الجمعة، 08 ذو القعدة 1445| 2024/05/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال کا جواب

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ماتحتی اور کچھ علاقائی معاملات پر اس کا موقّف

(ترجمہ شدہ)

سوال:  

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی پوزیشن میں کچھ مسائل اور تضاد نظر آتے ہیں، جیسے کہ:یو اے ای اور دوسرے برطانوی ایجنٹوں کی پوزیشن میں ایک بڑا فرق جیسے عبد ربّو منصور حادی کے بارے میں اس کا موقّف۔ایسی خبریں آئی ہیں کہ یو اے ای میں ان  کی آمد کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ یو اے ای نے ادن(Aden) میں ائرپورٹ  کے حفاظتی مینیجر کو برخاست  کرنے کے اس کے فیصلے کو بھی نامنظور کر دیا، اور اس کے علاوہ یو اے ای اور تیونس میں بھی تناؤ ہے۔۔ ۔یہ اس وقت ہو رہا ہے جب یہ سب امریکی ایجنٹوں کے مفاد کے مطابق ہے؛ یو اے ای امریکی ایجنٹ سلمان (سعودی بادشاہ)کی قیادت میں  Decisive Storm Operation میں شامل تھااور یہ لیبیا میں امریکہ کے ایجنٹ خلیفہ حفتر کی تاعید میں مضبوطی سے کھڑا ہے۔ یہ مصری صدر عبدالفتح اسّیسی کی بھی تائید اور غیر محدود حمایت کا ضامن بنا ہے۔برطانوی ایجنٹوں کی امریکی ایجنٹوں کے ساتھ  ان تعلقات کی کس طرح سے توجیہ و تشریح کی جا سکتی ہے ؟

 

جواب:

1۔1971 کے بعد،  یو اے ای سات متحدہ امارات میں تبدیل ہو گیا۔شیخ زید بن سلطان النحیان ابو ظہبی (Abu Dhabi)کے حکمران ،یو اے ای کے صدر بنے۔2004 میں ان کے انتقال کے بعد، ان کے بڑے بیٹے شیخ خلیفہ بن زید النحیان یو اے ای کے صدر بنے۔ یو اے ای کی  90 لاکھ کی آبادی میں 11 فی صد وہاں کے علاقائی باشندے ہیں۔ شیخ خلیفہ نے مغربی ممالک سے  ہتھیاروں کی خریداری کرکے یو  اے ای کی جنگی استعداد میں اضافہ کیا ہے اور سپاہیوں کی مشق و ریاضت میں بہت سرمایہ خرچ کیا ہے۔ یو اے ای نے F-16E/F Desert Falcon Aircraft طیاروں کا 80 طیاروں پر مشتمل پہلا دستہ  ert Falcon Aircraft مشق و ریاضت میں بہت سرمایہ خرچ کیا ہے۔ی جنگی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے  ای کی  90 لاکھ کی آبادی میں امریکہ سے  6.4 بلین ڈالر کے معاہدے پر حاصل کیا ۔بعد میں یو اے ای نے اباچی  Apacheہیلی کاپٹر ، ایف 16 لڑاکا جیٹ طیارے، بکتر بند گاڑیاں اور مختلف راکٹ اور گولہ بارود خریدے۔اور اس طرح یو اے ای  سیا سی اور جنگی کردار کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو گیا!  یو اے ای میں ملکہ برطانیہ کی2010 میں آمد اس کردار کی پختگی  پر مہر تھی۔ ابوظہبی(Abu Dhabi) میں  برطانوی سفیر ڈامنک جیرمی نے اے ایف پی  AFPکو بتایا"برطانیہ کی  ملکہ الیزبیتھ دوم یو اے ای میں سرکاری ملاقات کے سلسلے میں  کل تشریف لائیں ہیں۔ ملکہ اور یو اے ای کے حکمران خاندان کے مابین بہت مضبوط رشتہ ہے"۔ یو اے ای کے لندن میں سفیر  عبدالرحمٰن المطوعی نے اس دورے کو دونوں دوست ممالک کے بابین  باہمی رشتوں کے عروج  کی نشو نماء کے اعتبار سے تسلیم کیا اور اس دورے کو بہت اہم بتایا(الشرق الاسوت اخبار،25 نومبر2010)۔

 

یو اے ای نے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا اور  برطانوی پالیسی کے نفاذ کے خاطر استعماری اتحادوں میں شمولیت اختیار کی، چاہے وہ اتحاد برطانوی ہوں یا امریکی، تاکہ برطانیہ کے لیے امریکی پالیسی  پر نظر رکھ سکے۔اس طرح سے یو اے ای  برطانیہ سے وفاداری کے باوجود  امریکہ کےجھنڈے تلے لڑ رہا ہے اور اس کی یا اس کے ایجنٹوں کی  اتّباع  کر رہا ہے  جیسے کہ یو اے ای عرب اتّحاد میں شامل ہوا ہے(بنسبت امریکہ کے) جس کی قیادت Decisive Storm کے نام  سے سعودی عرب کا شاہ سلمان کر رہا ہے۔سعودی عرب کے بعد وہ دوسری طاقت ہے  جو اپنے 30 طیاّروں کے ساتھ اس میں حصّہ لے  رہا ہے۔۔۔ وہ اپنے آپ کو امریکہ کے رفیق کے طور پر پیش کرتاہے۔ واشنگٹن میں یو اے ای کے سفیر یوسف الاتیبہ نے کہا" یو اے ای امریکہ کا ایک پر سکون اور توانا دوست ہے، اور اس کا  عرف  نام چھوٹا اسپارٹا ہے"(واشنگٹن پوسٹ9 نومبر2016)۔3 جنوری2017 کو واشنگٹن پوسٹ میں  یو اے ای کے الظفررۃ  (Dhafra) بیس سے ایک  نامہ نگار نے حوالہ دیا:"امریکی طیارے الظفرۃ بیس سے ہی اڑان بھر رہے ہیں۔  چھ ہفتوں سے وہ شام اور عراق پر بم باری کر رہے ہیں۔۔۔"۔ اخبار نے مزید کہا کہ "اس معاملے کے بارے میں معلومات نہیں ہے یا  بہت کم معلومات ہے کہ الظفرۃ بیس پر امریکہ کے 3500 سپاہی  تعینات ہیں، یہ واحد بیس ہے جس پر ایف-22 لڑاکا جیٹ  موجود ہیں"۔۔۔اخبار نے  وسط ایشیا کے سابق امریکی افواج  کمانڈر اینتھونی زنّی کا حوالہ دیا کہ "عالم عرب میں کسی دوسرے ملک  کی بنسبت امریکہ کا آج کے وقت  یو اے ای سے سب سے مضبوط رشتہ ہے"۔  اس طرح سے یو اے ای امریکہ کا  ایک مضبوط رفیق نظر آتا ہے۔۔۔واقعتاً ، یو  اے ای برطانیہ کے لیے ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے، اور اس نے امریکی جنگوں میں حصّہ صرف برطانیہ کی خاطر لیا ہے اور امریکہ کی ظاہری طور پر نصرت و تائید  کرنے کے اس کے اس منصوبے کو انجام دے رہا ہے اور پس پردہ اس کے لیے حالات خراب کر رہا ہے!

 

2۔یہ بات  قابل ذکر ہے  کہ جب سے  برطانیہ کی  مشرقی سویز(Eastern Suez) میں شکست ہوئی ہے، خاص طور سے 1956 میں، اس کی 1963 میں ہوئی یمن جنگ میں مکمّل شکست اور 1968 میں خلیج سے جنگی  پسپائی کے اس کے فیصلے کے بعد جس کا نفاذ 1971 میں ہوا، برطانیہ اپنی موجودہ حالت میں نہیں رہ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے جنگی پسپائی کو ترجیح دی اور بلاواسطہ استعماریت کو سیاسی ، عسکری اور معاشی استعماریت کی شکل میں تبدیل کر دیا  جیسا کہ اس نے اپنی زیادہ تر نو آبادیوں  میں کیا ہے۔۔۔اس وقت(مشرقی سویز سے مکمّل  پسپائی) سے برطانیہ  امریکہ کے سامنے کھلےعام کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر پا رہا ہے اس لیے امریکہ کے متعلق اس کی پالیسیاں عوامی طور پر اس کی  حمایت و تائید کرتی نظر آتی ہے لیکن مخفی طور پر وہ امریکی مفادات کے لیے مضر ہوتی ہیں۔اور اسی بنیاد پر برطانیہ اپنے ایجنٹوں کو ان کے کردار تقسیم کرتا ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ کچھ امریکہ کے حمائتی ہیں اور اس بنیاد پر امریکہ کے حلقات میں شامل ہو کر اس کے  منصوبوں اور سازشوں کی سن گن لے لیتے ہیں اور دوسرے ایجنٹ سچّائی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ برطانیہ اور اس کے رفقاء کے  ہی وفادار  ہیں۔

 

3۔ اس طرح سے ہم سوال میں  ذکر کردہ یو اے ای کےمختلف معاملات پر  موقّف کی تفہیم مندرجہ ذیل طریقے سے کر سکتے ہیں:

الف: یو اے ای کا یمن میں کردار:

مارچ 2015 میں یو اے ای نے یمن کے حوالے سے سعودی عرب کے اعلان کردہ ،  Operation Decisive Storm  میں حصّہ لیا تھا، حالانکہ ظاہری طور پر اس میں مطابقت نظر آ رہی تھی لیکن سچّائی کچھ اور تھی۔ سعودی عرب اس آپریشن کو محض ہوائی حملوں تک محدود رکھنا چاہتا تھا لیکن یو اے ای کی زمینی جنگ میں کثیر حصّہ داری  اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ  اس نے اس اتّحاد کا استعمال یمن میں زمینی افواج کی تعیناتی کے لیے  کیا ہے۔۔۔اور اگر ہم  سعودی عرب کے 5 اپریل2015 کو یمن میں زمینی افواج کی موجودگی  کےانکار اور 21اپریل2015 کو Decisive Storm Operation  کے اختتام کے اعلان اور "امّید کی بحالی" کی شروعات  پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب ، جو کہ  ہوائی حملوں کے ذریعے  سیاسی بندوبست کرنا چاہتا ہے("امّید کی بحالی" اس کی طرف اشارہ کرتی ہے)، اور یو اے ای (جو اس جنگ کے ذریعے یمن کے شہروں سے الحوثیون (Houthies) کا اخراج  چاہتاہے ) کے مابین یہ  تناؤ  کا دوررہا ہے۔۔۔سعودی عرب سیاسی حل  کے لیے الحوثیون پر دباؤ ڈالنا چاہتاہے جبکہ یو اے ای ان سے زمینی جنگ کرکے ان کو پیچھے کھدیڑ نے پر آمادہ ہے۔

 

سعودی-یو اے ای تنازع صرف اسی بات پر نہیں ہے بلکہ وہ صالح کے متعلق بھی اختلاف رکھتے  ہیں۔ اس وقت جبکہ سعوودی عرب اور صالح کے بیچ عداوت زور پکڑ رہی ہے، اس بات کی خبریں آ رہی ہیں کہ یو اے ای صالح کی تائید کر رہاہے،  اور یہاں تک کہ اس نے    Decisive Storm کی ایک یورش میں  اس کو بچایا بھی تھا۔مصر العربیہ    ویب سائٹ نے4 اپریل2015 کو  بلاواسطہ یہ اشارہ کیا ہے کہ  یمن کے ایک سینئر اہلکار  نے مصر العربیہ کو دیے ایک بیان میں اس بات کا انکشاف  کیا  کہ کیونکہ  ابو ظہبی (Abu Dhabi)نے یمن کے صابق صدر عبد اللہ صالح کے بیٹے کو  Storm Operaiton  Decisive کے تحت ثناء پر بم باری  کے متعلق  آگاہ کر دیا تھا اس وجہ سے  سعودی  عرب اور  یو اے ای میں عدم اتّفاق واقع ہو گیا ہے۔اور یو اے ای  صالح کی حفاظت کی  اہمیت کو  بصیرت انگیز نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو کسی بھی  ہونے والے حل کی پہل میں ملوّث کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اس بات کی وضاحت کی کہ یو اے ای کی جنگی کاروائی کی تاریخ کے  انکشاف سے صالح کی جان بچ گئ جس سے کہ وہ   بم باری ہونے سے قبل ہی دارالحکومت ثناء کی محفوظ جگہ پر منتقل ہو گئے۔یہ یو اے ای  کے علی صالح کی تائید کی طرف بھی  اشارہ  ہے، وہ اس  کے بارے میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا،  اور سوشل میڈیا بھی یو اے ای پر علی عبد اللہ صالح اور ان کے خاندان کو دی جارہی  معاشی اور جنگی تائید  کے الزامات سے  بھرا ہوا ہے اور    یو اے ای کا سعودی  قیادت میں چل رہے اتّحاد میں شمولیت کے باوجود وہ  صالح کا رفیق بنا ہوا ہے جبکہ اس  اتّحاد نے یمن میں الحوثیون اور ان کے رفیق صالح  کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

اور یہ وہ جنگ ہے جس کے اعلان کردہ مقاصد "زمین کی قانونی حیثیت کو واپس لانا " اور " الحوثیون کے ذریعہ کیے گئے خونی فوجی قبضے کو ختم کرنا"ہیں۔۔۔ اس رشتے کی توثیق یمن پریس نے22 اکتوبر2015 کو ایک رپورٹ میں بھی کی ہے:"خروج شدہ صدر برگیڈیر جنرل احمد علی صالح کا بیٹا یو اے ای میں ابھی بھی ایک خاص تحفظ کی  شرط پر پناہ گزیں ہے ،اس کے باوجود  کہ یو اے ای الحوثیون اور صالح  کے خلاف جنگ میں ملوّث ہے"!!

 

vصدر حادی خود محفوظ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ ان  کو علیحدہ کرنے کی تجویز پیش کر رہی ہے۔دوسرے الفاظ میں برطانیہ یمن میں افواج اور کاغذات کی تیاری  میں ہے۔اس لیے اگر حادی کو سیاسی منظرعام سے ہٹانے کے بین الاقوامی  انتظامات پورے ہو گئے ، تو اس کا مطلب  یہ ہرگز نہ ہوگا کہ یمن سے برطانیہ کا اثر ختم ہو جائے گا کیونکہ ان کے ا ثر کی نمائندگی دوسرے اور  ذرائع سے بھی ہوتی ہے،  اور حا دی ان میں سے بس ایک ذریعہ ہے۔۔۔اس لیے برطانیہ نے  یو اے ای کے ذریعے علی صالح  کی تائید کروائی ہے۔۔۔حادی اور صالح دونوں برطانیہ کے آدمی ہیں،  لیکن برطانیہ کی  مکّاری  کے چلتے  ان دونوں کے کرداروں کی تقسیم  اصل مسئلہ  ہے۔اس لیے یو اے ای اور حادی  کے بیچ تنازع کی تفہیم  اس سیاق و سباق میں کی جا سکتی ہے(یعنی کہ  ابو ظہبی میں  ان کا خیر مقدم نہ ہونا اور ادن صالح الامیری میں  ہوائ اڈّے کے حفاظتی  ڈائریکٹر کی علیحدگی کی وجہ سے   یو اے ای  کا حادی پر پابندی عائد کرنے کا  تنازع)۔ اس طرح سے یو اے ای کی یمن پالیسی اور صدر حادی،برطانیہ کے آدمی  کے طور پر،کے مابین ظاہری تضاد  ، برطانیہ کا یو اے ای کو  اس  کے کردار کے متقاضی اس کو  ایک خاص کام  کو سپرد کرنے کے نتیجے  میں پیدا ہوا ہے۔ اس طرح سے یو اے ای یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ حادی کا  حامی نہیں ہے، جس کی تائید  کی رضامندی اس نے  خلیج  پہل میں کی تھی اور  واقعتاً وہ ایک  اور برطانوی ایجنٹ  علی صالح کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس طرح سے  وہ یمن میں برطانیہ کے لیے کردار ادا کر رہا ہے جس سے کہ  امریکی ایجنٹ سعودی  عرب کے لیے  چیزیں  دشوار ہو جاتی ہیں۔

 

ب:لیبیا میں  یو اے ای کا  کردار:  یو اے ای  کی خلاف ِاسلام پالیسی کے کشادہ خاکہ کے تناظر میں یو اے ای کے لیبیا میں کردار کو سمجھنا آسان ہے جس کی  نگرانی(خاکہ تیاری اور نفاذ) برطانیہ کے سابقہ وزیراعظم ٹونی بلیر کر رہے ہیں۔مزید براں، اقوام متحدہ کے سفیر  لیون(Leon) سے رشتوں  کو دیکھتے ہوئے اور لیبیا میں یو اے ای کے ذریعے   اس مرکز کی  پشت پناہی؛یہ سب  ان مختلف طریقوں  کےوسیع اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا استعمال لندن  کر سکتا ہے  جیسا کہ برطانیہ کا  یمن میں معاملہ ہے  جس کی وجہ قذافی کے دور ِعہد میں اس کا اس ملک میں محیط اثر  رہا ہے۔۔۔یو اے ای کا سیکولر سٹ اور قبیلوں  کے شیوخ کی  تائیدو نصرت اور "اسلامسٹس" کے خلاف اس کے اقدام  اس کو  قطر  کے ذریعے تائید شدہ  طاقتوں  کے خلاف لا کھڑا کرتا ہے؛ قطر برطانیہ کے لیے"اسلامسٹس" کے ساتھ   مل  کرکام کرتا  ہے اور یو اے ای سیکولرسٹ  اور قبائل کے ساتھ۔قطری اور امیراتی کرداروں کی  یہ تقسیم  بعینہ وہی ہے جس کی رپورٹ  امریکی میگزین  'فارین پالیسی 'نے کی تھی جس کا حوالہ  عربی 21 ویب سائٹ  نے28 اگست2014 کو دیا تھا یعنی کہ  لیبیا پر یو اے ای  کے  ہوائی حملے کے بعد( امریکی میگزین – 'فارین پالیسی ' اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ لیبیا میں علاقائی  اثر و رسوخ  کی جدّوجہد2011 میں شروع ہوئی جس میں  معمّر قذّافی کی حکومت کے خلاف ایک بغاوت برپا ہو گئی جس میں قطری حکومت نے اسلامی میلانات  رکھنے والے جنگجووں کی دستگیری کی،جبکہ یو اے ای نے  قبائلی رجحان رکھنے والی طاقتوں  کی تائید کی، خاص طور سے مغربی لیبیا کے زنٹان قبیلوں کی۔) امریکی میگزین نے یو اے ای کے،  لیبیا میں  کام کر رہے آدمیوں کے ناموں کا  خلاصہ  کیا ہے۔

 

لیبیا میں اقوام متحدہ کے سفیر برنارڈنوں لیون(Bernardino Leon ، ایک یوروپ سمتی رخ والے اسپینش )سے یو اے ای کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ ان کے ساتھ  توبرک پارلیمینٹ اور حفتر گروپ  کے متعلق ان کی کاوشوں کی تائید  کرنے کی کوشش کرنے کے لیے کام  کر رہا ہے۔اخبارات نے اس کے ای میل کا  انکشاف  کر دیاجس میں  یو اے ای کے وزیر خارجہ  سے متعلق بات چیت  ہے۔مزید براں، اس نے    لیون(Leon) کے لیبیا میں یو این کے عہدے کو چھوڑ کر  یو اے ای میں اچھی تنخواہ میں  کام کرنے کے لیے  منتقل ہونے کا  انکشاف کیا۔یو اے ای اور بین الاقوامی  سفیر کے مابین یہ  مضبوط رشتہ، جو کہ برطانوی رجحانات کی عکّاسی کرتا ہے، یو اے ای کے  لیبیا میں ادا  کیے جا رہے کردار کے متعلق برطانیہ  کے اطمینان کو ظاہر کرتا ہے؛ ایک ایسا کردار جو  اگست 2014 میں طرابلس(Tripoli) میں اسلامی جنگجووں کے خلاف کیے گئے ہوائی حملوں کے بعد  نمایاں طور پر اجاگر ہوا۔سب سے پہلے امریکہ  نے  یو اے ای کے ان حملوں  کو پہچانا جو  کہ اتّفاق سے   توبرک کو پارلیمینٹ کی منتقلی سے ملا۔یہ ایک قابل تذکرہ بات ہے کہ برطانیہ  یو اے ای کے  سیکولروں کی جانب جھکنے اور "اسلامسٹس(Islamists)"کے خلاف کھڑے ہونے کے پیچھے ہے۔(مصر العربیہ ویبسائٹ کے حوالے سے بتاریخ 31/01/2017)۔

 

دوسری جانب ، برطانوی اخبار ٹیلی گراف  نے پہلے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ٹونی بلیر  کنسلٹنگ سینٹر(Tony Blair Consulting Center)نے بعوض  مشورہ  اور   صلاح  کی خدمامت کے یو اے ای سے  35  ملین ڈالر کا  معاہدہ کیا ہے جو کہ بلیر سینٹر اور یو اے ای  وزارت خارجہ  کے  ڈرافٹ معاہدے کے مطابق ہے۔ ان دو فریقین کے مابین  مشترکہ رجحانات  اور موقّفات  کی سب سے نمایاں  خصوصیت  اس علاقے میں اسلامی تحریکوں اور پارٹیوں  کے متعلق قائم شدہ موقّف ہے۔۔۔اس طرح سے یہ واضح ہے کہ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کے کردار کی تقسیم اس طرح کرتا ہے جو کہ بظاہر متضاد لگتے ہیں لیکن آخیر میں  وہ برطانوی   مقاصد کے حصول کا ہی ذریعہ بنتے ہیں۔وہ اپنے سارے ایجنٹوں کو ایک ہی  طرف  کھڑا نہیں کرتا، خاص طور سے ان ممالک میں جہاں اس کے لیے متعدد کارڈ ہیں مثال کے طور پر لیبیا۔اس  طرح سے ، قطر حفتر کے خلاف نظر آتا ہے اور صلح کرانے والی برطانوی  حکومت کے ساتھ ہے اور یو اے ای خلیفہ حفتر کے ساتھ  کھڑا  نظر آتا ہے اور اس کی مضبوطی سے تائید کرتا ہے!

 

پ :تیونس میں یو اے ای کا کردار:

نومبر 2015 میں تیونس کے صدر باجی کید سبسی(Baji Caid Sibsi)نے کہا:"۔۔۔یو اے ای  عدم استحکام کے طریقوں کی پیروی کرتا رہے گا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ وہ  محفوظ ہے(احتساب سے)-اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ بنا کسی خوف کے وہ طاقت  اکٹھا کر سکتا ہے کیونکہ ہر کوئی بشمول یورپ اس کی دولت  پر انحصار کرتا ہے"(مڈل ایسٹ آئ ،30 نومبر2015)۔۔۔ یو اےا ی کے موقّف کی  جانچ پڑتال کے بعد،جو کہ تیونس  (برطانیہ کا رفیق)سے معاندانہ رویہّ کا اظہار کر رہا ہے، ان دونوں کے رشتوں کے  مابین  تناؤ نظر آتا ہے۔ بہر حال یہ ایک مصنوعی حالت معلوم ہوتی ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ سبسی یو اےای گئے تھے اور جب انہوں نے تیونس اور یواے ای کے مابین کشیدہ رشتوں کے متعلق بات کی ، تو اس کی خبر آئی کہ یو اے ای تیونس  کو  فرانس کے ہتھیار اور جنگی  سازو سامان  خریدنے کے لیے سرمایہ دے گا جس سے کہ وہ لیبیا اور الجزائر سے  اپنی سرحدوں پر   ضبط و نگرانی رکھ سکے۔فرانس کے  صدر ہالینڈ نے تیونس کے صدر  کے ساتھ  ایک میٹنگ کے بعد ایک   مشترکہ پریس کانفرنس  میں کہا کہ" تینوں ممالک کے مابین اس  کے متعلق  اشتراک ہے۔"اس مضمون کے متعلق ایک سوال کے جواب میں  فرانس کے اخبارات نے7 اپریل2015 کو   تیونس کے لیے فرانسیسی ہتھیاروں  کی ڈیل  کے بارے میں خبر شائع کی۔ تیونس کے وزیر خارجہ طیب  البکوچی نے اس بات کا انکشاف کیا کہ "  ان کا ملک فرانس اور یو اےا ی سے  ہتھیار و اسلحہ خریدنے  کے حوالے سے مذاکرات میں مشغول ہے۔۔۔"(دولیا اخبار ،7 اپریل2015)

 

اس طرح سے ایک طرف یو اے ای تیونس کو ہتھیاروں کی خریداری میں تعاون کرتا ہے اور دوسری طرف اس سے رشتوں کی کشیدگی اور تناؤ کا بھی اظہار کرتا ہے۔ اس  سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی تناؤ نہیں ہے  بلکہ  مصنوعی ہے تاکہ یو اے ای  تیونس  میں اور اس کے آس پاس برطانیہ کےلیے کردار ادا کر سکے، خاص طور سے لیبیا میں۔یہ اس وجہ سے کہ تیونس حفتر کے خلاف ہے اور لیبیاکی   مصالحتی  حکومت کے ساتھ ہے، جو کہ اس کی حمایت پر وجود میں آئی تھی اور  بعد میں طرابلس  منتقل ہو گئی۔اس طرح سے تیونس سے تنازعے کا اظہار کرنا یوا ے ای کے   برطانوی   فریب کو خلیفہ  حفتر  کے سامنے سہولت سے لا کھڑا کرے گا۔

 

ت: السیسی کے متعلق یو اے ای کا کردار:

 وسط 2013 میں  مرسی کے خلاف سیسی کی بغاوت کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ مل کر یواے ای  نے مصری صدر السیسی کی  حمایت میں  پیش قدمی دکھائی ہے۔ شاہ عبد اللہ کے دور عہد میں  سعودی عرب  برطانیہ کی اتّباع کر رہا تھا، اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ برطانیہ خود امریکہ  کے ساتھ قدم  ملا کر چل رہا تھا، اس لیے اس نے  اپنے ایجنٹوں کو امریکہ کے ایجنٹوں کی اتّباع کرنے کو کہا کیونکہ علاقے میں ان کا ہی تسلط ہے، اور برطانوی ایجنٹ  امریکی ایجنٹوں سے کمزور نظر آتے ہیں۔اس لیے، برطانیہ  ظاہری طور پر اپنے سارے ایجنٹوں کو امریکی یجینٹوں کے خلاف ایک ساتھ کھڑا نہیں کر تا، سوائے قطر جیسے کچھ خصوصی  معاملوں  میں ۔۔یہی کچھ معاملہ برطانیہ السیسی کے ساتھ  کر رہا ہے؛وہ اس کو کچھ  یقین دلانے والے اشارے دیتا ہے اور ان کو یو اےا ی سے منسلک کرتا ہے۔اس کا تذکرہ برطانوی   اخبارات نے کیا تھا؛ العربی ویب سائٹ نے 25 جون2014 کو  Financial Times میں ایک رپورٹ  کا حوالہ دیا جو کہتی ہے"ٹونی بلیر کے کاروبارسے متعلق اندرونی ذرائع نے  Financial Times  کو بتایا کہ انہوں نے  ماہرین کے  ایک گروپ کو اس  کام پر معمور کیا ہے  کہ  وہ دہشت گردی میں ملوّث ہونے کے بائث   اخوان المسلمین  اور  مصری فوجی  قائدین  اور خلیج میں   ان کے معاونین کے ذریعے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات پر ایک رپورٹ تحریر کریں "۔ اخبار نے یہ بھی رپورٹ شائع کی کہ ٹونی بلیر نے اپنی تقریرں کے ذریعہ  مصری فوجی بغاوت کی تائید کی ہے جس نے مصری صدر محمّد مرسی کو حکومت سے معزول کر دیا تھا۔ بلیر نے اپنی ایک تقریر میں  مصر میں ہوئی اس فوجی  بغاوت کو"مصری عوام کےلیے ایک حفاظتی مشن"سے تعبیر کیا تھا۔ اخبار نے مزید  لکھا "یو اے ای حکومت  کے موقّف سے یہ حالت بالکل مطابقت رکھتی ہے" اس لیے  یو اے ای کے السیسی سے قربت دلانے والے افعال بنا کسی جنبش کے برطانوی پالیسی کے ماتحت ہیں۔"

 

4۔یاد دہانی کے لیے،12 جنوری2016 کو ہم نے" سوال کے جواب" میں  مندرجہ ذیل   باتیں کہیں تھیں:

"کہیں بھی ذیلی  اور ماتحت ممالک کے مابین ہم کسی بھی تصادم کی توقّع نہیں رکھتے جو کسی  ایک ملک کے ارد گرد گھومتے ہیں، اگر وہ ایک ہی بڑے   ملک کی اتّباع کرتے ہیں کیونکہ وہ بڑا ملک ہی ہوتا ہے جو  کہ ان کی عمومی خارجہ پالیسی کو چلاتا ہے۔یہ پالیسی ہی اس تصادم  کو قابو میں رکھتی ہے۔۔۔یہ تو تصادم کے متعلق معاملہ ہے۔لیکن اگر ان میں کسی بھی تصادم کے بغیر  تنازع ہو جائے تو اس کی تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی  ہیں: پہلی وجہ اس بڑے ملک کے مفادات کی خدمات میں ادا کیے جا رہے  کرداروں کا بٹوارا ہو سکتا ہے، دوسری وجہ ان کے اندرونی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس بڑے ملک کی خارجہ پالیسی پر کسی بیرونی اثرات کے بغیر۔ تیسری وجہ کسی ایک ایجنٹ کی پشت پناہی کرکے  اس کے اور ایک دوسرے ایجنٹ کے مابین ایک ٹھنڈے پڑے معاملے کو گرم کروا دینا اور پھر  سارے حمایتی لوازمات  دے دینے کے بعد  خاموشی سے بیٹھ جانا"۔ یہ بات یو اے ای پر منطبق ہوتی ہے جو کہ برطانیہ کا ایجنٹ ہے جو کہ بیان کیے گئے پہلے نکتے یعنی  کرداروں کا تقسیم کیا جانے کے زمرے میں آتا ہے اور  وہ برطانیہ کے ذریعہ  تحریر کیے گئے کردار کو ادا کرتا ہے  جیسے کہ قطر ان کے لئے  ایک علیحدہ  کردار ادا کرتا ہے۔

 

5۔ اجمالی طور پر، یو اے ای باقی تمام خلیج کے ممالک کی طرح برطانیہ کے ماتحت ہے سوائے سعودی عرب کے جو کہ سلمان کی سرکردگی میں امریکہ  کے  ساتھ نظرآتا ہے۔۔۔یو اے ای برطانیہ کے ذریعہ بنائے گئے کردار کی  ادائگی  میں مشغول ہے چاہے وہ  کردار  یمن میں ہو، یا لیبیا میں  اور یا پھر مصری حکومت کی تائید میں۔اس طرح سے اس کی پالیسی میں  جو بظاہر تضاد نظر آرہا ہے  وہ  برطانیہ کے ذریعہ  سیکولروں اور اسلامسٹ مخالفوں  کی تائید و نصرت  کے نتیجے میں ہے جو کہ مثال کے طور پر  قطر کے لیے  وضع کی گئی پالیسی  کے برخلاف ہے۔ مزید براں ، یو اے ای برطانیہ کے لیے عمیق اور خاص پالیسیوں کا نفاذ کر رہا ہے۔ یو اے ای  علاقے میں اکثر  امریکی ایجنٹوں  کی پشت   سے  برطانیہ کے لیے خفیہ طور پر کام  کرتا ہے،   اور مقامات سے برطانیہ کےلیے خدمات انجام دیتا ہے۔ ان سب کے باوجود،چاہے وہ قطر ہو، یو اے ای ہو یا کوئ بھی  مسلم ملک  جو  استعماری کفّار کے مفاد کی خدمات میں لگے ہوے ہیں،  جان لیں کہ یہ ایک بہت بڑا  جرم ہے جو ان سے سرزد ہو رہا ہے اور ان کو  اس دنیا اور آخرت میں یہ بالکل نفع دینے والا نہیں۔  وہ بالکل ویسے ہیں جیسا کہ اللہ عزیز القدیر نے فرمایا:

 

سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ

"عنقریب  ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیا ہے اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں  سزائے سخت"(الانعام:124)

 

12 رجب 1438  ہجری

09اپریل2017



 

Last modified onہفتہ, 06 مئی 2017 16:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک