المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 12 من شـعبان 1439هـ | شمارہ نمبر: PR18030 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 28 اپریل 2018 م |
بجٹ 19-2018 خلافت کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے:
- استعماری سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ایک اور بجٹ صرف ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا
کل بروز جمعہ 27 اپریل 2018 کو پاکستان مسلم لیگ-ن کی حکومت نے مالیاتی سال 19-2018کا بجٹ پیش کیا جو اس حکو مت کا آخری بجٹ ہے۔ بجٹ کے مواد اور اس سے متعلق ہونے والی سیاست سے یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ فکری طور پر دیوالیہ ہے۔ ایک طرف حکومت نے ووٹ جیتنے کے لیے کچھ ٹیکسوں میں کٹوتی کی لیکن اس کے ساتھ ہی پیٹرولیم کی مصنوعات پر لگائے جانے والے والے بل واسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ٹیکس میں زبردست اضافہ بھی کردیا جو بجلی کی قیمت اور اشیاء کی نقل و حمل کی لاگت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اور دوسری جانب کسی نظریاتی متبادل سے محروم حزب اختلاف نے اپنی توجہ اس بات پر مرکوز رکھی کہ ایک غیرمنتخب وزیر پورے سال کا بجٹ پیش کررہا ہے جبکہ اس کی حکومت کی میعاد ایک مہینے بعد ختم ہورہی ہے۔ حکمران اور حزب اختلاف دونوں ہی کبھی بھی پاکستان کی معاشی مشکلات کو ختم نہیں کرسکتے کیونکہ یہ دونوں ہی سرمایہ دارانہ نظام کے داعی اور وفادار ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہوا ہے کہ وفاقی محاصل کا 28.6فیصد قرضوں اور اس پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجائیں گے۔ لہٰذا استعماری مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کی معیشت کاخون نچوڑا جارہا ہے اور ان اداروں کی جانب سے عائد کی گئی ایسی شرائط پر عمل کیاجاتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کبھی بھی سرمایہ دارانہ استعماری طاقتوں کے چنگل سے نکل ہی نہ سکے۔ اس سرمایہ درانہ نظام نے پاکستان کی کرنسی کو ڈالر کے ساتھ منسلک کیا ہوا ہے جس کے ذریعے مقامی پیداواری شعبوں کو برآمدات پر توجہ مرکوز کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تا کہ زرمبادلہ کمایا جائے اور اس طرح مقامی وسائل کو بیرونی مارکیٹوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داریت میں نجکاری کے ذریعے نجی کمپنیوں کو ایسی صنعتوں کی ملکیت دے دی جاتی ہے جہاں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے جیسا کہ بڑے پیمانے پر تعمیرات، بھاری صنعتیں ، معدنیات اور توانائی کے شعبے۔ اس طرح ریاست کے خزانے کوان بھاری وسائل سے محروم کردیا جاتا ہے جو ان شعبوں کی پیداوار ہیں اور جنہیں لوگوں کے امور کی دیکھ بحال کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ استعماری کمپنیاں بھی ہیں جو اب پاکستان کے اہم وسائل اور اثاثوں کی مالک بن گئی ہیں جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ وفاقی طرز کا نظا م حکومت بھی پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہ برطانوی راج کا چھوڑا ہوا نظام ہے جہاں سیاسی طاقت کے مراکز مراعات یافتہ جبکہ دوسرے علاقے محروم ہیں۔ وفاقی محاصل میں سے صوبوں کو فراہم کیے جانے والے وسائل مسلسل صوبوں اور مرکز کی سیاسی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی اور تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا جنوبی پنجاب کے مسلمان شمالی پنجاب کے مقابلے میں پیچھے ہیں جو کہ پاکستان مسلم لیگ-ن کا گڑھ ہے۔ سندھ کے مسلمان صاف پانی ، صفائی اور بجلی سے محروم ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کی اکثریت معیاری تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقعوں سے محروم ہے جبکہ ان کے صوبائی دارالحکومت بس تھوڑے سے ہی بہتر ہیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
موجودہ نظام اور اس کےتحت پیش کیے جانے والے کسی بھی بجٹ سے کوئی امید نہیں لگائی جاسکتی۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے جو استعماری طاقتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو اپنی گرفت میں رکھیں تا کہ پاکستان اپنی صلاحیت کے مطابق کبھی ترقی نہ کرسکے۔ ہمیں لازمی اپنے دین کی جانب رجوع کرنا ہے تا کہ ہم اپنی خوشحالی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کو یقینی بناسکیں۔ یہ ہمارا دین ہے جس کے پاس ایک منفرد معاشی زاویہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ شہریوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالے بغیر ریاست کے لیے زیادہ سے زیادہ محاصل حاصل کیے جائیں۔ اسلام منفرد طریقے سے اثاثوں کی ملکیت کو تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے: نجی ملکیت، ریاستی ملکیت اور عوامی ملکیت۔ توانائی کے وسائل جیسا کہ تیل، گیس اور بجلی کو اسلام نے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ عوامی اثاثوں کی نہ تو نجکاری کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسے ریاستی ملکیت میں لیاجاسکتا ہے۔ لہٰذا ان سے حاصل ہونے والے زبردست محاصل کو ریاست کی نگرانی میں لازمی لوگوں کے امور پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ کمپنی ڈھانچے سے متعلق اسلام کےاحکام نجی کمپنیوں کی مالیاتی استعداد کو محدود کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ معیشت کے ان شعبوں میں مرکزی کردار ادا نہیں کرسکتیں جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ ریلویز، ایوی ایشن، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ۔ لہٰذا ریاست ان شعبوں میں بڑا کردار ادا کرتی ہے اور ریاست کے خزانے کے لیے بڑے پیمانے پرمحاصل حاصل کرتی ہے۔ اسلام نے سونے اور چاندی کو ہی کرنسی قرار دیا ہے جن کی اپنی ایک قدر اور قیمت ہوتی ہے اور اس طرح بین الاقوامی تجارت اور مقامی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اسلام لازمی قرار دیتا ہے کہ ریاست کا ایک ہی مرکزی ڈھانچہ ہو جہاں تمام علاقوں پر والیوں اور عاملوں کے ذریعے خلیفہ کا ہی اقتدار اور اختیار ہو۔ مختلف علاقوں کے لیےوسائل مجلس امت اور ولایہ کونسلز کی مشاورت سے ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مختص کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کونسلز مشاورتی ڈھانچے ہیں اور اختیار صرف خلیفہ کا ہی ہوتا ہے اس لیے سیاسی کھینچا تانی اور اندرونی لڑائی نہیں ہوتی ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
ناکام سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کردیں جس نے ایک بار پھر ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جو ہماری مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا۔ ہم پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ انتخابات کے بعد جو بھی اس نظام میں داخل ہوگا اس کو استعماری طاقتوں کی جانب سےیہی ذمہ داری دی جائے گی کہ وہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت میں مزید سوراخ کرے۔ اور پھر ان کے اقتدار کے کچھ ہی عرصے بعد ہم انہیں بھی کوس رہے ہوں گے۔ ہمیں ایک بار پھر ڈسے جانے سے بچنا چاہیے اور نبوت کے منہج پرخلافت کے قیام کی جدوجہد میں پوری سنجیدگی کے ساتھ حزب التحریر کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسلام پر سختی سے عمل کرکے خلافت نے صدیوں تک مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے معاشی مفادات کی بہترین طریقے سے نگہبانی کی تھی۔ تو آئیں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام سے منہ موڑ لیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر مبنی حکمرانی کی جانب ایک بار پھر لوٹ جائیں۔
أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
“بھلا جس (اللہ)نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے”(الملک:14)
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |