الجمعة، 16 شوال 1445| 2024/04/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 11مئی 2018  

 

 

۔ مسلم ممالک میں استعماری تقسیم اور حکمرانی کے خاتمے کا واحد راستہ خلافت کا قیام ہے

- پاکستان کا تحفظ افغانستان کی سرحد پر دیواریں کھڑی کرنے سے نہیں بلکہ امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کرنے سےیقینی  بنے گا

- پوری دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں اور ان کارمضان اور عید بھی ایک ہے

تفصیلات: 

 

مسلم ممالک میں استعماری تقسیم اور حکمرانی کے خاتمے کا واحد راستہ خلافت کا قیام ہے

9 مئی2018 کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ کی جانب سے نام نہاد ایران ایٹمی معاہدے سے نکل جانے پر تشویش کااظہار کیا اور کہا  کہ اس فیصلے سے ایران کے ساتھ "تنازعے" کے حل کے لیے بین الا قوامی برادری کی کوششیں متاثر ہوں گی۔  میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا کہ 2015 میں ہونے والے مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی پی او اے) سے امریکہ کی علیحدگی بات چیت کے عمل کو کمزور کردے گی جس کا مقصد تنازعے کا حل تلاش کرنا ہے۔  لیکن اب بھی پاکستان کو امید ہے کہ اس معاہدے سے منسلک باقی ماندہ پانچ ممالک - برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس- اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی راہ نکال لیں گے۔ دفتر خارجہ نے ایران معاہدے کی حمایت کا اعادہ کیا  جس کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا تھا تا کہ وہ ایٹم بم  نہ بناسکے اور اس کے بدلے میں ایران کے خلاف زیادہ تر امریکی اور بین الاقوامی پابندیاں اٹھا لیں گئی تھیں۔   

 

موجودہ مسلم ریاستیں مسلمانوں کویکجا رکھنے کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں کہ ان کے درمیان کوئی سرحدیں نہ ہوں۔  مسلم علاقوں کی نسلی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کی وجہ سے مسلمان اپنے دشمنوں کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں  جو ان کے علاقوں  کے امور پر سختی یا نرمی سے اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔   اس کی جگہ موجودہ حکمران  بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو زیادہ مقدس سمجھتے ہیں جبکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور قومی سرحدوں کے تصورات عیسائی یورپ میں وجود میں لائے گئے تھے۔ اسلامی ریاست، جس نے یونان، رومانیہ، البانیہ، یوگوسلاویہ، ہنگری اور آسٹریا کے علاقے اسلام کے کے لیے کھولے تھے، کا مقابلہ کرنے کے لیے 1648 عیسوی میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ معرض وجودمیں لایا گیا ۔ مسلم افواج نام نہاد بین الاقوامی سرحدوں کی قطعی تعظیم نہیں کرتی تھیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتی تھیں اور برصغیر ہند سے یورپ تک کے مظلوموں کی پکار کا جواب دیتی تھیں۔ ظالم حکمران مسلم افواج سے اس حد تک سخت خوفزدہ تھے کہ عیسائی دنیامیں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسلم افواج ناقابل شکست ہیں اور جب مسلمان لڑتے ہیں تو وہ موت کی قطعی پروا نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ جب وہ مارے جائیں گے تو جنت میں داخل ہوں گے اور اس لیے بھی کہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ عیسائی ظالموں کی افواج پسپا ہو کر میدان جنگ سے بھاگ جاتی تھیں اور اس طرح وسیع علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بن کر اسلام کی حکمرانی میں آجاتے تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ استعماری اقوام مسلمانوں سے تو ان سرحدوں کے تقدس کو برقرار رکھنے کامطالبہ کرتی ہیں لیکن جب کبھی ان کے مفادات کی راہ میں انہیں کی بنائے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور سرحدیں آجائیں تو وہ ان کی پامالی میں بالکل بھی دیر نہیں کرتیں۔ لہٰذا ہم نے یہ دیکھا کہ کس طرح ان بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے امریکہ نے عراق پر ، روس نے کریمیا پر قبضہ کیا اور فرانس نے مالی پر حملہ کیا۔ 

 

مسلمانوں کے موجودہ حکمران ہمیشہ مغرب کی کھڑی کی ہوئی سرحدوں کے احترام کے ذریعے مسلمانوں کو کمزور اور پیچھے رکھیں گے۔ یہ مسلمانوں کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا کی ایک بڑی طاقت بن جائیں اور پھر وہ نام نہاد بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے حرکت میں آجائیں۔ بلکہ وہ طابعدار غلاموں کی طرح مستقل "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی استعماری پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کے عوام بلعموم اور افواج کے افسران بلخصوص اسلام کی حکمرانی قائم کرکے اس صورتحال کو یکسر تبدیل کردیں اور پھر خلیفہ راشد تمام مسلم علاقوں کو نبوت کے طریقے پر قائم خلافت کے تحت یکجا کردے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

"اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اُس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اُس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے کھڑے کے کنارے پہنچ چکے تھےتو اُس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ"(آل عمران:103)

 

 پاکستان کا تحفظ افغانستان کی سرحد پر دیواریں کھڑی کرنے سے نہیں

بلکہ امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کرنے سےیقینی بنے گا

8 مئی 2018 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان میں پنج پائی کے پاس پاک-افغان سرحد پر حفاظتی دیوار بنانے کے کام کا افتتاح کیا۔ پاکستان آرمی پہلے ہی اس علاقے میں پانچ کلومیٹر طویل دیوار کھڑی کر چکی ہے۔  مجموعی طور پر پاک-افغان سرحد پر 1268 کلومیٹر طویل دیوار  کھڑی کی جارہی ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ہر تین کلومیٹر کے فاصلے پر 250 فرٹیر کورپز کے قلعے  اور ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر 16 فٹ اونچے نگرانی کے ٹاورز بنائے جائیں گے تا کہ سرحد کی صحیح طریقے سے نگرانی کی جاسکے۔ قبائلی عمائدین اور مقامی لوگوں سے بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے سرحد پر دیوار بنانے کے لیے ان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس طرح سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی نگرانی میں مدد ملے گی۔  

افغانستان میں سوویت روس کے خلاف پہلے جہادکے دوران پاکستان کو اپنے تحفظ کے لیے پاک-افغان سرحد پر بھاری رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی جبکہ اس وقت  صورتحال یہ تھی کہ افغانستان میں سوویت روس کی بٹھائی ایک پاکستان دشمن حکومت تھی اور اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں  سوویت روسی افواج اور دنیا کی مشہور ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی بھی موجود تھی۔  لیکن اس کے باوجود ہماری سرحدیں محفوط تھیں کیونکہ ہم سب ایک ہی موقف پر کھڑے تھے۔ پاکستان کے مسلمانوں نے اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی سوویت روسی افواج کے خلاف لڑنے میں بھر پور معاونت کی یہاں تک کہ انہوں نے افغانستان کو بیرونی حملہ آور افواج سے آزاد کرالیا۔

 

لیکن جب امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان کے مسلمانوں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان کے بھائیوں نے  امریکہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکی قبضے کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد  پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی مدد سے روکنے کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فتنے کی آگ لگا دی۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے اس کو جواز بناتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمانوں کے درمیان موجود مضبوط رشتوں کو توڑنے کے لیے "دہشت گردوں" کے نقل و حرکت روکنے کے نام پر دیواریں کھڑی کرنا شروع کردیں۔  پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے درمیان کسی بھی قسم کی تقسیم، علیحدگی اور دشمنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل صرف اور صرف امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت، جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، کے مفاد میں ہے۔

 

عدم تحفظ کی وجہ افغانستان میں امریکی موجودگی ہے جس نے ہمارے دشمن بھارت کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ اگر پاکستان کو مخلص قیادت میسر ہوتی تو وہ  امریکہ کو خطے سے نکالنے ، اسلام آباد میں اس کے سفارت خانے کو بند ،امریکی سفارت کاروں، انٹیلی جنس اہلکاروں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو ملک بدر، نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ ڈالنے اور افغان مجاہدین کو حمایت فراہم کرتی نہ کہ پاک-افغان سرحد پر دیواریں تعمیر کرتی۔ مسلمانوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے کا فائدہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ہوتا ہے اور  ان کے درمیان دیواریں گرانے سے مسلمان مضبوط ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

"اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی "(الانفال:46)     

 

 پوری دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں اور ان کارمضان اور عید بھی ایک ہے 

الجزیرہ نے 8مئی  2018 کو رمضان کے متوقع چاند پر رپورٹ میں کہا کہ امریکہ اور یورپ  میں کچھ مسلمان کمیونٹیز   چاند کی نقل و حرکت کے حساب کی بنیاد پر 15 مئی کی شام سے رمضان شروع کریں گے اور 16 مئی کو پہلا روزہ رکھیں گے۔  جبکہ  سعودیہ عرب اور زیادہ تر عرب ممالک میں 15 مئی کی شام چاند دیکھے جانے کا امکان ہے، مراکش ، ایران اور پاکستان میں  اس کے اگلے دن چاند دیکھے جانے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ انہوں نے قمری مہینے کا آغاز ایک دن بعد کیا تھا۔ 

 

یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ مسلم امّہ آج اس مقدس مہینے کی شروعات کے حوالے تقسیم ہے۔ ہر سال رمضان کے آغاز اور عید کے دن کے حوالے سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کئی مسلم ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، میں رمضان اور عید کا اعلان مختلف دنوں میں کیاجاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے چاند کو دیکھ کر اس کی پہلی تاریخ کا تعین کرنا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہ اس حقیقت کا ادراک رمضان کی شروعات کا تعین ہی نہیں کرتا  بلکہ لیلۃ القدر کی رات کا تعین بھی  اس کے ذریعے ہوتا ہے۔  اس وقت امت تجسس  اورتذبذب کا شکار ہے جہاں ہر ایک فرد اس مسئلے کے حل کی تلاش  میں ہے۔ 

روایت ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا،

 

لاَ تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ صُومُوا لِلرُّؤْيَةِ وَأَفْطِرُوا لِلرُّؤْيَةِ فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلاَثِينَ

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو۔ اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرو۔  اوراگر (مطلع) ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو "(النسائی)۔

 

رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان  دنیا بھر کےمسلمانوں  کے لیے ہے اس بات سے قطع نظر کے وہ کہاں رہتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پوری امت سے حج، زکوۃ اور جہاد کے حوالےسے احکامات دیے ہیں۔ یہ حدیث یہ بات واضح کردیتی ہے کہ کسی بھی مسلمان کی جانب سے چاند کا دیکھا جانا  کافی ہے کیونکہ حدیث میں "رُّؤْيَةِ"  کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی ایک بھی مسلمان کی جانب سے چاند کا دیکھا جانا۔ لہٰذا اگر کوئی بھی مسلمان رمضان کا چاند دیکھ لیتا ہے تو اس کی گواہ پوری امت کے لیے ہے۔ اور کسی ایک علاقے میں ایک مسلمان کا چاند دیکھنا صرف اس علاقے کے مسلمانوں کے لیے ہی  نہیں ہے بلکہ  کسی بھی ایک علاقے میں کسی ایک مسلمان کا چاند دیکھ لینا پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ بات ان علاقوں کے لیے بھی لاگو ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے قریب ہیں جیسا کہ راولپنڈی اور پشاور اور ان علاقوں کے لیے بھی یہی حکم ہے جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور واقع ہیں جیسا کہ کراچی اور جکارتہ یا ریاض اور استنبول یا تہران اور خرطوم۔  جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک امت بنایا ہے ویسے ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے  مسلمانوں پر لازم کیا ہے کہ وہ ایک امت ہونے کے ناطے سب ایک ہی دن رمضان کے روزوں کی شروعات کریں اور ایک ہی دن عید منائیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا عمل اس بات کی وضاحت کردیتا ہے جسے انصارؓ کے ایک گروہ نے روایت کیا کہ، 

 

غم علینا ھلال شوال فاصبحنا صیاما فجاء رکب من آخر النھار فشھدوا عند النبی انھم راوا لھلال بالامس فامرھم رسول اللّٰہ ان یفطروا ثم یخرجو لعیدھم من الغد

"ہمیں شوال کا چاند بادلوں کی وجہ سے نظر نہ آیا لہٰذا ہم اگلے دن روزے سے رہے۔  لیکن دن کے آخری حصے میں چند مسافر مدینہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ  کے سامنے شہادت دی کہ انہوں نے گذشتہ روز چاند دیکھ لیا تھا،  پس رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو روزہ توڑنے اور اگلے روز عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا''۔

 

تو اگرچہ بادلوں کی وجہ سے مدینہ میں چاند نہ دیکھا جاسکا ،لیکن  رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس دن روزہ توڑنے کا حکم دیا جسے وہ رمضان کا ہی حصہ سمجھ رہے تھے کیونکہ کچھ لوگوں نے مدینہ منورہ سے باہر شوال کے چاند کو دیکھ لیا تھا۔ لہٰذا یہ بات اسلام میں بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں  کو ایک ساتھ رمضان کے روزوں کا آغاز کرنا اور ایک ساتھ ہی ختم کرنا ہے اور اس معاملے پر اسلام کے پہلے دور کے علماء میں اتفاق بھی ہے۔ 

 

لیکن آج مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ  کے احکامات کو بھلا دیا ہے اور اس کی جگہ قوم پرستی  کے بدبو دار افکار کی بنیاد پر رمضان  کی شروعات اور عید کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ حکمران دوسرے مسلم علاقوں میں چاند کے دیکھے جانے کی گواہی کو قبول نہیں کرتے اور  رمضان کی شروعات اور اختتام کے لیے اپنے ملک میں چاند دیکھے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کویت عراق یا سعودی عرب میں چاند کے دیکھے جانے کی گواہی کوقبول نہیں کرتا  جبکہ ان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے سوائے اس سرحد کے جسے  کافر استعماریوں نے بنایا تھا تا کہ مسلمانوں کی یکجہتی کو تباہ و برباد اور ان کے علاقوں کو تقسیم کردیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کے حکمران ہمسائیہ ملک افغانستان یا مسقط میں چاند کے دیکھے جانے کی گواہی قبول نہیں کرتے اور بے شرمی سے اس دن رویت ہلال کی کمیٹی کا اجلاس بلاتے ہیں جبکہ دوسرے مسلم علاقوں میں اس سے ایک دن  قبل چاند دیکھا جاچکا ہوتا ہے۔ اور اس طرح حکمران مسلم امہّ کو تقسیم کرتے ہیں۔  حکمرانوں کی اسلام کے حوالے سے غفلت بلکہ اسے مسترد کردینے کی وجہ مسلمان اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنی انفرادی عبادات کوبھی صحیح طریقے سے ادا کرسکیں۔ آج چاند کے مسئلے پر نا اتفاقی دیگر کئی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے جس کاسامنا مسلمان خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کررہے ہیں۔ خلافت تمام مسلمانوں کی ریاست ہوتی ہے جو  عبادات سے لے کر جہاد تک ان کے تمام امور کی نگہبانی اسلام کے احکامات کی روشنی میں کرتی ہے۔  لہٰذا صرف خلافت کا قیام ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تمام احکامات کو نافذ کیا جائے اور ہم اپنے رب ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔ 

Last modified onاتوار, 13 مئی 2018 04:27

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک