الثلاثاء، 27 شوال 1445| 2024/05/07
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال اور جواب: داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کے حوالے سے

بسم الله الرحمن الرحيم

 

تمام بھائیوں اور بہنوں کی جانب جنہوں نے ایک تنظیم کی جانب سے ریاست خلافت کے قیام سے متعلق سوال پوچھا اور آپ سب کے نام نہ لکھنے پر میں معذرت خواہ ہو ں کیونکہ ایک لمبی فہرست بن رہی ہے۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
ہم پہلے بھی ایک مناسب جواب بھیج چکے ہیں اور میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں:
عزیز بھائیو اور بہنوں!
1- کسی بھی گروہ کے لئے، جس نے کسی جگہ خلافت کے قیام کا اعلان کرنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرے، اوراس منہج کے مطابق اس گروہ کے لئے اس جگہ پر واضح نظر آنے والا اختیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے اور جس جگہ خلافت کا اعلان کیا جا رہا ہواس جگہ میں وہ تمام خصوصیات ہونا ضروری ہیں جو کسی بھی ایک ریاست میں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل صلاحیتیں حاصل کیں: اتھارٹی رسول اللہﷺ کے پاس تھی اور اندرونی و بیرونی سلامتی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور جو کچھ ایک ریاست میں ہونا چاہیے وہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
2- جس گروہ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ تو اس کے پاس اتھارٹی ہے، چاہے عراق ہو یا شام اور نہ ہی ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بیعت دی ہے جو کھل کر عوام کے سامنے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کی صورت حال اب بھی خفیہ ہے جیسا کہ ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل تھی اور یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل سے متناقض ہے۔ رسول اللہﷺ کو ریاست کے قیام سے قبل غار ثور میں چھپنے کی اجازت تھی لیکن ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سنبھال لی، افواج کی قیادت کی، مقدمات میں فیصلے سنائے، اپنے سفیر بھیجے اور دوسروں کے سفیر قبول کیے اور یہ سب کھلے عام، عوام کے سامنے تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی صورتحال ریاست کے قیام سے قبل اور بعد میں بالکل مختلف تھی۔۔۔ اسی لیے اس گروہ کی جانب سے ریاست کے قیام کا اعلان محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی لوگ محض اپنی تسکین کے لئے بغیر کسی جواز اور وزن کےریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔۔ تو کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے خود کو خلیفہ کہلوایا اور کچھ نے خود کو مہدی کہلوایا جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی طاقت و اختیار تھا اور نہ ہی کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔
3- ریاست خلافت کی ایک شان و شوکت ہے، اور شریعت نے اس کے قیام کا ایک منہج بتایا ہے اور وہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح حکمرانی، سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے احکامات اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور خلافت کے قیام کا اعلان محض نام کا اعلان نہیں ہوگا جس کو ویب سائٹ یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کردیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا اور اس کی بنیادیں مضبوط اور زمین میں پیوست ہوں گی، اس کا اختیار اس جگہ پر اندرونی و بیرونی امن و سلامتی کو قائم اور برقرار رکھے گا اور وہ اس سرزمین پر اسلام کو نافذ کرے گی اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
4- یہ جو اعلان کیا گیا ہے محض الفاظ ہیں، جو اس گروہ کی حقیقت کو نہ تو بڑھا سکیں گے اور نہ ہی گھٹا سکیں گے۔ یہ گروہ دراصل اس اعلان سے قبل ایک مسلح تحریک تھا اور ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد بھی ایک مسلح تحریک ہی ہے۔ اس کی حقیقت ان مسلح گروہوں کی سی ہے جوایک دوسرے کے خلاف اور حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ شام یا عراق یا دونوں جگہ اتھارٹی حاصل کرسکیں۔ اگر ان میں کوئی بھی گروہ، جس میں ISISبھی شامل ہے، دراصل کسی مناسب مقام پر اپنے اختیار کو قائم کرسکے، جہاں ریاست کے لیے درکار لوازمات موجود ہوں اور پھر خلافت کا اعلان کرے اور اسلام کو نافذ کرے تو ایسے معاملے کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا کہ آیا خلافت شرعی احکامات کے مطابق حقیقتاً قائم ہو گئی ہے یا نہیں؟ اور پھر اس معاملے کی چھان بین (پیروی) کی جاتی کیونکہ خلافت کو قائم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ صرف حزب التحریر پر، لہٰذا جو کوئی خلافت قائم کرتا تو پھر اس کی چھان بین کی جاتی۔۔۔لیکن اس وقت معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مسلح تحریکیں بشمول ISIS، کسی کے پاس بھی زمین کے کسی ٹکڑے پر نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ اس زمین پر کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان محض ایک نعرہ ہے جس کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کی حقیقت کی چھان بین بھی کی جائے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ بالکل واضح ہے۔
5- لیکن جس چیز کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے وہ اس اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی نتائج ہیں جو عام اور سادے لوگوں میں خلافت کے حوالے سے پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اہمیت ان کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس کی شان و شوکت کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں گھٹ جائے گا کہ جیسے یہ ایک کمزور تصور ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص مایوسی کے عالم میں کسی گاؤں یا بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مایوسی نکالنے کے لیے اعلان کردے کے وہ خلیفہ ہے اور پھر چلتا بنے یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے جو کیا اس میں بڑی بھلائی تھی! ایسا کرنے سے خلافت کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس کی عظمت عام مسلمانوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی اور پھر یہ ایک خوبصورت لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گی کہ جس کو فخر سے بولا تو جائے لیکن اس میں کوئی مادہ موجود ہ نہ ہو۔۔۔یہ وہ معاملہ ہےجس کا مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ خلافت کا قیام کسی بھی گزرے وقت سے زیادہ قریب آچکا ہے اور مسلمان اس کا انتظار بے چینی سے کررہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حزب التحریر رسول اللہﷺ کےاس طریقے پر بڑھتی چلی جارہی ہے جس کے ذریعے رسول اللہﷺ نے مدینے میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تھی۔۔۔ اور امت حزب کے اعمال کا اور مسلمانوں کے حزب کے پیغام کو گلے لگانے کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے ۔ مسلمان حزب کے ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی اخوت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ حزب کے ہاتھوں قائم ہونے والی خلافت کے قیام پر اور لوگوں کے معاملات کی عمدہ دیکھ بھال کرنے پر خوشی کا اظہار کریں گے اور یہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلنے والی خلافت راشدہ ہوگی۔۔۔اور یہ ہے وہ وقت جب یہ اعلان کیا جاتا ہے تاکہ خلافت کے متعلق عام لوگوں میں یہ تصور عام کیا جائے کہ جیسے وہ ایک پولیس سٹیٹ ہوگی۔۔۔
6- یہ تمام باتیں ایک سوال، بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔۔۔اس اعلان کا وقت جبکہ یہ اعلان کرنے والے کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے ذریعے وہ اندرونی اور بیرونی امن اور سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور میڈیا پرمحض اعلان ہی کیا ہے۔۔۔اس وقت کا چناؤ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ مسلح گرو ہ کسی فکری بنیاد اور ڈھانچے پر قائم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کے شیاطین کا ان میں داخل ہوجانا آسان ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مغرب اور مشرق اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اسلام اور خلافت کے خلاف منصوبے بناتے ہیں اور وہ اس کے تصور کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کا نام مٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خلافت محض ایک نام ہی رہ جائے جس کے تصور میں کوئی وزن نہ ہو۔ لہٰذاوہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ واقعہ جو ایک عظیم واقعہ ہوتا اور جس کے نتیجے میں کفار حواس باختہ ہو کر رہ جاتے، اس کا علان ہمارے دشمنوں کے لیے ایک مذاق بن کر رہ جائے۔
7- اس بات کے ساتھ ساتھ جو یہ شیاطین کررہے ہیں، ہم مشرق اور مغرب میں موجود اسلام کے دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں اور ان کے پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت آج بھی معروف ہے جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کیاور ان کی تمام تر چالوں اور سازشوں کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہوگی ۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ "اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا صرف اللہ ہی ہے" (الانفال:30)۔
اللہ نے ہمیں خلافت کے قیام کے لئے ایک مضبوط جماعت سے نوازا ہے جس میں ایسے مرد و خواتین شامل ہیں جنہیں کوئی دنیاوی کام اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، انہوں نے خلافت کے تصور کو اپنے دل و دماغ سے قبول کیا ہے، اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے یہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اسلام سے احکامات اور آئین کو اخذکرتے ہیں جس میں حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ وہ اس کے حصول کے لیے عین رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔اللہ کے حکم سے وہ ایک ایسی ڈھال ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی فکر اور عمل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جس پر کفار اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقت کی بدولت وہ ایسے باعلم سیاست دان ہیں جو اللہ کی مدد و نصرت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ان ہی پر الٹ دیتے ہیں، ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾ "اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے" (فاطر:43)۔
اے میرے عزیز بھائیو!
خلافت کا معاملہ عظیم اور بہت بڑا ہے اور اس کا قیام دھوکہ دینے والے میڈیا میں محض ایک خبر نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا قیام ایک ایسا زلزلہ ہو گا جو بین الاقوامی آرڈر کو ہلا کر رکھ دے گا اور وہ تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل کردے گا۔۔۔اور خلافت رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق ہی قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اور جو اس کو قائم کریں گے وہ ویسے ہی ہوں گے جنہوں نے پہلی خلافت راشدہ قائم کی تھی۔ امت ان سے محبت کرے گی اور وہ امت سے محبت کریں گے، امت ان کے لیے دعا کرے گی اور وہ امت کے لیے دعا کریں گے، امت ان سے مل کر خوش ہو گی اور وہ امت سے مل کر خوش ہوں گے نہ کہ امت اپنے درمیان ان کے وجود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گی۔۔۔ایسے ہوں گے وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آنے والی خلافت کو قائم کریں گے۔ اللہ یہ سعادت انہی کو دے گا جو اس کے حق دار ہوں گے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہوں اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے، ﴿فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ﴾ "تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ" (التوبۃ:111)۔
اللہ سے بالکل بھی ناامید مت ہوں۔ اللہ آپ کی کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور جو دعا آپ اس سے کرتے ہیں اس کو رد نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امید کو رد کرے گا جس کی آپ کو اللہ سے توقع ہے۔ لہٰذا اپنی کوششوں کو بڑھا کر ہماری مدد کریں تاکہ اللہ کے سامنے آپ میں موجود خیر ثابت ہوجائے اور اللہ آپ میں موجود خیر کو مزید بڑھا دے گا اور اس سنجیدہ کام میں محض نعروں اور باتوں کی وجہ سے کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
آپ کا بھائی
3رمضان 1435 ہ
یکم جولائی 2014 م
میں دعا کرتا ہوں کہ یہ جواب کافی ہوگا۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی مدد فرمائے اور اللہ ہم سب کی صحیح منزل کی جانب رہنمائی فرمائے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
4 رمضان 1435 ہ
2 جولائی 2014 م

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک