الجمعة، 23 شوال 1445| 2024/05/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کی واپسی کی بشارت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اللہ کی طرف سے

فتح و کامیابی کے حصول کے لیے صالح اعمال کریں

 

مصعب عمیر - پاکستان

 

امام احمدبن حنبل نے رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظِ مبارک روایت کیے :

تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة،

"دورِنبوت تب تک تمہارےدرمیان موجود رہے گا جب تک اللہ چاہتا ہے کہ یہ قائم رہے۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی ، جو کہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ، پھر جب اللہ چاہےگا اسے اٹھا لے گا۔ پھر ایسا  دَور ہو گا جس میں حکمرانی کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑا جائے گا (کہ نکل کر کسی اور کے پاس نہ چلی جائے)، اور یہ دورباقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے اسے ختم کردے گا۔ اس کے بعد جابرانہ حکمرانی ہوگی ، اور یہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے اسے ختم کردے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔ یہ بیان فرماکر آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔"،

بے شک رسول اللہ ﷺ صرف وہی بیان کرتے ہیں کہ جو اللہ کی طرف سے وحی کردہ ہوتا ہے ، پس آپ ﷺ نے اللہ کے احکامات کو اپنے الفاظ میں ہم تک پہنچایا جو کہ سنت کا حصہ ہے۔

 

آج مسلم دنیا پر چھائے جابرانہ حکمرانی کےدور میں یہ امر امید اور ولولے کا باعث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بشارتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ خلافت ضرور واپس لوٹے گی۔مزید یہ کہ جو خلافت  واپس آئے گی وہ مخصوص خصوصیات کی حامل ہوگی۔یہ رسول اللہ ﷺ کے عظیم صحابہ رضوان اللہ علیہم کی جانب سے قائم کی گئی پہلےوالی خلافت کی طرح ہوگی، یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم شدہ خلافت کی طرح۔ لہٰذا اس کا شمار ایسی   حکمرانی میں نہیں ہوگا جو اقتدار کو مضبوطی سے دانتوں سے پکڑے تاکہ یہ نکل کر کسی اور کے پاس نہ چلا جائے ، جس طرح کہ خلفاءراشدین کے بعدآنے والی خلافتوں میں ہوا تھا۔ حکمرانی کے موروثی رنگ کو حدیث میں ملک عاضاًسے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس عرصہ میں قریب المرگ خلیفہ اپنے ہی خاندان میں سے اپنا جانشین نامزد کرتا تھا جسے اس کی موت کے بعد خلافت کی بیعت دی جاتی تھی۔  چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہمارے لیے خوشخبری ہیں ، جوہمارے دلوں کو آج کی جابرانہ حکمرانی کے تحت اُمّت کی اذیت ناک صورتحال کے غم سے نجات دلاتے ہیں۔

 

تاہم اسی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی دی گئی بشارت کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اسے بے عملی کے عذر کے طور پر لے لیں۔ کیونکہ یہ مبارک حدیث نہ صرف خوشخبری ہے ، بلکہ یہ ایسی خبر ہے کہ جس میں طلب (عمل کا مطالبہ ) موجود ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی مانند ہے:

فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ،

" کیا ہی اچھا وہ امیر ہو گا اور کیا ہی اچھی وہ فوج ہو گی جوقسطنطنیہ کو فتح کرے گی "(احمد) ۔

 

یہاں اس حدیث میں بھی انداز خبریہ ہے مگر اس میں عمل کرنے کی طلب موجود ہے۔ چنانچہ مسلمان صدیوں سے اس خوشخبری کا مشاہدہ کرنے کے لیے بے چین تھے لیکن وہ تقدیر پرستی یا بےعملیت کا شکار نہیں ہوئے۔مسلمان اس بات کے خواہشمند تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی خوش خبری ان کے ہاتھوں پوری ہو۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں نے حدیث میں بیان کردہ بہترین امیرکا اعزاز حاصل کرنے کے لیے پے درپے کوششیں کیں ، اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے احکامات کو نافذ کیا، بہترین فوج تیارکی  اور اسلام کے مطابق اس کی تربیت کرنے اور انہیں بہترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے اپنی کوششیں صَرف کیں ۔پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے آخر کار سلطان محمد الفاتح کو اپنی مدد ونصرت عطا کی کہ جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

 

تواے مسلمانو!

خلافت کے خاتمے کے ایک سو ہجری سال بعد ، نبوت کی نقشِ قدم پر خلافت  کی واپسی سے قبل، آج اس جابرانہ حکمرانی کے عبوری دورمیں ہمیں کیا کرنا ہے؟جب کہ ہم اس خلافت کو   دیکھنے کے شدیدخواہش مند ہیں ، توکیا ہم اسے حاصل کرنے کے لیےعملی اقدامات نہیں کریں گے؟ہمیں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، کیونکہ نبوت نقشِ قدم پر خلافت کی واپسی کی حدیث بھی ایسی خبریہ حدیث ہے کہ جس میں عمل کا تقاضا موجود ہے۔ لہٰذا  ہمیں اس حدیث میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ ہم خلافت کو قائم کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہم ان باسعادت لوگوں میں سے ہوں کہ جن کے ہاتھوں یہ قائم ہو گی۔ اتنی اعلیٰ معیار کی خلافت کے مستحق بننے کے لیے ہمیں بہترین مسلمان ہونا چاہیے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو اسلام کے علم سے آراستہ کرنا چاہیے۔ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات کے مطابق عمل کیے بغیر صرف دُعا کرنے سے  اوراپنے آپ کو حالات کے سامنے سرنگوں کردینے سے خلافت کو قائم نہیں کر سکتے ۔بے شک ہمیں رسول اللہ ﷺکے ارشادات کی اہمیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں آپ ﷺ نے فرمایا،

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُمْ،

"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تمہیں ضرور نیکی کا حکم دواور  برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پراپنی طرف سے عذاب نازل کرے ، تب تم اُس سے دعا کرو اور وہ تمہاری دعا کا جواب نہ دے " (احمد)۔

چنانچہ اگر ہم کام کرنا چاہتے ہیں تو  ہم سے دل اور جسم کے کن اعمال کا مطالبہ کیا گیا ہے؟

 

جہاں تک دل کے اعمال کی بات ہے تو  ہمارا ایمان ہے کہ نُصرت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جس میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہے۔جب خلافت کو ختم کرنے کے لیے کفار نے عرب اور ترک قیادت کے غداروں کے ساتھ مل کر ہمیں شکست دی ، تواس کے بعد آج خلافت کو بحال کرکے ان پر فتح حاصل کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نُصرت پر ہی منحصر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾،

"اور اللہ نے اسے خوشخبری کے سوا نہیں بنایا ، تاکہ آپ کے دلوں کو اس پر یقین ہو۔ اور فتح اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہے۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے" (الانفال- 8:10)۔

 

اِبن ِکثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا،(وإلا فهو تعالى قادر على نصركم على أعدائكم ) "اس کے سوا کوئی اس بات پر قادر نہیں جو تم لوگوں کو تمہارے دشمنوں کے خلاف فتح بخشے"۔ امام طبری نے بیان کیا،(وما تنصرون على عدوكم، أيها المؤمنون، إلا أن ينصركم الله عليهم, لا بشدة بأسكم وقواكم, بل بنصر الله لكم, لأن ذلك بيده وإليه)، "اے مومنو! تم اپنے دشمنوں پر فتح پانے والے نہیں ہو ، سوائے اس کے کہ اللہ ان کے خلاف تمھاری مدد کرے، یہ تمہاری قوت اور طاقت کے زور سے نہیں ، بلکہ فتح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصر کی بنا پر ہے ، کیوں کہ فتح اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف سے ہے"۔بے شک اگرچہ کفر براہِ راست اور مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسلام کی واپسی کے خلاف برسرپیکار ہے ، صرف اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہمیں اس پر فتح نصیب کرے گا۔

 

ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اللہ کی نصر کے حصول کے لیے ہم اللہ کی فرمانبرداری کریں ، ان گناہوں سے پرہیز کریں جن سے اُس نے ہمیں منع فرمایا اور ان فرائض کو پورا کریں جن کا اس نے ہمیں حکم دیا ہے،

﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾

"اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے" (الروم 30:47)۔

 

بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جب ہم اس کے حکم کو بجا لائیں گے تو وہ ہمیں فتح عطا کرے گا۔ اس آیت کے بارے میں ابن ابی حاتم نے یہ بیان کیا ہے کہ ابو  درداءؓ کہتے ہیں ، "میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ، مَا مِنِ امْرِىءٍ مُسْلِمٍ يَرُدُّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يَرُدَّ عَنْهُ نَارَ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَة،"کوئی بھی مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا دفاع نہیں کرتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ پر یہ حق ہوگاکہ وہ قیامت کے دن اسے دوزخ کی آگ سے بچائے"۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ،

﴿ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾

"اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے"۔

امام طبری نے اپنے تفسیر میں بیان کیا ہے کہ یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرما رہے ہیں،

(ونجَّينا الذين آمنوا بالله وصدّقوا رسله إذ جاءهم بأسنا، وكذلك نفعل بك وبمن آمن بك من قومك وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنا نَصْرُ المُؤْمِنينَ على الكافرين، ونحن ناصروك ومن آمن بك على مَن كفر بك ومظفروك بهم)،

"اور ہم نے ان لوگوں کو بچایا ،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لائے تھے اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے، جب ہمارا عذاب ان پر نازل ہوا۔ اور ہم ایسا ہی کریں گے آپ کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کی قوم میں سے آپ پر ایمان لائے ہیں ، وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنا نَصْرُ المُؤْمِنينَ،"اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے"،

کافروں کے خلاف ،ہم آپ کو اور آپ پرایمان لانے والوں کو ان کافروں پر فتح اور کامیابی عطا کریں گے ۔

 

اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی نُصرت کے حصول کے رستے میں ہماری طاقت کمزور نہ پڑے، توایمان یہ قرار دیتا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفۡشَلُواْ وَتَذۡهَبَ رِيحُكُمۡ ﴾

"اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اورآپس میں جھگڑا نہ کرو ، اس طرح تم ہمت ہار جاؤ گے اور پھرتمہاری طاقت ختم ہوجائے گی"( الانفال 8:46)۔

 

امام طبری نے اپنے تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی یہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ:( أطيعوا، أيها المؤمنون، ربَّكم ورسوله فيما أمركم به ونهاكم عنه، ولا تخالفوهما في شيء)"اے مومنو! اپنے رب اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو جس کا وہ تمہیں حکم دیتے ہیں اور جس چیز سے وہ آپ کو منع کرتے ہیں، اور کسی بھی معاملے میں ان دونوں میں سے کسی کی مخالفت نہ کرو"۔امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا، (ريحكم أي قوتكم ونصركم)"ریحکم سے مراد ہے تمہاری طاقت اور تمہاری فتح "۔ لہٰذا اگر ہم فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات اور حرمتوں میں اختلاف کر کے معصیت میں نہ گریں۔ اگر ہم اپنی سرزمین میں اللہ کی نافرمانی پر مبنی قوانین کے نفاذ کے ذریعے اللہ کے ساتھ لڑائی مول لے لیں گے ، خواہ یہ سود کا نفاذ ہو ، غریبوں اور مقروضوں پر ٹیکس عائد کرناہو ، مسلم زمینوں کی تقسیم ہو یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےدشمنوں کے ساتھ اتحاد ہو،تو ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتے۔

 

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم برباد نہ ہوں تو ہماری وفاداری  صرف اللہ سبحانہ وتعالی کےساتھ ہونی چاہیے۔اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری مدد کرے تو ہماری وفاداریاں اللہ سبحانہ وتعالی کے سوا کسی دوسرےکے ساتھ نہیں ہونی چاہئیں اور ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةٗ مِّن دُونِكُمۡ لَا يَأۡلُونَكُمۡ خَبَالٗا وَدُّواْ مَا عَنِتُّمۡ ﴾

"اے ایمان والو! تم ایمان والوں کے سوا اور کسی کو اپنا دِلی دوست نہ بناؤ، کیونکہ دوسرے لوگ تمہیں تباہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے" (آل عمران 3: 118)۔

 

امام قرطبی نے اپنے تفسیر میں اس آیت کے سلسلے میں بیان کیا ہے ،(نهى الله عز وجل المؤمنين بهذه الآية أن يتخذوا من الكفار واليهود وأهل الأهواء دخلاء وولجاء يفاوضونهم في الآراء ، ويسندون إليهم أمورهم) ،"اللہ عز و جل نے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو کفار ، یہودیوں اور ان لوگوں کو جواپنی آرزوؤں اور خواہشات کے غلام ہیں،قریبی دوست بنانےاور ان سے مدد لینے سے منع کیا ہے ، کہ جن کے ساتھ وہ رائے لینے کے لیےمشورہ کرتے ہیں اور اپنے امور میں ان پر انحصار کرتے ہیں"۔ لہٰذا ان کفار کی دشمنی اور کفرکے باجود اگر ہم ان سے وفاداری اور قربت اختیار کریں ، ان کے ساتھ اتحاد بنائیں ، اپنی آراءمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع  کرنے کی بجائے  مختلف آراء میں ان سے سودے بازی  کریں ، ان کے ساتھ معاہدات کرنے اور اتحاد بنانے کےساتھ ساتھ ان سے فوجی راز بھی بانٹیں،تو کیسے ہم اللہ کی نصرت حاصل کرسکتے ہیں ؟کیسے؟

 

لہذا اللہ کی نصرت کی جدوجہد کرتے ہوئے ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہئے کہ اس راہ میں ہمیں مشکلات اور لوگوں کے برے ردِ عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ﴾

"کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ ایسی آزمائش ابھی تم پر نہیں آئی جیسی ان پر آئی تھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں؟ وہ غربت اور سختی سے دوچار ہوئے اور یہاں تک لرزا دیے گئے کہ  ان کے رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے وہ پکار اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئےگی؟ بلاشبہ اللہ کی مدد قریب ہے"

( البقرہ 2: 214)۔

 

ہم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں مشکلات سے بچنے کے لیے صرف اپنے کنبے کی خدمت اور کام کاج میں مصروف رہتے ہوئے، ظلم و جبرپرخاموش رہ کر حق کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تقویٰ کو بڑھانے،اسلام کے علم کے حصول کے ذریعہ اللہ کے قریب ہونے ، قرآن مجید میں ڈوبنے ، تہجد پڑھنے اور روزے رکھنے جیسےبہت سے اچھے کاموں کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کر تے، تو ہم اللہ کی نُصرت حاصل نہیں کر سکتے۔

 

جہاں تک نصرت پانے کےلیےہماری جلدبازی کا تعلق ہے ،تو یہ پوچھنا کہ خلافت کب آئے گی ، یہ جلد بازی عیب یا حرام نہیں ہے کیونکہ انسان اپنی فطرت میں جلد باز ہے،

﴿وَيَدۡعُ ٱلۡإِنسَٰنُ بِٱلشَّرِّ دُعَآءَهُۥ بِٱلۡخَيۡرِۖ وَكَانَ ٱلۡإِنسَٰنُ عَجُولٗا﴾

"اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے جس طرح وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے ، اور انسان جلدباز  ہے"

(الاسراء 17:11)۔

 

تاہم جو چیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے غصےکوبڑھاتے ہوئے ہمیں گناہ میں مبتلا کرتی ہے ، وہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری اعمال کو ہمارا نظرانداز کرناہے۔ ہمیں اس بات سے خبردار رہنا ہے کہ ہماری یہ جلد بازی کہیں ہمیں مایوسی،ناامیدی اور ناکامیکے احساس کی طرف نہ دھکیل دے۔چنانچہ ہمیں ضرورحلقات میں اسلام کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دارِ ارقم میں کیاکرتے تھے۔ ہمیں الگ الگ افراد کی حیثیت میں کام کرنے کی بجائے ایک ساتھ مل کر ایک ہی جماعت (ڈھانچہ) میں کام کرنا چاہیے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا ۔ ہمیں لوگوں کو انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ملتے رہنا چاہیے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم کیاکرتے تھے۔ہمیں زندگی کے میدان میں کھل کر حق کا اعلان کرنا چاہیے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا ۔اور ہم میں سے جو لوگ طاقت ، ہتھیاروں اور جنگ کے لوگ ہیں ، انہیں انصار رضی اللہ عنہم کے سرداروں کی طرح نصرت فراہم کرنی چاہئے تاکہ اسلام کے ذریعے حکمرانی کا ازسر نو آغاز ہوسکے۔ لہٰذا ہم میں سے کسی کو بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے نبوت کے بتائے ہوئے مبارک طریقہ پر عمل کرنے سے تھکنانہیں چا ہیے اور نہ ہی ہمت ہارنی چاہیے جس سے ہم اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ لیں اور مایوسی میں گھر جائیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے نیک اعمال اور اپنے دین سے وابستگی میں ہماری مدد فرمائے اور ہمیں مضبوطی عطا کرے ، ایسا نہ ہو کہ ہم اندھیروں میں گم ہوجائیں۔

 

انسانی تبدیلی کے بعد  ہی اللہ سبحانہ وتعالی کی نصرت آتی ہے ، جس کے بعد اللہ تعالیٰ حالات کو بدل ڈالتے ہیں اور فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمۡ﴾

"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ اپنے اندر کی چیزوں کو تبدیل نہ کریں"

( الرعد 13:11)۔

 

چنانچہ جب لوگ ایمان سے کفر کی طرف ، اطاعت سے نافرمانی کی طرف ، یا اللہ سبحانہ وتعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ناشکری کی جانب بدلتے ہیں ، تو اللہ سبحانہ وتعالی ان کو ان تمام چیزوں سے محروم کر دیتا ہے جن میں ان کے لیے خیر ہے۔اسی طرح ، اگر بندے اپنے اندر موجود تمام چیزوں کو تبدیل کردیں ، جس سے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت میں لوٹ آئیں، تواللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی انکی ابتر صورتِ حال کو خوشی ، آرام اور رحمت میں بدل دیتا ہے۔ تو آئیں ، خیر کے کاموں کے لیے کوشش کریں ، اے مسلمانو !آئیں ہم جدوجہد کریں۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾

" تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ یقیناً انہیں زمین میں اپنا جانشین بنائے گا ، جیسا اس نے ان سے پہلے والوں کو بنایا۔ اور یقیناً ان  کے دین کو جسے اُس نے اِن کے لیے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ فاسق ہیں"(النور 24:55)۔

 

اس آیت کے ضمن میں ابن کثیر نے اپنے تفسیر میں بیان کیا ہے، (هذا وعد من الله لرسوله صلى الله عليه وسلم . بأنه سيجعل أمته خلفاء الأرض ، أي : أئمة الناس والولاة عليهم ، وبهم تصلح البلاد ، وتخضع لهم العباد ، وليبدلن بعد خوفهم من الناس أمنا وحكما فيهم) ،"یہ اللہ  کا اپنے رسولﷺسے وعدہ ہے کہ وہ ان کی امت کو زمین پر جانشین بنائے گا ، یعنی وہ انسانیت کے رہنما اور حکمران بنیں گے ، جس کے ذریعہ وہ دنیا میں اصلاح کرے گا اور جن کی لوگ پیروی کریں گے ، تاکہ وہ اپنے خوف کے بعد محفوظ سلامتی حاصل کرسکیں"۔ تو آئیے اے مسلمانو!ہم نیک اعمال کے لیے جدوجہد کریں ، تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ امتِ محمدیہ کو انسانیت کے حکمران کے طور پر، اس کے صحیح مقام پر بحال کر دیں۔

 

لہٰذا اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے جدوجہد اور کوشش کو وہیں سے دوباراشروع کریں جہاں سے خلافت نے ایک سو اسلامی ہجری سال پہلے چھوڑ ا تھا، تاکہ یہ اس مقام تک پہنچ جائے کہ اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،

إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي أَنْ لاَ يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَأَنْ لاَ يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لاَ يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لأُمَّتِكَ أَنْ لاَ أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَأَنْ لاَ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا،

"اللہ نے میرے لیے دنیا کے مشرق و مغرب کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ اور میں نے اس کے مشرقی اور مغربی سرے دیکھے ۔ اور میری امت کا غلبہ ان سروں تک پہنچ جائے گا جو میرے قریب کیے گئے اور مجھے سرخ و سفید خزانہ دیا گیا اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے التجا کی کہ اسے قحط کی وجہ سے تباہ نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ایسے دشمن کا غلبہ ہو جو ان میں سے نہیں ہے کہ وہ اِنکی جانیں لے لے اور ان کی جڑوں اور شاخوں کو ختم کردے، اور میرے پروردگار نے کہا: اے محمد ﷺ جب بھی میں کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اسے تبدیل کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں آپ کو آپ کی امت کے لیے یہ تحائف دیتا ہوں کہ یہ قحط سے تباہ نہ ہوگی اور نہ اس پر کسی ایسے دشمن کا غلبہ ہوگا جو اس میں شامل نہ ہو کہ اِن کی جانیں لے لے اور ان کی جڑوں اور شاخوں کو ختم کردے ، چاہے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ (اس مقصد کے لیے)اکٹھے بھی ہوجائیں "

(مسلم)۔

 

اللہ امت مسلمہ کو وہ دکھائے جس کی ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بشارت دی ہے!

Last modified onجمعرات, 29 اپریل 2021 22:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک