السبت، 09 ذو القعدة 1445| 2024/05/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

زندگی میں جمود کا احساس

 

کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ زندگی بہت زیادہ مصروف ہوتی جارہی ہے؟ روزانہ کی مشقت سے ہمیشہ تھکا ہارا محسوس ہونا یا کبھی کبھار تو کام کی زیادتی سے اسی میں ہی کھوئے رہنا؟ یا پھر شاید ، زندگی میں یکسانیت سی ہوگئی ہے ، ہر روز کا وُہی معمول، وہی لوگ، وہی کام ؟ یا پھر ہمارے باہمی تعلقات بھی ہماری ذہنی حالت پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں جو اسی لئے جذباتیت سے خالی ہوتے جارہے ہیں؟ شاید یہ اس یقین کی وجہ سے ہو کہ ہم نے زندگی میں کچھ خاص حاصل نہیں کیا؟ ہمارے پاس واقعی فخر کرنے کے قابل ہے ہی کیا؟

 

ہماری زندگی میں بہت سے مرحلوں میں ایسے لمحات آئے جب ہم نے ایسےاحساسات محسوس کئے ہوں۔ اور ان کا بہتر جواب تلاش کرنے کے لئے ہم نے خود پر غور کیا ہو اور خود سے ہی جنگ لڑی ہو۔ کیا میں اپنے موجودہ تعلقات چھوڑ دوں، اپنا کیرئیر بدل لوں، اپنے آبائی شہر سے چلا جاؤں، یا سادہ الفاظ میں ہر اس چیز کو چھوڑدوں جو اَب میرے کسی کام کی نہیں رہی ؟ اور جب ان سوالوں کا کوئی جواب نہ ملے یا یہ یقین ہوجائے کہ ہم ان کا جواب نہیں جانتے تو یہ ایک تکلیف دہ وقت ہوسکتا ہے۔

 

ایسا عموماً نااُمیدی کے احساس کی وجہ سے ہوتا ہے یا یہ احساس کہ اب ہمارے بَس میں کچھ نہیں رہا۔یہ سب گہری مایوسی کی جانب لے جاسکتا ہے جو نتیجتاً مزید خطرات کا باعث ہوسکتاہے۔ اس خواہش کے ساتھ کہ یا تو مکمل کنارہ کشی اختیار کرلیں یا پھر ہر کسی سے قطع تعلق کرلیں ، یہ احساس کسی شخص کو مزید مایوسی کے گڑھوں میں دھکیل دیتا ہے ! یہ حالات سے بے اعتنائی برتنے اور کسی اور چیز میں سکون تلاش کرنے کا ایک طریقہ ہے۔شاید ہم نیٹ فلکسNetflix پر اپنے کئی گھنٹے برباد کردیتے ہیں یاپھر بے وقت کا زیادہ کھانا کھا کر یا بھوکے پیٹ رہ کر بہانہ تلاش کرتے ہیں۔ یا پھر دوستوں کے ساتھ شاموں کو باہر تفریح کرکے اپنا دھیان بٹا تے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ ایسا ہے کہ تھوڑا سا وقفہ لے لیں اور چھُٹی پر چلے جائیں ! زندگی میں جمودہو جانے کے احساس کا مطلب یہ ہے کہ کُچھ ٹھیک نہیں ہورہا !

 

اسی لئے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری زندگی میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ایسی حالت میں کسی معاملے کو حل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔

 

اول : تسلیم کرلیں کہ ہم جمود کا شکار ہو چُکے ہیں اور ہمیشہ اسی میں ہی رہیں گے اور یہ ایک ناقابلِ واپسی حقیقت ہے۔

 

دوم : یہ جان کر کہ ہم پھنس چُکے ہیں، الحمدُللہ کہیں اور یہ جان لیں کہ یہ مثبت تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے۔

غور کریں ! بات یہ ہے کہ ہم اپنے آخر دَم تک بِنا کچھ غور وفکر کئے بَس صبح وشام بِتا کر اپنی پوری زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایمان رکھنے والے مومن کے لئے صرف یہی اطمینان کا باعث نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے جس کی کمی ہے! ہمیشہ ایسا کچھ ضرور ہوتاہے جو کہ ٹھیک نہیں لگ رہاہوتا۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہی ہمیں تخلیق کیا ہے اور وہ ہمارے بارے میں اس سے بہت زیادہ جانتے ہیں جتنا کہ ہم خود کو کبھی جان سکتے ہیں ! زندگی میں ”جمود کا احساس“، اُونچ نیچ، اُتار چڑھاؤ، بے قرار و پریشان ہو نے کے احساس وغیرہ جن کو ہم محسوس کرتے ہیں اور ان حالات سے گزرتے ہیں – یہ سب ایسی باتیں ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم میں ہیں ۔یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کرم ہی ہے کہ اُس ذاتِ پاک نے ہمیں ایسے حالات کو بہترین انداز میں حل کرنےکا طریقہ بتا دیا ہے۔جب ہم اس پہلو پراس انداز میں گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ”زندگی میں جمود ہونا“ یا اس جیسے اور احساس ، اصل میں ایک اشارہ ہیں جو ہمیں ایک جھٹکا دیتے ہیں اور یہ یاددہانی کراتے ہیں کہ ہمیں ضرورکچھ کرنا ہے ! ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے ! ہمیں مکمل محسوس کرنا ہے ! ہمیں اطمینان اور سکون محسوس کرنا ہے ! ہم انسان ہیں !

 

لیکن سوال تو پھر یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہو ؟ سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے یہ الفاظ یاد دلاتے رہیں:

 

﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا(الذاریات : 56)

 

ہماری زندگی کا ہراِک جُزو اسی آیتِ مبارکہ سے جُڑا ہے ! ہماری خوشیاں ! اچھا وقت ! اُداسی ! مشکل حالات ! ہمیں ہر وقت یہ یاد رکھنا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں ایک مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے اور صرف وہی مقصد ہی مقصدِ تخلیق ہے ! یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت، اس کی بندگی کرنا، اس کی رضا حاصل کرنا ، خالق سے محبت کرنا اور اُسی پر بھروسہ رکھنا ! زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں کسی نہ کسی مقصد کی ضرورت ہوتی ہے ! ہمیں کسی ایسے نصب العین کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے کام کیا جائے ۔ ہمیں کچھ عزائم اور مقاصد مقرر کرنے ہوتے ہیں ، اور جب کسی کے پاس یہ سب کچھ نہ ہوں تو اس کی زندگی خالی رہ جاتی ہے اور یوں پھر اس کی زندگی کا سفر ”جمود“ کا شکار ہی رہے گا۔ یہ مقصد ہی ہوتا ہے جو کسی کو ایسی تحریک دیتا ہے کہ وہ اُٹھے اور آگے بڑھے! عزم ہی کسی شخص کو کسی بھی قِسم کے مایوسانہ احساسات پر قابو پانے کے لئے تقویت اور حرکت دیتا ہے! یہ عزم ہی ہوتا ہے جو کسی کو وہ سب کچھ دیتا ہے کہ جس سے وہ کبھی ہار نہیں سکتا !اور ایک مؤمن کے لئےیہ عزم ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کرنا ہی ہوتا ہے ! یعنی یہ بات ہمیشہ یادرکھنا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہترین کارساز ہیں اور ہمیں صرف وہی کام کرنے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتے ہیں !

 

زندگی کے اس سفر میں ہم بہت سے جذبات کا تجربہ کریں گے۔ تو لازم ہے کہ زندگی کے ان تمام مراحل میں ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کو اپنے اوپر قائم رکھیں !جب ہمارے احساسات و جذبات عروج پر ہوں – اعلیٰ اور مثبت – جہاں ہم خوش ہوں تو ہم اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کریں ! اور اُس پروردگار کی رحمتوں کے لئے شُکرگزار ہوں ! اور جب ہمارے جذبات و احساسات زوال پر ہوں – منفی اور پرملال – جہاں ہم اُداس ہوں تو ہم اللہ تعالیٰ سے ہی آسانی کرنے کی التجا کریں کہ وہ ہماری آزمائشیں کم کریں اور ہمیں دوبارہ خوش رہنا نصیب کریں ! لیکن ہمارا عزم ہمیشہ رہنا چاہئے !

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں :

 

﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾

کیا یہ لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ یونہی یہ کہنے سے چھوڑ دئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے ( العنکبوت : 2)

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں آزماتے ہیں ! اور ہم ہمیشہ آزمائے جائیں گے ! اللہ تعالیٰ سے اپنی بندگی کے دوران ہم ان آزمائشوں کا کس طرح سے سامنا کرتے ہیں، یہی ہماری عبادت ہے ! کیا ہم اپنے جذبات و احساسات کو اس کی اجازت دیں گےکہ وہ ہمیں بے حس کردیں اور ہم ہار مان لیں ؟ یا ہم ان کا مقابلہ کریں اور آگے بڑھتے رہیں ؟ یہی ہمارا امتحان ہے ! یہی وہ امتحان ہے جس میں ہمارے پیارے پروردگار ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، کہ کیا مؤمنین اس پر عمل کریں گے جو ہم اُنہیں کہیں گے یا نہیں ؟ اب اگر ہمیں اسی معیار اور فریم ورک کو اپنی روزمرہ زندگیوں اور اعمال پر لاگو کرنا ہو، تو ذرا سوچیں کہ کتنی بار ہم نے کوئی کام اسی جذبے کے ساتھ شروع کیا اور پھر چھوڑ دیا ؟ ورزش شروع کی ؟ کوئی نئی زبان سیکھنا شروع کی ؟ اچھی خوراک لینا شروع کی ؟ لیکن پھر یوں ہوتاہے ، چاکلیٹ چیز کیک کا ایک مزیدار سلائس یا نئی زبان کے الفاظ کا ایک زبردست مجموعہ آتا ہے اور پھر اچانک سب کچھ یکایک ختم ہوجاتا ہے !

 

وہ مقصد ہی کھو جاتا ہے ، ہم وہ وجہ ہی بھُول جاتے ہیں کہ ہم نے یہ کام شروع کیوں کیا تھا۔ بس پھر کیا ہوتا ہے ؟ عمل سے سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے یا پھر ہم سب کچھ اچانک ختم کردیتے ہیں۔ ہمیں ایسے نہیں ہونے دینا۔ جیسے ہمیں اپنے آپ کو زندگی کے اپنے حقیقی مقصد کی یاد دِلاتے رہنا ہے، ہمیں باقاعدگی سے اپنے آپ کو چیک کرتے رہنا ہے اور اپنے آپ کو یاد دلانا ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے اعمال بھی کیوں کرتے ہیں! یہ چھوٹے چھوٹے اعمال ہی وہ ہیں جو ہمیں اُس شکل میں ڈھالتے ہیں کہ ہم کیا بنیں گے یا اس شکل میں جس میں ڈھلنے کا ہمیں ڈر ہوتا ہے ۔ یہ وہ عادتیں اور روایات ہی ہیں جو ہم روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اور جو یا تو ہمیں ہماری اُمیدوں ، خوابوں اور عزم کی راہ پر لے جاتی ہیں یا پھر ان سے دور کردیتی ہیں ۔

 

زندگی ”جمود “ کا شکار ہوجانے کی آزمائش کا سامنا کرتے ہوئے ، ایک مسئلہ یہ پیش آسکتا ہے کہ ہم تبدیل ہونے سے ڈرتے ہوں۔ اور یقیناً یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو اتنا آسان نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہو سکتاہے کہ ہم اپنے آپ کو اسی جمود میں ہی رہنے دینا چاہتے ہوں کیونکہ ہم کسی انجانے سے ڈرتے ہیں یا شاید یہ سوچتے ہیں کہ ” حالات کہیں اس سے بھی زیادہ خراب نہ ہو جائیں “۔

 

ایسا اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ ہم شاید بہت بے صَبرہورہے ہوں۔ کبھی کبھار ہم جلد اَزجلد نتائج دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم اپنے آپ سے کہنےلگتے ہیں ، کہ ”ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہے ہیں“۔

 

البتہ جب ہمارے اعمال ایک خاص مقصدسے پیوستہ ہوں ، وہ مقصد جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ راضی ہوں گے اور ہمیں اَجر سے بھی نوازیں گے—تو پھرآخر ہمیں کس بات کا ڈر ہے ؟ ہم آخر کس طرح بے صبر ہو سکتے ہیں ؟

ہاں یہ ٹھیک ہے کہ چند حالات تشویشناک بھی ہوسکتے ہیں، اور ہاں ، کچھ نہایت حاوی بھی ہوسکتے ہیں اور ہاں کچھ چیزوں کو وقت بھی لگ سکتا ہے ! لیکن ان سب سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ یادرکھا جائے کہ زندگی کے ہر لمحے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ موجود ہے۔ اور سبحان اللہ ! یہ کتنا خوبصورت احساس ہے !

 

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک اپنے آپ میں مصروف اور اپنے معاملات میں غرق رہنے والے معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کا ماحول ہمیں دانستہ طور پر جمود کا احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ احساس دِلاتا رہتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔تاہم ، ایک مؤمن ہوتے ہوئے ، ہمارے پاس اس خطرناک سوچ سے نمٹنے کا ہتھیار موجود ہے۔ اور وہ ہتھیار ، ہمارا ایمان ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان !

 

الحمدُللہ ! ہم محمد ﷺ کی اُمت میں سے ہیں جو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بہترین مخلوق ہیں اور ہمارےلئے تعریف کے اوراپنی پیروی کرنے کے قابل رہنما اور قائد ہیں۔ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ ہمارے لئے ایک مثالی نمونہ ہے کہ کبھی ہمت نہیں ہارنی ، مضبوط رہنا ہے اور اللہ کی راہ میں آنے والی ہر مشکل کا باہمت انداز سے سامنا کرنا ہے۔ آپﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ہر عمل قابلِ قدر ہے ،قطع نظر اس کے کہ ہم اسے کتنا حقیر کیوں نہ سمجھتے ہوں۔ آپﷺ نے ہمیں سکھایا کہ حالات کی تبدیلی میں وقت لگ سکتاہے لیکن ہمیں ثابت قدم رہنا ہے اور چھوٹی چھوٹی جستجو کرتے رہنا ہے۔

 

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 16:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک