الخميس، 22 شوال 1445| 2024/05/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: علمائے حدیث  کے درمیان ضعیف حدیث کی تعریف پر اختلاف

سوال:

السلام علیکم، میرا تعلق مصر سے ہے اور آپ کی ویب سائٹ پر یہ میرا پہلا وزٹ ہے۔

 میں کچھ سابقہ معلومات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوں، اور جب میں نے کچھ سوالوں کے حوالے سے  آپ کے جوابات دیکھے تو میرےتذبذب میں مزید اضافہ ہوگیا، تو  صبر سے مجھے سنیں، آپ کا شکریہ ۔

" دونوں احادیث اعتراض سے خالی نہیں  اسی لیے بعض محدثین نے ان کو ضعیف کہا ہے، مگر ہم حدیث کو حسن میں شمار کرتے ہیں کیونکہ یہ فقہاء کی کتابوں میں آئی ہے جنہوں نے اس کو احکام کو استنباط کرنےکے لیے استعمال کیا ہے"۔

 یہ جملہ  شیخ عطاء ابو الرشتہ نے"میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں" والی حدیث کے جواب میں کہا  ہے۔ میرے علم کے مطابق  محد ثین  (حدیث کے علماء)ہی حدیث کے بارے میں حکم لگاتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ:  کیا یہ ممکن ہے کہ ایک حدیث فقیہ کے مطابق صحیح ہو اور محدثین کے مطابق موضوع؟

محمود احمد

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

 لگتا ہے کہ آپ کا شبہ "میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں" والی حدیث پر ہمارے جواب سے متعلق ہےاور آپ نے یہ گمان کیا کہ محدث کسی حدیث کو ضعیف قرار دے سکتے ہیں جبکہ فقہاء اسی حدیث کو حسن کہہ سکتے ہیں، مگر معاملہ ایسا نہیں، جب کسی حدیث کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اجماع ہو جائے تو فقہاء اس کو حسن قرار نہیں دے سکتے۔

میرے بھائی،  مسئلہ اس  ضعیف حدیث کے متعلق ہے  جس کے ضعیف ہونے میں  محدثین  کا اختلاف ہو،  کچھ لوگ اس کو ضعیف قرار دے کر اس سے استدلال نہیں کرتے ہوں اور کچھ لوگ اس کو قابل استدلال سمجھ رہے ہوں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کچھ محدثین کچھ راویوں کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین انہی راویوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے   یا کچھ محدثین کچھ راویوں کو مجہول (غیر معروف) سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین انہی راویوں کو معروف سمجھتے ہیں۔ ایسی احادیث موجود ہیں جو راویوں کی ایک سند (لڑی/ زنجیر) سے صحیح ہیں جبکہ راویوں کی دوسری مختلف سند (لڑی/زنجیر) میں  صحیح نہیں ہیں۔۔۔جو محدث روایت کی سند میں کسی مجہول راوی کو موجود پاتا ہے تو وہ  اس حدیث کو ضعیف سمجھا جاتا ہے اور اس سے استدلال لینے کو درست   نہیں سمجھتا۔۔۔ لیکن دوسری جانب اگر   ایک محدث اس مجہول راوی کو شناخت کرلیتا ہے اور وہ قابل اعتماد بھی ثابت ہو جائے تو پھر اس حدیث کو استدلال کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے  اور وہ محدث اس کو حسن قرار دے کر اس سے استدلال کرے گا۔۔۔اسی طرح جو محدث سند میں سے ایک راوی کے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جس سے روایت کی ہے اُس سے اِس راوی کا حدیث سُننا ممکن ہی نہیں ، تو وہ حدیث کو ضعیف سمجھے گا کیونکہ اس کے نزدیک اس میں انقطاع (سند میں تسلسل نہیں) ہے، لیکن اگر دوسرے محدث کے  نزدیک  سماع(سننا)  اصول کے مطابق ثابت ہو، یعنی اسی راوی کے لیے اپنے سے پہلے روای سے یہ حدیث سننا ممکن تھا تو اس کے نزدیک حدیث میں انقطاع نہیں  اور تمام راویوں نے ایک دوسرے سے یہ حدیث سنی ہے لہٰذا یہ حدیث حسن ہو گی اور وہ اس سے استدلال کرے گا۔۔۔

 

میں  علمائے حدیث کے اختلاف اور اتفاق کی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے:

مثال کے طور پر: ابو داود، احمد،نسائی، ابن ماجہ اور ترمذی نے ابو  ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :

«سأل رجل رسول اللهr فقال يا رسول الله. إنا نركب البحر ونحمل معنا القليل من الماء فإن توضأنا به عطشنا أفنتوضأ بماء البحر؟ فقال: هو الطهور ماؤه الحل ميتته»"ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہم  سمندر میں سفر کرتے ہیں اور پینےکے لیے تھوڑا سا پانی ساتھ رکھتے ہیں  اگر اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے ہو جائیں گے، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : "سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال ہے"۔ اس حدیث کو ترمذی  نےبخاری سے لیا ہے اور صحیح کہا ہے اور ابن عبد البر نے بھی  اس کو صحیح قرار دیا ہے جس کو علماء نے قبول کیا ہے، ابن المنذر نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، ابن الاسیر نے  المسند کے شرح میں  کہا ہے کہ:  یہ حدیث صحیح مشہور ہے  علماء نے اپنی کتابوں میں اس کی تخریج کی ہے ، اس سے استدلال کیا ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔  امام شافعی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند میں وہ راوی ہے جس کو میں نہیں جانتا۔  ابن دقیق العید نے  تعلیل (جس سے استدلال نہیں کیا جاتا) کے ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے ذریعے اس حدیث کی تعلیل کی جاتی ہے،  جس میں سے سعید بن سلمۃ اور  المغیرہ ابن ابی بردۃ کا مجہول (غیر معروف)ہو نا ہے جن کا ذکر اس کی سند میں ہے۔  دوسری طرف  بعض محدثین نے ان دونوں راویوں کو معروف قرار دیا  چنانچہ ابوداود نے کہا ہے کہ : المغیرۃ معروف ہے نسائی نے اس کو قابل بھروسہ قرار دیا ہے۔ الحافظ نے کہا ہے کہ: جو یہ کہے کہ یہ روای غیر معروف مجہول ہے وہ غلط ہے۔ جبکہ سعید بن سلمۃ  نے  الجلاح بن کثیر سے اپنی روایت میں صفوان بن سلیم کی پیروی کی ہے۔۔۔

 

ایک اور مثال  : احمد نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: «سمعت النبيr يسأل عن اشتراء التمر بالرطب فقال لمن حوله أينقص الرطب إذا يبس؟ قالوا نعم، فنهى عن ذلك" میں  نےرسول اللہ ﷺ کو تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کیا کھجور خشک ہو کر  کم ہو جاتی ہے؟ لوگوں نے کہا :جی ہاں،  تب آپ ﷺ منع فرمایا"۔  اس حدیث کو ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے،  ایک گروہ نے اس کو کمزور قرار دیا ہے جن میں طحاوی، طبری، ابن حزم اور عبد الحق ہیں، کیونکہ اس کے اسناد میں  زید ابا عیاش ہیں جو کہ مجہول ہیں۔ التلخیص میں کہا ہے کہ اور جواب یہ ہے کہ  الدار قطنی نے کہا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہے یعنی( ابا عیاش) اور المنذری نے کہا ہے کہ: ان سے دو ثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور اس پر شدید تنقید کے باوجود مالک نے اس پر اعتماد کیا ہے۔۔۔

 

ان جیسی احادیث   کوجن کے ضعیف ہونے میں اختلاف ہے تو یہ دیکھیں گے آیا انہیں مجتہدین نے استعمال کیا ہے یا تقویت کے شواہد اور پیروی ان کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں جس کے بعد ان کو قابل استدلال سمجھا جائے گا۔ یہ یاد رہے کہ ہر وہ حدیث ضعیف نہیں ہوتی  جس  کی تقویت کے  لیے اس کے شواہد اور پیروی کو دیکھا جائے یا مجتہدین کی جانب سے اس کے استعمال کو دیکھا جائے، ایسا ضعف بھی ہے جو کسی چیز سے بھی قوی نہیں ہوتا،  یہ اس لیے کہ ضعیف حدیث کی دو قسمیں ہیں:

-وہ قسم جس پر عمل نہیں کیا جاتا  اور وہ کسی شواہد یا پیروی سے قوی نہیں ہوتی۔

-وہ قسم  جو شواہد اور پیروی کی وجہ سے اور مجتہدین اور فقہاء کی جانب سے اس پر عمل کرنے کی وجہ سے قوی ہو جاتی ہے۔

 

ہماری کتاب ، الشخصیۃ جزو اول، میں یہ کہا گیا ہے: "یہ کہنا غلط ہے کہ جب ضعیف حدیث متعدد ضعیف ذرائع سے آئے تو وہ حسن یا صحیح کے درجے کو پہنچ جائے گی۔ حدیث کا ضعیف ہونا اس کے راوی کے فسق  کی وجہ سے ہوتا ہے یا فعلًا اس پر جھوٹا ہونے کے الزام لگنے کی وجہ  سے، اور  اگر یہی حدیث دوسرے طریقے سے بھی اسی طرح آئے تو اس کے ضعف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔۔۔"، اس میں  یہ بھی کہا گیا ہے : " حسن حدیث  وہ ہے جس کی تخریج کرنے والے معروف ہوں اور اس کے راوی مشہور ہوں، اور  وہ اکثر حدیثوں سے متصادم نہ ہو ، اسی حدیث کو اکثر علماء قبول کرتے ہوں اور عام فقہاء استعمال کرتے ہوں،  یعنی جس کی اسناد میں کوئی ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹا ہونے کا الزام ہو، نہ ہی نایاب حدیث ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ حدیث جس کے اسناد کے رجال (راوی) میں سے کوئی چھپاہوا  (غیر معرف)ہوں اور ان کی اہلیت ثابت نہ ہو، مگر وہ احمق اور بہت زیادہ غلطی کرنے والا نہ ہوں ، نہ ہی اس پرجھوٹ کا الزام ہو۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اسی حدیث کا متن  کسی اور ذریعے سے بھی روایت کیا گیا ہو تو وہ شاذ اور منکر نہیں رہے گی۔۔۔" ختم شد۔ اس قسم کی حدیث  اصل میں ضعیف ہے   اگر اس کے شواہد اور پیروی ہو تو اس کا شمار حسن میں ہو تا ہے۔ حدیث کے علماء یہی کہتے ہیں چنانچہ کتاب ابن صلاح کے مقدمے میں ہے جو کہ حدیث کے مشہور علماء میں سے ہیں:

 

"حدیث میں موجود ہر ضعف ختم نہیں ہوجاتا اگر وہ مختلف اسناد سے بیان کی گئی ہو بلکہ اس میں فرق ہو تا ہے: ایسا ضعف  جو اس سے زائل نہیں ہو تا ، جیسے وہ ضعف جو راوی پر جھوٹے ہونے کے الزام سے پیدا ہوا ہو یا وہ حدیث شاذ(نادر) ہو۔۔۔ ایسا ضعف بھی ہے جو زائل ہو جاتا ہے جیسے راوی کے حافظہ سے پیدا ہونے والاضعف جبکہ وہ سچا اور دیانت دار ہو۔ ایسی حدیث اگر کسی اور ذرائع سے روایت کی گئی ہو  تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے یہ حفظ کر لیا تھا اور حفظ کرنے اور یاد رکھنے میں کوتاہی نہیں کی تھی۔

 

یوں  مجھ پر یہ واضح  اور صاف ہو گیا کہ حسن حدیث کی دو قسمیں ہیں:

اول: ایک وہ حدیث جس کے اسناد کے رجال (راوی)  میں کوئی ایسا  نہ ہو جو چھپا ہوا ہو  جس کی اہلیت ثابت نہ ہو، تاہم وہ احمق  اور روایت کرنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا نہ ہو، اور حدیث کے بارے میں اس پر جھوٹ کا الزام نہ ہو، یعنی اس سے حدیث میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو اور اس کو فاسق بنانے والا کوئی اور سبب نہ ہو،  حدیث کا متن ایسا ہو کہ اس سے ملتا جلتا  دوسرے ذرائع سے بھی روایت کیا گیا ہو یہاں تک کہ پیروی کرنے والوں نے اس جیسی ہی روایت کی پیروی کی ہو  یا اس کے شواہد ہوں  جیسا کہ اس جیسی دوسری حدیث بھی روایت کی گئی ہو  تب وہ شاذ یا منکر نہیں رہے گی۔۔۔" ختم شد۔ یہاں   آپ نے دیکھا کہ وہ حدیث اپنے اصل میں تو ضعیف ہے مگراس وقت حسن میں شمارکی جاتی ہے جب اسی طرح روایت دوسرے ذریعے سے ہو یا اس کی پیروی کی گئی ہو یا پھر اس کے شواہد ہوں۔۔۔الخ۔

 

اسی طرح اگر کسی حدیث کے بارے میں یہ کہا جائے کہ  حدیث کے بعض علماء کے نزدیک ضعیف ہے  تویہ کافی نہیں کہ اس کو ایک طرف ڈال دیا جائے اور اس سے استدلال نہ کیا جائے بلکہ اس کے ضعف  کے اسباب کے بارے میں  بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مجتہدین نے اس کو استعمال کیا ہے یعنی قابل اعتبار مجتہدین اور فقہاء نے  یا کیا اس کے ایسے شواہد اور پیروی ہے یا نہیں، کیا حدیث کے تمام علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے؟ یا اس کے ضعیف ہونے کے اسباب میں اختلاف کیا ہے۔۔۔اس سب کی چھان بین سے ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا جائے یہ استدلال نہ کیا جائے۔۔۔ اس بنیاد پر ہم نے

 

 

«أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ»

"میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے"

 

والی حدیث کو اخذ کیا ہے، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ:

 

1۔اس حدیث کو ایک سے زیادہ اسناد سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت قوی تر ہے۔

ابو عمر یوسف النمری موقفی 643 نے اپنی کتاب  العلم وفضلہ میں کہا ہے کہ :

 

احمد ابن عمر  نےروایت  کرتے ہوئے کہا ہے کہ : عبد بن احمد نے روایت کیا ہے کہ القاضی احمد بن کامل نے کہا ہے کہ عبد اللہ بن روح نے بتا یا کہ سلام بن الیم  سے روایت ہے کہ الحارث بن غصین نے الاعمش سے انہوں نے ابی سفیان سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ»

"میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کروگے ہدایت پاو گے"

۔۔۔ابو عمر نے کہا ہے کہ  اس اسناد سے حجت قائم نہیں ہوتی کیونکہ الحارث بن غصین مجہول ہیں۔

 

مگر ابن حزم  انہیں جانتے تھے اور کہا ہے کہ یہ ابو وھب الثقفی ہیں، اور بخاری بھی اسے جانتے تھے اور التاریخ الکبیر میں اس کا ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر العسقلانی نے بھی  الامالی المطلقہ میں ان کی پیروی کی ہے، انہوں نے کہا کہ : ابن حبان نے ان کا شمار قابل بھروسہ میں سے کیا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ مجہول  (غیر معروف )ہے۔۔۔

 

لہذا جس نے الحارث بن غصین کو مجہول کہا ہے جیسا کہ ابن عبد البر تو یہ ان کے نزدیک ضعیف ہے، جس نے الحاث بن غصین کو پہچانا ہے  اور ان کو ثقات میں شمار کیا ہے  جیسا کہ ابن حبان  تو ان کے نزدیک یہ حدیث استدلال کے قابل ہے۔۔۔

یوں حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں اور اس کو حسن کہنے والوں  کے درمیان دوسرے اعتراضات ہیں جو ہم نے اوپر جو ذکر کردیے اوراسی پر اکتفا کرتے ہیں۔۔۔

 

اسی بنا پر اس حدیث  کے ضعیف ہونے پر حدیث کے علماء کا اجماع نہیں ہے،  لہٰذااگر اس حدیث کو وہ مجتہدین اور فقہاء ذکر کریں جو اس پر اعتبار کرتے ہیں تو ان کے نزدیک یہ استدلال کے قابل ہے کیونکہ حدیث کے علماء اس کے ضعیف ہونے پر متحد نہیں، اس لیے یہ ان مجتہدین اور فقہاء کے نزدیک قابل اعتبار ہے جو اس پر عمل کرتے ہیں، اس لیے اس پر اطمینان سے عمل کیا جاسکتا ہے۔

 

اب میں ان مجتہدین اور فقہاء کا ذکر کرتا ہوں جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے:

محمد بن احمد شمس الائمہ السرخسی المتوفی 483 نے اپنی کتاب "المبسوط" میں القضاء (عدلیہ) کے موضوع میں اس سے استدلال کیا ہے۔

ابو الحسن العباس شہاب الدین  المتوفی 684 ،جو القرافی کے نام سے مشہوہیں، نے  اپنی کتاب "الذخیرۃ"  میں مالک کے اصول کو بیان کرنے میں اس سے استدلال کیا ہے۔

 

ابو الحسن علی بن محمد المتوفی 450 ،جو الماوردی کے نام سے مشہور ہیں، نے اپنی کتاب "الحاوی الکبیر" میں صحابہ کی بحث میں  اس سے استدلال کیا ہے۔

موفق الدین المتوفی 620 ،جو کہ ابن قدامۃ المقدسی کے نام سے مشہور ہیں، نے اپنی کتاب " المغنی" کے چھٹے باب میں اس سے استدلال کیا ہے۔۔۔

چونکہ یہ حدیث مجتہدین اور فقہاء کے ہاں استعمال کی گئی ہے اس لیے یہ حسن ہے۔

 

یوں مسئلہ اس حدیث کے متعلق ہے جس کے ضعیف ہونے میں علمائے حدیث کے درمیان اختلاف ہے نہ کہ اس حدیث کے بارے میں کہ جس کے ضعیف ہونے پر علماء متفق ہیں۔  اس دوسری قسم کی حدیث کو استعمال نہیں کیا جائے گا  اگر  اسے مشہور مجتہدین اور علماء نے اپنی کتابوں میں ضعیف قرار دیا ہے چاہے ہم یہ تصور ہی کیوں نہ کرلیں کہ اسے بحث کرنے کے لیے کتاب میں رکھا گیا ہے، تب بھی یہ ضعیف ہی رہے گی، اورمیں کہتا ہوں کہ "بحث کرنے کے لیے"  کیونکہ مجتہدین اور فقہاء اس ضعیف حدیث سے استدلال ہی نہیں کرتے جس کے ضعیف ہونے میں علمائے حدیث کا اجماع ہو۔۔۔

مجھے امید ہے کہ محترم بھائی کے لیے موضوع واضح ہو گیا ہو گا۔

 

آپ کا بھائی،

 عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

6 صفر 1438 ہجری

بمطابق 6/11/2016 م

  

Last modified onجمعرات, 15 دسمبر 2016 23:17

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک