الجمعة، 23 شوال 1445| 2024/05/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت : 216-218

 

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر" سے اقتباس

 

كُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّـكُمْ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّـکُمْ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمْؕ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(216) يَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَـرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ‌ؕ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ‌ؕ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ کُفْرٌ ۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ‌‌ۚ وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ‌ؕ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْـنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ‌ؕ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْـنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓٮِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ‌‌ۚ وَاُولٰٓٮِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ‏‏ (217) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجَاهَدُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِۙ اُولٰٓٮِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‏ (218)

’’تم پر (دشمنوں سے) جنگ کرنا لکھ دیا گیا ہے،اور وہ تم پر گراں ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُرا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو۔ اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے(۲۱۶) لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیساہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں  کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا ،مسجد  حرام پر بندش لگانا اور  اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے۔ اور یہ (کافر) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارا دین چھوڑنے پر آمادہ کردیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دےاور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے ، تو ایسے لوگوں کے اعمال دُنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے۔ ایسے لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔(۲۱۷) (اس کے بر خلاف) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بے شک اللہ کی رحمت کے اُمید وار ہیں، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے‘‘  

 

ان آیات کریمہ  میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے   کئی شرعی احکام ذکر فرمائے ہیں، یہ بھی اسی سیاق کے ذیل میں ہیں جو ہم نے پہلے ذکر کیا تھا:

 

1- یعنی یہ کہ جہاد فرض ہے،  آیت اس پر دلالت کرتی ہے، بشمول ان دیگر دلائل کے جو جہاد کے موضوع سے متعلق مشہور و معروف ہیں۔ جہاں تک اس آیت  کے اندر جہاد کی فرضیت پر دلالت  کا تعلق ہے تو اس کی وجہ :

ا۔ اس آیت میں (كُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِتَالُ) "تم پر قتال فرض کیا گیا ہے"،آیا ہے ۔یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو قتال کا حکم ہے، تو یہ قتال کی طلب ہے۔

 

ب۔ اللہ تعالیٰ نے (وَهُوَ كُرْهٌ لَّـكُمْ)"اور وہ تم پر گراں ہے"، کا ذکر کیا ہے ، یہ اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ طلب جازم ہے، یعنی فرض ہے، وجہ یہ ہے کہ  (کُرْہٌ) کا مطلب ہے مشقت، اور مشقت کے باجود طلب ، طلب جازم (حتمی مطالبہ) کی دلیل ہے ،ور نہ   مشقت کا ذکر بے معنی ہوتا، کیونکہ مشقت کے باوجوداگر طلب جازم نہ ہو تو مکلف یہ کرسکتا ہے کہ وہ اس حکم پر عمل نہ کرے ، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کرہ یعنی مشقت کا ذکر بے معنی ہوجائے گا۔

 

چونکہ طلب ِفعل کے ساتھ مشقت کا بھی ذکر کیا ہے ، جس کا مطلب ہے  کہ یہ جزم کا قرینہ ہے اوریہ کہ یہاں طلب جازم ہے ، چنانچہ جہاد فرض ہے،فقہ میں یہی مذکور ہے۔

پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی نفس کو کبھی ایسی بھی چیز ناگوارگزرتی ہے، جس کا کرنا اس کے لیے مشکل ہو،حالانکہ اس میں بڑا اجر ہوتا ہے چنانچہ ہوتا یوں ہے کہ وہ  وقتی حالات سے زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، بنسبت اس کے کہ جتنا  اس پر ملنے والے اجر سے اس کو متاثر ہونا چاہیے ۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ انسانی نفس بسا اوقات ایسی چیز کو پسند کرے جو اس کے لیے کرناآسان ہو، مگر انجام کے اعتبار سے اس میں شر ہوتا ہے۔

 

مطلب یہ ہوا کہ :  ممکن ہے کہ تم لوگ جہاد میں موجود مشقت کو ناپسند کرو ،حالانکہ وہ تمہارے  لیے خیر ہے، کیونکہ یہ کامیابی ، عزت  اور اشاعت اسلام کا راستہ ہے، یہ دو بھلائیوں کا راستہ ہے ؛ یعنی شہادت یا کامیابی میں سے ایک بھلائی۔ اور ممکن ہے کہ تم آرام و راحت  اور ترکِ قتال کو پسند کرو ،جبکہ  اس میں تمہارے لیے شر ہی شر ہے ، کیونکہ یہ راستہ ذلت ، شرم  اور دشمن کو اپنے خلاف دلیر  اور لالچی بنانے کا راستہ ہے۔

 

اگر اس کو اپنی خواہش کی وجہ سے چھوڑ دو،  تو تم گمراہ ہو جاؤگے، اور اگر اللہ  کی طرف سے عائد شدہ فرض کی اتباع کی تو تم کامیابی پاؤگے اور اللہ سبحانہ وتعالی غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے:( وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ)’’ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جاتے ہو‘‘۔

 

2- دوسری آیت میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے:   کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتال جائز ہے؟ سو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ حرمت والے مہینوں  میں قتال کرنا گناہ کبیرہ ہے، لیکن گناہ کے اعتبارسے مشرکین کا عمل اس  سے بھی بڑا  ہے، کہ  وہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں اور اس کے راستے  اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں ،اس طرح انہوں نے رسول اللہ ﷺ  اور مومنین کو اس سے نکالا تھا ،اسی طرح ان مشرکوں نے مسلمانوں کو دین سے بر گشتہ کرنے کے لیے جو کوششیں کیں،یہ تمام باتیں  حرمت والے مہینوں میں قتال کرنے سے بڑے گنا ہ ہیں۔

 

پھر اللہ سبحانہ  نے اس آیت کریمہ میں بیان کیا کہ کفار کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ لڑائی نہیں چھوڑیں گے ،حتی کہ اگر ان سے ہوسکے تو مسلمانوں کوان کے دین سے پھیردیں ،لیکن اللہ کے فضل سے وہ ہر گز ایسا نہیں کرپائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کا اختتام  اس بات سے کیا ہے کہ  جو شخص دین سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے اور اسی ارتداد پر اس کو موت آجائے تو ایسے آدمی کا عمل دنیا و آخرت میں  اکارت ہوگا ،وہ اہل دوزخ میں سے ہوگا اورہمیشہ اس میں رہے گا۔

 

(یَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَـرَامِ) یعنی آپ سے حرمت والے مہینے میں قتال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،قتال یہاں الشَّهْرِ الْحَـرَامِسے بدل اشتمال ہے ۔

یہ سوال کرنے والے کفار ِقریش کے ایک وفد سے تھے، جیسا کہ زہری نے عروہ ؓ سے روایت کی ہے : وہ  رسول اللہ ﷺکے پاس یہ سوال لے کرآئے کہ : کیا شہر حرام میں قتال حلال ہے؟(تفسیر طبری: 347/2، ابنِ ہشام: 252/2، 254، درِ منثور: 602/2)۔ وہ یہ مسئلہ سریہ عبد اللہ بن جحش ؓ کےبارے میں لائے تھے،رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن جحش ؓکو نخلہ کی طرف  ایک سریہ(مہم) پر روانہ کیا ، آپ ﷺ نے ان سے کہا:

((كن حتى تأتينا بخبر من أخبار قريش، ولم يأمره بقتال))

’’آپ وہاں رہو  تاکہ ہمارے پاس قریش کے احوال پہنچالاؤ، ان کو قتال کا حکم نہیں دیا تھا"،

 

جیسا کہ ابنِ اسحاق اوربیہقی  وغیرہ نے زید بن رومان سے عروہ بن زبیرؓ کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ

(("أن رسول الله ْﷺ قد بعث عبد الله بن جحشؓ ومعه ثمانية رجال من المهاجرين وذلك في رجب - الشهر الحرام - ولم يأمره بقتال وكتب له كتابا قبل أن يعلمه أين يسير، فقال: اخرج أنت وأصحابك حتى إذا سرت يومين فافتح كتابك وانظر فيه فما أمرتك به فامضِ له ولا تستكره أحداً من أصحابك على الذهاب معك، فلما سار يومين فتح الكتاب فإذا فيه "أن امضِ حتى تنزل نخلة فأتنا من أخبار قريش بما اتصل إليك منهم"))

رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن جحشؓ کو بھیجا ، ان کے ساتھ مہاجرین کے آٹھ افراد تھے، یہ رجب کا مہینہ تھا ، اور یہ مقدس مہینوں میں سے ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو قتال کا نہیں کہا، اس کو ایک خط لکھ کر دیا اور یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس سمت میں جانا ہے۔پھر فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی چلتے رہیں ، جب دو دن سفر کر چکو تو خط کو کھول دینا ، پھر جو اس میں لکھا گیا ہے پڑھ لینا،اورجو حکم میں نے دیا ہے اس پر عمل کرنا ، اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور  نہ کرنا، توجب عبد اللہ بن جحش ؓنے دو دن تک سفر کیا تو خط کھول دیا ، اس میں لکھا تھا: چلتے رہو یہاں تک کہ نخلہ جا اُترواور قریش کی خبروں سے آگاہ کرتے رہو"۔

 

عبد اللہ بن جحشؓ نے رسول اللہ ﷺکا حکم جوں کا توں پورا کیا ، جب وہ نخلہ اُترے تو وہاں عمرو بن حضرمی کو چند آدمیوں کے ساتھ گذرتے دیکھا ،یہ لوگ قریش کے ایک قافلے کو لے کر جارہے تھے ، قافلے کے اونٹوں پر کشمش اور دیگر تجارتی سامان لدا ہوا تھا، مسلمانوں نے ان کا راستہ روکا اور عمرو بن حضرمی کو قتل کیا ، اوراس کے ساتھیوں میں سےدو آدمیوں کو قیدی بنالیا، یہ واقعہ ماہ رجب کے آخری دن پیش آیا، وہ اونٹوں اور دونوں قیدیوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

والله ما أمرتكم بقتال في الشهر الحرام. وأوقف رسول الله الأسيرين والبعير ولم يأخذ منها شيئاً،

" اللہ کی قسم میں نے تمہیں شہرِ حرام (حرمت کے مہینے) میں قتال کا حکم نہیں دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں قیدیوں اور اونٹوں کو کھڑا کیا، ان میں سے کوئی چیز نہیں لی"۔

اس موقع پر  وہ(عبد اللہ بن جحشؓ) پریشان ہوئے اور انہیں یقین ہونے لگا کہ وہ ہلاکت میں پڑگئے ، مسلمان بھی ان سے ترش روئی سے پیش آئے، جب یہ خبر  قریش کو پہنچی تو اُنہوں نے کہا : یقینا محمد(ﷺ) نے قابل احترام خون بہایا  ، مال لیا اور آدمیوں کو بھی اسیر بنالیا، شہر حرام کو حلال کیا، تو اس پر یہی آیت نازل ہوئی۔

 

زہری نے عروہ سے روایت کی ہے  کہ  جب کفارِ قریش  کو اس سانحے کی اطلاع ہوئی تو ان کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور رسول اللہ ﷺ سے  پوچھا کہ: کیا حرمت والے مہینے میں قتل و غارت جائز ہے؟ اس سوال کا مقصد مسلمانوں کو اس کام پر عار دلانا تھا ، سو یہ آیت اتری۔

اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اونٹ لے لیے اور اسیروں کا معاوضہ بھی قبول کرلیا۔

روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ قافلے   کا راستہ روکنا اور قتل دونوں رجب کے پہلے دن ہوئے تھے اور سرِیّہ جمُادی الثانی کے مہینے میں بھیجا گیا تھا، اگر ایسا ہو تب بھی شان نزول  میں اتنا فرق نہیں ہوگا کیونکہ  واقعہ دو موقعوں، رجب کے شروع  اور اس کے آخر میں ،کے متعلق ہے اور رجب حرمت والا مہینہ ہے۔

 

3ـ آیت کریمہ سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینے میں قتل حرام ہے اور اس کا بڑا گناہ ہے (قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ) "(اے محمدﷺ!) کہہ دیجئے کہ اس (مہینے) میں قتال کبیرہ (گناہ) ہے"،لیکن اللہ سبحانہ  کفار قریش کو واضح فرماتے ہیں کہ  جو کچھ وہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے کفر ، اللہ کے راستے اور مسجد حرام  سے  لوگوں کو روکنا، رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو نکالنا،  اور مسلمانوں کو  فتنے میں ڈالنے کے لیے مشرکین کی وہ دیگر کوششیں جن میں انہوں نے اپنی ساری توانائیاں جھونک دیں، یہ سب اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم  ہے، اس وجہ سے مشرکین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو حرمت والے مہینے میں قتال کا الزام دینے سے پہلے اپنے آپ کا جائزہ لیں ، اپنے جرائم پر نظر ڈالیں جو انہوں نے اللہ ، اس کے رسول ﷺ،حرم اور مسلمانوں کے خلاف  کیے،تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کے جرائم حرمت والے مہینے میں قتال سے کئی گنا بڑے ہیں۔

(وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ کُفْرٌ ۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ‌‌ۚ وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ)‌،

"مگر لوگوں  کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا،مسجد  حرام پر بندش لگانا اور  اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے"،

یعنی کفارِ قریش  حرمت والے مہینے میں قتال کو تو اچھالتے ہیں مگر جو جرائم انہوں نے کیے ہیں  ان کا ذکر نہیں کرتے ، جو حرمت والے مہینے میں قتال سے بدرجہا بد تر ہیں۔ وہ جرائم اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، اور اللہ سے کفر اور مسجد حرام سے روکنا اور حرم والوں کو وہاں سے نکالنا اور لوگوں کو دین کے بارے میں آزمائش میں ڈالنا ہیں۔

 

(وَالْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ) اس کا عطف  (conjunct)( سَبِيلِ اللَّهِ)پر ہے، اس  کا عطف لفظ بِهٖمیں ضمیر مجرور (genitive pronoun) پر نہیں ، کیونکہ (عربی زبان کے قواعد کے مطابق)  جب تک حرف جر (genitive particle) کو مکرر نہ کیا جائے ،ضمیر مجرور (genitive pronoun)پر عطف (conjunct)  درست نہیں ، چنانچہ ( مَرَرتُ بِہٖ وَزَیدٍ ) کہنا درست نہیں،  (مَرَرتُ بِہٖ وَبِزَیدٍ )"میں اس کے اور زید کے پاس سے گزرا" کہنا جائز ہے، دوسری وجہ یہ کہ یہاں معنوی دلالت اس کو زیادہ راجح قراردیتی ہے کہ یہ (سَبِيلِ اللَّهِ) "اللہ کے راستے میں"پر معطوف ہے، اس صورت میں معنی یوں ہوں گے: (وصد عن سبیل اللہ والمسجد الحرام)،یعنی(صد عن المسجد الحرام) (یعنی مسجد حرام سے روکنا) اس طرح عطف  کرکے مطلب پر اس کی دلالت زیادہ راجح ہے، بنسبت ضمیر پر عطف کرنے سے، کیونکہ تب معنی یوں ہوں گے:( وصد عن سبیل اللہ وکفر باللہ وکفر بالمسجد الحرام)"اللہ کے راستے سے روکنا اور اللہ سے کفر سے اور مسجد حرام سے کفر سے"، یعنی مسجد حرام سے کفر، ضمیر پر عطف کی صورت میں کفر کی نسبت مسجد حرام کی طرف ہوگی، یہ مرجوح ہے بنسبت صد عن المسجد الحرام کے ۔ یعنی مسجد حرام سے روکنا۔

 

اس طرح آیت میں  اس بات پر دلیل ہے کہ حرمت والے مہینے میں  قتال حرام ہے، لیکن انہوں نے جو کفر،رکاوٹ اور فتنہ ڈالنے کے کام کیے ہیں ، ان کا گناہ اس سے بہت بڑا اور گھناونے جرائم ہیں۔

 

رسول اللہ ﷺ نے ابنِ حضرمی کے خون کی دیت دی، چنانچہ اس کی دیت اس کے ورثا کو دی کیونکہ وہ شہر حرام(حرمت والے مہینے) میں قتل کیا گیا تھا، جس میں قتال درست نہیں ، شہر حرام میں قتال حرام ہی رہا  مگر بالآخر منسوخ کیا گیا ،جیسے کہ ہم بعد میں اس کو واضح کریں گے ، ان شا ء اللہ!

 

4-  اللہ سبحانہ نے مسلمانوں کے ساتھ کفار کی شدید دشمنی کو بیان فرمایا ہے، کہ کفار کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ لڑائیاں لڑنا نہیں چھوڑیں گے، حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو ان کو ان کے دین سے پھیر دیں ۔ پھر اللہ سبحانہ  نےمسلمانوں میں سے مرتد ہونے والوں اور  اسی ارتداد کی حالت پر مرنے والوں  کا انجام بیان کیا ہے ، کہ ان کے اعمال رائیگاں ہیں، ان کا گناہ عظیم ہے اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔(العیاذ باللہ)

یہاں )حتیّٰ یردوکم) "جب تک وہ تمھیں واپس نہ موڑ دیں"،یہاں حتیّ تعلیل legal reasoningکے لیے ہے، یعنی وہ لوگ تم سے قتال کریں گے ’’تاکہ ‘‘تمہیں اپنے دین سے برگشتہ کردیں۔

 

(اِنِ استَطَاعُوا) یعنی  ان کی وسعت میں یہ بات نہیں ،جیسے کوئی اپنے دشمن سے کہے " اگر تم نے مجھے قابو کر لیا تو کسر نہ چھوڑنا" وہ ایسا اس وجہ سے کہتا ہے کیونکہ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ دشمن اس پر کبھی بھی قابو نہیں پاسکتا۔

 

اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ کفار چاہے جتنے بھی مکر  ، سازشیں  بنیں اور جنگیں لڑیں ،وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیردینے میں  ہرگز کامیاب نہیں  ہوسکتے، اس میں کفار کی مسلمانوں کے ساتھ سخت دشمنی پر بھی دلالت ہے ۔

(وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ)

’’اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دےاور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے ، تو ایسے لوگوں کے اعمال دُنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے۔ ایسے لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‘‘

 

اس آیت میں اس شخص کی حالت بیان کی گئی ہے جو مرتد ہوکر  کفر پر مرجائے،ایسے آدمی کے حوالے سے دو چیزیں بتائی ہیں:

۱۔ اس کا عمل برباد ہوگا ، پس مرتد ہونے سے پہلے جو اعمال اس نے کیے ،وہ ایسے ہیں گویا اس نے کیے ہی نہیں،یعنی اگر اس نے ردت سے قبل حج کیا ہو، تو اس کا حج باطل اور ضائع ہوگا۔

 

ب۔ وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا، کیونکہ وہ کفر پر مرا ۔

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ سبحانہ نے ارتداد پر موت کو اعمال کے ضیاع کے لیے شرط قرار دیا ہے، کیونکہ آیت  صرف اتنی نہیں کہ

( وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ )"اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دےاور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے ، تو ایسے لوگوں کے اعمال دُنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے "،کیونکہ ایسا ہوتا تو پھر یہ ہوتا کہ   صرف مرتد ہوکر مرنے سے اعمال ضائع ہوتے، جبکہ آیت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ (وَاُولٰٓٮِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ‏) ’’ایسے  لوگ دوزخ والے ہیں ،  وہ ہمیشہ اس میں  رہیں گے۔‘‘ یعنی اس آیت نے دو چیزوں کو دوچیزوں  پر مرتب کیا ہے:

یہ کہ وہ مرتد ہوجائے اور اسی  حالت پرمر  بھی جائے، اس پر عمل کا ضیاع اور خلود فی النار مرتب کیا ہے۔ یعنی عمل کا اکارت ہونا اور دوزخ میں ہمیشہ رہنا۔

 

یہ بات کہ موت سے پہلے فقط مرتد ہو جائے تو ایسے آدمی کے بارے میں دوسری آیات میں بتایا ہے کہ:(ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ) (المائدہ: 5)۔ اسی طرح(لئن اشرکت لیحبطن عملک)الزمر65،جس کے معنی ہیں کہ جو شخص مرتد ہوجائے تو اس کے اعمال ضائع ہوں گے، پس اگر اس نے ارتداد سے قبل حج کیاہو  پھر وہ دوبارہ اسلام کی طرف رجوع کرے ،تو اس پر نئے سرے سے حج کرنا لازم ہوگا۔

اگر وہ مرتد ہوجائے اور اسی پر اسے موت بھی آجائے تو اس کا عمل رائیگاں ہوگا اور ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں جلتا رہے گا۔

 

5- اس آیت کے منسوخ یا غیر منسوخ ہونے  کے بارے میں روایات آئی ہیں، راجح یہ  ہے کہ آیت (يَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَـرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ‌)"وہ آپ ﷺ سے حرمت والے مہینے میں قتال کرنے سے متعلق سوال کرتے ہیں"،سورہ توبہ میں وارد آیات کی وجہ سے  منسوخ ہے۔

کیونکہ مذکورہ آیت ہجرت ِ مدینہ کے اوائل میں نازل ہوئی تھی، یعنی معرکہ بدر سے پہلے ، جبکہ  حرمت والے مہینے میں قتال  حرام ہی رہا، سوائے دو صورتوں کے:

ا۔ یہ کہ کفار شہر حرام(حرمت والے مہینے) میں قتال میں پہل کریں، یہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ،"حرمت والے مہینے(میں قتال) حرمت والے مہینے(میں کئے گئے ظلم)کیلئے ہے اور حرمات کی پامالی کیلئے بدلہ ہے"(البقرۃ:194)، ہم اس سے پہلے اس آیت کا مطلب بیان کرچکے ہیں۔

 

ب۔ یہ کہ قتال حرمت والے مہینے کے علاوہ کسی اور مہینے میں شروع ہوا ہو ،اور حرمت والے مہینے کے داخل ہونے سے پہلے  بند نہ ہو، تب اس کو حرمت والے مہینے میں بھی جاری رکھنا جائز ہوگا ، بشرطیکہ خارجہ پالیسی اس کا تقاضا کرے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا فتح مکہ کے بعد طائف کا  محاصرہ کرنا  اور معرکہ حنین ہے، جب بنو ثقیف نے طائف کی طرف پسپائی کی اور وہاں قلعہ میں محصور ہوگئے تو رسول اللہﷺ نے قلعے کا محاصرہ کیا ،اس دوران حرمت والا مہینہ آگیا ،اور محاصر ہ جاری رہا۔

 

اور ہم نے سابقہ آیت کی تفسیر میں یہی بیان کیا تھا۔

 

ان دو حالتوں کے علاوہ میں ،حرمت والے مہینے میں قتال شروع کرنا یا حرم میں قتال کرنا ان دو آیتوں  کےنص  سے حرام کیا گیا۔ یہ حکم مسلسل اس وقت تک رہا جب رسول اللہ ﷺپر سورہ توبہ نازل ہوئی، اس کے بعد حرم  اور حرمت والے مہینے میں قتال جائز ہوگیا، جب حربی یعنی جنگی حکمت عملی اس کا تقاضا کرے۔ اس کی دلیل کچھ اس طرح ہے :

(بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (1) فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ)

’’ (مسلمانو!) یہ اللہ اور اس کے رسول  کی طرف سے دستبرداری کا اعلان ہے اُن تمام مشرکین کے خلاف جن سے تم نے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ لہذا (اے مشرکو!) تمہیں چار مہینے تک اجازت ہے کہ تم (عرب کی ) سرزمین میں آزادی سے گھومو پھرو، اور یہ بات جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، اور یہ بات بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔‘‘(التوبۃ:2-1)

 

مشرکین کو اسی وجہ سے  چار مہینوں تک ان سے  قتال کئے بغیر مہلت دی گئی،یعنی  وہ ان چار مہینوں کے دوران امن سے رہ سکیں گے ،ا ن مہینوں کی شرط کا مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں کے گزر جانے کے بعد ان کا قتل جائز ہوگا جیسے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

(فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ)

" جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین جہاں ملیں ان کو قتل کرو"(التوبۃ: 5)۔

 

حرمت والے مہینوں کا جو یہاں ذکر کیا گیا ہے ، ان سے مراد ہر سال کے حرمت والے مہینے نہیں ، بلکہ جو مدت ان کے لیے مقرر کی گئی تھی ، اس مدت کی انتہامراد ہے ، یعنی وہ چار مہینے جو  گزشتہ آیت کریمہ میں مذکور ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو چار مہینوں تک مہلت دی گئی ،حالانکہ سال کے مہینوں میں سے حرمت والے مہینے لگا تار نہیں آتے، اسی لیے یہاں صرف پورے چار مہینوں کی مدت مراد ہے، خواہ شوال ، ذی القعدہ ،ذی الحجہ اور محرم مراد ہوں،جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے یا ذی القعدہ ،ذی الحجہ، محرم اور صفر مراد ہوں یا کوئی اور ترتیب مراد ہو، تو یہ چار مہینے سال کے مشہور مہینے نہیں، جن میں سے تین پے درپے آتے ہیں  یعنی ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب ، کیونکہ یہ چاروں لگا تار نہیں آتے ،چنانچہ معنی یہ ہوں گے کہ (جب  چارمہینوں کی مقررہ مدت ختم ہوجائے ،تو مشرکین کو جہاں پاؤ  قتل کرو، ) جس کا مطلب ہے کہ اس مدت کی  انتہا ہونے پر ان کے ساتھ قتال  اب ہر زمان و مکان میں جائز ٹھہرجائے گا ۔

 

ہر زمانے میں جائز ہونے کی بات اس سے سمجھی گئی کہ مہلت  میں زمانے کی قید لگائی گئی ہے۔ (أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ) یعنی چار مہینے  کا ذکر ہے تو جب یہ زمانی مدت ختم ہوکر یہ قید اٹھ جائے گی یعنی مذکورہ چار مہینے کی مدت گزر جائے ، تو ان سے ہر زمانے میں قتال کیاجائے  گا ۔

 

ہر جگہ ان سے قتال کا جواز اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حَیثُ جو آیت میں آیا ہے  یہ مکان کے لیے آتا ہے، پس اس مہلت کی انتہاء ہونے پر مشرکین کے ساتھ ہر جگہ پر قتا ل کیا جائے گا۔ (حیث و جدتموھم) یعنی "جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ"۔

 

یہ بات کہ (وَلَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ)" ان کو مسجد حرام کے پاس قتل مت کرو، یہاں تک وہ تم سے وہاں پر جنگ کریں" (البقرۃ: 191)، خاص حرم کے بارے میں ہے اور  (يَسْــٴَــلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَـرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ‌ؕ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ) "وہ آپ ﷺ سے حرمت والے مہینے میں قتال سے متعلق سوال کرتے ہیں، کہیے کہ اس میں قتال کبیرہ(گناہ) ہے"، حرمت والے مہینے کے بارے میں ہے۔اور یہ کہ (فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ) " جب حرمت والے مہینے گزر جائے تو مشرکین جہاں ملیں ان کو قتل کرو" (التوبۃ: 5)، تمام مکانوں اور زمانوں میں عام ہے اور عام خاص کو منسوخ نہیں کرتا۔

 

تو یہ تبھی صحیح ہوتا اگر عام کی دلالت ظنی اور  خاص کی دلالت قطعی ہوتی، لیکن یہاں عام کی دلالت  مکان کے بارے میں قطعی ہے ، (حیث و جدتموھم) یعنی ہر جگہ  تم ان کو پاؤ، زمان کے حوالےسے بھی قطعی ہے

(فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ)

" جب حرمت والے مہینے گزر جائے تو مشرکین جہاں ملیں ان کو قتل کرو" (التوبۃ: 5)،

 

یعنی اس مہلت کے ختم ہونے کے بعد ، جیساکہ ہم نے پہلے ذکر کیا ، یعنی چار مہینوں کے بعد ان کو  ہر زمانے میں قتل کرو، کیونکہ ایک خاص مہلت کی تعین کامطلب اس کے بعد قتال کا جائز ہونا ہے، یعنی   چار مہینوں کے دوران قتال ممنوع ہوگا، یہ مہینے گزرجانے کے بعد قتال جائز ہوگا۔ کیونکہ یہی آیت کا مفہوم ہے، یعنی عام و خاص دونوں کی دلالتیں قطعی ہیں  اور ہیں بھی متعارض ۔ تو جب یہ معلوم  کیا جائے کہ خاص   مقدم ہے اور عام موخر ہے تو یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی    کہ سابق نص اس عام نص کے لیے مخصوص کرنے والی ہے ، جو اس خاص سے پہلے نازل نہیں ہوا ، بلکہ بعد میں نازل ہوا  تو اگر کچھ کہا جاسکتا ہے تو یہی کہ عام جب خاص کے بعد نازل ہوا اور معنی کے اعتبار سےقطعی (قطعی الدلالۃ )بھی ہے تو پھر تو اس عام نے اس خاص کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے نازل ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ یہاں نسخ ماننا درست اور راجح ہے۔

 

جہاں تک  رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا تعلق ہے، جسے ابن عباس  ؓ نے روایت  کیا ہے، کہ

((إن هذا البلد حرمه الله تعالى يوم خلق السموات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة وإنَّه لم يحلّ القتال فيه لأحد قبلي ولم يحلّ لي إلا ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لا يعضد شوكه ولا ينفر صيده ولا تلتقط لقطته إلا من عرفها ولا يختلى خلاه. فقال العباس: إلا الإذخر فإنه لقينهم ولبيوتهم. قال: إلا الإذخر))

" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک    اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اس دن سے قابل تعظیم بنایا جس دن آسمانوں اور  زمین  کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی اسی حرمت کی وجہ سے قیامت تک یہ شہر مقدس رہے گا،اور اس میں  مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی قتا ل کرنا جائز نہیں کیا گیا، میرے لیے بھی صرف دن کی ایک گھڑی میں اس میں قتال  کو حلال کیا گیا،  پس اللہ تعالیٰ کی اسی حرمت کے فرمان کی وجہ سے صبح قیامت تک یہ شہر حرمت والا رہے گا،اس کی خاردار جھاڑیوں کو نہیں کاٹا جائے گا ، نہ ہی اس کے شکار کا پیچھا کیا جائے گا ،نہ ہی اس کی گم شدہ اشیاء اٹھائی جائیں گی ، سوائے اس شخص کے لیے جو اعلان کرنے کی نیت سے اٹھائے، اس کی گھاس کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جائے گا،پھر العباس ؓ نے کہا: سوائے اذخر(ایک قسم کی گھاس) کے ، کیونکہ  اس کو سنار استعمال کرتے ہیں اور عام لوگ  بھی کام میں لاتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ٹھیک ہے) سوائے اِذخِر کے"۔

 

تو یہ حدیث رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ذکر فرمائی ، یہ ہجرت کا آٹھواں سال تھا،  یعنی سورہ التوبہ والی آیت سے پہلے جو 9 ہجری کو نازل ہوئی ، اس لیے  اس حدیث کا سورہ توبہ کی آیت   پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو ناسخ اور محکم آیت ہے، جیساکہ ہم نے واضح کیا۔

پھر یہ کہ حدیث کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد دار الاسلام بن چکا تھا اور وہاں سے  شرک اور شرک کی بادشاہت  کی جڑیں اکھڑ گئی تھیں ، یعنی فتح مکہ سورہ توبہ والی آیت سے پہلے   ہوچکی تھی جو ہجرت کے نویں سال نازل ہوئی، اس اعتبار سے اس میں قتال حرام ہی تھا ۔ جیسے آپﷺ نے فتح مکہ کے وقت فرمایا تھا: ((لاھجرۃ بعد الفتح ))’’ فتح مکہ کے بعد  کوئی ہجرت نہیں‘‘۔  اس وقت مکہ دار الاسلام بن گیا تھا،یوں مدینہ اور مکہ اس لحاظ سے یکساں  ہیں، چنانچہ اب مکہ سے مدینہ کوئی ہجرت نہیں،  مکہ کا واقع اگر بدل جائے اور وہ دار الاسلام نہ رہے اور پھر اللہ کے فضل سے  مکہ کے علاوہ کسی اور علاقے میں خلافت قائم کی جائے  تب  مکہ سے دار الاسلام ہجرت کا حکم دوبارہ لاگو ہوجائے گا ، جیسے پہلے تھا۔

 

یہاں بھی یہی بات کی جائے گی  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح کے بعد مکہ میں قتل کو حرام قرار دیا جس کے بعد وہ دار الاسلام بنا اور مکہ والے مسلمان ہوگئے۔ اس اعتبار سے حدیث نے مکہ کو تا قیامت قابل احترام قرار دیا، تو جب مکہ کا واقع متغیر ہوجائے گا  اور وہ دار الاسلام کی حیثیت سے باقی نہ رہے، نہ اس کے رہایشی مسلمان رہے تو ایسی صورتحال میں قتال والی حدیث مکہ پر منطبق نہیں ہوگی ، کیونکہ حدیث کی تطبیق کا واقع بدل گیا ہوگا۔

آیت  کا موضوع مکہ کی دارالاسلام کی حیثیت سے حرمت نہیں ، جبکہ مکہ کے رہنے والے مسلمان ہوں، کیونکہ اس اعتبار سے تو وہاں قتال ہے ہی حرام۔ بلکہ آیت کا موضوع حرم شریف اور مقدس مہینوں میں مشرکین کے ساتھ قتال ہے  یہ اسی موضوع میں وارد ہوئی، یوں سورہ بقرہ کی آیت کا سورہ توبہ کی آیت سے منسوخ ہونے میں آیت اور  حدیث میں کوئی تعارض (ٹکراؤ) نہیں۔

 

6- لیکن مشرکین سے  قتال جس کو اللہ تعالیٰ نے حرم اور مقدس مہینوں میں حرام قرار دیا ، اس میں مفہوم الشرط کی قید لگائی گئی ہے:

( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُـرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ‌ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)

" جب حرمت والے مہینے گزر جائے تو مشرکین جہاں ملیں ان کو قتل کرو اور انھیں قیدی بناؤاور ان کا گھراؤ کرو اور ہر جگہ ان کیلئے گھات لگاؤ، لیکن اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں ان کے راستے پر چھوڑ دو، بے شک اللہ غفور  اور رحیم ہے" (التوبۃ: 5)

 

ا۔ یعنی جائز قتال وہ ہے جو لوگو ں کو اسلام میں داخل کرنے  اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کیا جائے ، کیونکہ آیت میں (فَاِنْ تَابُوْا)  آیا ہے، یعنی وہ کفر کرنا چھوڑ دیں اور(وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوة)’’  یعنی اسلام میں  داخل ہوجائیں ،اس طرح کے مواقع میں بعض اجزا سے کل مراد ہوتا ہے، (صرف نماز اور زکوٰۃ کے ذکر سے کل اسلام مراد لیا گیا ہے) تو جب یہ امور پائے جائیں (فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ‌ ) تو ان کا راستہ چھوڑ دو، یعنی ان کو نہ قتل کرو، چونکہ شرط کے مفہوم مخالفہ پر عمل کیاجاتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کریں اور نماز اورزکوٰۃ ادا نہ کریں یعنی اپنے کفر پر رہیں، اور اسلام میں نہ داخل ہوں ، خواہ وہ پہلے سے کافر ہوں یا مسلمان ہوکر مرتد بن گئے ہوں  اور کفر اختیار کر لیاہو، تو اس صورت میں ان سے قتال کیا جائے گا۔

 

بنا بریں  اسلام کی نشر و اشاعت اور کلمۃ اللہ کی بلندی  کے لیے اس کے طریقہ کار کے مطابق  سال کے  مقدس اور غیر  مقدس تمام مہینوں  میں قتال درست ہے ، یہ تو تھا زمان کے اعتبار سے ،  اسی طرح ہر مکان میں بھی درست ہے، حتی کہ حرم شریف میں بھی درست ہے ، اگر  مکہ میں  کلمۃ اللہ کی بلندی اور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے والا واقع موجود ہو، مثلا مکہ میں ارتداد وغیرہ  کی وجہ سے  کفر پھیل جائے اور کفار اس پر تسلط حاصل کرے او را ن کے حکمرانی  میں چلا جائے، تو ایسی صورت میں مکہ والوں سے قتال کیا جائے گا تاکہ ان کو ختم کیا جاسکے اور مکہ کو اسلام کی اتھارٹی میں داخل کیا جاسکے، اس حد تک کہ اگر  وہ حرم میں  قلعہ بند ہوجائیں اور مہینہ بھی  حرمت والا ہو، تب بھی ان سے قتا ل کیاجائے گا۔

 

ب۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی ریاست کفار اور حرم میں قلعہ بند مرتدین سے  اس وقت قتال کرے گی ،اگر وہ طاقت سے اپنا بچاؤکر رہے ہوں ، یعنی ان پر قتال کی حقیقت منطبق ہوتی ہو، اگر حرم کے اندر قلعہ میں محصور لوگ  افراد کی  صورت میں ہوں یا ایسے گروہ  جو اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر اپنی حفاظت نہ کرسکتے ہوں، تو ایسے لوگوں پر  ان کےساتھ قتال  کرنے کی حقیقت منطبق نہیں ہوتی ،کیونکہ ایسے لوگ قتال نہیں کرسکتے  بلکہ ان کا تعاقب کیا جائے گا، چنانچہ خلیفہ ان پر شکنجہ کسے گا تا آنکہ  وہ سپر انداز ہوجائیں یا ان کو گرفتار کیاجائے۔

 

یہ سب  باتیں خاص کر کفار کے ساتھ  حرم  اور ماہ مقدس میں ہماری طرف سے جنگ کی شروعات سے متعلق تھیں، جہاں تک یہ بات ہے کہ اگر وہ  ہم سے قتال میں پہل کریں،  یا معرکہ جاری ہو اور حرمت والا مہینہ   آجائے ،ایسی صورت میں   وہ نصوص جو ان سے قتال کے بارے میں وارد ہیں ، واضح ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔

 

ج-لہٰذا یہ جائز نہیں کہ حرمت والے مہینوں میں یا حرم میں جنگ شروع کی جائے ، سوائے کافروں کو اسلام میں لانے کیلئے یا انہیں ختم کرنے کیلئے اور ان کی دشمنی ختم کرنے کیلئے یا مرتدین سے لڑنے کیلئے۔ یہ اس آیت کا مفہوم شرط ہے،

(فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ‌)

"پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں ان کے راستے پر چھوڑ دو"(التوبہ:5)۔

 

حرم اور حرمت والے مہینوں میں ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے ساتھ قتال جائز نہیں ، چنانچہ یہ حرام ہے کہ اس میں مسلمانوں سے قتال کیا جائے یا  ان کو خوفزدہ کیا جائے، یا اور کوئی ظلم ان پر کیا جائے، کیونکہ یہ  اللہ کی شریعت میں گناہِ کبیر ہ  اور جرمِ عظیم ہے،  اس کی سزا اسلام میں کسی بھی دوسرے مکان یا  دوسرے مہینے میں  قتال واقع ہونے   سے سخت ہے۔کیونکہ حرم اور مسجد حرام کی بے حرمتی اللہ کے دین میں بڑا گنا ہ ہے۔

(وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَـادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَ لِيْمٍ)

" اور جو کوئی شخص اس میں ظلم کرکے اس میں ٹیڑھی راہ نکالے گا ، ہم اُسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے"(الحج:25)۔

اسی طرح

(مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‌ ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ‌)

’’ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا سادہ(تقاضا ) ہے، لہذا ان مہینوں کے معاملے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘(التوبہ: 36)۔

 

  حرام  کسی اور جگہ صرف حرام ہوتاہے، لیکن  اس کی حرمت حرم  اور مقدس مہینوں میں  اس سے زیادہ شدید ہے۔

اسی طرح کسی اور جگہ  ایک عمل جرم ہی ہے ، تو  وہی عمل  حرم  اور مقدس مہینوں  میں اس سے بڑا جرم شمار ہوتا ہے۔

اور کسی اور جگہ ظلم فقط ظلم ہے ،مگر حرم  اور مقدس مہینوں میں وہی ظلم اس سے زیادہ اور بڑا ہے۔

 

7- یقینا اللہ سبحانہ نے عبد اللہ بن جحش ؓ اور ان  کے ساتھ مہم میں شامل دستے کی وہ سب خلاف ورزیاں معاف کردیں جو انہوں نے ماہِ مقدس میں اس لڑائی کے دوران انجام دی تھیں، اور قریش کے کفار پر اللہ تعالیٰ نے حجت بھی قائم کی کہ وہ بھی کفر کرتے ہیں اور اللہ کے راستے( دین) سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور پہلے بھی روکتے رہے، وہ جن فتنوں میں مبتلا ہیں ، وہ سریہ عبد اللہ بن جحشؓ والوں کے کاموں سے کئی گنا بڑھ کر ہیں۔ عبد اللہ بن جحش ؓ اور ان کے ساتھیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کی دلیل  یہ ہے:

 

ا- (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجَاهَدُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِۙ اُولٰٓٮِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)" بے شک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی، اللہ کے راستے میں جہاد کیا، ایسے لوگ اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان  ہے"(218)۔

تو یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کی ایمان ،ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی صفات پر مدح و توصیف بیان کی اور یہ کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہو ، اس میں وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں، آیت کے آخر میں بھی مغفرت اور رحمت کا ذکر ہے۔ یہ بھی ان کے لیے ہے۔

 

ب- رسول اللہ ﷺ کا اونٹوں اور قیدیوں کو قبول کرنا، جب کہ پہلے آپ ﷺ اسے لینے سے رکے ہوئے تھے، کیونکہ آپ ﷺ نے مقدس مہینے میں جنگ کرنے پر ان سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا یہاں تک کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اور نبی کریم ﷺ کا ان کی لائی ہوئی غنیمت کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا ، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو معافی دی گئی اور ان کا عمل بھی قبول کیا۔

اللہ تعالیٰ  نے اس  آیت کریمہ کا اختتام ایسے انداز سے کیا ہے جس سے اللہ سبحانہ کی طرف سے ان کی مغفرت اور اس کی طرف سے ان کی مدح پر دلالت ہوتی ہے( اولئک یرجون رحمت اللہ ۔ و اللہ غفور رحیم)’ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔

 

Last modified onبدھ, 30 جون 2021 04:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک