المكتب الإعــلامي
ولایہ بنگلادیش
ہجری تاریخ | 6 من شوال 1445هـ | شمارہ نمبر: 20 / 1445 |
عیسوی تاریخ | پیر, 15 اپریل 2024 م |
پریس ریلیز
دو امریکی طیاروں کا تل ابیب سے آ کر براہ راست ہمارے ملک میں اترنا یہودی وجود کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک بدترین نظیر کی حیثیت رکھتا ہے- اس کے ذریعے حسینہ حکومت کی اسلام اور مسلمانوں سے کی گئی غداریوں کا پردہ چاک ہو گیا ہے جو اس کی ستر پوشی کئے ہوئے تھا
بنگلہ دیش میں 28 رمضان 1445 ہجری۔ بمطابق 7 اپریل 2024ء اور عید الفطر کے بابرکت دن 11 اپریل 2024 کو، جب ملک کے لوگ تعطیل منا رہے تھے، تو دو کارگو لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے اور نیشنل ایئر کارگو انکارپوریشن امریکہ کے ذریعے رجسٹرڈ کردہ اور آپریٹ کردہ دو بوئنگ طیارے، اسرائیل میں تل ابیب کے گورین بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کرتے ہوئے ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال بین الاقوامی ہوائی اڈے پر نہایت خفیہ طریقے سے آ کر اترے۔ دونوں پروازیں تل ابیب سے براہ راست ڈھاکہ پہنچیں، جنہوں نے بنگلہ دیش سے روانگی کے بعد اپنا اگلا پڑاؤ متحدہ عرب امارات کے شارجہ ایئرپورٹ پر کیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات (جہاں فلائٹ نے سٹاپ اوور کیا تھا) اور بحرین نے حال ہی میں 'اسرائیل' کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کی دلالی سے منعقد ابراہم معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پہلی بار یہودی وجود کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے مسلم ممالک کی دہائیوں سے جاری ’اسرائیل‘ بائیکاٹ کی پالیسی کو ختم کر کے امت مسلمہ سے غداری کی ایک مثال قائم کر دی گئی تھی۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے بے چین حسینہ حکومت بھی عوام کو دھوکہ دے کر ان غدار عرب مسلم حکمرانوں کی صف میں شامل ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو فلسطین کے مسلمانوں پر ملعون یہودی افواج کی بربریت عالمی ضمیر کو جھنجھوڑے جا رہی ہے، دنیا بھر کے مسلمان مقدس سرزمین فلسطین اور الاقصیٰ کو آزاد کرانے کے لئے مسلم افواج کو بھیجنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور ماہ رمضان میں مسلمانوں کی اللہ عزوجل سے سب سے بڑی فریاد فلسطین کی آزادی ہے، تو دوسری جانب حسینہ حکومت کا اس ناپاک ریاست 'اسرائیل' کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا یہ اقدام ایسا ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
حسینہ وہ منافق حکمران ہے جس نے فلسطینی مسلمانوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہا کر ملک کے عوام کو گمراہ کیا ہے۔ اس نے حالیہ میونخ سیکورٹی کانفرنس میں فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کی مذمت کی اور کئی بار عوامی سطح پر 'اسرائیل' پر تنقید کی ہے، کہ 'اسرائیل فلسطین میں حقیقتا نسل کشی کر رہا ہے'۔ اس کے باوجود اس کی حکومت قابض یہودی وجود کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جہاں لوگ فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ملکی فوج بھیجنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں اس کی حکومت نے مجاہدین کے حملوں سے یہودی وجود کی حفاظت کے لئے ایک امن مشن کے تحت بنگلہ دیش کی بحریہ کے 75 ارکان کو لبنان بھیج دیا ہے-
اس سے پہلے حسینہ حکومت نے یہودی قابض وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے اقدام میں بنگلہ دیشی پاسپورٹ سے "سوائے اسرائیل" کے الفاظ ہٹا دیے تھے۔ جبکہ اسرائیلی نسل کشی میں اب تک 25 ہزار بچوں اور خواتین سمیت 33 ہزار فلسطینی مسلمانوں کی جانیں جا چکی ہیں تو حسینہ حکومت نے اسرائیلی طیاروں کو ملکی سرزمین پر اترنے کی اجازت دے کر اپنی غداری کے تیر سے مسلمانوں کے دلوں کو مزید زخمی کیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں سے غداری کے اس کے آخری شرمناک عمل نے اس کو مکمل بے نقاب کر دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے،
﴿قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُـؤۡفَكُوۡنَ﴾
"اللہ انہیں غارت کرے وہ کہاں بہکے پھرتے ہیں⸮" [سُوۡرَةُ المنَافِقون-4]
درحقیقت حسینہ کی حکومت بڑی بے شرمی سے امریکہ کی دو ریاستی پالیسی کے مطابق یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے عوام کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر خفیہ طور پر امریکہ کے ’اسرائیلی‘ طیاروں کو ملکی سرزمین پر اترنے کی اجازت دے کر تعلقات کو معمول پر لانے کا سنگ میل طے کیا اور اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ غداری کا راستہ اختیار کیا ہے۔
اب یہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان غدار حکمرانوں کو مسترد کر دیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے بدلے آخرت بیچ کر اللہ کا غضب کمایا ہے۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ قَدۡ يَٮِٕسُوۡا مِنَ الۡاٰخِرَةِ كَمَا يَٮِٕسَ الۡكُفَّارُ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡقُبُوۡرِ﴾
"اے ایمان والو! ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ کا غضب ہے وہ آخرت سے آس توڑ بیٹھے ہیں جیسے کافر آس توڑ بیٹھے قبر والوں سے" (سُوۡرَةُ المُمتَحنَة-13)
اے لوگو! ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ 18 مئی 1901ء کو برطانوی حمایت یافتہ صیہونی سوسائٹی کے نمائندے نے خلیفہ عبدالحمیدؒ کو فلسطینی زمین خریدنے کی تجویز پیش کی۔ جواب میں خلیفہ عبد الحمیدؒ نے کہا "میں فلسطین میں ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں، بلکہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے۔ میرے لوگوں نے اس سرزمین کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا ہے۔ یہودی اپنے لاکھوں اپنے پاس ہی رکھیں، اگر کسی دن خلافت ختم ہو گئی تو وہ فلسطین کو مفت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن میرے زندہ رہنے تک نہیں..."۔ امت مسلمہ نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح 1924ء میں خلافت کے انہدام کے بعد یہودیوں نے مغربی کفار استعمار کی مدد سے فلسطین کی مقدس سرزمین پر قابض ہو کر امت مسلمہ پر مسلط سیکولر ایجنٹ حکمرانوں کی خاموشی کو تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ اس مقدس سرزمین سے جڑے ہوئے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بھی اب تک جاری ہے اور مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجد الاقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی کا بھی۔
اس لئے فلسطین کو آزاد کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امت مسلمہ حزب التحریر کے ساتھ دوبارہ خلافت کے قیام کی سیاسی جدوجہد میں متحد ہو جائے اور اپنے ان بیٹوں کو، جو فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کو متحرک کریں کہ وہ حزب التحریر کو خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے نصرت دیں۔ جو کہ جہاد کے ذریعے فلسطین کو آزاد کرائے گی، ان شاء اللہ۔
فرمان الٰہی ہے،
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اور اُس روز مومن خوش ہو جائیں گے (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے"
(الروم؛ 30:4-5)۔
ولایہ بنگلہ دیش میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ بنگلادیش |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.khilafat.org |
E-Mail: media@hizb-ut-tahrir.info |