قانون کی زبان ہے۔اس کے نتیجے میں زبان کی بنیاد پر اس کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے سامنا ہے۔ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 8میں لکھا ہے کہ ''عر بی زبان چو نکہ اسلام کی زبا ن ہے ، اس لیے ریا ستی زبان صرف عر بی ہی ہو گی‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات21,8,7سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :کراچی کو اس کی مکمل استعداد کا حامل بنایا جائے گا
ج1۔اسلام کا مکمل نفاذ ،جو کہ تمام مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک رشتہ ہے،لوگوں کے درمیان ہم آہنگی لائے گا اور کراچی تمام لسانی نفرتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کے زیر سایہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔خلافت اپنے تمام شہریوں کے معاملات کا ،بلا امتیازرنگ،نسل،مذہب،مسلک یا جنس، خیال اور تحفظ کرے گی۔
ج2۔سیاسی جماعتیں اسی وقت تک کام کرسکیں گی جب تک وہ اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گی اور امت کے درمیان لسانی نفرتوں کے بیج نہیں بوئیں گی۔ان کے اراکین غیر ملکی سفارت کاروں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکیں گے اور تمام کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں کو بند کردیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

 

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : پیر, 04 فروری 2013م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک