السبت، 09 ذو القعدة 1445| 2024/05/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے

 

12فروری 2022

 

امریکہ یوکرین  میں کشیدگی کو بڑھا رہا ہے

 

 

یوکرین کے صدر کی جانب سے پرسکون رہنے کی حالیہ اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، امریکہ یوکرین پر روسی حملے کے امکان پر خطرے کی گھنٹی بجاتا رہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو امریکی شہریوں سے یوکرین چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم دنیا کی سب سے بڑی فوجوں میں سے ایک کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔ یہ بہت مختلف صورتحال ہے، اور حالات تیزی سے بے قابو ہو سکتے ہیں۔" واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، 'اس بات کا "بہت واضح امکان" ہے کہ روس "قابلِ یقین سرعت"کیساتھ یوکرین پر حملہ کر دے گا، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعے کو خبردار کیا، اور یوکرین میں موجود تمام امریکیوں پر زور دیا کہ وہ "جلد سے جلد یوکرین سے نکل جائیں" اور ممکنہ طور پر اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر رونما ہونے والے  کسی بھی واقعہ کی صورت میں۔

 

 

دریں اثنا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ واقعی ایک آنے والی جنگ کے بارے میں اپنے بیانیے پر یقین نہیں رکھتا: امریکہ کے خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیدار کی توجہ اس وقت روس سے نہیں چین سے نمٹنے پر مرکوز ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس واقعہ کومندرجہ ذیل انداز میں رپورٹ کیا:

 

 

یورپ دہائیوں میں اپنی سب سے بڑی زمینی جنگ کے امکان کے لیے تیار ہےجبکہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ، انٹونی جے بلنکن نے اس ہفتے مخالف سمت میں 27 گھنٹے کی پرواز کی۔

 

جمعہ کو، مسٹر بلنکن نے Quad  سے موسوم  چار ملکی اتحاد کے میلبورن میں ایک سربراہی اجلاس میں آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔ ان کا پیغام واضح تھا: یوکرین اور دنیا کے دیگر حصوں میں بحرانوں کے باوجود، امریکہ پورے ایشیا میں اپنی موجودگی کو تقویت دینے اورچین کے برخلاف مستقبل کا ایک نیا ویژن  پیش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

 

 مسٹر بلنکن نے جمعہ کی سہ پہر کو ان کی میٹنگ سے قبل دیگر وزرائے خارجہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ "تمام ممالک کو مِل کر کام کرنے اور جس کے ساتھ وہ چاہیں الحاق کرنے کا حق ہونا چاہیے۔"

 

 مسٹر بلنکن کے تین قیاموں میں سے پہلا قیام آسٹریلیامیں ہے، جس کو بعد Fiji اور Hawai میں غیر ملکی حکام سے ان کی ملاقات تہہ شدہ ہے۔ ایشیا اور بحرالکاہل کے دور دراز علاقوں کا ہفتہ بھر کا سفر اس شدت کو ظاہر کرتا ہے جس کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ یہ وسیع خطہ اس کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم مرکز ہے۔

 

 

درحقیقت، امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو استعمال کرتا ہے۔ امریکہ یوکرائنی تنازعے میں کئی مقاصد حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ روس کی دھمکی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی قیادت کو یورپ پر مسلط کرنا اور یورپی ممالک کو روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں سے روکنا چاہتا ہے۔ اس ہفتے، یوکرین میں روس کی مداخلت پر مضبوط موقف اختیار کرتے ہوئےاور  امریکی اور برطانوی میڈیا کے شدید دباؤ کے تحت، جرمن چانسلر اولاف شولز(Olaf Scholz) بائیڈن سے ملاقات کے لیے امریکہ روانہ ہوگئے۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں شولزکے ساتھ نشست کے دوران  بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اور جرمنی 'یورپ میں روسی جارحیت کو مزید بڑھنے سے روکنے اور چین کی طرف سے مخالف چیلنجوں سے نمٹنے اور مغربی بلقان میں استحکام کو فروغ دینے کے لیے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔' اور شولز نے بائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، "ہم بالکل متحد ہیں اور ہم متفرق اقدامات نہیں لیں گے۔ ہم مل کر اقدامات کریں گے اور وہ روس کے لیے بہت ہی مشکل ہوں گے اور انہیں اس کوسمجھنا چاہیے۔

 

 

 امریکہ اس تنازع کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اعلیٰ سطحی سربراہی ملاقات کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے، یہ ملاقات امریکہ اپنی شرائط پرکروانے کے لیےروس کو مجبور کر رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، جیسا کہ امریکی انتباہات میں تیزی سے اضافہ ہوا، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر بائیڈن روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ہفتے کی صبح تاخیر کیساتھ، واشنگٹن کے وقت کے مطابق بات کریں گے۔ کریملن نے کہا کہ بائیڈن نے کال کی درخواست کی تھی۔ امریکی حکام نے کہا کہ روسیوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ یہ پیر کو ہو لیکن بائیڈن کی ہفتے کی جوابی تجویز کو قبول کر لیا۔' امریکہ کے روس کے لیے متعدد اہداف ہیں، جن میں اسے نہ صرف یورپ بلکہ چین سے بھی الگ تھلگ کرنا اور روس کو افریقہ اور مشرق وسطیٰ، جیسے کہ شام میں امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کی تعمیل کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے۔

 

مغربی طاقتیں صرف طاقت کے توازن کے حصول کے نام پر دنیا میں تصادم اور انتشار پیدا کرنا جانتی ہیں، جو ان کے ذہنوں میں تناؤ کے توازن کے مترادف ہے۔ یہ اس ہزار سال کے برعکس ہے جب اسلام غالب تھا، جب دنیا کے تنازعات کو ٹھنڈا اور پرسکون کیا گیا، جس سے پوری انسانیت کے لیے امن اور خوشحالی ممکن ہوئی۔ فوجی کارروائی کو سخت قانونی حدودو قیود کے اندر بند کر دیا گیا تھا جس میں صرف فوجوں کے درمیان تصادم کی اجازت تھی، اور وہ بھی صرف پہلےسے اعلان کردہ دشمنوں کے ساتھ۔ اسلامی طرزِ جنگ کا ایسا اثر تھا کہ یورپ کی فوجیں جب آپس میں بھی لڑتی تھیں، تو لڑائی کے اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرتی تھیں جو انہوں نے مسلمانوں کی نقالی میں وضع کیے تھے۔ تاہم، جب اسلام کا غلبہ نہیں رہا تو مغرب نے ان اصولوں سے انحراف کیا اور اس کے بجائے سرمایہ دارانہ سامراج کا ضابطہ اختیار کیا جو دولت اور طاقت کو سب سے آگے رکھتا ہے۔ تاہم اب ہم امت مسلمہ میں ایک بڑے پیمانے پر احیاء کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اللہ کے حکم سے وہ جلد ہی اٹھیں گے اور کافر سامراج کے ذریعے ان پر مسلط ایجنٹ حکمران طبقے اور غیر ملکی نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے اور ان کی جگہ اسلامی خلافت کو دوبارہ قائم کریں گے۔ خلافت علی منہاج النبوتہ  تمام مسلم سرزمین کو دوبارہ متحد کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرے گی، اسلامی شریعت کا نفاذ کرے گی، اسلامی طرز زندگی کو بحال کرے گی اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا میں لے جائے گی۔

 

 

ایران کیساتھ تجدید شدہ جوہری معاہدے پر مذاکرات تکمیل کے قریب ہیں

 

اس ہفتے، ایران اور امریکہ 2015 کے جوہری معاہدے، JCPOA پر ویانا میں بات چیت کے ایک اور دور کے لیے واپس آئے، جسے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ نے  ترک کر دیا تھا۔ سی این این کے مطابق، 'دونوں طرف سے پیش رفت کے کافی اشارے ملے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مذاکرات ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، لیکن کئی مسائل حل طلب ہیں۔' وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ ایک معاہدہ "نظر میں ہے۔ " روس کے نمائندے نے جمعہ کو ٹویٹ کیا کہ بات چیت "یقینی طور پر آگے بڑھ رہی ہے"۔ جمعے کے روز ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے مذاکرات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے اپنی امیدیں اپنے ملک کے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں رکھی ہیں اور ویانا اور نیویارک میں کبھی امید نہیں رکھتے‘‘۔ لیکن درحقیقت ایران مذاکرات کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اس ہفتے اٹلانٹک کونسل کے ایک مضمون کی سرخی تھی، 'ایران JCPOA کے احیاء کے لیے رائے عامہ تیار کر رہا ہے' ۔اس مضمون میں گزشتہ ماہ ایرانی وزیر خارجہ کے اس تبصرے کو نوٹ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران، "امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے خیال کو نظر انداز نہیں کرے گا اگر یہ ایک مناسب اور ضمانت یافتہ معاہدے کی سہولت فراہم کرتا ہو۔"

 

 

جوہری معاہدے میں رکاوٹ ایران نہیں بلکہ امریکہ ہے جو ایرانی تیل تک یورپی رسائی کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ 2015 میں، اوباما نے ایرانی تیل کی رشوت کا استعمال کرتے ہوئے شام میں امریکی فوجی مقاصد کی حمایت کے لیے ایرانی زمینی افواج کے استعمال پر یورپی خاموشی حاصل کی تھی، کیونکہ امریکہ نے عراق اور افغانستان کی تباہ کاریوں کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں امریکی فوج بھیجنا بہت خطرناک ہے۔ لیکن شام کے انقلاب کو کچلنے کے بعد، امریکہ کو اب ایرانی حمایت کی ضرورت نہیں رہی تھی، اور اس لیے ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو کر ایرانی تیل تک مزید یورپی رسائی کو روک دیاتھا ۔ بائیڈن یورپ کے ساتھ کثیرالجہتی کے نام پر معاہدے کو بحال کرنے کے لیے پرعزم ہیں، حالانکہ اب ایک معاہدہ حاصل کرنا زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ ایرانی جوہری پروگرام اب 2015 کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اب امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچنا چاہتا ہے جس میں یورپ کے لیے اُن فراخدلانہ شرائط کی اجازت نہ ہوجو 2015 میں اوبامانے دے رکھی تھیں۔ ایران کو چین کی طرف دھکیل کر، امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ وہ یورپ سے منقطع رہے ، اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ مشرق وسطیٰ میں چین کو بھی شامل کر رہا ہےتاکہ اسے بحر الکاہل میں مزید توسیع سے دور کرنے میں مدد ملے۔جمعرات کو رائٹرز کی رپورٹنگ کے مطابق، 'تقریبا تین سالوں میں پہلی بار ایرانی تیل کی برآمدات 10 لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ ہو گئی ہیں، جو ان کمپنیوں کے تخمینے کی بنیاد پر ہیں جو بہاؤ کو ٹریک کرتی ہیں، جو چین کو بڑھتی ہوئی تیل کی ترسیل کی عکاسی کرتی ہیں۔'

 

 

ایرانی قیادت باقی مسلم دنیا کے موجودہ حکمرانوں جیسی ہے، جو اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے اور اسلام اور امت مسلمہ سے غداری کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اللہ کے حکم سے ہم عنقریب امت مسلمہ کی مجموعی قیادت کو ریاست خلافت کی سربراہی میں دوبارہ قائم ہوتے دیکھیں گے جو بین الاقوامی معاملات میں مکمل اعتماد کے ساتھ کام کرے گی، عالمی طاقتوں کی چالوں سے پوری طرح آگاہ ہو گی اور ان کی چالوں کو انہی پر الٹ دے گی۔ ریاست ِخلافت تقریباً اپنے آغاز سے ہی اپنے وسیع حجم، وسیع آبادی، وسیع وسائل، اعلیٰ جغرافیہ اور منفرد اسلامی نظریہ کی بنا پر عالمی طاقتوں کی صف میں شامل ہو جائے گی۔ ریاستِ خلافت خود کوغیرملکی کافروں کے ہاتھوںمیں کھیلونا بننےکی اجازت دینے کے بجائے عالمی سطح پر اپنی سوچ اور منصوبہ بندی کو  مسلط کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات میں پہل کرے گی۔ ریاست خلافت نہ صرف مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرے گی بلکہ پوری انسانیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: تم بہترین امت ہو جو بنی نوع انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ [آل عمران: 110]

Last modified onبدھ, 02 مارچ 2022 16:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک