المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن
ہجری تاریخ | 26 من رمــضان المبارك 1445هـ | شمارہ نمبر: 14 / 1445 |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 05 اپریل 2024 م |
تبصرۂ خبر
اگر اسلامی شرعی قانون کا اطلاق ہوتا توعام معافی باطل ہوتی ۔
جو لوگ سزا کے مستحق ہیں انہیں سزا دی جاتی ہے، معافی نہیں دی جاتی... جبکہ بے گناہ لوگوں کو پہلے سےہی قید نہیں کیا جاتا!
(عربی سے ترجمہ)
جرم ایک قبیح عمل ہے۔ قبیح عمل وہ ہے جس کو شریعت نے قبیح قرار دیا ہے۔ لہٰذا، کسی عمل کو جرم نہیں سمجھا جائے گا، جب تک کہ شریعت یہ مقرر نہ کر دے کہ وہ بُرا ہے۔ ایسی صورت میں اسے جرم سمجھا جاتا ہے، خواہ اس کی برائی کتنی بھی ہو، یعنی جرم بڑا ہو یا چھوٹا۔ شرع نے بُرے عمل کو ایسا گناہ قرار دیا ہے جو قابلِ سزا ہے۔ گناہ خود ایک جرم ہے۔ یہ معروف ہے کہ انسانوں میں سزا کا مطلوب یہ حکمت ہے کہ جرم سرزد نہ ہوں، یعنی لوگوں کو جرائم سے روکا جائے۔ اسلام نے یوں گناہ سے نجات کا بندوبست کیا ہے کہ دنیا میں سزا سے آخرت کی سزاکی نفی ہو جائے۔
اگر سزا کا حکم انسان کے ذہن سے مقرر کیا جائے، جبکہ انسان کی دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ایک مخصوص حد تک ہے، تو اس سزا کے اندر خامی کا موجود ہونا لازم ہو گا۔ تاہم، اگر حکم انسان کے خالق کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو، تو اس میں غلطی کا امکان یقینی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾
" بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے"(الملک، 67:14)۔
ایک مسلمان جو اسلام کو ہر زمانے اور جگہ کے لیے درست ہونے پر یقین رکھتا ہے، وہ ایک لمحے کے لیے بھی شریعت میں متعین سزاؤں ، یعنی حدود اور تعزیر (صوابدیدی شرعی سزاؤں) کی درستگی اور حکمت پر شک نہیں کرتا۔
اسلامی شرعی قانون کسی شخص کے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعے کے حوالے سے حکم بیان کرتا ہے۔ اسلام قانون سازی کرتا ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون احکام و ممنوعات کو واضح کرتا ہے۔ اسلام قانونی طور پر ایک شخص کو حکم دیتا ہے کہ وہ وہی اعمال کرے جس کا وہ حکم دیتا ہے، اور جن اعمال سے اسلام منع کرتا ہے ان سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی شخص اِن حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس نے ایک بہت ہی بُرا کام کیا ہے، یعنی اس نے جرم کیا ہے۔ اس لیے ایسے جرائم کی سزا ضرور ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریں اور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع کیا ہے ان سے پرہیز کریں۔ ان احکام و ممنوعات کا کوئی مطلب نہیں، اگر ان کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہ ہو۔ اسلامی شرعی قانون نے واضح کیا ہے کہ ان جرائم کی سزا آخرت میں بھی ہے، اسی طرح دنیا میں بھی سزائیں ہیں۔ جہاں تک آخرت کے عذاب کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ مجرم کو سزا دینے والا ہے۔ وہ مجرموں کو قیامت کے دن سزا دے گا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ﴾
"مجرم اپنے چہرے سے پہچانے جائیں گے،تو ماتھے اور پاؤں کے بل پکڑ کر جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے"(الرحمٰن؛ 55:41)
جہاں تک اس دنیوی زندگی میں سزا دینے کا تعلق ہے تو اس کام کو حکمران انجام دیتا ہے، یعنی ریاست اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں یعنی حدود، قابل تلافی جرائم پر جنایات کے احکام، اور صوبدیدی سزاؤں یعنی تعزیری سزاؤں کے ساتھ ساتھ مخلفات یعنی خلاف ورزی کرنے پر سزاؤں کو نافذ کرتی ہے۔ یہ اس دنیا میں مجرم کے لئے اس گناہ کی سزا ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے۔ دنیا کی سزا سے آخرت میں مجرم کی سزا معاف کر دی جاتی ہے۔ یوں سزائیں گناہ کرنے سےروکنے کا اورآخرت کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ جہاں تک ان دنیاوی سزاؤں کا جرائم کو روکنے کا ذریعہ بننے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کو گناہوں اور جرائم کے ارتکاب سے روکتی ہیں۔ جہاں تک ان کا نجات کا ذریعہ ہونے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت میں سزا کو معاف کر دیتی ہیں۔ پس دنیا میں ریاست کی طرف سے سزا کے ذریعے مسلمان سے آخرت کی سزا معاف کردی جاتی ہے۔
جہاں تک اردن میں حکومت کی طرف سے عام معافی کا تعلق ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے دیگر ممالک میں، مذہبی مواقع پر یا حکمران کے ذاتی خوشیوں کےمواقع پر کیا جاتا ہے، تو ایسا وہ صرف عوامی حمایت حاصل کرنے، یا جیلوں میں زیادہ ہجوم کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ حکمران خاص طور پر اس وقت عام معافی کا اعلان کرتے ہیں جب حکمران کے خلاف غصہ اور عدم اطمینان شدت اختیار کرجاتا ہے۔ ایسی عام معافی اپنی بنیادوں سے باطل ہے۔ اس طرح کی معافی کے خلاف غم و غصہ پیدا ہونا چاہیے کیونکہ اس عام معافی کے حکم کی بنیاد اصل میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں ، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سزاؤں کا تعلق سیاسی اعمال، حکومت کو نشانہ بنانے والی آراء ، حکومت پر تنقید اور اس کے احتساب سے ہوتا ہے۔ تاہم، جب حکومت لوگوں کو جیلوں میں ڈالتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو اسلامی دعوت کے علم بردار ہوتے ہیں، تو وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے فرسودہ آئین کی دفعات کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اور اس کےبرعکس حکومت ریاستی سکیورٹی عدالت کے تحت سکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کی جانب سے گھڑے گئے الزامات کی بنیاد پر دفعات کو لاگو کرتی ہے۔
اس معافی کےقانون میں ، جس کی اردن کے بادشاہ نے توثیق کی، جب نمائندوں نے ایک فوری اجلاس میں اس کی منظوری دے دی، اس میں نظام اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے نقطہ نظر کے مطابق جرائم شامل ہیں۔ یہ ان لوگوں کو معاف کردیتا ہے جو ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جیسے کہ منشیات، زنا، چوری، غبن، امانت میں خیانت، جھوٹی گواہی، جعل سازی، بے حیائی پر اکسانا وغیرہ۔ اصلاحی مراکز میں قید 7,355 قیدیوں کو معافی دی گئی ہے ۔ ان میں سے 4,688 نےمختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا ، جبکہ 2,667 افراد نے منشیات سے متعلق جرائم کیے تھے۔ تو کس طرح عوامی مفاد اور شہری حقوق اس قسم کی معافی کا جواز فراہم کرتے ہیں؟!
اس معافی سے "ریاست کی داخلی سلامتی کے خلاف جرائم، بغاوت، دہشت گردی، حکومت کے سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے والے جرائم، قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے اور ریاست کی مالیاتی حیثیت کو نقصان پہنچانے والے جرائم، اور شرپسند تنظیموں اور غیر قانونی انجمنوں کے جرائم "کو خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ شرائط لچکدار ہیں اور مختلف ججوں کے مطابق یا مختلف اوقات میں مختلف ہو جاتی ہیں ۔ اس قانون کا مقصد صرف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو نقصان پہنچانا ہے، جیسے کہ حزب التحریر، یا دوسرے کارکن جو اپنی رائے اور عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، یا مظاہروں کے دوران حراست میں لیے گئے لوگ، جو مطالبہ کرتے ہیں کہ فوجوں کو غزہ کے لوگوں کی حمایت میں متحرک کیا جائے۔ یہ سکیورٹی سروسز کی من مانی تشریح کے مطابق ہے،جو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے نام پر ، سزا کا جواز پیش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت پیش کرنے والے حزب التحریر کے شباب کو اس عام معافی میں شامل نہیں کیا گیا جیسا کہ ہر عام معافی کے معاملے میں ہوتا ہے کہ اس میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ ایسی صورت حال میں ہوتا ہے، جب کسی ایسی تنظیم سے تعلق ہو جو حکومت کے نقطۂ نظر کے مطابق غیر قانونی ہے۔ تاہم، اس طرح کی تنظیم اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض ہے... یہ کسی بھی شخص کے لیے وقار اور عزت کی گواہی ہے۔ ایسا شخص صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کے لیے اخلاص کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ ایسی حکومتوں سے معافی کی امید نہیں رکھتا جو امت کے دشمنوں کے ماتحت بن کر ان کی محافظ بن چکی ہیں۔ حزب کے شباب کو اسلام کی دعوت پیش کرنے اور اسلام کےاحکام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے کی وجہ سے گرفتار کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔
سزاؤں، ان کے احکام، اور ان کے نفاذ کے بارے میں، مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ حکمران جو اسلام کے مطابق حکمران ہو یعنی"خلیفہ" کی عدم موجودگی میں خلیفہ کے قیام کی ہر ممکن کوشش کریں۔ خلیفہ کا وجود فرض ہے۔ یہ ایک ایسا فرض ہے جو رب العالمین کی طرف سے فرض کردہ حدود اور سزاؤں کو قائم کرتا ہے۔ شرعی اصول ہے،(وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب) "جس کے بغیر کوئی فرض پورا نہیں ہو سکتا وہ بذات خود ایک فرض ہے"۔یہ ایک فرض ہے، خاص طور پر چونکہ حدود کی سزاؤں کو قائم کرنا امت کی بھلائی اور اس کے معاملات کی درستگی کے لیے ایک عظیم فریضہ ہے۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
«حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحاً»
" کوئی ایک حد جو دنیا میں نافذ ہو، اہل زمین کے لیے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چالیس دن تک بارش ہو"۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللهُ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيماً﴾
"(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور(دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا "(النساء، 4:105)
ولایہ اردن میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ اردن |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: http://www.hizb-ut-tahrir.info |
E-Mail: jordan_mo@hizb-ut-tahrir.info |