الخميس، 22 شوال 1445| 2024/05/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: قتل خطاء اور قتل عمد میں دیت

 

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

قتل خطاء میں دیت فرض ہے جو  مقتول کے گھر والوں کو دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ صحرانشینوں کے لیےسو اونٹ یا ایک ہزار سونے کے دینار، یا 12 ہزار چاندی کے درھم۔  عمرو بن حزم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو لکھا کہ :

وإن في النفس المؤمنة مائةٌ من الإبل، وعلى أهل الوَرِق ألف دينار

"  مومن کی جان کی دیت سو اونٹ   اور نقدی والوں کے لیے ایک ہزار دینا ہے"(النسائی)۔

 

ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ  بنی عدی میں سے ایک آدمی قتل ہوا تو «فجعل النبي ديته اثني عشر ألفاً»  "رسول اللہ ﷺ نے  اس کی دیت 12 ہزار  مقرر کی" ( ابو داود اور ابن ماجہ)۔

  شعبی نے روایت کیا ہے کہ عمر نے سونے والوں کے لیے ایک ہزار دینار مقرر کیا اور عمرو بن شعیب نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کیا ہے کہ : عمر نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: "سنو اونٹ مہنگے ہوچکے ہیں،  اس لیے جن کے پاس سونا ہو ان پر ایک ہزار دینار ہی ہے، جن کے پاس چاندی ہوں ان پر 12 ہزار چاندی، جن کے پاس گائے ہوں ان پر 2 سو گائے  اور جن کے پاس بکریاں ہوں ان پر 2 ہزار بکریاں، جن کے پاس کپڑے ہوں ان پر دو سو کپڑے"( اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے)۔

 

ہمارے شیخ، اللہ آپ کو  جلد خلافت راشدہ کے ذریعے امت کی قیادت  کا شرف بخشے،  دیت کی ادائیگی میں عمر بن الخطاب کے زمانے میں ہی اختلاف نظر آتا ہے۔ کیا اسے صحابہ کا اجماع سمجھا جائے گا ور اس وجہ سے اسے اختیار کرنا فرض ہے؟ کیا آج چاندی میں دیت ادا کرنا جائز ہے جبکہ  سونے اور چاندی کی قیمت میں بہت زیادہ فرق آگیا ہے،  آج ان کی قیمت میں 90 فیصدفرق ہے یعنی سونے میں دیت ادا کرنا  چاندی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے  اس سے فرق کا اندازہ لگائیں۔تو   آج قاضی ان دونوں میں سے کس کے مطابق فیصلہ دے گا ؟

 

اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

ابو احمد عبد

 

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

 

دیت  چوپایوں  سے بھی ہو سکتی ہے اور نقدی کے ذریعے بھی۔  چوپایوں سے دیت بغیر کسی شدت کے سو اونٹ ہے،  جس پر قتل خطاء میں عمل کیا جائے گا  یا جو خطاء کے قائم مقام ہو۔اس کی دلیل  وہ ہے جو النسائی نے  عمرو بن شعیب سے  انہوں نے اپنے باپ اور دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ… " خطاء سے ہونے والے قتل میں دیت سو اونٹ ہیں"۔

شبہ عمد میں النسائی نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «قَتِيلُ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ أَوِ الْعَصَا، مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا» "قتل خطاء جو عمد کے مشابہ ہو جیسے کوڑے یا ڈنڈے سے اس میں سواونٹ جن میں سے  چالیس حاملہ ہونی چاہیے"۔ یہی قتل عمد کی بھی دیت ہے  جب مقتول کے اولیاء  قصاص(جان کے بدلے جان) کی بجائے دیت مانگیں ۔

رہی بات نقد دیت کے  تو جس کے پاس سونا ہو اس پر ایک ہزار دینا جس کے پاس چاندی ہو اس پر 12 ہزار درھم ہے۔ النسائی نے ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے انہوں نے اپنے باپ اور دادا سے روایت کیا ہے کہ :" رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو خط لکھا جس میں دیت کے فرائض اور سنتو ں کو بیان کیا گیا تھا۔۔۔"اور جس میں یہ بھی تھا: "۔۔۔جن کے پاس سونا ہو ان پر ایک ہزار دینار ہے"۔ اورابو داود نے اپنے سنن میں عکرمہ اور ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ بنی عدی میں سے ایک آدمی قتل ہوا  تو نبی ﷺ نے اس کی دیت 12 ہزار مقرر کی"۔

 

4.25 گرام سونا  شرعی مثقال کا وزن ہے یعنی ایک دینار کا جبکہ2.975 گرام چاندی  شرعی درھم کا وزن ہے یوں ایک ہزار دینار 4250 گرام سونا اور 12 ہزار درھم 35700 گرام چاندی ہے جو کہ دیت ہے۔

تاہم موجودہ کاغذی کرنسی جس کی پشت پر سونا اور چاندی نہیں  یہ سونے اور چاندی کے زمرے میں نہیں آتا۔

 

اس کو  نص سے مستنبط علت کی موجودگی کی وجہ سے قیاس کیا جائے گا جو کہ نقدی ہونا ہے جیسا کہ کتاب الاموال کے شروع میں ہم نے کہا ہے یا دوسری کتابوں میں۔

رہی بات یہ کہ موجودہ نقدی  سونے کے حساب سے زیادہ بنتی ہے اور چاندی کے حساب سے کم  تو یہ اجتہاد پر موقوف ہے۔  میں جو سمجھ رہا ہوں وہ یہ کہ قتل خطاء میں  چاندی کے حساب سے موجودہ کرنسی میں دیت ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ قتل کرنے والے نے کوئی گناہ نہیں کیا اور وہ دیت اس وجہ سے نہیں دے رہا ہے کہ اس نے حرام کام کیا ہے بلکہ  یہاں دیت کی حکمت تو اللہ ہی جانتا ہے۔  اس لیے دونوں مقداروں میں سے خفیف (آسان) کو دینا قاتل کی جانب سے کسی حرام کا ارتکاب نہ کرنے کی وجہ سے مناسب ہے۔

 

جبکہ قتل عمد میں،  میں سمجھتا ہوں کہ سونے کے حساب سے ہی دیت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ قاتل نے حرام کا م کا ارتکاب کیا ہے  اس میں تخفیف مناسب نہیں  بلکہ سختی اور مشکل ترین مقدار مناسب ہے ۔

میں اللہ سے دعا کر تا ہوں کہ  مجھے درست بات کی توفیق دے۔

 

آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

 

5 شعبان 1437 ہجری

12 مئی 2016

Last modified onاتوار, 04 دسمبر 2016 11:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک