السبت، 09 ذو القعدة 1445| 2024/05/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اپنی ترجیحات کی جانچ کریں!

 

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بچپن سے ہی ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمیں وہ کام کرنے ہیں جن سے ہمیں خوشی ملتی ہو، ایسے زندگی جئیں جیسے ہمارا دِل چاہےاور زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ یہ وہ اقدار ہیں جن پر اِن جیسے لبرل معاشروں کی بُنیادیں اُستوار ہیں۔  اوریہ اقدار، مسلم معاشرے سے قطعی مَیل نہیں کھاتیں۔

 

بحیثیت مسلمان، ہمارا ایمان ہے کہ زندگی کا مقصد صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کرنا اور اُس پَروردِگار کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اور اگر اس  مقصد میں مشکلات اور آزمائشیں آبھی جائیں تو بھی ٹھیک ہے اور اگر اس میں راحت وخوشی ملے تو بھی اللہ کا شکر ادا کرنا ہے، الحمدُللہ! ہمارا نکتۂ نظر ،یہ ہے  کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کے آگے ہماری خواہشات کی حیثیت ثانوی ہے ۔ ابدی راحت و خوشی اس مختصر سی زندگی کے بعد ہی ہے۔

 

الحمدُللہ !آج ہم  بخوبی اس بات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ بہت سے مسلمان اسلام پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، چاہے وہ صوم و صلوٰۃ ہو، اخلاقیات ہوں یا والدین اور اولاد کے حقوق کی ادائیگی کا فرض ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم اپنی ذاتی خواہشات کے لئے لبرل اقدار کو بھی ترجیح دینا چاہتے ہیں ۔ہم ابھی بھی وُہی لباس پہننا چاہتے ہیں جو ہمارا دِل چاہتا ہو یا شاید مخالف جنس کے ساتھ آزادانہ میل جول چاہتے ہیں یا جہاں ہم کچھ  مفاد اور منافع دیکھتے ہیں  تو ہم اپنی اقدار پر سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ سوچ و فکر ایسے مسلمان ہوجانے پر منتج ہو گی جودین میں اپنی پسند و ناپسند پر انتخاب کرتے ہوں۔

 

- لہٰذا،  ممکن ہے کہ اگر آسان ہوا تو ہم جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے جائیں ورنہ ہوسکتاہے کہ اگرہمیں کچھ  کام کرنا ہو تو ہم جمعہ بھی چھوڑ دیں۔

 

- یہ بھی ممکن ہے کہ ہم حرام رہن یا گروی رکھیں  اور سٹوڈنٹ قرضہ جات بھی لیتے ہوں۔

 

- جب ذکر کی محفل ہو تو ہم انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ شامل ہوں اور جب ظالم حکمرانوں کے احتساب کا معاملہ ہو تو ہم گُم صُم بنے رہیں۔

 

یعنی دین کے ایسے پہلوجو روحانی تأثر  دیتے ہوں اور ایسے احکام جو ہمارے ذاتی مفاد ات سے نہ ٹکراتے ہوں ،  تو اُن پہلوؤں پر عمل کرنے کی بات ہو ،  تب تو ٹھیک ہے  اور اگر ان سے ہمارے ذاتی مفاد کو زَک پہنچتی ہو تو ہم وہ سب فرائض چھوڑ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان، یہ فیصلہ کس طرح سے کریں کہ زندگی میں  کونسے معاملات کوترجیح دینی ہے ؟ ہم یہ فیصلہ کس طرح کریں کہ کونسے اعمال کرنے ہیں ؟ یا کونسے اعمال دوسروں سے بہتر ہیں ؟  یا یہ کہ کسی  دو فرائض میں سے کس کو ترجیح دیں جن کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہوں کہ  دونوں ہی یکساں نوعیت کی اہمیت کے حامل ہیں ؟ کیا اسلام  فقط پانچ  ستون ہی ہیں  جو ہم صرف ادا کرلیں تو کافی ہے ؛ توحید، نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ ؟  اور ، بَس  ان کے علاوہ کچھ نہیں ؟

 

یا ایسا ہے کہ جو ہم اپنے لئے اچھا اور بہتر سمجھتے ہوں ، وہی ٹھیک ہے ؟  مثلاً دو نمازیں ادا کرلینا اس سے بہتر ہے کہ کوئی بھی نماز ادا نہ کی جائے ! دعوت کیوں کریں جب خاموش رہنے سے متزلزل زندگی پرسکون ہو جائے ؟ ہاں یہ عبایہ نہیں ہے بلکہ دلکش اور رنگین سُوٹ ہے  لیکن چلو کم از کم ٹائٹ فٹنگ تو نہیں ہے نا  ! یہ قرض پر تھوڑا سا سُود تو ہے مگر  اس سے میری معاشی حالت تھوڑا بہتر اور مستحکم  ہوجائے گی،لہٰذ ا میں اس  سے گریز  نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس سے بہرحال کچھ تو آسانی ہو جائے گی!

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

 

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِیْناً﴾

” آج تم پر تمہارا دین مکمل کردیاگیا ، اور تم پر میں نے اپنا احسان پورا کیا اور تمہارے لئے میں نے اسلام  کو ہی دین پسند کیا“( المائدۃ : 3)

 

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 

﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ تِبْيَٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِين﴾

”اور ہم نے تُم پر ہر چیز کو کھول کر سُنانے والی کتاب اُتاری، اور راہ بتانے والی اور رحمت ہے اور حُکم ماننے والوں کے لئے خوشخبری ہے“( النحل  : 89)

 

لہٰذا کوئی ایک بھی عمل ایسا نہیں جس کے لئے شرعی حکم موجود نہ ہو اور قرآنِ مجید اور سُنتِ مبارکہ میں اس عمل کے متعلق دلائل نہ ملتے ہوں۔ تو پھر مندرجہ بالا دونوں آیتوں کو سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص کس طرح یہ سوچ سکتا ہے کہ  ” جو ہمیں اچھا لگے وہی بہتر، درست یا خیر ہے؟“۔ آخر کس طرح !

 

اسلام ایک کامل دین ہے! مکمل ! جامع ! اگر کوئی بھی شخص کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اُس عمل  پر تفصیلی رہنمائی پہلے ہی موجود ہے ! پس اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اُس عمل سے متعلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی پابندی کریں؛ لہٰذا یہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس عمل سے متعلق شرعی حکم کی تلاش کریں اورپھر اس کی پابندی کریں!

 

لہٰذا کسی بھی مسلمان کے لئے یہ ممنوع ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قوانین کے بَرخِلاف کوئی بھی عمل کرے ؛  ہم پر ہر عمل اور ہر معاملے میں ، شریعت کے اصول و قوانین کی پابندی کرنا  فرض ہے !

 

ہر عمل کے لئے ایک حکم (شرعی قانون) ہوتا ہے اور یہ اعمال کی اقسام وضع کرنے  کا طریقہ ہے۔ چاہے وہ اعمال  :

 

-   فرض ہو ں یا حرام

-   مندوب ہوں یا مکروہ

-   مُباح 

 

پانچ اقسام  ! اور اِن کی تعریف کیا ہے؟

 

اول: فرض ، جس کا مطلب ہے : لازمی

یہ وہ اعمال ہیں جن کے بارے میں بہت واضح بتا دیا گیا ہے کہ یہ اعمال لازمی اور ازحد ضروری   ہیں! اللہ سبحانہ وتعالیٰ  کے احکام ان اعمال کے معاملے میں بالکل واضح اور شفاف ہیں۔ جو شخص فرائض کی پابندی کرے گا، اُسے اَجروثواب ملےگا اور جو نافرمانی کرے گا تو وہ سزاکا مستحق ہوگا۔مثال کے طور پر اسلام کے پانچ ستونوں کی پابندی کرنا اور مسلمان عورت کا حجاب اور جلباب اوڑھنا۔

 

دوم: حرام اعمال، جس کا مطلب ہے : ممنوع۔

ان اعمال کے بارے میں بھی شریعت میں بہت واضح بتا دیا گیاہے کہ ہمیں اِن سے ہرحالت میں بچنا اور دور رہنا ہے۔ اگر کوئی حرام عمل کا ارتکاب کرے تو وہ سزاکا حقدار ہوگا لیکن اگر حرام عمل سے بچا جائے تو وہ  شخص  جز ااور ثواب کا مستحق ہوگا۔ مثال کے طور پر رِبا اور سود کا لین دین، جُوا  یا قومیت اور جمہوریت کی ترویج کرنا۔

 

سوم: مندوب اعمال جو سُنت یا نفل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں،  ان کا مطلب ہے: پسندیدہ۔

یہ ایسے اعمال ہیں جو فرض تو نہیں ہیں یعنی لازم نہیں ہیں لیکن اگر کوئی انہیں اداکرتا ہے تو ان اعمال کے ساتھ بے پناہ ثواب منسلک ہے ۔ ایسا شخص جو ان اعمال کو اداکرتا ہے ، وہ تعریف اور جزا کا حقدار ہے اور ایسا شخص جو ان اعمال کی ادائیگی نہ کرے تو نہ ہی اس پرکچھ گناہ ہے اور نہ سزا۔ مثال کے طور پر بیمار کی عیادت کرنا، غریبوں کو خیرات دینا،  اور سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا۔

 

چہارم:  مکروہ ؛  اس کا مطلب ہے : ناپسند ہ۔

یہ ایسے اعمال ہیں جو حرام تو نہیں ہیں یعنی منع نہیں کئے گئے لیکن اگر کوئی ان اعمال سے دور رہتا ہے تو ان اعمال سےگریز کرنے  پر ثواب ہے! ایسا شخص جو ان اعمال سے گریز کرتا ہے ، وہ تعریف اور جزا کا حقدار ہے اور ایسا شخص جو یہ  اعمال  کرتا ہے تو نہ ہی اس پر کچھ گناہ ہے اور نہ سزا۔ مثال کے طور پر وضو کرتے ہوتے بات کرنا،  اور مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے جانے سے پہلے لہسن کھا لینا۔

 

پنجم : آخر میں مباح اعمال ہیں جن کا مطلب ہے : جائز۔

یہ ایسے اعمال ہیں جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ چاہیں تو یہ عمل کریں یا نہ کریں، کچھ مضائقہ نہیں ۔  ان کا اختیار عمل کرنے والے شخص کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس قسم کے عمل کا کرنا یا نہ کرنا، نہ تو ثواب کا حامل ہے اور نہ ہی اس پر کچھ قصور ہے۔ مثال کے طور پر بھیڑ کا گوشت کھانا یا مرغی کا ، کسی عرب، افریقی یا ایشیائی مسلمان سے شادی کرنا۔

 

ہر عمل کے لئے جس کے بارے میں کوئی بھی شخص ممکنہ طور پراداکرنے کا  سوچ سکتا ہے ، تو وہ عمل یقیناً انہی پانچوں اقسام میں سے ایک میں آئے گا! ہمیں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ دین اور دُنیا میں کچھ تفریق نہیں!

 

ہم بعض اوقات اعمال کو دین اور دُنیا کے تناظر میں  علیحٰدہ کرنے کی  غلطی کربیٹھتے ہیں اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کچھ دنیاوی معاملات ہیں جیسے کام کاج پر جانا، پڑھائی کرنا اور سیروتفریح کرنا وغیرہ۔ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ ایسے معاملات ہیں  جن پر ہم اس زندگی کیلئے توجہ دیتے ہیں!

 

یا پھر دین کے معاملات ہیں، یہ ایسے معاملات ہیں جو ہم اپنی آنے والی زندگی یعنی آخرت کے لئے ادا کررہے ہوتے ہیں جیسے نماز اور ذکرِالٰہی۔ لیکن اسلام میں ایسی  کچھ تفریق نہیں۔ہمارا پیارا دین تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہمیں ہرعمل کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرناہے۔ ہمارے لئے  دین اور دنیا کی  تفریق نہیں ہے، اس کی بجائے ہم اپنے تمام اعمال کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبرداری سے ہی جوڑتے ہیں حتیٰ کہ ایسے معاملات بھی جن میں ہمیں دنیا کی طلب نظر آتی ہو۔ اب یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم یہ ادراک کریں کس عمل پر مندرجہ بالا پانچ اقسام میں سے کس قسم کا اطلاق ہوتاہے۔ اور اس طرح ہمیں مددورہنمائی ملے گی کہ کونسا عمل ضروری اور اہم ہے اور کس کو ترجیح دینی ہے۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دُعاہے کہ وہ ہمیں سمجھ  اور توفیق دیں کہ ہم اپنے اعمال رب کی بہترین خوشنودی کے ساتھ ادا کرسکیں! آمین!     

 

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 15:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک