الخميس، 22 شوال 1445| 2024/05/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب:   کیا سلطان (حکومت) کے لیے مسلمانوں پر ٹیکس لگانا جائز ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: 

 

کیا سلطان (حکومت) کے لیے مسلمانوں پر ٹیکس لگانا جائز ہے؟

 

خالد آل یاسین کو

سوال:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ، اللہ آپ کو قائم و دائم رکھے۔  میرا ایک سوال ہے اور مجھے آپ سےجواب کی امید ہے۔۔۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ "ٹیکس "اسلام میں حرام ہیں۔  پھر ریاست کیسے  خسارے کو پورا کرے گی خاص کر  آج کل تو " توظیف،  عشور اور خراج" نہیں ہوتے۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوال کے موضوع پر آپ واضح نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ " ٹیکس اسلام میں حرام ہیں"، یہ بات عمومی طور پر درست ہے،  مگر مخصوص حالات میں اس کی تخصیص ہے۔۔۔اسی طرح آپ نے کہا  کہ :" آج کل عشور اور خراج نہیں"،  حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین عشری ہے یا خراجی، اور یہ دونوں موجود ہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ:" توظیف، عشور اور خراج"، جبکہ لفظ توظیف کا یہ موقع نہیں۔

 

بہر حال میں آپ کے لیے اس موضوع کو تفصیلاً بیان کروں گا تاکہ جواب ایسا واضح ہو کہ اس میں کوئی التباس باقی نہ رہے اور کوئی شک وشبہ نہ ہو انشاء اللہ۔

 

1۔ بے شک شریعت نے سلطان(صاحب اقتدار) کو مسلمانوں پر  اپنے پسند اور اپنی مرضی سے کوئی ٹیکس لگانے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لا یدخل الجنۃ صاحب مکس)"کسٹم ڈیوٹی لینے والا جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا" اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور  الزین اور الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ مکس  وہ ٹیکس ہے جوریاست کی سرحدوں پر تاجروں سے لیا جاتا ہے،  مگر یہ "نہی"  رسول اللہ ﷺ کی اس متفق حدیث کی وجہ سے ہر قسم کے ٹیکس کے لیے ہے جس کو  ابی بکر ۃ نے روایت کیا ہے کہ : (انّ دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شھرکم ھذا۔۔۔)"بے شک تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسا کہ تمہارا یہ دن ،تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں۔۔۔" یہ عام ہے اور عام لوگوں کی طرح خلیفہ بھی اس میں شامل ہے۔۔۔ اس لیے خلیفہ کے لیے  اخراجات کو پورا کرنے کے لیےکوئی ٹیکس لگانا جائز نہیں، بلکہ یہ بیت المال سے ہی پورے کیے جائیں گے۔

 

2۔ تاہم کچھ حالات ایسے ہیں جن کوخود شرع نے ٹیکس لگانے کے عمومی "نہی" سےمستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے بارے میں شرعی نصوص موجود ہیں جو یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ان کو کہاں خرچ کیا جائے گا اور یہ صرف بیت المال پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہیں۔ اسی لیے جب بیت المال میں موجود  مال  ان پر خرچ کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو یہ خرچہ مسلمانوں کی طرف منتقل ہو گا اور ان میں سے مالداروں پر اس قدر ٹیکس لگا یا جائے گا جو ان حالات میں واجب نفقات کے لیے کافی ہو ، زیادہ نہ ہو اور اس کو بھی اسی مد میں رکھا جائے گا جس مقصدکے لیے لگایا گیا تھا۔۔۔

 

ان حالات میں ٹیکس  سلطان کے حکم پر مبنی نہیں ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی خواہش کے مطابق ٹیکس لگائے،  بلکہ یہ اللہ کے امر پر مبنی ہے،  سلطان تو صرف  اس امر کو نافذ کرتا ہے جس کو نافذ کرنے کا حکم اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو دیا ہے۔یوں شرع نے بیت المال اور مسلمانوں پر جہاں جہاں مال خرچ کرنے کو فرض قرار دیا ہے وہاں خرچ کیا جائے گا  اور اگر بیت المال میں مال موجود نہ ہو   یا مال ختم ہو جائے یا اتنا مال ہو جو  نفقات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو  تب خلیفہ  ان نفقات کے ضرورت کے مطابق احکام شرعیہ کے حکم سے مالداروں پر ٹیکس لگائے گا۔۔۔ اس حال میں یہ ٹیکس حرام نہیں ہو گا۔

 

3۔ جو کہا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مخصوص حالت میں ٹیکس لگانے کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا لازمی ہے:

 

۔ اس صورتحال پر خرچ کرنے کے لیے بیت المال میں مال موجود نہ ہو۔۔۔

۔ شرعی نص موجود ہو کہ اس حالت میں خرچ کرنا بیت المال اور مسلمانوں پر فرض ہے۔۔۔

۔ لگایا جانے والا ٹیکس  اس مقدارسے زیادہ نہ ہو جس کی ضرورت ہے۔۔۔

۔ ٹیکس صرف ان  مالداروں پر لگا یاجائے جن کے پاس اپنی بنیادی ضروریات اور رواج کے مطابق سامان تعیش  سے زیادہ مال ہو۔۔۔

 

4۔یوں اسلام میں ٹیکس صرف مندرجہ بالا شرائط کے مطابق ہی لگا یا جا سکتا ہے،  یعنی شرعی نص موجود ہو کہ مذکورہ حالت میں خرچ کر نا صرف بیت المال پر ہی فرض نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے:

مثال کے طور پر فقراء پر خرچ کرنا۔ اگر بیت المال میں موجود مال فقراء کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو  تو  ان ضروریات کے بقدر ٹیکس لگا یا جائے گا جو ان ضرورت سے زیادہ نہ ہو اور صرف مالداروں پر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقراء پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر فرض نہیں  بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے۔ الحاکم نے المستدرک میں عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لَيْسَ بِالْمُؤْمِنِ الَّذِي يَبِيتُ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ» " وہ شخص مؤمن نہیں جو پیٹ بھر کر سوتا ہو جبکہ اس کے پہلو میں پڑوسی بھوکا ہو"، جبکہ المعجم الکبیر میں الطبرانی کی روایت کے مطابق جس کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: : «مَا آمَنَ بِي مَنْ بَاتَ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَعْلَمُ بِهِ» " وہ شخص مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا جو پیٹ بھر کر سوتا ہے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہے اور اس کو معلوم بھی ہے"۔ الحاکم نے المستدرک میں ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «وَأَيُّمَا أَهْلِ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمُ امْرُؤٌ جَائِعًا، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ " جس بستی میں کوئی شخص  بھوکا سویا تو  اللہ ان بستی والوں سے بری الذمہ ہے"۔

 

مثال کے طور پر جہاد پر خرچ کرنا ۔  اگر بیت المال میں موجود مال جہاد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو بقدر ضرورت  بغیر زیادتی کے صرف مالداروں پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد پر خرچہ صرف بیت المال پر فرض نہیں  بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے: اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ " اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو"(التوبۃ:41)۔

 

اپر بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ بھی مزید دلائل ہیں۔

 

اسی طرح مثال کے طور پر  سپاہیوں کے معاوضے پر خرچ کرنے کے لیے اگر بیت المال  میں  کافی مال نہ ہو تو بغیر زیادتی کے بقدر ضرورت  مالداروں پر ٹیکس لگا یا جائے گا،  کیونکہ سپاہیوں پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر فرض نہیں بلکہ  مسلمانوں پر بھی ہے۔   احمد نے اپنے مسند میں عبد اللہ بن عمر و سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  «لِلْغَازِي أَجْرُهُ، وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي " غازی کے لیے اس کا اپنا اجر ہے اور اس کوتیار کرنے والے  کے لیے اپنا اور غازی کا اجر ہے"۔

 

مثال کے طور پر  کسی ایسے شہر میں ہسپتال قائم کرنے کے لیے جہاں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے  لوگوں کو ضرر(تکلیف) کا سامنا ہے۔ اگر بیت المال میں موجود مال  ہسپتال قائم کرنے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو بغیر زیاد تی بقدر ضرورت مالداروں پر ٹیکس لگا یا جائے گا، کیونکہ  ہسپتال بنانے پر خرچ کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے سے ضرر ہے۔ ایسی جگہ ہسپتال کی تعمیر صرف بیت المال پر فرض نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے اور اس لیے بھی کہ ضرر سے" نہی" عام ہے۔ الحاکم نے المستدرک میں کہا ہے کہ یہ صحیح اسناد والی حدیث ہے جو ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ، مَنْ ضَارَّ ضَارَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ "نہ ضرر پہنچانا ہے اور نہ ہی ضرر قبول کرنا ہے جو ضرر پہنچاتا ہے اللہ اس کو ضررمیں مبتلا کرتا ہے  اور جو تنگی  کرتا ہے اللہ اس پر تنگی کرتا ہے"۔

 

اسی طرح مثال کے طور پر ہنگامی صورتحال  جیسے قحط،طوفا ن اور زلزلہ  وغیرہ  سے متاثر ہونے والی رعایاپر خرچ کرنے کے لیے  بیت المال میں موجود مال کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بغیر زیادتی کے مالداروں پر بقدر ضرورت ٹیکس لگا یا جائے گا،  کیونکہ ہنگامی حادثات پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر ہی فرض نہیں بلکہ یہ  مسلمانوں پر بھی فرض ہے۔ ابو داود نے  اپنے سنن میں ابن حُجیر العدوی سے روایت کیا ہے کہ میں نے  عمر بن الخطاب کو نبی ﷺ سے یہ قصہ روایت کرتے ہوئے سنا ہے کہ(وَتُغِيثُوا الْمَلْهُوفَ وَتَهْدُوا الضَّالَّ) " مصیبت زدہ کی مدد کرو اور راستہ بھولے ہوئے کو راستہ بتاؤ" ۔  قحط کی مثال جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا  وہ بھی اس صورتحال پر لاگو ہوتی ہے۔

 

5۔ جہاں تک ان نفقات کی بات ہے جو صرف بیت المال پر فرض ہیں  اور مسلمانوں  پر فرض نہیں، ایسے مصارف پر صرف اس وقت خرچ کیا جائے گا جب بیت المال میں  اس کے لیے کافی مال موجود ہو۔اگر مال موجود نہ ہو تو ان کے  لیے ٹیکس نہیں لگایا جائے گا بلکہ بیت المال میں مال آنے کا انتظار کیا جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ  مسلمانوں کے لیے آسانی کی خاطر سڑکوں کی توسیع   مگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو ایک سڑک کے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی خاص  ضرر نہ پہنچتا ہو، یا  ایک ہسپتال کے ہوتے  ہوئے جو کافی ہو   دوسرے ہسپتال کی تعمیر  ،  اسی طرح ایسے پیداواری منصوبے شروع کرنا  جن کو شروع نہ کرنے سے امت کو کوئی  ضرر نہ پہنچتا ہو جیسے کوئلہ یا سرمہ نکالنے  کا کارخانہ قائم کرنا یا تجارتی کشتیوں کی تعمیر  کی جگہ بنا نا وغیرہ ۔۔۔

ان جیسے امور پر صرف بیت المال میں کافی مال ہونے کی صورت میں  ہی خرچ کیا جائے گا۔۔۔

 

6۔ رہی یہ بات کہ ٹیکس صرف مالداروں پر لگایا جائے گا وہ اس لیے کہ ٹیکس فرد کے اس مال سے لیا جاتا ہے جو   اس کی بنیادی ضروریات اور رواج کے مطابق سامان تعیش کو پورا کرنے بعد زائد ہو۔ یوں جن مسلمانوں کے پاس بنیادی ضروریات اور اعلیٰ درجے کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد مال بچے اس پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور جس کے پاس زائد مال نہ ہو اس پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «خيرُ الصدقة ما كان عن ظهر غنى» "بہترین صدقہ وہ ہے جو مالدار کی طرف سے ہو" اس کو  بخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔  غنی(مالداری) یہ ہے کہ  آدمی کو اس چیز کی ضرورت نہ ہو جو صدقہ کر رہا ہے، یعنی یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ وہ مال ہے جسے وہ صدقہ کررہا ہے ۔

 

مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ابدأ بنفسك فتصدّق عليها، فإن فَضَلَ شيءٌ فلأهلك، فإن فَضَلَ عن أهلك شيءٌ فَلِذي قرابتك، فإن فَضَلَ عن ذي قرابتك شيءٌ فهكذا وهكذا - يقول فبين يديك، وعن يمينك، وعن شمالك» " ابتداء اپنے آپ پر صدقہ کرنے سے کرو، اگر بچ جائے تو اپنے گھروالوں پر،  اگر اس سے بھی بچ جائے تو اپنے قرابت والوں پر ،اگر پھر بھی بچ جائے  تو اسی طرح آگے بڑھو،  اپنے سامنے والے کو دو  پھر دائیں والے کو پھر بائیں والے کو"۔ جس کا نفقہ فرض ہے اس کو اپنے آپ پر خرچ کرنے سے موخر کیا۔  ٹیکس بھی ایسا ہی ہے؛ کیونکہ ٹیکس صدقہ کی طرح ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْو﴾ "تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دیجئے کہ بچا ہوا"(البقرۃ:219)۔  یعنی  جس کے خرچ کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو، جو کہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے۔  اسی لیے ضرورت سے زائد پر ہی ٹیکس لیا جا سکتا ہے،  یعنی صرف مالداروں سے، اس لیے فقراء سے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا، اور مالدار زکوۃ کے محکمے  کو معلوم ہو تے ہیں۔

 

7۔ رہی بات صرف بقدر ضرورت ٹیکس لینے کے جواز کی  تو وہ اس لیے کہ شرعی نصوص  متعین اصناف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہی وہ استثنیٰ ہے جو ایک فرد کی مرضی کے بغیر اس کے مال میں سے لینے کے جواز کے بارے میں ہے۔  اس لیے اس حد تک محدود رہنا فرض ہے  جو نصوص میں بتایا گیا ہے ورنہ یہ ظلم ہو گا۔  اس لیے کسی شخص کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا جائز نہیں، صرف متعین حالات میں  نص نے   بقدر ضرورت ٹیکس لگانے کی اجازت دے کر اس میں استثنیٰ دیا ہے۔

 

8۔ یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ  "دائمی یا  اکثر و بیشتر"  ریاست خلافت  کی بجٹ  خسارے کا سوال  بے محل اور فرضی ہے۔ اسلام کو بہترین انداز میں نافذ کرنے کے بعد  محصولات کا اخراجات کے لیے کافی نہ ہونا  اصل کے ہی خلاف ہے۔۔۔اس کی دو وجوہات ہیں:

 

ا۔ احکام شرعیہ ریاست کی جانب سے اموال اکھٹے کرنے اور ان کو خرچ کرنے کی کیفیت کو  تفصیل سے بیان کرتے ہیں،  اس کو لوگوں کے اجتہاد اور اندازے پر نہیں چھوڑا گیا۔۔۔بعض امور پر خرچ کرنے کو  مال کے موجود ہونے یا نہ ہونے سے   الگ کیا ہے کیونکہ ان پر خرچ کرنا بیت المال اور مسلمانوں دونوں پر فرض ہے۔۔۔ہم اوپر ان امور کو بیان کیا جن پر خرچ کرنا فرض ہے چاہے بیت المال میں مال ہو یا نہ ہو۔۔۔ اگر مال نہ ہو تو ان کے لیے ٹیکس لگا یا جائے گا۔

 

جہاں تک ان نفقات کی بات ہے جن پر خرچ کرنا مسلمانوں پر نہیں صرف بیت المال پر فرض ہے  تو ان پر خرچ ہی اس وقت کیا جائے گا جب بیت المال میں مال ہو اور ان کے لیے ٹیکس نہیں لگا یا جائے گا۔۔۔

ب ۔ بیت المال کے دائمی محصولات یہ ہیں: فئی، غنائم، انفال، خراج،  جزیہ۔۔۔ اسی طرح عوامی ملکیت جس کی کئی قسمیں ہیں، ریاستی املاک سے حاصل ہونے والی محصولات،  جیسے عشور، رکاز کا خمس، معدن، زکوۃ کے اموال۔۔۔اصل تو یہ ہے کہ بیت المال کے دائمی محصولات  ان مصارف پر خرچ کرنے کے لیے کافی ہوں جن پر خرچ کرنا بیت  المال پر  مال ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں فرض ہے۔۔۔ اس لیے  ان نفقات کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی خسارہ بعید از قیاس ہے۔۔۔

 

اس کی مکمل تفصیل ہم نے اپنی کتابوں اقتصادی نظام، ریاست خلافت کی محصولات اور مقدمہ  دستور میں بیان کیا ہے ۔۔۔

 

امید ہے یہ جواب کافی ہو گا، انشاء اللہ

 

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

12 شعبان 1437 ہجری

19 مئی 2016

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال کا جواب: 

کیا سلطان (حکومت) کے لیے مسلمانوں پر ٹیکس لگانا جائز ہے؟

خالد آل یاسین کو

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ، اللہ آپ کو قائم و دائم رکھے۔  میرا ایک سوال ہے اور مجھے آپ سےجواب کی امید ہے۔۔۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ "ٹیکس "اسلام میں حرام ہیں۔  پھر ریاست کیسے  خسارے کو پورا کرے گی خاص کر  آج کل تو " توظیف،  عشور اور خراج" نہیں ہوتے۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوال کے موضوع پر آپ واضح نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ " ٹیکس اسلام میں حرام ہیں"، یہ بات عمومی طور پر درست ہے،  مگر مخصوص حالات میں اس کی تخصیص ہے۔۔۔اسی طرح آپ نے کہا  کہ :" آج کل عشور اور خراج نہیں"،  حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین عشری ہے یا خراجی، اور یہ دونوں موجود ہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ:" توظیف، عشور اور خراج"، جبکہ لفظ توظیف کا یہ موقع نہیں۔

بہر حال میں آپ کے لیے اس موضوع کو تفصیلاً بیان کروں گا تاکہ جواب ایسا واضح ہو کہ اس میں کوئی التباس باقی نہ رہے اور کوئی شک وشبہ نہ ہو انشاء اللہ۔

1۔ بے شک شریعت نے سلطان(صاحب اقتدار) کو مسلمانوں پر  اپنے پسند اور اپنی مرضی سے کوئی ٹیکس لگانے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لا یدخل الجنۃ صاحب مکس)"کسٹم ڈیوٹی لینے والا جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا" اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور  الزین اور الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ مکس  وہ ٹیکس ہے جوریاست کی سرحدوں پر تاجروں سے لیا جاتا ہے،  مگر یہ "نہی"  رسول اللہ ﷺ کی اس متفق حدیث کی وجہ سے ہر قسم کے ٹیکس کے لیے ہے جس کو  ابی بکر ۃ نے روایت کیا ہے کہ : (انّ دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شھرکم ھذا۔۔۔)"بے شک تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسا کہ تمہارا یہ دن ،تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں۔۔۔" یہ عام ہے اور عام لوگوں کی طرح خلیفہ بھی اس میں شامل ہے۔۔۔ اس لیے خلیفہ کے لیے  اخراجات کو پورا کرنے کے لیےکوئی ٹیکس لگانا جائز نہیں، بلکہ یہ بیت المال سے ہی پورے کیے جائیں گے۔

2۔ تاہم کچھ حالات ایسے ہیں جن کوخود شرع نے ٹیکس لگانے کے عمومی "نہی" سےمستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے بارے میں شرعی نصوص موجود ہیں جو یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ان کو کہاں خرچ کیا جائے گا اور یہ صرف بیت المال پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہیں۔ اسی لیے جب بیت المال میں موجود  مال  ان پر خرچ کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو یہ خرچہ مسلمانوں کی طرف منتقل ہو گا اور ان میں سے مالداروں پر اس قدر ٹیکس لگا یا جائے گا جو ان حالات میں واجب نفقات کے لیے کافی ہو ، زیادہ نہ ہو اور اس کو بھی اسی مد میں رکھا جائے گا جس مقصدکے لیے لگایا گیا تھا۔۔۔

ان حالات میں ٹیکس  سلطان کے حکم پر مبنی نہیں ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی خواہش کے مطابق ٹیکس لگائے،  بلکہ یہ اللہ کے امر پر مبنی ہے،  سلطان تو صرف  اس امر کو نافذ کرتا ہے جس کو نافذ کرنے کا حکم اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو دیا ہے۔یوں شرع نے بیت المال اور مسلمانوں پر جہاں جہاں مال خرچ کرنے کو فرض قرار دیا ہے وہاں خرچ کیا جائے گا  اور اگر بیت المال میں مال موجود نہ ہو   یا مال ختم ہو جائے یا اتنا مال ہو جو  نفقات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو  تب خلیفہ  ان نفقات کے ضرورت کے مطابق احکام شرعیہ کے حکم سے مالداروں پر ٹیکس لگائے گا۔۔۔ اس حال میں یہ ٹیکس حرام نہیں ہو گا۔

3۔ جو کہا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مخصوص حالت میں ٹیکس لگانے کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا لازمی ہے:

۔ اس صورتحال پر خرچ کرنے کے لیے بیت المال میں مال موجود نہ ہو۔۔۔

۔ شرعی نص موجود ہو کہ اس حالت میں خرچ کرنا بیت المال اور مسلمانوں پر فرض ہے۔۔۔

۔ لگایا جانے والا ٹیکس  اس مقدارسے زیادہ نہ ہو جس کی ضرورت ہے۔۔۔

۔ ٹیکس صرف ان  مالداروں پر لگا یاجائے جن کے پاس اپنی بنیادی ضروریات اور رواج کے مطابق سامان تعیش  سے زیادہ مال ہو۔۔۔

4۔یوں اسلام میں ٹیکس صرف مندرجہ بالا شرائط کے مطابق ہی لگا یا جا سکتا ہے،  یعنی شرعی نص موجود ہو کہ مذکورہ حالت میں خرچ کر نا صرف بیت المال پر ہی فرض نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے:

مثال کے طور پر فقراء پر خرچ کرنا۔ اگر بیت المال میں موجود مال فقراء کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو  تو  ان ضروریات کے بقدر ٹیکس لگا یا جائے گا جو ان ضرورت سے زیادہ نہ ہو اور صرف مالداروں پر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقراء پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر فرض نہیں  بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے۔ الحاکم نے المستدرک میں عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لَيْسَ بِالْمُؤْمِنِ الَّذِي يَبِيتُ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ» " وہ شخص مؤمن نہیں جو پیٹ بھر کر سوتا ہو جبکہ اس کے پہلو میں پڑوسی بھوکا ہو"، جبکہ المعجم الکبیر میں الطبرانی کی روایت کے مطابق جس کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: : «مَا آمَنَ بِي مَنْ بَاتَ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَعْلَمُ بِهِ» " وہ شخص مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا جو پیٹ بھر کر سوتا ہے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہے اور اس کو معلوم بھی ہے"۔ الحاکم نے المستدرک میں ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «وَأَيُّمَا أَهْلِ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمُ امْرُؤٌ جَائِعًا، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ " جس بستی میں کوئی شخص  بھوکا سویا تو  اللہ ان بستی والوں سے بری الذمہ ہے"۔

مثال کے طور پر جہاد پر خرچ کرنا ۔  اگر بیت المال میں موجود مال جہاد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو بقدر ضرورت  بغیر زیادتی کے صرف مالداروں پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد پر خرچہ صرف بیت المال پر فرض نہیں  بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے: اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ " اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو"(التوبۃ:41)۔

اپر بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ بھی مزید دلائل ہیں۔

اسی طرح مثال کے طور پر  سپاہیوں کے معاوضے پر خرچ کرنے کے لیے اگر بیت المال  میں  کافی مال نہ ہو تو بغیر زیادتی کے بقدر ضرورت  مالداروں پر ٹیکس لگا یا جائے گا،  کیونکہ سپاہیوں پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر فرض نہیں بلکہ  مسلمانوں پر بھی ہے۔   احمد نے اپنے مسند میں عبد اللہ بن عمر و سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  «لِلْغَازِي أَجْرُهُ، وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي " غازی کے لیے اس کا اپنا اجر ہے اور اس کوتیار کرنے والے  کے لیے اپنا اور غازی کا اجر ہے"۔

مثال کے طور پر  کسی ایسے شہر میں ہسپتال قائم کرنے کے لیے جہاں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے  لوگوں کو ضرر(تکلیف) کا سامنا ہے۔ اگر بیت المال میں موجود مال  ہسپتال قائم کرنے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہ ہو تو بغیر زیاد تی بقدر ضرورت مالداروں پر ٹیکس لگا یا جائے گا، کیونکہ  ہسپتال بنانے پر خرچ کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے سے ضرر ہے۔ ایسی جگہ ہسپتال کی تعمیر صرف بیت المال پر فرض نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے اور اس لیے بھی کہ ضرر سے" نہی" عام ہے۔ الحاکم نے المستدرک میں کہا ہے کہ یہ صحیح اسناد والی حدیث ہے جو ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ، مَنْ ضَارَّ ضَارَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ "نہ ضرر پہنچانا ہے اور نہ ہی ضرر قبول کرنا ہے جو ضرر پہنچاتا ہے اللہ اس کو ضررمیں مبتلا کرتا ہے  اور جو تنگی  کرتا ہے اللہ اس پر تنگی کرتا ہے"۔

اسی طرح مثال کے طور پر ہنگامی صورتحال  جیسے قحط،طوفا ن اور زلزلہ  وغیرہ  سے متاثر ہونے والی رعایاپر خرچ کرنے کے لیے  بیت المال میں موجود مال کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بغیر زیادتی کے مالداروں پر بقدر ضرورت ٹیکس لگا یا جائے گا،  کیونکہ ہنگامی حادثات پر خرچ کرنا صرف بیت المال پر ہی فرض نہیں بلکہ یہ  مسلمانوں پر بھی فرض ہے۔ ابو داود نے  اپنے سنن میں ابن حُجیر العدوی سے روایت کیا ہے کہ میں نے  عمر بن الخطاب کو نبی ﷺ سے یہ قصہ روایت کرتے ہوئے سنا ہے کہ(وَتُغِيثُوا الْمَلْهُوفَ وَتَهْدُوا الضَّالَّ) " مصیبت زدہ کی مدد کرو اور راستہ بھولے ہوئے کو راستہ بتاؤ" ۔  قحط کی مثال جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا  وہ بھی اس صورتحال پر لاگو ہوتی ہے۔

5۔ جہاں تک ان نفقات کی بات ہے جو صرف بیت المال پر فرض ہیں  اور مسلمانوں  پر فرض نہیں، ایسے مصارف پر صرف اس وقت خرچ کیا جائے گا جب بیت المال میں  اس کے لیے کافی مال موجود ہو۔اگر مال موجود نہ ہو تو ان کے  لیے ٹیکس نہیں لگایا جائے گا بلکہ بیت المال میں مال آنے کا انتظار کیا جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ  مسلمانوں کے لیے آسانی کی خاطر سڑکوں کی توسیع   مگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو ایک سڑک کے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی خاص  ضرر نہ پہنچتا ہو، یا  ایک ہسپتال کے ہوتے  ہوئے جو کافی ہو   دوسرے ہسپتال کی تعمیر  ،  اسی طرح ایسے پیداواری منصوبے شروع کرنا  جن کو شروع نہ کرنے سے امت کو کوئی  ضرر نہ پہنچتا ہو جیسے کوئلہ یا سرمہ نکالنے  کا کارخانہ قائم کرنا یا تجارتی کشتیوں کی تعمیر  کی جگہ بنا نا وغیرہ ۔۔۔

ان جیسے امور پر صرف بیت المال میں کافی مال ہونے کی صورت میں  ہی خرچ کیا جائے گا۔۔۔

6۔ رہی یہ بات کہ ٹیکس صرف مالداروں پر لگایا جائے گا وہ اس لیے کہ ٹیکس فرد کے اس مال سے لیا جاتا ہے جو   اس کی بنیادی ضروریات اور رواج کے مطابق سامان تعیش کو پورا کرنے بعد زائد ہو۔ یوں جن مسلمانوں کے پاس بنیادی ضروریات اور اعلیٰ درجے کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد مال بچے اس پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور جس کے پاس زائد مال نہ ہو اس پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «خيرُ الصدقة ما كان عن ظهر غنى» "بہترین صدقہ وہ ہے جو مالدار کی طرف سے ہو" اس کو  بخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔  غنی(مالداری) یہ ہے کہ  آدمی کو اس چیز کی ضرورت نہ ہو جو صدقہ کر رہا ہے، یعنی یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ وہ مال ہے جسے وہ صدقہ کررہا ہے ۔

مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ابدأ بنفسك فتصدّق عليها، فإن فَضَلَ شيءٌ فلأهلك، فإن فَضَلَ عن أهلك شيءٌ فَلِذي قرابتك، فإن فَضَلَ عن ذي قرابتك شيءٌ فهكذا وهكذا - يقول فبين يديك، وعن يمينك، وعن شمالك» " ابتداء اپنے آپ پر صدقہ کرنے سے کرو، اگر بچ جائے تو اپنے گھروالوں پر،  اگر اس سے بھی بچ جائے تو اپنے قرابت والوں پر ،اگر پھر بھی بچ جائے  تو اسی طرح آگے بڑھو،  اپنے سامنے والے کو دو  پھر دائیں والے کو پھر بائیں والے کو"۔ جس کا نفقہ فرض ہے اس کو اپنے آپ پر خرچ کرنے سے موخر کیا۔  ٹیکس بھی ایسا ہی ہے؛ کیونکہ ٹیکس صدقہ کی طرح ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْو﴾ "تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دیجئے کہ بچا ہوا"(البقرۃ:219)۔  یعنی  جس کے خرچ کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو، جو کہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے۔  اسی لیے ضرورت سے زائد پر ہی ٹیکس لیا جا سکتا ہے،  یعنی صرف مالداروں سے، اس لیے فقراء سے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا، اور مالدار زکوۃ کے محکمے  کو معلوم ہو تے ہیں۔

7۔ رہی بات صرف بقدر ضرورت ٹیکس لینے کے جواز کی  تو وہ اس لیے کہ شرعی نصوص  متعین اصناف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہی وہ استثنیٰ ہے جو ایک فرد کی مرضی کے بغیر اس کے مال میں سے لینے کے جواز کے بارے میں ہے۔  اس لیے اس حد تک محدود رہنا فرض ہے  جو نصوص میں بتایا گیا ہے ورنہ یہ ظلم ہو گا۔  اس لیے کسی شخص کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا جائز نہیں، صرف متعین حالات میں  نص نے   بقدر ضرورت ٹیکس لگانے کی اجازت دے کر اس میں استثنیٰ دیا ہے۔

یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ  "دائمی یا  اکثر و بیشتر"  ریاست خلافت  کی بجٹ  خسارے کا سوال  بے محل اور فرضی ہے۔ اسلام کو بہترین انداز میں نافذ کرنے کے بعد  محصولات کا اخراجات کے لیے کافی نہ ہونا  اصل کے ہی خلاف ہے۔۔۔اس کی دو وجوہات ہیں:

ا۔ احکام شرعیہ ریاست کی جانب سے اموال اکھٹے کرنے اور ان کو خرچ کرنے کی کیفیت کو  تفصیل سے بیان کرتے ہیں،  اس کو لوگوں کے اجتہاد اور اندازے پر نہیں چھوڑا گیا۔۔۔بعض امور پر خرچ کرنے کو  مال کے موجود ہونے یا نہ ہونے سے   الگ کیا ہے کیونکہ ان پر خرچ کرنا بیت المال اور مسلمانوں دونوں پر فرض ہے۔۔۔ہم اوپر ان امور کو بیان کیا جن پر خرچ کرنا فرض ہے چاہے بیت المال میں مال ہو یا نہ ہو۔۔۔ اگر مال نہ ہو تو ان کے لیے ٹیکس لگا یا جائے گا۔

جہاں تک ان نفقات کی بات ہے جن پر خرچ کرنا مسلمانوں پر نہیں صرف بیت المال پر فرض ہے  تو ان پر خرچ ہی اس وقت کیا جائے گا جب بیت المال میں مال ہو اور ان کے لیے ٹیکس نہیں لگا یا جائے گا۔۔۔

ب ۔ بیت المال کے دائمی محصولات یہ ہیں: فئی، غنائم، انفال، خراج،  جزیہ۔۔۔ اسی طرح عوامی ملکیت جس کی کئی قسمیں ہیں، ریاستی املاک سے حاصل ہونے والی محصولات،  جیسے عشور، رکاز کا خمس، معدن، زکوۃ کے اموال۔۔۔اصل تو یہ ہے کہ بیت المال کے دائمی محصولات  ان مصارف پر خرچ کرنے کے لیے کافی ہوں جن پر خرچ کرنا بیت  المال پر  مال ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں فرض ہے۔۔۔ اس لیے  ان نفقات کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی خسارہ بعید از قیاس ہے۔۔۔

اس کی مکمل تفصیل ہم نے اپنی کتابوں اقتصادی نظام، ریاست خلافت کی محصولات اور مقدمہ  دستور میں بیان کیا ہے ۔۔۔

امید ہے یہ جواب کافی ہو گا، انشاء اللہ

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

12 شعبان 1437 ہجری

19 مئی 2016

Last modified onاتوار, 04 دسمبر 2016 09:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک