الخميس، 22 شوال 1445| 2024/05/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال و جواب
کھلے عام کلمٔہ حق بلند کرنا

 

مصطفیٰ علی ابراہیم کے لیے
====================

سوال :
السلام علیکم ورحمتہ اللہ، میرا ایک سوال ہے۔ سورة یونس آیت نمبر 90 اور سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 78 میں سے پہلی آیت میں آیا ہے کہ فرعون اور اس کے سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا جبکہ دوسری آیت میں آیا ہے کہ فرعون نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم کا حکم اور حاکم کا عمل ایک ہی چیز ہے، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے حکم کے خلاف کھڑا ہونا اس کے عمل کے خلاف کھڑا ہونے کے مترادف ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم حاکم کی پولیس یا اس کے معاونین کے سامنے اسی طرح کلمہ حق کہیں، جیسے حاکم کے سامنے کہنے کا حکم ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بہترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے.... شکریہ۔ آپ کو سوال کے الفاظ میں ترمیم کرنے کا حق ہے، اور اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
ختم شد

 

جواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اول: سوال میں مذکور دو آیات میں سے ایک سورة یونس کی آیت نمبر 90 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْــرَائِــيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْياً وَعَدْواً﴾

’’اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے اور فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور دشمنی کے ساتھ ان کا تعاقب کیا‘‘

 

اور سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 78 میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

 

﴿فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ﴾

"پھر فرعون نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا، تو دریا (کی موجوں) نے ان پر چڑھ کر انہیں ڈھانپ لیا"۔

 

گویا آپ (اپنے سپاہیوں) کے الفاظ میں حرف "واؤ" اور حرف "ب" کے استعمال سے ماخوذ معنی کے فرق کی نشاندہی کر رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ پہلی آیت میں فرماتے ہیں، ﴿فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ﴾ "پس فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا تعاقب کیا" جبکہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ﴾ "پس فرعون نے ان کا تعاقب کیا، اس کے لشکروں کے ساتھ'' اور ''ان کی پیروی'' کا معنی یہ ہے کہ اس نے ان کا پیچھا کیا اور ان تک پہنچ گیا اور ان کو پکڑ لیا جیسا کہ تفسیری کتابوں میں مذکور ہے۔


لیکن پہلی آیت (فرعون اور اس کے سپاہیوں) کے مطابق فرعون خود ان کا تعاقب کرنے والوں میں سے تھا، یعنی موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے تعاقب میں فرعون ( اس پر اللہ کی لعنت ہو) نے تعاقب میں حصہ لیا تو وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کو پکڑ لیا، اس لیے کہ یہاں لفظ ([وجنوده] اور اس کے سپاہیوں) میں حرف "و" شرکت کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی فرعون اور اس کے سپاہی بنی اسرائیل کے تعاقب میں شریک تھے۔


جہاں تک دوسری آیت (فرعون اپنے سپاہیوں کے ساتھ) کا تعلق ہے تو اسے اس اعتبار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ تعاقب میں حصہ لیا تھا، لیکن اس لغوی معنی سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون نے خود شرکت نہیں کی اور ان کے ساتھ نہیں نکلا بلکہ صرف تعاقب میں ان سے مدد طلب کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت میں حرف ’’ب‘‘ ساتھ دینے اور مدد طلب کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ آیت میں لفظ (اپنے سپاہیوں کے ساتھ) ساتھ دینے کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے، تو فرعون اپنے سپاہیوں کے ساتھ بنی اسرائیل کے تعاقب میں گیا... اور اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے مدد مانگی، یعنی وہ ان کے ساتھ گیا، یا اس نے اپنے سپاہیوں سے ان کے ساتھ شریک ہوئے بغیر بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے کے لیے مدد مانگی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا تعاقب کرنے والے فرعون کے سپاہی تھے نہ کہ خود فرعون۔


دونوں معنی (ساتھ یا مدد) میں سے کسی ایک کا تعین ان دونوں آیات کو جمع کرنے سے ظاہر ہو جاتا ہے:


پہلی آیت کا مفہوم ایک ہی معنی پہ دلالت کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ فرعون (اس پر اللہ کہ لعنت ہو)، خود ان کے ساتھ ہو گیا، یعنی موسیٰ علیہ السلام کو پکڑنے میں ان کا ساتھی بن گیا ... دوسری آیت کے مفہوم میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس کا مطلب ساتھ دینا ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام کو پکڑنے میں ان کا ساتھ دینا، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کا مطلب مدد لینا ہے، یعنی اس نے پکڑنے کے لیے اپنے سپاہیوں سے مدد لی جبکہ فرعون (اس پر اللہ کہ لعنت ہو) نے بذاتِ خود ان کا ساتھ نہ دیا ... اور چونکہ دونوں آیات کا مفہوم ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے، اس لیے دونوں آیات کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ تعاقب میں موجود تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں "اپنے سپاہیوں کے ساتھ" کا لفظ ساتھ دینے کے معنی پر دلالت کرتا ہے، یعنی اس نے موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں اپنے لشکر کا ساتھ دیا۔ یہ دونوں آیات کے معنی کے حوالے سے ہے۔


دوم: جہاں تک سوال میں مذکور حدیث شریف کا تعلق ہے، اسے ترمذی نے اپنی سنن میں ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِــهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ» "بے شک سب سے عظیم جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ عدل کہنا ہے"۔ ابو اے عیسی اور ابو امامہ کی سند پر، اور یہ حدیث حسن غریب کے درجے پہ ہے۔ الطبرانی کی المعجم الکبیر میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَحَبُّ الْجِـهَادِ إِلَى اللهِ كَلِمَةُ حَقٍّ تُقَالُ لإِمَامٍ جَائِرٍ» "اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جہاد ظالم امام کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے"۔ طبرانی کی ایک اور روایت میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے جمرات کے پاس عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: «أَفْضَلُ الْجِـهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ» "بہترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے"۔ اس حدیث کی تشریح میں عون المعبود کی کتاب میں درج ذیل بیان کیا گیا ہے: [... ابو سعید الخدری نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بہترین جہاد ظالم حکمران یا ظالم امیر کے سامنے کلمہ عدل کہنا ہے۔ عون المعبود کے مصنف کہتے ہیں:


(افضل ترین جہاد...) : یعنی یہ جہاد کی افضل ترین قسم ہے اور اس کی دلیل ترمذی کی روایت ہے کہ سب سے عظیم جہاد عدل پر مبنی کلمہ ہے اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق یہ کلمہ حق ہے۔ اور کلمہ سے مراد وہ امر ہے جو نیکی کا حکم دے یا برائی سے منع کرے، جیسے کہ کوئی کلام یا اس کے معنی میں کوئی چیز مثلاً کوئی تحریر وغیرہ۔


(ایک ظالم حکمران کے سامنے): یعنی ظالم، یہ سب سے افضل جہاد ہے... کیونکہ جو کوئی دشمن سے لڑتا ہے، تو وہ امید اور خوف کے درمیان چلتا ہے ہے اور اسے یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ غالب آئے گا یا مغلوب ہو جائے گا۔ جبکہ حاکم کے ہاتھ میں جبر کرنے کی طاقت ہوتی  ہے، پس اگر وہ سچ بولتا ہے اور معروف کا حکم دیتا ہے تو اس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اور وہ اپنے آپ کو ہلاکت پر لا کھڑا کر دیتا ہے۔ پس اس خوف کے غلبے کی وجہ سے یہ جہاد کی افضل ترین قسم ہے۔ الخطابی اور دیگر نے بیان کیا کہ (یا ظالم حکمران کے سامنے): ایسا لگتا ہے کہ اس نے راوی پر شک کیا ہے۔


اس حدیث مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بہترین جہاد یہ ہے کہ ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہے، نہ کہ اس کے پیروکاروں کے سامنے۔ ظالم سلطان سے مراد ظالم حکمران ہے، چاہے وہ صدر ہو، بادشاہ ہو، وزیر اعظم ہو یا گورنر، اس کے پاس اختیار اور حکمرانی ہونی چاہیے تاکہ اس کے سامنے کلمہ حق کہنے کی فضیلت صادق آئے۔


لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظالم حکمران کے پیروکاروں کے سامنے کلمہ حق کہنے میں کوئی فضیلت نہیں، کلمہ حق کہنا ہمیشہ اچھا اور افضیلت والا عمل ہے، البتہ خاص فضیلت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں مذکور ہے اور جس پر ہم غور کر رہے ہیں، تو وہ اختیار رکھنے والے، یعنی خود حاکم سے متعلق فضیلت کی بات ہے، اس لیے کہ اس کے سامنے کلمہ حق کہنے کی خاص اہمیت ہے اور اس میں خطرہ، ہمت اور بہادری کے عنصر شامل ہیں جیسا کہ حدیث کے بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ [... الخطابی نے کہا: بے شک یہ سب سے افضل جہاد ہے... کیونکہ جو کوئی دشمن سے لڑتا ہے، تو وہ امید اور خوف کے درمیان چلتا ہے ہے اور اسے یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ غالب آئے گا یا مغلوب ہو جائے گا۔ جبکہ حاکم کے ہاتھ میں جبر کرنے کی طاقت ہوتی ہے، پس اگر وہ سچ بولتا ہے اور معروف کا حکم دیتا ہے تو اس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اور وہ اپنے آپ کو ہلاکت پر لا کھڑا کر دیتا ہے۔ پس اس خوف کے غلبے کی وجہ سے یہ جہاد کی افضل ترین قسم ہے۔ المظہر نے کہا: یہ اس لیے افضل ہے کہ سلطان کی ناانصافی اس کے دور حکومت میں ہر ایک پر ہوتی ہے، اور یہ بہت بڑی تعداد ہوتی ہے، لہٰذا اگر وہ ظلم سے منع کرتا ہے، تو ایک کافر کو قتل کرنے کے مقابلے میں، یہ بات بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔۔۔۔۔]

 

یہ ساری گفتگو خود ظالم حکمران کے بارے میں ہے، اس کے پیروکاروں، معاونین اور سپاہیوں کے بارے میں نہیں۔

 

آپ کا بھائی


عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

17 رجب الخیر 1445ھ
بمطابق 29/01/2024 عیسوی

 

 #امیر_حزب_تحریر

 

Last modified onجمعرات, 14 مارچ 2024 05:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک