الإثنين، 26 شوال 1445| 2024/05/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: عراق کی سیاسی صورت حال میں پیش رفت

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال :
حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ امریکی جہازوں نے عراق کے شمال میں الدولۃ تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں ۔۔۔اوبامہ اور بعض امریکی عہدہ داروں کے بیانات بھی سامنے آئے کہ یہ اقدام انسانی بنیادوں اور نسل کشی کے واقعات ہونے کے خوف سے اٹھا یا گیا، حالانکہ شام میں اس سے زیادہ شدید اور سنگدلانہ خونریزی کے واقعات رونما ہوئے مگر امریکہ نے مداخلت نہیں کی بلکہ عراق ہی میں الانبار اور الفلوجہ میں زبردست قتل و غارت کی گئی اور امریکہ نے کوئی مداخلت نہیں کی جس کا یہ مطلب ہے کہ عراق کے شمال میں امریکی ہوئی جہازوں کے بمباری کا حقیقی سبب انسانی محرکات نہیں کیونکہ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ : اگر یہ بات درست ہے اور حملوں کا سبب یہ نہیں ۔۔۔تو مجھے امید ہے کہ اگر ممکن ہو سکے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنے سیاسی تجزئیے کے مطابق حقیقی سبب کو بیان کریں گے اور اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب :
1۔ جی ہاں آپ نے جو کہا ہے کہ انسانی محرکات اس کا سبب نہیں درست ہے۔ امریکی اقدامات اور اس کی مداخلت کے واقعات کو پیش نظر رکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ انسانی بنیادوں کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، عراق اور افغانستان میں اس کے جرائم بھی اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔ابو غریب اور گونتاناموبے کے عقوبت خانوں میں تشدد بھی اس پر شاہد ہے۔۔۔میانمار میں قتل وغارت اور اجتماعی نسل کشی، ان اندوہناک واقعات کے بعد بھی جن کا مسلمانوں نے سامنا کیا امریکہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا جو میانمار حکومت کے لیے تکلیف دہ تو دور کی بات اس کو پریشان کر سکے۔۔۔بلکہ اس کے بر عکس اس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھا یا۔۔۔اس موضوع پر امریکی جرائم کا احاطہ کرنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
2۔ امریکہ 2003 میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ی کررہا ہے، چنانچہ پال بریمر نے فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیاد وں پر جو دستور وضع کیا جس میں ہر گروہ اور مسلک کے لیے حصہ مقرر کیا گیا ۔۔۔اس کو جمہوریہ کے سربراہ، پارلیمنٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے لیے الگ الگ کیا، چونکہ وزیر اعظم ہی حکمرانی کے اختیارات کا مالک ہے بریمر نے اس کو ایک مذہبی منصب کا روپ دیا اس لیے دوسرے عناصر کے لیے یہ اشتعال اور انارکی پھیلانے کے قابل بن گیا۔۔۔اس لیے صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ عراق عملاً منقسم ہو گیا : شمال مشرق میں کرد، مغرب اور شمال میں سنی اور جنوب اور بغداد میں شیعہ ۔۔۔
3۔ لکھا گیا دستور خود کہتا ہے کہ نظام صوبوں کے مابین فیڈریشن پر مبنی ہو گا جس میں صوبوں کے پاس زیادہ تر اختیارات ہوں گے، اسی وجہ سے امریکہ عراق کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہرٹکڑا اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے گا بلکہ اپنے اندرونی تنازعات کو دوسرے ٹکڑے میں داخل نہیں کرے گا۔ امریکہ اس راستے پر گامزن رہا اور 2011 میں عسکری لحاظ سے عراق سے نکلنے کے بعد ایک ایسے سکیورٹی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جس کے ذریعے عراق میں حکومت کو منظم کیا مگر اس نے امن اس طریقے سے قائم کیا کہ عراق کو مختلف علاقوں میں تقسیم کیا لیکن انہیں ایک کمزور جوڑ کے ذریعے متحد رکھا تا کہ مستقبل میں عراق کی حتمی تقسیم کی پالیسی کا پیش خیمہ ثابت ہو اگر یہ ممکن ہو۔ لہٰذا وہ عراق کی سکیورٹی کو اس زاویے سے دیکھتا ہے یعنی کہ اگر ایک خطہ دوسرے خطے میں مداخلت کرے تو یہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے لیکن اگر ایک خطے کے اند سکیورٹی مسائل پیدا ہوں لیکن وہ دوسرے خطے کی سکیورٹی کو خراب نہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
4۔ اس بنا پر اگر سنیوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں، کردوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں یا شیعوں کے مسائل ان کے علاقے تک محصور ہوں تو اس کو امن و امان کے حوالے سے کوئی ایسی تشویش نہیں ہو گی جو اس کو مداخلت پر اکسائے اور جب تک بغداد تینوں خطوں کے لیے راہ گزر رہے اگرچہ وہ بغداد کے ساتھ ایک کمزور رشتے سے جڑے ہوں ۔۔۔اسی لیے جوں ہی کوئی ایک ٹکڑا دوسرے میں دست درازی کر تا ہے تو امریکہ اس کو امن میں خلل قرار دے کر مذکورہ سکیورٹی معاہدے کو جواز بنا کر مداخلت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹکڑا مرکز "بغداد" کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو امن وامان میں خلل قرار دے کر مداخلت کرتا ہے۔۔۔عراق کے ساتھ اس قسم کے سکیورٹی معاہدے کی تکمیل کے لیے امریکہ اس وقت سے پیش رفت کررہا ہے جب صرف کردوں کے لیے مخصوص ٹکرا تھا۔۔۔لیکن پھر اس کے بعد حالیہ سالوں میں باقی ٹکڑوں کے لیے بھی صورت حال کو عملاً تیار کیا گیا: سنیوں کا علاقہ، شیعوں کا علاقہ۔۔۔اس مقصد کے لیے شیعہ اور سنی کے درمیان عداوت کا بیچ بونے کے لیے خباثت پر مبنی منصوبہ بنایا جس سے نفرت پروان چڑھے۔ امریکہ کا پروردہ نوری المالکی خاص طور پر فرقہ پرست تھا جس نے دوسروں کو بھی مشتعل کیا جس سے تقسیم کے لیے ماحول سازگار ہو گیا اور وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ پھر المالکی نے سنیوں اور کردوں کے درمیان بھی عداوت کا بیچ بویا یہاں تک کہ عراق کی تقسیم بہت سارے لوگوں کا مطالبہ بن گیا۔۔۔المالکی اس عداوت کو پروان چڑھانے اور علاقائیت اور تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا یہی امریکہ کی جانب سے دیا جانے والا فرض منصبی تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس کو وزیر اعظم بنا یا گیا تھا۔۔۔آج یہ مقصد پورا ہو گیا اور المالکی عراق میں لوگوں کے درمیان عداوت کا ماحول پیدا کر نے میں کا میاب ہو گیا اور اس کا کردار بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اب ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو حالات کو کنٹرول کرے، اس عداوت کی فضاء سے فائدہ اٹھائے تاکہ ان ٹکڑوں اور علاقوں کو اس طرح منظم کرے کہ یہ اپنی اپنی جگہ خود مختار اور مرکز کے ساتھ برائے نام مربوط ہوں۔ وہ شکل اختیار کریں جس کو متحدہ ریاست کہا جاتا ہے۔۔۔یوں مالکی کا کردار ختم ہو گیا اور اس کے آقا امریکہ نے بھی اس کو ذلیل کر کے ایک طرف پٹخ دیا، حتی کہ اس کو گود لینے والے ایران نے بھی اس کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی خدمت اور اس کے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے بعد اور ایران کی خدمت اور اس چاپلوسی کرنے کے بعد دونوں کی جانب سے اس ذلت آمیز طریقے سے دھتکارنے پر المالکی سیخ پا اور غصے میں ہے ۔۔۔اگر یہ شخص عقل والا ہو تا تو اس کوکوئی تعجب نہ ہوتا کیونکہ تمام ایجنٹوں کایہی حال ہوتا ہے کہ جب ان کا کام پورا ہو جاتا ہے تو ان کوسڑک کے کسی کنارے پھینک دیا جاتا ہے، کچھ کو ایسی سڑک پر پھینک دیتا ہے جس میں پتھر نہیں اور کچھ کوایسی سڑک پر جس پر پتھر ہیں جو ان کے جسموں کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔۔۔!
5۔ اس وجہ سے امریکہ نے سنی علاقوں میں رونما ہو نے والے خونریزی کے واقعات کو جو قبائل، الدولۃ تنظیم، بعثیوں اور نقشبندیوں کے درمیان ہوئے، اہمیت نہیں دی۔قتل و غارت کے تمام واقعات کو امن وامان کا مسئلہ بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ ایک ہی ٹکڑے کے اندر پیش آرہے تھے۔۔۔اسی طرح 10 جون 2014 کو الدولۃ تنظیم کے موصل، تکریت یا کسی اور علاقے میں داخل ہو نے کو امن میں خلل قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے اجتماعی نسل کشی قرار دیا اور نہ اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔۔۔کیونکہ یہ قتل غارت ایک ہی خطے کے اندر تھی ۔۔۔لیکن اس نے الدولۃ تنظیم اور دوسرے سنی گروپوں کے بغداد کے قریب پہنچنے کو خطرناک اور امن وامان کے لیے تشویشناک قرار دیا اور فوراً سکیورٹی ماہرین روانہ کر دیے جیسا کہ بساکی نے 16 جون 2014 کو ان کے بغداد سفارت خانے روانگی کی تو ثیق کر دی۔ بغداد کا سفارت خانہ ہی دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے جو سازشوں کا گڑھ ہے جہاں انسانیت کے خلاف جرائم میں خبیث ترین اسالیب استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔پھر 31جون 2014 کو امریکہ نے 300 فوجی مزید روانہ کیے۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے جہاز بھی بھیج دیے، پینٹاگان نے بغداد ائر پورٹ میں سکیورٹی ماہرین بھی تعینات کر نے کا اعلان کر دیا ۔ پینٹا گان کے ترجمان ایڈمیرل جوکیربی نے کہا کہ 200 فوجی عراق پہنچ گئے ہیں تاکہ عراقی دار الحکومت میں موجود سفارت خانے اور بغداد کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر تنصیبات کی حفاظت میں مدد کر سکیں، جبکہ 100 مزید فوجی بغداد روانہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے "تاکہ لوجسٹک اور امن کے لیے مدد فراہم کریں"۔۔۔یہ سب ان تنظیموں کو بغداد میں داخل ہو نے سے روکنے کے لیے دھمکی تھی اسی لیے بغداد پر حملے کم ہوئے بلکہ رک گئے۔۔۔حالانکہ اس وقت مالکی اور اس کی فورسز کی عسکری صورت حالت خراب تھی اور یہ تنظیمیں با آسانی بغداد میں داخل ہو سکتی تھیں لیکن انہوں نے امریکہ کی جانب سے دھمکی کے اشاروں کو سنجیدگی سے لیا اور واپس ہو گئیں۔۔۔!
6۔ یو ں عراق میں امریکہ کے مرتب کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کسی واقعے کے رونما ہو نے کو ہی امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، ایسا کچھ ہو نا ہی اس کے نزدیک اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہے اور امن و امان میں خلل اور سرخ لکیر کو پار کرنا ہے۔۔۔لیکن اس امریکی سرخ لکیر کو پار کیے بغیر جس قدر بھی قتل و غارت کی جائے اور خون کی ندیاں بہائی جائیں، انسان، درخت اور پتھروں کو بھی تباہ کیا جائے بشرطیکہ اس سے امریکہ کے مفادات پورے ہوتے ہوں اور اس کے منصوبے کے مطابق ہو تو وہ جرم نہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ الدولۃ تنظیم کا سنی علاقوں سے آگے بڑھ کر کردستان کے قریب پہنچنا امریکہ کے نزدیک امن میں خلل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اجتماعی نسل کشی ہے، جیسا کہ اوبامہ نے9 اگست 2014 کو نیویارک ٹائم کو انٹرویو کے دوران عسکری مداخلت اور عراق کے شمال میں فضائی حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: "اگر صورت حال منفرد ہو اور اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہو اور کوئی ریاست وہاں ہماری موجود گی کی خواہش بھی رکھتی ہو ۔۔۔ تب ایسا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے"۔ یہ بات وہ ایسے وقت میں کر رہا ہے جب شام میں اس سے کئی گنا زیادہ خونریزی ہوئی ہے اور جلا کر راکھ کر دینے والے مائع مواد کے ڈرم گرائے جارہے ہیں ۔۔۔لیکن اس سے اوبامہ نے اجتماعی نسل کشی کا خطرہ محسوس نہیں کیا ! اس لیے شام کے سفاک کی جانب سے قتل و غارت کے خلاف مداخلت نہیں کی۔۔۔لیکن اس نے عراق کے شمال میں خطرے کے کردستان کے علاقے کے قریب ہو نے پر ہی مداخلت کر دی، چنانچہ 8 اگست 2014 کو اپنے خطاب میں مداخلت کا اعلان کردیا۔ اس کے نائب جوبائڈن نے البرازانی کو فون کر کے امریکی حمایت کا یقین دلایا، پھر 9 اگست 2014 کو ہفتے کے دن سے امریکہ نے فضائی حملے شروع کردیئے۔۔۔
7۔ امریکی مداخلت کا بنیادی سبب الدولۃ تنطیم کی جانب سے کر دستان کے علاقے میں حملوں کو روکنا ہے تا کہ امریکی پالیسی کے مطابق عراق کو ایسے تین ٹکڑے بنانے کی راہ ہموار کی جائے جو خود مختار ہوں اور جن کے مرکز سے را بطہ برائے نام ہو اور ایک ٹکڑا دوسرے پر قبضہ نہ کرے۔ وہ عراق کو پہلے کی طرح ایک ریاست باقی رکھنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کو تین مختلف خطے بنا کر بعد میں اپنی پالیسی کے مطابق بالا آخر قانونی طور پر عملاً تقسیم کر دے۔ ساتھ ہی وہ ان ٹکڑوں کے اندر داخلی تنازعات کو امن وامان کے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں سمجھتا جو اس کے معاہدے کے خلاف ہو جس کی رو سے امریکہ کو مداخلت کی اجازت ہے۔۔۔
یہ ہے مداخلت کا سبب۔ مداخلت کا سبب کوئی انسانی محرک یا اجتماعی نسل کشی کا خوف نہیں۔۔۔سرمایہ دار ریاستیں جن کا سرغنہ امریکہ ہے، کے ہاں کسی انسانی یا اخلاقی عوامل کا کوئی وزن نہیں بلکہ ان کے لیے مسئلہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرنا اپنے منصوبوں کی ترویج کرنا خواہ اس کے لیے نسلوں اور فصلوں کو تبا ہ کرنا پڑے۔۔۔یہ ہیں وہ استعماری کفار جو مؤمن کے بارے میں کسی رشتے کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی تعلق کا لحاظ ، بلکہ وہ جہاں بھی گئےان کے ہاتھ خون سے رنگے ہو ئے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہ ہیں، جو کچھ وہ کر ہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔
8۔ آخر میں کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ امت مسلمہ جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کی وہ آج ان سرکش اور ذلیل حکمرانوں کے نیچے ہے جو امت کی گردن پر سوار ہیں جنہوں نے اس کو استعماری کفار اور ان کے ایجنٹوں کا اکھاڑا بنا یا ہوا ہے جہاں وہ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔۔۔نوے سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے خلافت کے انہدام پر خاموش رہنے کی وجہ سے اس امت پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کیونکہ وہ ڈھال ہی اس کے ہاتھ سے گرگئی جس سے اس کی حفاظت ہو تی تھی اور جو ان کی نگہبانی کرتی تھی ۔۔۔لیکن وہ چیز جس سے یہ مصائب ہلکے ہو جاتے ہیں وہ ہے امت کے اندر بیداری کی پر اثرلہر جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔آج یہی امت ایک بار پھر قوت اور چستی سے انگڑائی لے رہی ہے۔۔۔اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے اذن سے جو چیز غموں کو ہلکا کر دیتی ہے وہ دعوت کے ان پاکبازشہسواروں کا وجود ہے جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو ایک ایسی متقی اور پاک حزب کی شکل میں جدو جہد کر رہے ہیں جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کو واپس لانے کی زبردست کوشش کر رہی ہے ۔ تب ہی یہ امت وہی عزت اور کامرنی حاصل کر لےگی جیسا کہ اس کو پہلے حاصل تھی اور واقعی وہ بہترین امت ثابت ہوگی جس کو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اوریہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ۔۔۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ "اور کچھ ہی عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک