الأحد، 10 ذو القعدة 1445| 2024/05/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: چین کامقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکی اثرات

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال: 7 اپریل 2014 کو انڈیا میں عام انتخابات کا آغاز ہوا، جو 12 مئی 2014 تک جاری رہیں گےاوراس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ ان انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، ایک بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جن کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں اور یہ اس کی اتحادی ہے جبکہ دوسری کانگریس ہے جو انگریز نواز ہے اورجس نے 2004 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسر اقتدار آنے کے بعدسے امریکہ کے ساتھ روابط میں سرد مہری کامظاہرہ شروع کیاتھا، کیونکہ اس کے تعلقات برطانیہ کے ساتھ تھے، نیز چین کا سامنا کرنے میں بھی خوف کا مظاہرہ کیا.....سوال یہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکہ کس حد تک اثر انداز ہوگا؟ اور ایشیا پیسفک کیلئے امریکی حکمت عملی اور اس تصادم میں جاپان اور آسٹریلیا کو بھی داخل ہونے پر آمادہ کرنے کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ کیا بھارت میں برسر اقتدار آنے والی پارٹی کی نوعیت اس امریکی پالیسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہو گی؟ مثلاً کانگرس یا بی جے پی میں سے کسی ایک پارٹی کو کامیابی حاصل ہوجائےتو اس پالیسی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا بھارت چین سے ٹکر لینے کے قابل ہے؟ اور چین وبھارت کے درمیان طاقت کے توازن کی صورتحال کیاہے؟
جواب: ان سوالات کا جواب مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھنے سے واضح ہوگا:
1۔ امریکہ نے ایشیا پیسفک بالخصوص مشرقی وجنوبی بحر چین میں اورگردوپیش کے ممالک کے ذریعے چین کامحاصرہ کرنے پر کام کیا۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے اس نے معاہدے، شراکت داریاں اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقا ت مستحکم کیے۔ ایک دہائی کے عرصے پر مشتمل اس حکمت عملی میں مزید سنجیدگی اُس وقت آئی جب امریکہ نے دیکھا کہ چین کا دائرہ تنگ کرنے کی پالیسی اب انتہاء کو پہنچ چکی ہے یعنی اس کیلئے اب مزید چین کا گھیرا تنگ کرنا ممکن نہیں رہا تو امریکہ اس کے قریب آنے لگا۔ امریکہ نے چین کو عالمی تجارتی تنظیم (WTO)میں شامل کیااور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائے اوراب چین کے ساتھ امریکہ کا اسٹرٹیجک مذاکرات ماضی کی طرح حساس نہیں رہا.....لیکن اس کے باوجود چین امریکی مدار میں آیا اورنہ ہی امریکی حکمت عملی کے مطابق اس کااتحادی بنا اور نہ ہی امریکہ اس قابل ہوسکا کہ مشرقی وجنوبی بحر چین کے خطے پرچین کے تسلط حاصل کرنے کی خواہشات کو محدود کرسکے۔ یہ علاقہ چین کا اہم اور ناگزیر علاقہ سمجھا جاتا ہے اور اپنی بقاء،یکجہتی اور آزادی کی حفاظت کرنے والی علاقائی بڑی ریاست کی حیثیت سے چین اب بھی اپنی عسکری و اقتصادی طاقت کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے، اس لئے وہ اپنی اقتصادی قوت کو نہ صرف منافع حاصل کرنے بلکہ بعض خطوں میں سیاسی اثرات کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کرنے لگا ہے اور اپنے خطے میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے پر وہ اس انداز سے کام کررہاہےجو امریکی حکمت عملی سے متصادم ہے یا جس کی وجہ سے امریکی نفوذ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بلاشبہ چین کی کچھ علاقائی خواہشات ہیں اور وہ یہ کہ اس خطے پر جسے وہ ناگزیر سمجھتا ہے، کنٹرول حاصل کرے اورچین صرف خشکی والے علاقے پر قناعت نہیں کرتا، ورنہ اس صورت میں وہ ایک بڑی اقتصادی ریاست ہوتے ہوئےبھی ان ہی زمینوں میں محصور ہوکر رہ جائے گا۔ امریکہ بھی چین کے سمندری علاقے کو اپنے لئے ناگزیر علاقے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لہذا امریکی غرور اس پر بس نہیں کرے گا کہ اس کی حدود میں کوئی دوسری بڑی علاقائی ریاست موجود ہو بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا ہی خطہ سمجھتا ہے، اس لئے وہ عالمی امریکی بالا دستی کی توسیع کیلئے چینی علاقے میں اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے .....لیکن تجارتی تعلقات اور اسٹرٹیجک مذاکرات میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے چین کے گردگھیرا تنگ کرنے کی پالیسی نہ تو چین کو امریکی مدار میں لا نے میں کامیاب رہی اور نہ ہی معروف معنوں میں چین اس کا اتحادی بنا بلکہ چین کی علاقائی پالیسی امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہے۔ اس لئے اب صرف گھیراؤ کی پالیسی کار گر نہیں رہی۔ پس امریکہ نے ایشیا پیسفک کے متعلق نئی پالیسی وضع کرلی جس کے نفاذ کیلئےاسےاپنے 60فیصد بحری اثاثوں کو اس خطے میں تعینات کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو علاقائی مسائل میں اُلجھا نے کے ذریعے اس کا گھیراؤ کرنے کی پالیسی کو بھی امریکہ نے اپنایا ہوا ہے۔ امریکہ نے گھیراؤ کی اس پالیسی پر خطے کے ممالک کو اکسانے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ وہ ممالک جو اس پالیسی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ان میں تین ممالک سرفہرست ہیں: بھارت، جاپان اور آسٹریلیا۔
2۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو اس کی چین کے ساتھ 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ان دونوں ممالک کےدرمیان سرحد سے متعلق کچھ حل طلب مسائل موجود ہیں۔ ربع صدی سے ان مسائل پر بات چیت کے ادوار منعقد کئے جاتے رہےہیں جس میں سب سے حالیہ 14واں دور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی شناخت کے لئے منعقد کیا گیا۔ پھر با ت چیت میں تعطل واقع ہوا اوراس کا 15واں دوراب تک منعقد نہیں ہو سکا کیونکہ 15 اپریل 2013 کو چینی فوجی بھارت کی سرحدپار کر کے لداخ کے علاقے میں گھس آئے۔ انھوں نے وہاں کیمپ لگائےپھر تین ہفتے بعد وہاں سے واپس چلے گئے۔ یہ ایک ایسا عملی مظاہرہ تھا جس کا مطلب بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ چین سرحد پار کرنے اور جنگ میں کودنے کی قابلیت رکھتا ہے، جیسا کہ اکتوبر 1962 میں ہوا تھا جب چینی فوج نے اروناچل پردیش پر یلغار کرکے بھارتی فوجیوں کو بھگا دیاتھا۔ پھر اس آپریشن کے ایک مہینہ بعدچینی فوج نے دوسری باربھارتی زمینوں پر حملہ کرکے لگ بھگ 2000 بھارتیوں کو قتل کرڈالا۔سرحدوں کی واضح نشاندہی کا معاملہ اب تک حل طلب ہے اور اس وقت جو سرحد ہے اسے "حقیقی لائن آف کنٹرول" کہا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہی وہ گرم نقطہ ہے جو مسلسل کشیدگی کا باعث ہے۔ تبت کے مسئلے سے پیدا شدہ کشیدگی اس کے علاوہ ہے جس پر چین نے 1950 میں قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقہ بھارتی سرحد سےمتصل ہے۔ لہٰذا بھارت نےاس مسئلے کو بھڑکانے کیلئے امریکہ کو شریک کیا اور یہ دونوں اس خطے کے بدھ مذہب کے پیروکاروں اور ان کے رہنما دلائی لاما کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت نے ایک جلاوطن حکومت کی حیثیت سے تبت کی مرکزی انتظامیہ کی بنیاد رکھ کر دلائی لامہ کے سپرد کردیا۔ یہ تمام وہ عوامل ہیں جو بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کو برابر قائم رکھے ہوئے ہیں۔
3۔ امریکہ چین وبھارت کے درمیان موجوداس کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنا یا ان دونوں کے درمیان مسائل کھڑے کرکے چین کو اس مسئلے کے اندر اُلجھانا چاہتا ہے مگر بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ بھارت کے نواح میں چین کی طرف سے جاری کئے جانے والے جارحانہ پیغامات اس بات کے شواہد ہیں۔ اس بنا پر امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ بھارت کو ورغلائے اور چین کو بے چین رکھنے اور اس کو سرحد کے مسائل میں مسلسل مصروف رکھنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ چنانچہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیااور سا تھ ہی دونوں ممالک نے ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھی کیا..... اس طرح امریکہ نے بھارت کے ساتھ کئی اقتصادی اور سیکورٹی معاہدات پر دستخط کئے، جن میں سے 2005 میں ہونے والے دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور2008 میں سول ایٹمی تعاون کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ ان تمام امور نےدونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کو وسیع کردیا ہے۔ نتیجتاً آج یہ دونوں ممالک ایسی متعدد مشترکہ فوجی مشقیں کررہے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف بھارت کے ساتھ امریکی اسلحے کے بڑے بڑے سودے بڑھتے جارہے ہیں..... جب بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے دسمبر 2009 کے اواخر میں یہ کہتے ہوئےبیان دیا کہ : "انڈین آرمی کو دو محاذوں پر جنگ کیلئے تیار رہنا چا ہئے" (اکانومسٹ 15 فروری 2010) تو امریکہ نے پاکستان پر مشرقی سرحد پر سے اپنی افواج میں تخفیف کرکے مغربی سرحد پرتعینات کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا تاکہ وہ ان قبائلی مجاہدین سے لڑیں جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑرہے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ بھارت چین کے ساتھ اپنے شمالی محاذ پر یکسو ئی کے ساتھ توجہ مرکوز کر سکے..... اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کو بڑھانے پر کام کیا، چنانچہ بھارت کی امریکی منڈیوں کو برآمدات کے حجم میں ان پانچ سالوں میں کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی انڈسٹریل یونین کے اندازوں کے مطابق سروسز کے حوالے سے دو طرفہ تجارت کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے چھ سالوں میں ساٹھ بلین ڈالر سے بڑھ کر 150 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی.....اس کے باوجود بھارت چین کے ساتھ زمینی جنگ سے ڈرتا ہے اور یہ بھی ہے کہ کانگریس پارٹی کے بھارتی حکام امریکہ کے اتنے وفادار نہیں جتنا کہ برطانیہ کے ہیں،ایسے میں وہ امریکی مفاد کیلئے چین کے ساتھ ناکام قسم کا تصادم مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
4۔ تب امریکہ نے دیکھا کہ بھارت کی نظریں بحر الکاہل کے مشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف پھیر دے اور اس کو اس خطے میں موجود تیل اور گیس کے وسائل کیلئے چین کا مقابلہ کرنے پر اُ کسائے اور اسے ایشیا پیسفک حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے پر تیار کرے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ بھارت نے چین کے ساتھ متنازعہ جزائر سپراٹلی کے ساحل کے سامنے تیل وگیس کی جستجو کیلئے ویتنام کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی ویمین نے یہ بیان دیا کہ "ہم یہ امید نہیں کرتے کہ ہم متنازعہ جنوبی بحر چین میں غیر ملکی قوتوں کو ملوث ہوتے ہوئے دیکھیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں ایسے کام کریں جن سے چین کی بالادستی، اس کے حقوق اور مفادات پر زد پڑے" (شرق اوسط 28 نومبر 2011)۔ اس سے قبل کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار "پیپلز ڈیلی" نے بھارت اور ویتنام پرچین کے مقابلے میں غیر ذمہ دارانہ کوششیں کرنے کا الزام لگایا۔ امریکہ بھی مسلسل بھارت کو اس خطے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ چنانچہ22 جولائی 2013کو نائب امریکی صدر جوزف بائیڈن نے بھارت کا دورہ کیا اور اس دورے سے قبل واشنگٹن میں پیشگی بیانات دئے اور بھارت کو مشرقی بحرالکاہل کی طرف متوجہ ہونے پر اُکساتے ہوئے کہاکہ "بے شک بھارت کی نظریں ایک سکیورٹی اور بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے مشرق پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے لئے یہ ایک خوش کن خبر ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "ہم خطے میں بھارت کی مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خطے میں زمینی اور سمندری نقل وحمل کے نئے روابط کی تشکیل کی کوششوں کو سراہتے ہیں" (آئی آئی پی ڈیجیٹل23 جولائی 2013)۔ اس سے ایک مہینہ قبل 24 جون 2013 کو امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے اپنے بھارتی ہم منصب سلمان خورشید کے ساتھ نئی دہلی میں ملاقات کی اورامریکہ و بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات کے چوتھے دور کی دونوں نے سربراہی کی۔ ان دونوں نے ایشیا اور بحر ہند وبحر الکاہل میں استحکام اور سلامتی کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی روابط کو مضبوط کرنے کیلئے مسلسل تعاون اور سمندری امن کی اہمیت پر زور دیا (آئی آئی پی ڈیجیٹل 24 جون 2013)۔ یہ تمام چیزیں اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ امریکہ بحرالکاہل کےمشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین پر توجہ دینے پربھارت کو ابھارنے کیلئے تگ ودو کررہا ہے۔ ا س کے باوجود ایشیا اور بحرالکاہل کیلئے امریکہ کی اس جدید حکمت عملی کو وضع کرنے کے دوسال گزرنے کے بعد بھی بھارت امریکہ کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ اس کے کچھ ایسے اسباب ہیں جن کا تعلق برطانیہ کی وفادار کانگریس پارٹی کی پالیسی کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف بھارت چین کا مقابلہ کرنے سے ڈرتا بھی ہے۔
5۔ جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے، تو امریکہ نے آسٹریلیا کے کردار کو جو امریکی مدار میں گھومتا ہے، فعال بنانے اور اقتصادی وسکیورٹی میدان میں اس کے ساتھ تعاون کو تیز تر کرنے پر کام کیا تاکہ وہ ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جائے۔ اس مقصد کیلئے اعلیٰ سطحی امریکی ذمہ دارا ن بالخصوص سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن، سابق امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا اورسابق چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے آسٹریلیا کے شہر پرتھ کا سفر کیا تاکہ اپنے آسٹریلوی ہم منصب شخصیات سے ملاقاتیں کریں۔ اس دن کلنٹن نے پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں امریکن ایشین سینٹر کے افتتاح کے دوران کہاکہ "آسٹریلیا متحرک تجارت کیلئے ایک دروازہ ہےاورتوانائی کےوسائل کی گزرگاہوں کیلئے ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ راستے بحر ہند کو بحرالکاہل کے ساتھ ملاتے ہیں اورانہی راستوں کے ذریعے پوری دنیا تک توانائی کے وسائل پہنچائے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں آسٹریلیا بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان ایک اسٹرٹیجک(تزویراتی) کراس پوائنٹ تشکیل دیتا ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ آسٹریلیا میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے، جس میں امریکہ کی سرمایہ کاری 100 بلین ڈالر سے زائد ہے کیونکہ عالمی اقتصاد کے دل میں ان پانیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ خطے میں امریکی توسیع کے حوالے سے مرکزی نقطہ ارتکاز تشکیل دیتے ہیں۔ ہم ان پانیوں کو بسا اوقات 'ہمارا ایشیائی محور' کا نام دیتے ہیں"۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ نے ایشیائی اور پیسفک خطے کو بالکل نہیں چھوڑا اور امریکہ بحرالکاہل میں ایک قوت کے طور پرہمیشہ رہے گا "۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ کی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے اور ان کے درمیان واقع خطوں کے حوالے سے نقطہ نظر، آسٹریلیا اور امریکہ کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن ہوگا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012 )۔ اس سینٹر میں کلنٹن نے بھارت سے متعلق امریکی نقطہ نظر کا ذکر کیا اور یہ کہ امریکہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ"امریکہ کی اسٹرٹیجک ترجیحات میں سے ہے کہ بھارت کی مشرق کی جانب دیکھنے کی پالیسی کی حمایت کرے اور ایشیائی اداروں اور امور میں بڑا کردارادا کرنے پرنئی دہلی کی حوصلہ افزائی کرے"۔ اس نے مزید کہا کہ "امریکہ مستقبل میں بھارت اور آسٹریلیا کی مشترکہ بحری مشقوں کا خیر مقدم کرتا ہےاور امریکہ بحر ہند کے بالمقابل ممالک کی یونین برائے علاقائی تعاون کے ساتھ کام کرنے کیلئے پُرعزم ہے، اس یونین کی قیادت 2013 میں آسٹریلیا سنبھالنے والا ہےجس میں امریکہ بات چیت کے شریک کار کی حیثیت سے حصہ لے گا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012)۔ یہ نظریہ اس خطے سے متعلق امریکی طرزِ فکر کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ امریکہ آسٹریلیا کو ایک سرگرم عنصر کے طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں چینی نقل وحرکت کا سامنا کرے۔ یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کرپایا ہے جس کی زمینی حدود چین کے ساتھ لگتی ہیں، اس لئے وہ آسٹریلیا کو جنوبی بحر چین کے پانیوں میں بھارت کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے۔ تو آسٹریلیابھارت کی بہ نسبت امریکی حکمت عملی کے نفاذ کے زیاد ہ قریب ہے۔ آسٹریلیا سرمایہ داریت کو اختیار کرنے والی ایک مغربی ریاست سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی دیگر مغربی استعماری ممالک کی طرح استعماریت کا دلدادہ ہے۔ اس لئے آسٹریلیا تمام استعماری لڑائیوں میں امریکہ کے ساتھ کام کرتااور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جیساکہ ماضی میں برطانیہ کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ چونکہ آسٹریلیا ان دونوں ریاستوں کے مدار میں چکرکاٹتا رہتا ہے، لہذا مسلسل ان کے ساتھ شریک رہے گا۔
6۔ جہاں تک جاپان کا تعلق ہے تو امریکہ جاپان میں اپنی قو ت کو مستحکم اور چین سے خطے کے دفاع میں جاپان کوبڑا کردار دینا چاہتا ہے۔ امریکہ نے 6 اپریل 2014 کو میزائل ڈیفنس کے مزید بحری جہاز جاپا ن کی طرف بھیجنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ "امریکہ2017 کے آغاز میں جاپان کی طر ف دو اضافی تباہ کن بحری جہاز (AEGIS ballistic missile defence ships) روانہ کرے گا۔ یہ اقدامات شمالی کوریا کی طرف سے اشتعال انگیزکاروائیوں کے جواب میں کئے جارہے ہیں جس نے ہمیں نئے جدید ایٹمی تجربات کی دھمکیا ں دی ہیں"۔ اس نے چین کو بھی اپنی عظیم طاقت کے غلط استعمال پر یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ " بڑی ریاستوں کے لئے ضروری ہے کہ جبر اور دہشت سے کام نہ لیں کیونکہ اس سے کشمکش جنم لیتی ہیں"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ "امریکہ چین کے ساتھ اس کی عسکری طاقت کے استعمال اور شفافیت کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتا ہے" (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ اس نے کریمیا میں روسی اقدامات کی طرف اشارہ کیا تاکہ چین کو جاپان کے ساتھ متنازعہ جزیروں کے حوالے سے اس قسم کی کاروائیوں سے متنبہ کردے۔ اس نے کہا کہ"آپ کے لئے طاقت، جبر اور دہشت کے ذریعے سرحدوں کے نقشے ترتیب دینا، زمینی امن اور ریاستوں کی بالادستی کوپامال کرنا ممکن نہیں رہا خواہ بحرالکاہل کے چھوٹے جزیرے ہوں یا یورپ کے بڑے ممالک"۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے گزشتہ ہفتے جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک کے وزرا ئے دفاع کے ساتھ ایک ملاقات کی اور جنوبی بحر چین میں بڑھتی ہوئی امریکی پریشانی پر انہیں متنبہ کیا (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ جاپانی کیوڈو ایجنسی نے 5 اپریل 2014 کو بتایا کہ"اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ امریکی سیکریٹری دفاع اور جاپانی وزیر دفاع اٹسونوری اونوڈورا (Itsunori Onodera) جاپانی دستور میں ترمیم کرکے جاپان کو اس بات کی اجازت دینے کے موضوع پر بات چیت کریں گے کہ وہ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سیکریٹری دفاع کے ساتھ اپنی میٹنگ میں اونوڈورا اسلحہ اور دفاعی سازوسامان کی منتقلی بارے میں گفتگو کریں گے اور ممکن ہے کہ طرفین دفاعی ساز وسامان کے میدان میں تعاون بڑھانے پر کسی معاہدے پر یکجا ہوجائیں"۔ یعنی امریکہ چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں خطے کا دفاع کرنے کیلئے جاپان کو کردار دیدے اوریوں اپنے کندھے ہلکے کردے اور جاپانیوں کے قومی جذبات کو ابھارے جن کی خواہش ہے کہ امریکی اثر ورسوخ سے آزاد ان کے اپنے نام سے کوئی ذاتی طاقت ہو جس کے ذریعے اپنی حفاظت کرسکیں۔
7۔ جہاں تک کانگرس یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کی صورت میں ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی پالیسی کے متاثر ہونے یا نہ ہونے کی بات ہےتو یقینا یہ متاثر ہوگی کیونکہ کانگرس کی انگریز نوازی پشت درپشت چلی آرہی ہے اوروہ ایک حدتک سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک بھی ہے جو اس نے اپنی بوڑھی مادام برطانیہ سے ہی لی ہوئی ہے۔ اس لئے کانگرس امریکہ کیلئے پریشان کن ہے جبکہ بیک وقت وہ برطانیہ کی طرح اس کے ساتھ کشتی بھی لڑتا ہے۔ چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کانگرس نے امریکہ کے ساتھ بعض عسکری معاہدات اور تجارتی تعلقات تو قائم کئے مگر سیاسی تعلقات اور اسٹرٹیجک مسائل میں اس کے لئے تشویش پیدا کرتا رہاہے۔ مثال کے طور پر کانگرس نے 2004 کی اپنی انتخابی مہم، جس میں اسے کامیابی ملی، کے دوران ایک بیان تیار کیا ۔ اس بیان میں اس نے امریکہ سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیا اور اس سے پہلے برسر اقتداررہنے والی جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ "یہ بات افسوسناک ہے کہ بھارت جیسا بڑا ملک یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی ماتحت ریاست کی سطح پر آگئی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھتی ہیں کہ بھارت اس کی ماتحت ریاست ہے۔ اس صورتحال نے بی جے پی کی حکومت کو یونائیٹڈ اسٹیٹس کی ترجیحات اور پالیسیوں کے رنگ میں رنگنے پر تیار کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کو بھارت کی اپنی خارجہ اور ناگزیر پالیسیوں اور اپنی قومی سلامتی کے مفاد سے دلچسپی نہیں "۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کانگرس امریکہ کیلئے کس حد تک پریشان کن ہے مگر اس کے باوجود امریکہ نے اسٹرٹیجک مذاکرات بند نہیں کیے بلکہ جون 2010 میں اس کو دوبارہ شروع کیا جو 2004 میں صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کلنٹن ، جو سمینار برائے مذاکرات میں امریکی وفد کی قیاد ت کر رہی تھی، نے بھارت کے بارے میں کہا کہ "یہ ہمار ا وہ ساتھی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ وہ ساتھی ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں"۔ اس لئے امریکہ کی وفادار بی جے پی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سے کانگرس کو اقتدار ملا ہے تب سے بھارت کا امریکی پالیسی کے نفاذ کی سمت میں چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہاں یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب امریکہ اس کو بہت زیادہ اکسائے جیسا کہ ہم نے اس سے قبل ذکر کیا۔ اس کے باوجود بھارت دیرینہ وجوہات کی بنیاد پر کترارہا ہے۔ یہ وجوہات بی جے پی کی حکومت کے دوران بھی موجود تھیں، اس کے باوجود یہ پارٹی امریکی پالیسیوں کو نافذ کرتے وقت ان وجوہات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ نے کانگرس پارٹی کو ایسا وفادار بنایا ہوا ہے جو مکمل طور پر اس کی تقلید کررہی ہے اور برطانیہ نے بھارت چھوڑ جانے کے بعد سے اسی کو حکومت سپرد کی تھی، یہ ہمیشہ حکومت میں رہی، ما سوائے 1998 تا 2004 کے عرصے میں، اُس وقت امریکی وفادار بی جے پی کو کا میابی ملی تھی، پھر 2004-2009 کے انتخابات میں اسے دوبارہ کامیابی ملی تھی۔
جہاں تک حالیہ انتخابات کی بات ہے جو7اپریل2014 کو شروع ہوئے، تو اس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ بعض سروے اداروں نے کہا ہے کہ ان کے نتائج اس طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی متوقع ہے۔ تو اگر رائے عامہ اور بھارت کے انتخابا ت کے نگران اداروں کی توقعات سچ ثابت ہوتی ہیں اور بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے خواہ اکثریت حاصل کرکے اپنی مستقل حکومت بنائے جو کہ ایک حد تک بعید نظر آتاہے یا پھر نتائج اس قسم کے ہوں کہ وہ تشکیل پانے والی کسی بھی حکومت سے اپنی شرائط منواسکتی ہو دونوں صورتوں میں امریکی پالیسی یعنی بھارت کے ذریعے چین کو تنگ کرنے کی پالیسی، کانگرس کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ قابل عمل ہوگی، بلکہ زیادہ آسان ہوگی جیساکہ اس سے پہلے جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں تھا۔ اس وقت کانگرس کے کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعدلوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور جب 2004 میں کانگرس کو دوبارہ حکومت ملی تو امریکاکی بھارتی حکمت عملی کے خلاف الجھن اور گڑبڑپیدا کرنے کی پالیسی دوبارہ شروع ہوئی مگر اس سے قبل کہ کانگرس امریکی حکمت عملی میں معاونت کیلئےامریکہ کی طرف قدم بڑھائے، امریکہ سے کشتی لڑ کر اس سے اپنے مفاد کے معاہدات کروانا چاہتی ہے۔
8۔ جہاں تک چین اور بھارت کے درمیان تقابل کی بات ہے، تو کئی وجوہات سے چین کا پلڑا واضح طور پر بھار ی نظر آتا ہے:
پس چین اگر چہ اپنی آئیڈیالوجی کا حامل نہیں اور خارجہ پالیسی اور معاشی واقتصادی پالیسی میں اس سے دستبردار ہوچکا ہے، اسی طرح زندگی کے متعدد میدانوں میں اس کو خیرباد کہہ دیا ہے، مگر کیمونسٹ پارٹی کے نام سے حکومت کی حد تک اس کی حفاظت اس لئے کرتا ہےتاکہ پارٹی اور اس کے پیروکاروں کے مفادات اور ریاست کی آزادی واستحکام کاتحفظ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی سےنقل وحرکت کرسکتا ہے اوراسی وجہ سے ایک ماتحت یا مدار میں چکر کاٹنے والی ریاست بننے سے بچا ہوا ہے بلکہ وہ عالمی سطح کی بڑی ریاست بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ قومی دفاعی یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے چینی کرنل لیو مینگو، جو نوجوان افسروں کو تربیت دیتا ہے، نے اپنی کتاب "چینی خواب " میں اس کو بیان کیا ہے اور چینی قوم کو دعوت دی ہےکہ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج تیار کرے اور یہ کہ عالمی ہیرو امریکہ پر چڑھائی کرنے کیلئے جلد متحرک ہوجائے۔ اس نے اپنے ملک کو نمبر ون بننے کیلئے عالمی اہداف ومقاصد کے حصول سے متعلق نرمی وعاجزی کو دور پھینکنے بلکہ ان اہداف کی طرف چھلانگ لگانے کی دعوت دی ہے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ اگرچین اکیسویں صدی میں عالمی نمبر ون ریاست اور سپر طاقت نہیں بن پاتا تو چین کو حتمی طور پر کنارے لگایا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ چین کو اپنی قوت اور چیلنج کی صلاحیت کا بھر پور احساس ہے اور اگر صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ امریکہ کےساتھ مقابلہ صرف چین کے خلاف امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کی حد تک کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اور اگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر قو ت کے ساتھ اثر انداز ہوتا۔ بہر حال چین کو اپنی قوت کا احساس ہے اور بھلے صرف اپنے علاقے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی خود مختاری کی بقاء کی جد وجہد کرتا رہتاہے۔
اور جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کا نہ توکوئی مبداء (آئیڈیا لوجی ) ہے اورنہ ہی کسی آئیڈیا لوجی سے نکلنے والے افکار اس کے پاس موجودہیں۔ البتہ وہاں سرمایہ داریت کو اس لئے نافذ کیا جاتاہے تاکہ وہ مغرب بالخصوص برطانیہ کی ماتحتی کی ضمانت فراہم کرسکے اوراس چیزکا اس کی ترقی یا اس کو ایک آزاد ریاست بنانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی خطے کی باقی ماتحت ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے کیونکہ اس پر سرمایہ دارانہ نظام استعماری قوت کے ذریعے مسلط کیا گیا اور جسے اب تک مسلط رکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ نہ توایک خود مختار ریاست ہے اور نہ ہی اس کے پاس قوت وسرعت کے ساتھ کام کرنے، شعور اور ذاتی منصوبہ بندی کی کوئی اُمنگ موجود ہے۔ یہ اب بھی ایک ماتحت ریاست ہے اوراس کی پالیسیاں آزاد نہیں ہوا کرتیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ سیاسی میدان میں سست رفتاری کے ساتھ حرکت کناں ہے اور ہمیشہ سے بیرونی اثرات قبول کرتا ہے، بجائے اس کے کہ خود کسی پر اثر انداز ہو، نہ ہی کسی کا روائی میں پہل کرتا ہے۔ تو یہ ہمیشہ سے اثر پذیر ی کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، خواہ برطانیہ کی طرف سے ہو جو اس کا پرانا آقا ہے یا امریکہ کی طرف سے جو اس کے ارد گرد ہاتھ مارتا رہتا ہے جہاں اس نےاپنے پیروکاروں کی ایک مضبوط سیاسی قوت تشکیل دی ہے۔ اس لئے اس پہلوسے یہ چین سے مختلف ہے۔ فکری طور پر بھارت ایک پسماندہ مملکت ہے۔ اس کے کوئی متعین فکری اصول نہیں ہیں۔ اس کے سیاسی بساط پر کام کرنے والے بھی کسی اصول و ضوابط کے پابند نہیں۔ اس لئے اس میں مالیاتی وسیاسی کرپشن عام ہے اس حد تک کہ تقریباً تمام کے تمام سیاست دانوں کی یہی حالت ہے۔ اس لئے اس کا علاقائی یا عالمی سطح پر ایک بڑی ریاست بننا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ممکن ہےوہ یہ کہ بھارت مستقبل میں مدار والی ریاست بن جائے اور کسی دوسری بڑی ریاست کے مدار میں چکر کاٹنے لگے، خواہ یہ مدار امریکہ کا ہو یا برطانیہ کایا دونوں کا۔
یہ تو تھا سیاسی پہلو سے، جہاں تک اقتصادی پہلو کا تعلق ہے تو چینی معیشت بھارت کی معیشت سے چار گنا تک بڑی ہے۔ اس کے ساتھ چین غربت کی سطح کو کم کرنے کے قابل ہوا ہے جبکہ دنیاکے 66فیصد غریب لوگ بھارت میں رہتے ہیں اور بھارت چین کے ساتھ معاشی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے ایک بڑا وسیع صنعتی شعبہ قائم کر لیا ہے جس کے باعث اس کے پاس کرنسی کے ریزرو اثاثوں کی ایک بڑی مقدار موجود ہوئی ہے، جو اس کو عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے کے قابل بناتا ہے۔ جہاں تک بھارت میں صنعت سازی کا تعلق ہے تو پیداوار اور صنعتی فروغ کے حوالے سے بھارت چین کی سطح سے ابھی کوسوں دور ہے، بالخصوص بھاری مشینری اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ بھارت کے اندرسرے سے اس طرح کے کام ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ چین کی بہ نسبت اس کو پسماندہ کہا جاسکتا ہے۔
جہاں تک عسکری پہلو کا تعلق ہے تو چین کا سرکاری فوجی بجٹ 119 بلین ڈالر ہے، یہ 38 بلین ڈالر کے بھارتی دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چین نے اپنی مسلح افواج کی جدید تربیت کے حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے۔ چین اب اپنے پلیٹ فارم بنارہاہے (یہ پلیٹ فارم بحری جہاز، ٹینک اور لڑاکا طیاروں جیسے بھاری فوجی سامان کی تیاری کیلئے ہے)۔ چین اپنے بیڑے کی توسیع کررہا ہے اور اپنے خطے پر تسلط حاصل کرنے کیلئے سرگرم اقدامات کررہا ہے۔ لیکن بھارت جس نے حال ہی میں اپنے فوجی پروگرام کی تشکیل جدید کے لئے سرمایہ کی فراہمی کے لئے اپنے وسائل کو ترقی یافتہ بنانا شروع کیا ہے، اب تک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ دوسری طرف بھارت فوجی سامان درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ باوجودیکہ اس کے اپنے داخلی عسکری وسائل کی تجدید ی کوششوں پر دودہائیاں گزرچکی ہیں مگر یہ اب تک قابل ذکر پلیٹ فارم کو جدید شکل دینے میں ناکام ہوا ہے۔ پیٹر ڈی ویز مین، جو سٹاک ہولم میں انسٹیٹوٹ فار انٹرنیشنل پیس ریسرچ کا ایک سینئر تحقیق کار ہے، کہتا ہےکہ "میں نہیں سمجھتا کہ بھارت کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا ملک جس نے اسلحہ بنانے میں سنجیدہ ہوکرکام کیا ہو اور وہ کلی طور پر ناکام ہوا ہو"۔ (اسلحہ درآمد کرنے والادنیا کا بڑا ملک، انڈیا علاقائی سطح پر اسلحہ فروخت کرنا چاہتا ہے، نیویورک ٹائمز، مارچ 2014)۔
اس طرح چین اوربھارت کے درمیان تقابل کریں تو چین کا پلڑا بھارت کے مقابلے میں کئی گنا بھاری ہے۔
9۔ اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے وفادار پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کے ساتھ بھارت کی مغربی سرحد کو محفوظ بناکر چین کے ساتھ کشمکش کیلئےبھارت کو شمالی محاذ کی طرف لگایا۔ اس کی خاطرامریکی پٹھو پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ نواز بی جے پی کے دور حکومت میں بھارت کو بڑی بڑی مراعات دیں۔ اور جب کانگرس کو اقتدار ملا تو کانگرس نے حقیقی لائن آف کنٹرول کہلائے جانے والے اس محاذ پر کاروائی کے حوالے سے پسپائی اختیار کی کیونکہ بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پارٹی انگریزوں کی وفادار ہے جو امریکی منصوبوں کے مطابق چال چلن پر بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ تب امریکہ نے بھارت کو مشرق پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایات دیں یعنی بحر الکاہل کے خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف اور اس کو اس بات پر اکسایا کہ بھارت وہاں پر موجود تیل و گیس کے ذخائر سے اپنا حصہ وصول کرنے کاحق رکھتا ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اس نے ویتنام کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا جو ان ذخائر پر اپنے حق کا دعویدار ہے اور چین کےساتھ جزائرسپراٹلی پر اس کے تنازعات چل رہے ہیں.....اس طرح امریکہ نے آسٹریلیا کوبھی اس جانب متوجہ کیا تاکہ چین کے مقابلے کیلئے کئی ممالک پر مشتمل بلاک کی تشکیل کی کوششوں میں اس کوشریک کرسکے.....امریکہ اب جاپان کو زیادہ فعال کردار دینے پر کام کررہا ہے تاکہ دفاع کی ذمہ داریوں میں کمی کرسکے۔ اور اگر بی جے پی حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو اس امر کا امکان ہے کہ مشرقی خطے یعنی جنوبی بحر چین میں امریکہ کی ہمرکابی میں بھارت کی سرگرمی بڑھ جائے۔ جہاں تک چین اور بھارت کی طاقت کا تعلق ہے تو ان کے درمیان بڑا فرق ہے اور اگرچین صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ صرف چین کے حوالے سے امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کے طورپر امریکہ کا مقابلہ کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اوراگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر مضبوط انداز سے اثر انداز ہوسکتاتھا۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک