الجمعة، 23 شوال 1445| 2024/05/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب
لیتھوانیا میں نیٹو کا سربراہی اجلاس اور اس کے اثرات

 

سوال:

 

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) نے 11/12.7.2023کے دو دنوں میں روس کی سرحد پر واقع بالٹک ریپبلک میں سے ایک لیتھوانیا میں اپنا سربراہی اجلاس منعقد کیا۔  اس سربراہی اجلاس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یوکرین کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی درخواست کو کیوں مسترد کیا گیا؟ یوکرین میں جنگ کی صورت حال کس طرف جائے گی؟

 

جواب:

 

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کو واضح کرنے کےلیےہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

 

1۔ نیٹو کے اختتامی بیان میں تقریبا 90 نکات تھے،  جن میں سے کچھ کا تعلق یوکرین جنگ اور روس سے ہے، کچھ کا ان کے علاوہ دیگر مسائل سے۔  یہ ان تمام بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے ایک جامع بیان تھا جو دنیا میں خاص طور پر امریکی بالادستی اور تسلط اور عام طور پر مغرب کی بالادستی اور تسلط کےلیے اہم ہیں۔  اس میں ایسے نکات تھے جن کا تعلق  روس اور یوکرین میں جنگ اور چین کے ساتھ ہے اسی طرح بحر الہند اور بحر الکاہل کے خطے، اس کے ممالک، یورپی یونین کے ساتھ تعلقات، مشرق وسطی، ایران، عراق ، اردن اور افریقہ کے ساتھ ہے۔  اس بیان سے مغرب کی اجارہ داری اس کی عالمی بالادستی  اور اپنی تسلط کو مستحکم کرنے کی کوشش کا اظہار ہوتاہے۔  اس بیان میں مغرب کی جانب سے دنیا کو دھمکانے اور اپنی اجارہ داری مسلط کرنے کی کوشش کا اظہار ہوتا ہے۔  اس میں  مستقبل میں امریکہ کی قیادت میں مغرب کی بالادستی کی ضمانت دینے کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے، بلکہ نیٹو کے نام سے امریکی تسلط قائم کرنے کی کوشش ہے۔  نیٹو کی کامیابی پر امریکہ خوشی سے پھولے نہیں سما   رہا تھا، نیٹو ممالک جن میں یورپی  یونین کے ممالک بھی ہیں پر اپنی تسلط قائم کرنے پر خوش تھا۔  امریکہ نے نیٹو کو مضبوط کرنے اور وسعت دینے میں کامیابی حاصل کی، امریکہ ترکی کے اردوگان کی حمایت سے فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔یہ  امریکی بالادستی سے آزاد ہونے کمزور اور امریکہ کے سامنے بے بس یورپی یونین کی بجائے خود مختار یورپی قوت تشکیل دینے کےلیے فرانس کی قیادت میں یورپی کوششوں پر کاری ضرب ہے۔  فرانسیسی صدر میکرون نے نومبر 2019 میں کہا تھا کہ نیٹو بستر مرگ پر ہے، یورپ کو اپنی ذاتی قوت قائم کرنی چاہیے۔  اس سے امریکہ خوفزدہ ہوگیا اور نیٹو کو مضبوط کرنے پر اصرار کیا، اس کے بعد یوکرین جنگ شروع ہوگئی اور امریکہ کو سنہری موقع ملا کہ وہ یورپ کے امریکی چنگل سے نکلنے اس کی تسلط سے آزاد ہونے کی راہ میں روکاوٹ بن جائے۔

 

2۔ جہاں تک یوکرین کی بات ہےامریکہ نے فی الحال اس کو نیٹو میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔  امریکی صدر بائڈن نے سربراہی اجلاس کے اختتام پر کہا کہ"نیٹو سربراہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد نیٹو کا ممبر بنے گا" (بی بی سی 12.7.2023)۔  امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان الزبتھ سٹکنی نے کہا"موجودہ حالت میں یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنانا ممکن نہیں، جنگ کے دوران یہ زیر بحث ہی نہیں، نیٹو سربراہی اجلاس میں امریکہ کی ترجیح یوکرین کی مدد جاری رکھنا ہے"(اسکائی نیو، الجزیرہ 11.7.2023)نیٹو سربراہوں کے متفقہ اختتامی بیان میں کہا گیا کہ "یوکرین کا مستقبل نیٹو میں ہے۔۔کییف کا یورپی اٹلانٹک میں انضمام ضرورت سے بڑھ کر رکنیت کا عملی منصوبہ ہے" بیان میں یہ بھی کہا گیاہے کہ"ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اراکین حامی بھریں گے اور شرائط پوری ہوں گی یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت دیں گے"(الجزیرہ11.7.2023)۔۔نیٹو سربراہوں نے یوکرین کو اس ممبرشپ کی دعوت  نہیں دی نہ اس کےلیے کسی ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا جس کی وہ کوشش کر رہا ہے ، تاہم انہوں نے یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کی  ایکشن پلان کے نام سے یوکرین کی  شمولیت کی راہ میں موجود روکاوٹ کو ہٹا دیا۔ یعنی جیسے ہی جنگ ختم ہوگی یوکرین نیٹو میں شامل ہوگا، ممکن ہے صورت حال بدل جائے اور  نیٹو ممالک یوکرین کو شامل کرنے پر مجبور ہوں۔  بلکہ نیٹو کے فیصلہ ساز امریکہ کا موقف بدل جائے اور اس کو شامل کرنے کا اعلان کرے۔ یوں روس  یوکرین کے خلاف اعلان جنگ کرکے اس حوالے سے تمام اندازوں میں ناکام ہوگا۔

 

3۔ امریکی موقف نے یوکرینی صدر زیلینسکی کو غصہ دلایا اس لیے اس لیے کانفرنس کےلیے جاتے ہوئے جب اس کو اختتام اعلامئیے کے مضمون کا علم ہوا تو اس نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا"یہ انتہائی مضحکہ خیز اور غیر معقول ہے کہ نیٹو میں یوکرین کی  رکنیت کےلیے کوئی ٹائم فریم مقرر نہ کیا جائے۔  اس کی وضاحت نہ کرنا  کمزوری ہے، ایک متفقہ ٹائم فریم مقرر نہ کرنے کا مطلب ہے کہ اس کے ملک کی رکنیت بلا آخر سودے بازی کا کارڈ بن جائے گی"۔  فیصلہ ساز کی جانب سے اختتامی بیان شروع میں ہی تیار کیا جاتا ہے پھر اجلاس اور کانفرنسوں میں اس پر بحث ہوتی ہے، یوں اس میں ضروری ترامیم کی جاتی ہیں یا  ویسے ہی برقرار رکھا جاتاہے۔  امریکی وفد کے ارکان زیلینسکی کی جلد بازی پر ناراض تھے، انہوں نے اس کو صبر سے کام لینے اور وہ سیکورٹی مدد لینے کی ترغیب دی جس کا اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔  اس پر یوکرینی صدر خاموش ہوگیا اور اپنے بیان کو بدلتے ہوئے کہا کہ"نیٹو یوکرین کو سیکورٹی فراہم کرے گا، یوکرین نیٹو کو مضبوط کرے گا"(بی بی سی 12.7.2023)۔  یاد رہے کہ نیٹو نے2008 میں اعلان کیا تھا کہ وہ مستقبل میں یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کےلیے کام جاری رکھے گا۔  نیٹو کے سیکرٹری جنرلJens Stoltenberg نے کہا کہ"نیٹو اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کو شامل کرنے کےلیے ٹائم فریم نہ دینے سے یوکرینی صدرناراض ہوگئے ہیں"۔  مگر انہوں نے "نیٹو کی جانب سے یوکرین کی مدد جاری رکھنے کی یقین دہانی کی" انہوں نے اعلان کیا کہ "نیٹو اتحاد کے اراکین  نے روس کا عسکری طور پر مقابلہ کرنے اور کییف کی مدد کرنے کا جامع دفاعی منصوبے پر اتفاق کیا ہے"(الجزیرہ11.7.2023)۔  امریکہ نے فی الحال یوکرین کو نیٹو میں ضم کرنے سے انکار کیا کیونکہ امریکہ جنگ میں براہ راست ملوث ہونا اور لڑنے کےلیے اپنی فوج وہاں بھیجنا نہیں چاہتا۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ 4.4.1949نیٹو کی تاسیس کے وقت تیار کی جانے والی  واشنگٹن دستاویزکی شق نمبرپانچ کے مطابق نیٹو کے کسی بھی رکن پر حملہ تمام ارکان پر حملہ ہے۔  امریکہ چاہتا ہے کہ کیل کانٹے اور اسلحہ ہی بھیجا جائےتاکہ اس سے روس اور یوکرینی قتل ہوں اور روس کو شکست ہو۔    اس کے بعد یوکرین نیٹو میں شامل ہو اور امریکی فوج یوکرین میں داخل ہوں اور روسی دارالحکومت ماسکو کے قریب اپنے فوجی اڈے قائم کریں۔

 

4۔ بیان  جس کو بہت سارے ذرائع ابلاغ نے شائع کیا بعض نے تو اس کی تفصیلات بھی شائع کی ہے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ" اتحادی مل کر اتفاق سے روسی خطرے اور چیلنجوں سے نمٹنے کی جدوجہد کریں گے، روس ہی نیٹو اتحادیوں اور یور اٹلانٹک خطے کی سیکورٹی کےلیے سب سے بڑا خطرہ ہے"۔  اس بیان کے شق نمبر 34 میں  کہا گیا ہے کہ"مکمل طور پر بدلتی ہوئی سیکورٹی کی صورت حال کے پیش نظرہم ہر سمت سے آنے والے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کےلیےنیٹو کے اجتماعی دفاع کو مضبوط کریں گے۔   2014سے (جب روس نے کریمیا کو اپنے اندر ضم کیا اور یوکرین کے مشرق میں اپنی موجودگی مستحکم کیا)خاص طور پر 2022  کےمیڈرڈسربراہی اجلاس میں ہم نے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کےلیےفیصلے کیے اورتیزرفتار فوجی ہم آہنگی کےلیے واضح راستہ متعین کیا۔  آج ہم نےتمام شعبوں میں نیٹو کے ڈیٹرنس اور دفاعی پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کےلیے اہم اقدامات پر اتفاق کیا، جس میں آگے کے دفاع  کسی بھی اتحادی کے خطرات سے دوچار ہونے کی صورت میں  اتحاد کے تیز رفتاری سے اس کو مضبوط کرنے کے قابل ہونے پر اتفاق کیا۔  ہم ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنائیں گے اور کسی بھی ممکنہ دشمن کو حملے کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔۔"۔  جون 2022 میڈرڈ میں نیٹو سربراہی  اجاس میں نیٹو کےلیے نئے اسٹریٹیجک تصور پر مبنی ایک دستاویز شائع کیا گیا جس میں اتحادیوں کی سیکورٹی کےلیے  روس کو سب سے بڑا اور براہ راست خطرہ قرار دیا گیاجبکہ چین کے بارے میں ایسا نہیں کہا گیا تاہم اسکو اتحاد کے مفادات اور اقدار کےلیے چیلنج کہا گیا۔  بیان میں"روس کو یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار اور یورپ کے امن اور سیکورٹی کےلیے خطرہ قرار دیا گیا، بلکہ دنیا کے دوسرے علاقوں کےلیے بھی خطرہ قرار دیا گیا"۔  بیان میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہےکہ "روس نے مختلف میدانوں میں اپنے موبلائزیشن میں اضافہ کیا ہے،  بحر بالٹک بحر اسود اور بحر متوسط کے خطوں میں اپنی موجودگی کو بڑھا دیا ہے، قطب شمالی میں اس کی عسکری  قوت میں اضافہ ہوا ہے۔  انہوں نے روس پر نیٹو کی حدود کے قریب اشتعال انگیز کاروئیاں کرنے، مطلع کیے بغیربڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کرنے کا الزام لگایا۔  نیٹو کے جنوبی پڑوس میں خاص طور پر مشرق وسطی کے خطے شمالی افریقہ اور ساحل میں کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا "۔ اس کے باوجود بیان میں کہا گیا کہ"نیٹو روس کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا"، "نیٹو روس کےلیے خطرہ نہیں تاہم روس اپنی  پالیسیوں اور جارحانہ اقدامات کی وجہ سے نیٹو کا شراکت دار نہیں "(الجزیرہ 11.7.2023)۔ یہ روس کو الجھانے اور اس خوش فہمی میں مبتلا کرنے کےلیے ہے کہ شاید مغرب  اس پر ترس کھائے اور  سمجھوتہ کرے۔  وہ روس کو اس تردد میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امید اور سمجھوتے اور اپنی لاج رکھتے ہوئے یوکرین کے دلدل سے نکلنے ، جس میں وہ کود تو گیا مگر اپنے اہداف کو حاصل نہیں کر سکا اور اہداف کو حاصل کرنا مشکل ہوگیا اوراس سمجھوتے کے حوالے سے مایوس ہونے اور اس دلدل میں ایک لمبے عرصے تک بے نتیجہ بھٹکتے پھرنے کے بارے میں سوچے۔  اس مبہم صورت حال ، جنگ کی اس طوالت  جس کو مغرب اور اس کا سرغنہ امریکہ اپنے اہداف کے حصول کےلیے طول دینا چاہتاہے  کے بارے میں شش و پنچ میں مبتلا رہے۔  ایسا لگ رہا ہے کہ  تمام مغربی ممالک  بشمول جاپان اس   امریکی نقطہ نظر کو اختیار کر چکے ہیں کہ روس  کو شکست دینا ہے اور اس میں صورت حال کو تبدیل کرنا ہے خاص کر سیاسی قیادت کو۔  کانفرنس کے موقع پر جی سیون سربراہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ "روسی  جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے میں یوکرین کی مدد کی جائے گی چاہے جتنی لمبی مدت تک ہو"(بی بی سی 12.7.2023

 

5۔ انہوں نے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کی تعریف کی اور یہ اعلان کیاوہ اس کی ترقی کےلیے کام کریں گے جیسا شق نمبر 44 ہے کہ انہوں نے کہا"اتحاد کا اسٹریٹیجک ایٹمی قوت  خاص طور پر امریکی قوت جارحیت کے خلاف دفاع اور امن کی ضمانت ہے۔  اتحاد اپنے جوہری ڈیٹرنس کی ساکھ اور تاثیرکو یقینی بنانے کےلیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔   اس میں اتحاد کی جوہر صلاحیت کے جدید تر بنانے کو جاری رکھنا  بھی شامل ہے تاکہ اس میں لچک اور بدلتے ہوئے  بین الاقوامی صورت حال سے ہم آہنگ ہونے کی قدرت ہو"۔  ڈھکے چھپے انداز میں روس کو  یوکرین کے خلاف جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی صورت میں دھمکی دیتے ہوئے کہا"اتحاد کے خلاف کسی قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال(یوکرین میں) جنگ کی صورت حال کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دے گا"۔  نیٹو ممالک نے اپنے حالیہ اجتماع میں کہا جیسا کہ شق نمبر 28 میں ہے کہ"سالانہ جی ڈی پی کا کم از کم 2%  ٹیکنالوجی میں برتری برقرار رکھنے اور نیٹو فورسز کی اصلاح اور جدت  کو جاری رکھنے کےلیےافواج پر خرچ کیا جائے گا۔  جس کا مطلب اسلحہ کی دوڑ میں جدت اختیار کرنا ہے"۔  ہم "نئے دور کے مطابق نیٹو کو جدید بنانے اجتماعی دفاع  کےلیے کام کریں گے، ممبران  کسی بھی جارحیت کے خلاف کامیابی  کےلیے پرعزم اور متحد ہیں ، اتحاد میں شامل تمام ممالک کی سرزمینوں ان کی فضاء اور سمندروں کا دفاع کیا جائے گا"۔  اسی طرح بیان کے شقوں میں یہ بھی ہے کہ مغرب اور اس کا سرغنہ امریکہ اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو ترقی دینے پر کام کر رہے ہیں اور اس کو استعمال کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ہر میدان میں اپنی عسکری قوت کو بڑھا رہے ہیں جبکہ  ہر اس ملک کے خلاف جنگ کر رہے ہیں جو جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کرتاہا یا اس کو ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے یا اپنی عسکری صلاحیتوں کو ترقی دے کر خودکفالت کی کوشش کرتا ہے۔  چنانچہ انہوں نے ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی سرگرمیوں اور میزائل طاقت کو ترقی دینے کےلیے حالیہ تجربات پر ان کی مذمت کی۔  جیسا کہ بیان کے شق 56,57,84 میں ہے۔

 

6 ۔ جہاں تک چین کی بات تو اس طرف اشارہ بند نمبر6,23,24,25,55 میں کیا گیاانہوں نے"چین کے عزائم اور ان کے مفادات،سیکورٹی اور اقدار کےلیے چیلنج کرنے والی  اعلانیہ جابرانہ پالیسیوں کی مذمت کی"۔   انہوں نے کہا کہ"چین اپنی حکمت عملی اپنے ارادوں اور فوجی تشکیل کے بارے میں مبہم ہے"۔  وہ سمجھتے ہیں کہ "چین کی بد نیتی پر مبنی سائبر اور ہائبرڈ کاروائیاں، محاذ آرائی پر مبنی بیان بازی اور غلط معلومات کی فراہمی جن میں اتحادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہےنیٹو کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں"۔   انہوں نے کہا کہ "چین اسٹریٹیجک انحصار پیدا کرنے اور اپنے بالادستی کو مضبوط کرنے کےلیے اپنے معاشی اثرورسوخ کو استعمال کرتا ہے، قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  خلائی، سائبر اور میری ٹائم ڈومینز سمیت کلیدی تکنیکی شعبوں، اہم انفراسٹرکچر، اسٹریٹیجک مواد اور سپلائی چین کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتاہے"۔  انہوں نے چین کو دعوت دی کہ"اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے تعمیری کردار ادا کرے، یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی مذمت کرے۔  روس کی جنگی کوششوں کی کسی بھی طرح حمایت کرنے سے گریز کرے اور روس کے جھوٹے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے باز آئے جو یوکرین اور نیٹو کو یوکرین کے خلاف جنگ کا ذمہ دار ٹہراتاہے"۔  ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ "چین کے ساتھ اسٹریٹیجک مفادات کےتحفظ کےلیے کھلے دل سے شفاف تعمیری شراکت داری کے عزم پر کاربند ہیں"۔  چین کےبارے میں انہوں نے یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ مغرب یا نیٹو کےلیے خطرہ ہے، یعنی امریکہ کی قیادت میں مغرب کی بالادستی کےلیے خطر ہے۔  انہوں نے چین کی اسٹریٹیجی اور عسکری حکمت عملی کو مبہم قرار دیا۔  ہم نے اس  بات کی طرف اشارہ  3.7.2023کےاس سوال کے جواب میں کیا ہے جس کا عنوان ہے"بلینکن کا چین کا دورہ"جس میں ہم نے کہا تھا"تاہم اس دورے کا اہم ترین ہدف جو حاصل نہ ہوسکا  یہ تھا کہ امریکہ چینی اور امریکی افواج کے درمیان رابطے کا چینل کھولنا چاہتا ہے اور یہ جاسوسی جیسے مقاصد کےلیے ہے! چین نے اس کو بھانپ لیا اور اس چینل کو کھولنے سے قطعی طور پر انکار کردیا"۔  انہوں نے علاقائی کمپنیوں پر توجہ مرکوز رکھی جیسا کہ بیان کے شق نمبر85 میں  "بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں چینی خطرات"کی طرف اشارہ کیا۔  اس خطے میں "پیش رفت یورپ اور بحر اوقیانوس کی سیکورٹی کےلیے براہ راست خطرہ ہے"۔  انہوں نے"جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کی شراکت کو خوش آئند کہا اور ان کے ساتھ تعاون کےلیے  بات چیت کو بڑھانے کی بات کی"۔  امریکہ چین  پر ہر پہلو سے دباو بڑھانے کےلیے کام کر رہا ہے، اسی دباو میں اضافے کےلیے نیٹو کو بھی استعمال کر رہا ہے۔۔

 

7۔ بیان میں مشرق وسطی اور افریقہ پر مغربی تسلط کاذکر کیا گیا جیسا کہ بیان کے شق نمبر82,83 میں آیاہے کہ "مشرق وطی اور افریقہ اہم اسٹریٹیجک خطے ہیں ہم یہاں اپنے پرانے شراکت داروں کے ساتھ  اپنی سیاسی شراکت داری اور میڈٹیرین ڈائلاگ اور استنبول تعاون تجاویز کے ضمن میں   عالمی سفارت کاری کو مضبوط کریں گے۔  اسی طرح ہم  متعلقہ علاقائی تنظیموں جیسے افریقی اتحاد اور خلیج تعاون کونسل کے ساتھ روابط کو بڑھائیں گے۔  اتحاد  عراق اردن موریتانیا تیونس کی صلاحیتوں کو بڑھانے پیکج پر عمل کر رہا ہے۔  اور عمان میں نیٹو کے رابطہ آفس کے قیام کے امکانات کا جائزہ لینے کےلیےاردنی حکام کے ساتھ رابطے جاری رہیں گے"۔  اوراس پر زور دیا گیا کہ "عراق کی مدد کی جائے گی وہاں امن امان کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی، الدولہ تنظیم کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ عراقی حکومت کے مطالبے پر ہم عراق میں نیٹو مہم  کو توسیع دیں گے، وفاقی پولیس کے حوالے سے عراقی وزارت داخلہ کو مشورہ دیں گے"۔  یعنی نیٹو اس خطے کو مکمل طور پر  مغرب کے زیر اثر علاقہ سمجھتاہے۔  امریکہ یہاں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کےلیے کام کر رہا ہے، وہ نیٹو کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہےکہ وہ ان دو خطوں میں اس کےلیے کام کررہا ہے حلانکہ ان دونوں خطوں میں نیٹو ممالک کے درمیان رسہ کشی ہے خاص طور پر امریکہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان۔

 

8۔ بلاگ کا نظریہ دنیا کےلیے سب سے خطرناک نظریات میں سے ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب"حزب التحریر کے سیاسی تصورات "میں ذکر کیا ہے۔  یہ پہلے بھی دنیا میں عالمی جنگوں کا سبب بن گیا اسی طرح عراق افغانستان اور لیبیا پر حملوں کا۔  وارسو بلاگ کا خاتمہ ہوا جو نیٹو کا مد مقابل تھا اور مغرب کےلیے خطرہ تھا، اس لیے نیٹو کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔  مگر امریکہ مغربی ممالک خاص طور پر یوپی یونین پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کےلیے اس کے بقا پر اصرار کیا اور اس کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کیا۔  اس لیے یہ اتحاد  انسانیت کے مستقبل  کےلیے سب سے خطرناک بلاگ ہے اتنی قوت اور اتنے حجم کے ساتھ ایسے بلاگ کی تارخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔  اس میں وہ ممالک شامل ہیں تباہ کن اسلحہ ہےصنعتہ اور ٹیکنالوجی کے وسائل ہیں، جن کی قیادت امریکہ کر رہا ہے جو سب سے خطرناک استعماری ملک ہے جس نے جاپان پر ایٹمی ہتھیار استعمال کیا۔  امریکہ ہر جگہ اپنا اثررسوخ بڑھانے اور دنیا کے تمام ممالک پر اپنا تسلط جمانے کےلیےاس کی توسیع اس کو مضبوط کرنے اور مزید تباہ کن جنگوں کی دھمکی پر اصرار کر رہا ہے۔  اس کو مضبوط کرنے اور وسعت دینے کی کوشش انسانیت کے خلاف  جرم ہے،  یہ تباہ کن وحشیانہ جنگوں کا سبب ہے۔  اس میں شامل ممالک دوسرے ممالک پر  حملوں کی جرت کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے ان کے مدد گار ممالک ہیں، جس کی وجہ سے انسانی اور مادی نقصان کئی گننا زیادہ ہوجاتاہے۔  اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ  بلاگ کے نظرئیے کو مسترد کیا جائے نیٹو کو مسترد کیا جائے اس کے وجود کا کوئی جواز نہیں یہ جارحیت ہے، اس کے لیے عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کی جائے۔  ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کو ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہےجو دنیا کو اس صورت حال سے باہر نکالے، اسلامی ریاست خلافت کے علاوہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے والی کوئی ریاست نہیں وہی انسانیت کےلیے خیر اور جہانوں کےلیے رحمت ہے۔

 

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّـلْعَالَمِينَ﴾

"ہم نے تمہیں جہانوں کےلیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے"

 

تیس ذو الحجہ 1444ہجری

بمطابق  18.7.2023

Last modified onجمعرات, 17 اگست 2023 04:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک