السبت، 09 ذو القعدة 1445| 2024/05/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

توکل کی جانب قدم بڑھانا

 

یہ مشکل وقت ہے!ہم سب نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اس صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ ہم ان اوقات کا موازنہ سورج اور چاند سے کر سکتے ہیں۔ زندگی میں ہمارے اچھے دن ہوتےہیں اور ہمارے تاریک دن ہوتےہیں۔ چاند ایک مؤمن کی طرح مراحل سے گزرتا ہے۔ ہم بعض اوقات یہ سوچتے ہوئے ان مراحل سے گزرتے ہیں کہ کیا ہم میں کوئی خرابی ہے یا ہم کچھ غلط کررہے ہیں۔ یہ سوچ ہمیں توکل کے تصور سے دور کردیتی  ہے۔ ہمیں بطور مؤمن اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے مشکل صورتحال اور سخت دِنوں  کا سامنا کرنا ہے۔ اللہ پر توکل (تَوَكُّل) سے یہی مراد ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم توکل کے تصور پر عمل نہیں کرپاتے؟

 

توکل کیا ہے، اس کی وضاحت کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے صرف اللہ ﷻ پر امید رکھنے یا اللہ ﷻ پر بھروسہ رکھنے کے طور پر بیان کرتے ہیں… لیکن… حقیقت میں یہ اس سے بہت گہرا تصور اور عمل ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام "الوکیل" ہے، جس کا مطلب ہے 'محافظ' یا 'ہمارے معاملات کا فیصلہ کرنے والا' ۔ الوکیل اس شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اقتدار میں ہے اور جس پر آپ اپنے معاملات کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھروسہ کرتے ہیں، کہ جس پر آپ نے بھروسہ کیا ہے وہ آپ بہترین خیر خواہ ہے۔ لہٰذا جب ہمارے پاس توکل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے معاملات اس پر چھوڑ رہے ہیں جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہمیں بہترین نتیجہ ملے گا۔

 

تو جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر توکل  کیا ہے یعنی اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے تو کیا ہم صرف اس چیز کا انتظار کرتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں حاصل ہو جائے؟ کیا ہم، مثال کے طور پر، یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں گھر کا جو ماہانہ کرایہ ادا کرنا ہےاور  اس کے لیے جس رقم کی ضرورت ہے وہ بیٹھے بیٹھے بس ہمیں حاصل ہو جائے گا ؟ ایسا ہوجائے تو کیا ہی اچھا ہے … لیکن حقیقت میں ایسا ہوتانہیں ہے ۔ اس صورت میں، اس شخص کواس کرایہ کی رقم کا بندوبست کرنے کے لیے کچھ کام کرنا پڑے گا ۔ دوسرے لفظوں میں: ہمیں اپنا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔

 

ایک اور مثال ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کی ہے، جب آپ ﷺ فوجوں کو جنگ کے لیے تیار کرتے تھے توآپ نے یہ توقع نہیں کی کہ مسلمان بس خودبخود جانتے ہوں گے کہ کس طرح لڑنا ہے یا سکھائے بغیر خود ہی جان جائیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک مضبوط لشکر بنانے کے کام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر نہیں چھوڑا بلکہ آپ ﷺ نے لشکر کی تیاری اور پھر میدان جنگ پر لڑائی کی تیاری کی بھرپور کوشش کی،اس کے بعد دعا کی، اور پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا۔

 

اور توکل کاایک پہلو ہے جس پر بہت سے لوگ توجہ دینا بھول جاتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جس سے شیطان ہماری توجہ ہٹانا چاہتا ہے، اور وہ ہے"اگر اللہ نے چاہا"۔ کچھ لوگوں کے لیے اسے ہضم کرنا ایک مشکل امرہے… حالانکہ یہ توکل کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے… یعنی نتیجہ کیا نکلتا ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ۔ یہ جاننا کہ نتیجہ جو بھی ہو، وہ قضاء ہے اور وہی ہمارے لیے بہترین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

 

[قُل لَّن يُصِيبَنَآ إِلَّا مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَىٰنَا ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ]

"کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو وہی ہمارا کارساز ہے۔ اور مومنوں کو اللہ ہی کا بھروسہ رکھنا چاہیئے۔"(التوبہ، 9:51)

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، 

 

وَمَنۡ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجۡعَل لَّهٗ مَخۡرَجًاۙ

 "اور جو اللہ سے ڈرے ،اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا۔"(الطلاق، 65:2)

 

پس جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں تقویٰ اختیار کرے گا اور جن چیزوں سے منع کیا ہے اس سے اجتناب کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنائیں گے اور اس کے لیے ایسے وسائل مہیا کریں گے جن کا اس نے کبھی گمان  نہ کیا ہو گا اور نہ کبھی سوچاہوگا۔

 

عبد اللہ بن مسعودؓ نےاس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، يعلم أنه من عند الله، وأن الله هو الذي يعطي ويمنع "یعنی ایک شخص جانتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ وہ چاہے تو دیتا ہے اور چاہے تو محروم رکھتا ہے"۔

 

اور عبداللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ، نجاته من كل كرب في الدنيا والآخرة، "اس(بندے) کے لیےدنیا اور آخرت کی تمام پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ"۔

 

لہٰذا ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہماری ہر خواہش پوری نہیں ہو سکتی  اور ہر چیز  نہیں ہو  سکتی کہ جس کی ہم خواہش کرتے ہیں، لیکن جو اللہ کی طرف سے ہو گا وہی ہمارے حق میں بہتر ہو گا۔ ہمیں توکل کرنا ہے اور اس معاملے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دینا ہے!

 

تو،جی ہاں! ہمیں کوشش کرنی چاہیے! ہم جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے بھر پور کوشش کریں! یہ ممکن ہے! یا تو وہ ہمیں ملے گا جس کی ہم خواہش کرتے ہیں یا اس سے بھی بہتر ہمیں ملے گا! اس سب کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں اورجو کچھ بھی ہم کرتے ہیں ،اس میں اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کریں! اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کرنے پر اطمینان کا وہ احساس بیدار ہو گا جس کے لیے آپ کا دل ترستا ہے!

 

اور جیسا کہ شروع میں میں نے سوال کیا کہ ہم توکل سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ وہ چیز جو ہمیں اتنی آسانی فراہم کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے تمام معاملات کا حل ہے، جو ہماری زندگی میں اطمینان اور سکون بخشتی ہے، وہ چیز اس دنیا کے ملبےمیں کیسے گم ہو سکتی ہے؟

 

کیوں ہم توکل نہیں کرتے ؟اس پر روشنی ڈالنا آسان اور اہم ہے۔ اس کا تعلق اُس نظام سے ہے جس کے تحت ہم رہتے ہیں، اور وہ ہے سیکولر نظام جو مذہب کو زندگی سے الگ کرتا ہے۔ اس نظام میں یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قناعت اور سکون سے بھرپور زندگی گزارنے کے جوابات نہیں دیے ہیں۔یہ نظام ہمیں اپنے معاملات کے جوابات اور حل تلاش کرنے میں ہماری توانائی ضائع کرواتا ہے، حالانکہ تمام جوابات ہمارے سامنے ہیں! اللہ تعالیٰ نے یہ جوابات ہمارے دین میں عطا کیے ہیں! یہ نظام ہمیں اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرنے کی طرف لے جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم اندھی دنیا کی پیروی کر رہے ہیں! حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دنیا محض ایک فریب ہے!

 

[وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلْغُرُور]

"اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔"(آل عمران، 3:185)

 

ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

[ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَا ۚ َ]

"جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھاتھا"(الاعراف، 7:51)

 

سیکولرازم ہمیں اس دنیا کے دھوکے میں رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے، اور جس حد تک ممکن ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی قناعت اور اطمینان کو ہم سےحتیٰ الامکان دور رکھتا ہے۔ سیکولر ازم ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اپنے معاملات میں توکل نہ کریں۔ اہداف کا تعین کرتے وقت اور جس چیز کی ہم خواہش کرتے ہیں اس تک پہنچنے کی کوشش کرتے وقت ہم توکل نہ کریں! اورتوکل  ہمارے ذہن سے یکسر اوجھل رہے!

 

امام احمد نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:

 

«يَا غُلَامُ إِنِّي مُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُف»

"اے لڑکے! میں تمہیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں تو انہیں سیکھو۔ اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا، اللہ کو یاد رکھو وہ تمہارے ساتھ ہو گا۔ جب بھی سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور اگر مدد مانگو تو اللہ سے مانگو۔ جان لو کہ اگر لوگ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو وہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ جان لو کہ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے اپنی طاقت جمع کر لیں تو وہ تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ۔ قلم اٹھالیے گئے ہیں اور صفحے(لوح محفوظ) خشک ہو چکے ہیں"۔

 

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 15:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک