الأحد، 10 ذو القعدة 1445| 2024/05/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خود جوازی ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی ہے

 

اگر میں آپ کو یہ چیلنج کروں کہ تھوڑی سی شراب پی  لیں، یا چَرس کا ایک کش لگا لیں، یا  پھر سُور کے گوشت اور ہیم پیزا (Ham Pizza) کا ایک لُقمہ چکھ لیں، تو کیا آپ یہ کر لیں گے؟ نہیں نا؟ کیونکہ یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ  اسلام نے ان حرام چیزوں سے کُلی طور پر منع کیا ہے اور ان کی رَتی برابر بھی گنجائش نہیں، الحمدُ للہ ! لیکن  اگر میں آپ کو کہوں کہ میری خاطر میرے والدین یا اساتذہ  یا کسی اورسے  ایک چھوٹا سا جھوٹ بول دیں ؟  یا اگر میں آپ کو دوستوں کے ساتھ کھانے پر چلنے کےلئے کہوں جہاں  لڑکے اور لڑکیاں دونوں  ایک ساتھ موجود ہوں گے ؟  تو کیا تب بھی انکار کرنا اتنا ہی آسان ہو گا ؟ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ اتنی بھی بُری باتیں نہیں ہیں جتنی حرام گوشت کھانا،کش لگانا اور شراب پینا لیکن  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک یہ تمام ایک ہی قِسم کے اعمال ہیں  ــ یعنی حرام۔

 

ہم ،  انسان، ایک منفرد مخلوق ہیں،  ہم بالکل منفرد انداز  سے کام  کرتے ہیں ۔ ہمارا مزاج یا رویہ، جس سے ہم اعمال کررہےہوتے ہیں، ہمارے اُن خیالات اور تصورات کےگرد ہی  گردش کرتاہے  جو ہم اپنے اِرد گِرد کے ماحول  اور اشیاء کے بارے میں رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر، مجھے معلوم ہے اور یقین ہے کہ آگ گرم ہوتی ہے ! اوریہ جلا ڈالتی ہے۔ لہٰذا ، میں اپنے ہاتھ چولہے پر  نہیں رکھ دوں گا! مجھے معلوم ہے کہ چھری تیز ہوتی ہے اور اس سے اُنگلی کٹ سکتی ہے ۔ لہٰذا ، میں اسے بہت دھیان سے استعمال کروں گا ! ان چیزوں کے بارے میں میرے اعمال ان کے حوالے سے میری سمجھ اور تصورات سے ہی طے پائیں گے۔

 

بالکل اسی طرح : جب ہم یہ لفظ، شراب، سُنتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ حرام ہے یا سُور کا گوشت، ہمیں پتہ  ہے کہ وہ حرام ہے۔ اور نماز ادا کرنا فرض ہے اور اسلام کی دعوت دینا، ہمیں معلوم ہے  کہ یہ فرض ہے۔ الحمدُللہ ! چونکہ ہم ان تصورات کو اپنے ایمان کے طور پر قبول کرچکے ہیں اور انہیں اختیار کرچُکے ہیں ، اس لئے ہم اپنی بھرپُور کوشش کرتے ہیں کہ ان تصورات کے مطابق عمل کریں ۔ اسلام کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ یہ ہمیں ہرممکن عمل کے لئے جانچ کا  ایک پیمانہ، فریم ورک اور رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اسلام ہمارے گرد کے تمام ترمعاملات اور اشیاء کے بارے میں درُست تصور اور فکر مہیا کرتا ہے تا کہ ہم احسن طریقے سے اُن پر عمل پیرا ہوں۔

 

جب ہم سے یہ کہا جاتا ہے  کہ آپ کوئی چھوٹا سا بے ضرر جھوٹ بول دیں یا  چند نفیس اور مہذب لوگوں کے ساتھ ایک دوستانہ کھانا،  جو اگرچہ نامحرم مردوں اور عورتوں کے ہمراہ ہے، تو ہمارے لئے  یہ سُننا اور جاننا کتنا آسان ہے  کہ یہ حرام ہے ! آج مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ : آج کے دور میں ہم  اسلامی اقدار، معیار، فریم ورک اور رہنمائی سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ہم نے یَکسر مختلف انداز سے سوچناسیکھ لیاہے  اور عمل کرنااپنا لیا ہے اور یہ مختلف انداز بہت ہی  تباہ کن  ہے! آئیں اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ منشیات، جرائم، ناجائز تعلقات،  آزادانہ میل جول، چوری اور بہت کچھ ، نہ صرف عرُوج پر ہیں بلکہ انتہائی ڈھٹائی سےسرِ عام ہمارے آس پاس ہو رہے ہیں یا کم ازکم  ایک عام سی چیز بن چکے ہیں ! ان بُرائیوں کے لئے یہ عُذر پیش کیا جاتا ہے کہ  ”جیسے یہ کوئی بُری بات نہیں“ یا  یہ”عام  سی بات ہے“ یا  پھر ” اس میں کیا نقصان ہے“ وغیرہ۔  لیکن یہ عُذر کون پیش کررہے ہیں ؟ ہم خود ، ہماری عقل،  ہماری سوچ ! ہم اپنے آپ سے خود ہی کہتے ہیں کہ ” یہ بس ٹھیک ہی تو ہے“ ! ہم خود ہی اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں اور خود ہی اس کے جواز اور تاویلیں گھڑ  لیتے ہیں  کہ یہ اس وجہ سے  ٹھیک ہے! اور یہی چیز خود   جوازی  کہلاتی ہے !

 

خود ساختہ تاویلیں پیش کرنا ایک ایسا موذی  مرض  ہے جو آہستہ آہستہ کسی شخص کو نیکیوں  سے دور کرتا چلا جاتا ہے، ہمیں  چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولنے پرقائل کرنے لگتا ہے اور ہمیں اس حد تک لے جاتا ہے  کہ ہم سچائی سے دامن ہی چھڑا بیٹھتے ہیں ۔ بعض اوقات کچھ بہت ہی چھوٹے اور معمولی درجہ سے شروع ہونے والے معاملے بگڑ کر اس قدر انتہائی رُخ اختیار کرلیتے ہیں کہ اتنا کبھی کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا۔ سگریٹ کا فقط ایک کش لگانے سے منشیات کا عادی بن جانے تک   یا دو متضاد جنس کے مابین محض  ایک میسج کا تبادلہ ہونے سے زنا کا ارتکاب ہو جانے تک ! یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوجاتا۔ یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ اور سُست رفتار سفر ہے جہاں کسی کو راستے کے شدید خطرات کا اندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔  

تو سوال اب یہ ہے کہ آج اگر اسلام ہمارے اعمال  کے معیار  کے طور پرموجود نہیں ہے  اور اسی لئے اس طرح کے اعمال کے لئےجواز درکار ہیں تو پھر آخر ان اعمال  کو انجام دینے کا معیار  کیا ہے ؟ہماری سوچ اور تصورات آخر کہاں سے اخذ ہورہے ہیں ؟   اگرچہ  بہت سے لوگوں کو احساس ہی نہیں ہوپاتا ،بجائے اس کے کہ  وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں ، بہت سےلوگ   سیکولر، سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اختیار کرچکے ہیں، دوسرے الفاظ میں آزادی پسند، لذت کی تسکین(hedonistic)،افادیت پسند (Utilitarian) ، انفرادیتپسند (individualistic ) یا " یہ میری زندگی ہے" جیسے نظریات اپنا چکے ہیں ۔یہی معیار اور پیمانہ ، خواہشات اور چاہتوں کو ہمارے ذہن اور رویوں پر قابو فراہم کرتا ہےتا کہ وہ ان کے تابع رہیں۔

 

یہی سوچ اور تصورات  غلط اعمال کا جواز دینے کیلئے ہمارے ذہنوں میں ایسے خیال پیدا کرتے ہیں ، مثلاً :

 

   -”کم از کم میں دوسروں سے تو بہتر ہی ہوں“

 

-”اللہ کو میری کمزوریوں کا پتہ ہے ، اور میں کوئی اتنا بھی بُرا شخص نہیں ہوں“

 

-”میں آنے والے وقتوں میں بدل جاؤں گا“

 

-”میں فی الحال اس تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوں، اپنے آپ کو تبدیل کرنا بہت ہی  مشکل ہے“

 

-” جب تک میرا مَن خالص اور کھرا  ہے ، اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردیں گے“

 

اور اگر ان سب  خود ساختہ جوازوں کی ترجمانی کریں تو  ایک ہی مطلب نکلتا ہے : ” میں ہرگز اس سب کو چھوڑنا نہیں چاہتا“۔

 

  یہ ایک ایسی بات ہے جس کے لئے ہمیں واقعی پریشان ہوجانا چاہئے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں ، اس دُنیا کے حوالے کرچُکے ہیں ۔ ہمیں بس اس دُنیا کی لذتیں اور تسکین ہی چاہئے اور اس کے لئے ہم بہت ہی بھاری قیمت چُکارہے ہیں  ،یعنی اپنی  آخرت ! اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ بھول چُکے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں صرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے تخلیق کیا ہے اور یہ کہ ہم اُسی خالق کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شیطان کے آگے ہار چُکے ہیں، جو اللہ کا سب سے بڑا دُشمن ہے اور جس کا کام ہی ہمیں دھوکا دینا اور ہماری تذلیل کرنا ہے  ! اور ہم نے اُس شیطان کو جیتنے کا موقع دے دیا ہے !

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں  :

 

﴿فَوَسْوَسَ لَهُمَا ٱلشَّيْطَـٰنُ لِيُبْدِىَ لَهُمَا مَا وُۥرِىَ عَنْهُمَا مِن سَوْءَٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَىٰكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةِ إِلَّآ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ ٱلْخَـٰلِدِينَ

” پھر شیطان نے ان دونوں کو بہکا دیا تا  کہ ان دونوں پر ان کی شرمگاہیں ، جو پوشیدہ تھیں ، کھول دے۔ اور کہا  :تم کو تمہارے رب نے اس درخت سے منع نہیں کیا  مگر یہ کہ تم دونوں فرشتے یا ہمیشہ رہنے والوں میں ہو جاؤ“ (الاعراف : 20) ۔

 

جب مؤمنین کو ورغلانے کا معاملہ ہو تو شیطان بہت ہی پُر عزم  اورمستقل مزاج واقع ہوا ہے ! وہ کبھی بھی ہمیں  فوراً سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کو رَد کرنے کا نہیں کہتا ۔ اُس کا طریقۂ واردات بالکل چھوٹی سی بات سے شروع ہوتا ہے، اتنی چھوٹی سی بات یا عمل کہ  وہ غلط معلوم ہی نہ ہوتی ہو۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے خود جوازی کا سفر شروع ہوتا ہے !  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا کرم کرتے ہوئے ہمیں اسلام کا تحفہ دیا ہے؛ یعنی  ایک سوچنے سمجھنے والے انسان کا عقیدہ۔  اسلام انسانوں کو ایسی رہنمائی دیتا ہے کہ جس سے وہ اس دُنیا کی مختصر زندگی کو امن و سکون سے گزار سکیں ۔ اسلام ، انسان کی ہر ضرورت وحاجت کے لئے بہترین   ذرائع  مہیا کرتاہے۔ یہ نوعِ انسانی کی فطرت کے مطابق ہی مرتب کیا گیا ہے  اور انسانوں کو وہی کچھ فراہم کرتا ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ اسلام ہم سے صرف یہی تقاضا کرتاہے کہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں تا کہ ہم اس دُنیا اور آنے والی آخرت میں بہترین مقام حاصل کرسکیں!

 

اسلام کے علاوہ کوئی بھی اوررَاہ  صرف ایک ہی راستے کی یقین دہانی  ہے ؛  تباہی کا راستہ !

 

اللہ سبحا نہ وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ایسی ذِلّت و گمراہی سے ہماری حفاظت کریں اور ہمیں توفیق عطا کریں کہ ہم اپنے پروردگار کی نہایت احسن طریقے سے عبادت وبندگی  کریں! آمین۔ 

     

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 16:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک