الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
امریکہ

ہجری تاریخ    16 من شـعبان 1445هـ شمارہ نمبر: 02 / 1445
عیسوی تاریخ     پیر, 26 فروری 2024 م

 

پریس ریلیز


شعلوں کی لپیٹ میں

 

(ترجمہ)

 

ویتنام جنگ کے دوران بدھ راہبوں کی طرف سے خود سوزی کی ایک ہولناک یاد تازہ کرتے ہوئے 26 فروری 2024 کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی فضائیہ کے ایک حاضر سروس رکن نے واشنگٹن ڈی سی میں 'اسرائیلی' سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی اور اعلان کیا، " میں اب نسل کشی میں ملوث نہیں رہوں گا۔ "شعلوں میں لپٹے ہوئے، اس نے بار بار بلند آواز سے کہا، "فلسطین کو آزاد کرو"، انصاف کے لیے ایک تکلیف دہ اور فکرمند پکار جو غزہ میں جاری نسل کشی میں امریکہ کے ملوث ہونے پر گہری اخلاقی پریشانی سے گونج رہی تھی۔ خود کو آگ لگانے کا یہ عمل اُن راہبوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے 1963 میں جنگ اور مصائب کی مخالفت میں اپنے آپ کو جلانے کا انتخاب کیا تھا۔ خود کو آگ لگانا محض جنگ کے خلاف احتجاج نہیں ہے، بلکہ یہ ان مظالم میں ملوث ہونے کے خلاف ایک پرزور پکار ہے جسے ایک حاضر سروس امریکی فوجی غزہ میں جاری نسل کشی میں شرکت کو مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

 

'اسرائیلی' فوج کی حمایت میں امریکی فضائیہ کی بھرپور مجرمانہ شرکت مکمل دستاویزی طور پر ثابت شدہ ہے۔ دی انٹرسیپٹ کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے بمباری کے اہداف کی نشاندہی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے نتیجے میں مرنے والوں  کی تعداد 30,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ خود کو آگ لگانے والا امریکی فضائیہ کا فوجی مسلسل نسل کشی میں امریکی فوج کے براہ راست ملوث ہونے سے بخوبی واقف تھا۔ صیہونی وجود کے سفارت خانے کے سامنے اس کا خود کو جلانا ایک ایسا عمل تھا جو پوری دنیا کے سامنے یہودی وجود کے مظالم کو واضح کرتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کی اپنی حکومت ان انسانیت سوز مظالم اور نسل کشی  کی پیسے اور ہتھیار فراہم کر کے حمایت کر رہی ہے بلکہ اس عمل کو مزید تقویت بخش رہی ہے۔

 

ان مظالم اور نسل کشی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا کردار فوجی حمایت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ امریکہ صہیونی وجودکو مسلسل بم اور گولہ بارود بھیج رہا ہے،  اور اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ یہ ہتھیار صیہونی وجود کی طرف سے اجتماعی سزا کی حکمت عملی کے تحت شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ معصوم جانوں کو نشانہ بنانے میں یہ تعاون اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح مغرب مسلمانوں کو سستے اثاثوں کے سوا کچھ نہیں سمجھتا جسے "ضمنی نقصان" (collateral damage) کے طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ امریکی مرکزی میڈیا کی جانب سے ان مظالم کی میڈیا کوریج کا طریقہ کار، یا اس کی کم کوریج بھی اتنی ہی تشویشناک ہے۔ ائیر مین کی خود سوزی پر بڑے خبر رساں اداروں کی خاموشی اور وسیع تناظر میں نسل کشی میں امریکہ کے ملوث ہونے کو نظر انداز کرنا، وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے ساتھ ان کے مکمل تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔ کوریج کی کمی امریکی عوام کے سامنے صورتحال کی حقیقت کو دھندلا دیتی ہے، جن میں سے بہت سے لوگ اس نسل کشی کے خلاف ہیں۔ عوامی مخالفت کے باوجود، بائیڈن انتظامیہ صیہونی وجود کی فوج کو ہتھیاروں کی فراہمی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے اقدامات کی مسلسل حفاظت کر رہی ہے۔

 

مسلم دنیا کی افواج کی خاموشی دل دہلا دینے والی ہے۔ نسل کشی میں ملوث ہونے کے خلاف موقف اختیار کرنے والے اس غیر مسلم سپاہی نے جس جرات مندانہ موقف کا مظاہرہ کیا، وہ مسلم فوجی رہنماؤں کی بے عملی سے بالکل متصادم ہے۔ اس سپاہی سے مسلمان سپاہیوں کو متاثر ہونا چاہیے جو کہ مذہب اسلام کا پابند نہیں  تھا اور نہ ہی جہاد کے اصول کو لے کر چل رہا تھا۔ اس سپاہی  نے بہادری اور اخلاقی قوت کا وہ درجہ دکھایا ہے جو مسلم افواج کے قائدین کیلئے باعث شرم ہے۔ اس کے اقدامات ایک گہری ناکامی کو نمایاں کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں ہمت کی کمی ہے جنہیں مظلوموں کا دفاع کرنے میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔ صرف خلافت کی سیاسی قیادت ہی فوجوں کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کے بجائے مسلمانوں کی عزت کے تحفظ کے لیے استعمال کرے گی۔

 

اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک غیر ملکی فوجی جس کا فلسطین کے لوگوں سے کوئی براہ راست مذہبی تعلق ہو اور  نہ ہی اُن کے حوالے سے اُس پر کوئی ذمہ داری ہو، اس جرأت اور اخلاقی دیانت کا مظاہرہ کرے جو مسلم افواج کے سربراہان نہیں کر رہے؟ یہ تضاد صرف اس بات کی ناکامی کو ظاہر نہیں کرتا کہ مسلم افواج عسکری طور پر جواب نہیں دے رہی ہیں بلکہ یہ تضاد مسلم فوج کی قیادت کی ناکامی کو واضح کرتا ہے۔  فلسطینی مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی پر ان لیڈروں کی خاموشی اور بے عملی نہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺسے غداری  ہے بلکہ ان کی بےشرمی نے اُن مردوں کی بہادری کے جوہر کو بھی مجروح کر دیا جو کہ مسلمان سپاہی کی خصوصیت ہے۔ دنیا اس امریکی ایئر مین کی ہمت کو ہماری اپنی خامیوں کی عکاسی کرنے والے آئینے کے طور پر پہچان سکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم افواج کے قائدین اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کرنے، مظلوموں کا دفاع کرنے اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے حقیقی جذبے کو ابھاریں۔

 

[وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا]

"اور تم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے، جس کے رہنے والے ظالم ہیں، نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما ۔"(النساء، 4:75)

 

امریکہ میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
امریکہ
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: +1 (202) 930-1924
www.hizb-america.org

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک