المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 21 من محرم 1440هـ | شمارہ نمبر: PR18062 |
عیسوی تاریخ | پیر, 01 اکتوبر 2018 م |
مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کی جانب سے طاقت کے زور پر قبضہ کیا گیا
اور اس کو آزاد بھی صرف افواج پاکستان کی طاقت اور جہاد کے ذریعے ہی کرایا جاسکتا ہے
27 ستمبر 2018 کو الجزیرہ ٹی وی کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے دیے گئے انٹرویو کے بعدپچھلے کچھ دنوں میں ایک بحث چل نکلی ہے۔ اس انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے کہا کہ "جنگ کوئی حل (آپشن) نہیں ہے ۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ صرف بات چیت ہی حل ہے"۔ حالیہ چند ہفتوں میں امریکا کے حکم اور حوصلہ افزائی پر پاکستان کے غدار حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر سے غداری پر مبنی حل کو نافذکرنے کے لیے پاکستان میں رائے عامہ کی تیاری کی مہم میں اضافہ کردیا ہے۔ اس مہم کے ذریعے یہ غلط تاثر پاکستان کے مسلمانوں کو دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی ریاست مقبوضہ کشمیر کو ہندو قبضے کے شکنجے سے چھڑانے کی طاقت اور صلاحیت نہیں رکھتی۔ یقیناً اس مہم کے ذریعے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے مغربی افکار اور مغرب کی جانب سے ہمارے مسائل کے لیےپیش کیے جانے والے حل سے اپنی وفاداری کوثابت کردیا ہے، وہ افکار اور حل جو مغرب ان حکمرانوں کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے کے لیے دیتا ہے ۔ یہ حکمران طوطے کی طرح اپنے مغربی آقاوں کے پیش کردہ حل ہمارے سامنے دہرانا شروع کردیتے ہیں اور کشمیر کی وادی کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کی اپنی ذمے داری سے غفلت برتنے پر بہانے اور توجیحات پیش کرتے ہیں جبکہ وادی کے مسلمان انتہائی محدود وسائل کے باوجود ہندو قبضے کے خلاف سیاسی و عسکری جدوجہد کررہے ہیں اور اس جدوجہد میں برہان وانی کی شہادت کے بعد زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔
پاکستان کے حکمران کشمیری مزاحمت کو ہتھیار فراہم کرنے سے انکار ی ہیں جو کہ سات دہائیوں کے قبضے کے باوجود اتنی وسعت اور طاقت حاصل کرچکی ہے کہ قابض ہندو افواج اس کی وجہ سے شدید پریشانی اورمایوسی کا شکار ہیں۔ یہ حکمران کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو ہتھیار اس لیے فراہم نہیں کرتے کیونکہ یہ امریکا کے احکامات پر چلتے ہیں جس نے اس مزاحمت کو "دہشت گردی" قرارد یا ہوا ہے۔ یہ حکمران اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ "بین الاقوامی برادری" ناراض نہ ہوجائے جس کوکشمیر کے مسئلے کوحل کرنے کے حوالے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے ۔" بین الاقوامی برادری "کی کشمیر کے مسئلے کے حل سے عدم دلچسپی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے کشمیر کے مسئلےکے حل کے لیے منظور ہونے والی قراردادیں اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے باب 6 کے تحت منظور کی گئی ہیں جن پر عمل درآمد سیکورٹی کونسل پر لازم نہیں۔ جن معاملات پر سیکورٹی کونسل حرکت میں آنے کے لیے سنجیدہ ہوتی ہے تو ان کے حوالے سے قراردادوں کو اقوام ِ متحدہ کےباب 7 کے تحت منظور کرتی ہے کیونکہ باب 7 کے تحت منظور قراردوں پر عمل درآمد لازم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ان نمائشی قراردادوں کوایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہ اس مسئلہ کو حل کروانے کی طاقت رکھتیں ہیں ۔ درحقیقت ان قراردادوں کی وقت ردی کے کاغذ سے زیادہ نہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ أَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ أَنْ يَّتَحَاكَمُوْا إِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ أُمِرُوْا أَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖۗ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ أَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًا بَعِيْدًا
" کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش (طاغوت)کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے "(النساء:60)۔
جنگ پاکستان کی حکمرانی اشرافیہ کے لیے کوئی حل(آپشن) نہیں ہوسکتا اس لیےکہ انہوں نے ویسٹ فیلیا کے قومی ریاست کے تصور کو دل سے لگا رکھا ہے جو انہیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کرلیں کیونکہ مقبوضہ کشمیر برطانوی استعمار کی جانب سے بنائی گئی سرحد کے دوسری جانب واقع ہے۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر سری نگر لاہور ہوتا یا لاہور سری نگر ہوتا تو کیا پھر بھی جنگ کوئی حل یا آپشن نہیں ہوتا؟ کیا کشمیر کےمسلمانوں کی عزت و حرمت کی پامالی اس لیے قابل قبول ہے کیونکہ وہ سرحد کی دوسری جانب رہتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا مِنْ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ وَمَا مِنْ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ
" کوئی مسلمان کسی مسلمان کو اُس جگہ تنہا نہیں چھوڑتا جہاں اس کی حرمت کو پامال اور اس کی عزت پر حملہ کیا جائے سوائے اس کے کہ اللہ اُسے اُس جگہ تنہا چھوڑ دے جہاں اُسے مدد کی ضرورت ہو؛ اور جو مسلمان کسی مسلمان کی اس جگہ مدد کرے جہاں اس کی حرمت اور اس کی عزت پر حملہ کیا جائے تو اللہ اُس کی اُس جگہ مدد فرماتے ہیں جہاں اُسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے" (ابو داود)۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیےجنگ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے لیے کوئی حل یا آپشن نہیں ہے لیکن اگر بات خطے میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امریکی قبضے کوبرقرار رکھنے کے امریکی مفادات کو حاصل کرنے کی آجائے تو ان حکمرانوں کے لیے جنگ ایک حل اورآپشن ہے۔ پھر ہمارے ٹینک، لڑاکا طیارے اور توپ خانے حرکت میں آجاتے ہیں اور ہمارے فوجیوں کا خون فتنے کی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ یہ سب کچھ پاکستان اور اس کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
باجوہ-عمران حکومت ہندو ریاست کے ساتھ "نارملائزیشن" کے نتیجے میں معاشی خوشحالی کے جھوٹے خواب دیکھا کر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔ یہ حکمران ہمیں اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہم معاشی فوائد کے لیے کشمیر کے مسلمانوں کےخون کا سودا کرلیں۔ یہ دلیل پیش کر کے اس حکومت نے پاکستان کے مسلمانوں کی توہین کی ہے جنہوں نے بار باراسلامی عقیدے سےاپنی والہانہ محبت اور لگاؤ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے محبت کا مظاہرہ کیا ہے اورجو دنیاوی مفاد کے مقابلے میں مسلم اخوت اور بھائی چارے کو فوقیت دیتےہیں۔ ہندو ریاست کو نارملائزیشن کی دعوت دے کر یہ حکومت ہمارے آباؤاجداد کی ذہانت اور جدوجہد کی توہین کر رہی ہے جنہوں نے ظالم ہندوکی حکمرانی میں رہنے کو مسترد کردیا تھا اور مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ کیا تھا۔ معاشی خوشحالی کا دعوی ایک سراب ہے۔ یورپی یونین جو کہ یورپی اقوام پر مشتمل ایک معاشی یونین ہے جن کے درمیان عیسائی اور یہودی تہذیب،جمہوریت اور سرمایہ داریت کے افکار مشترک ہیں لیکن اس کے باوجود آج یہ یونین زوال پذیر ہے، تو پھر ہم یہ کیسے تصور کرسکتے ہیں کہ ہندو ریاست جو کہ کفر کی بنیاد پرحکمرانی پر قائم ہے وہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہے جبکہ پاکستان کے مسلمان اسلام کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟ اس خطے میں امن اور خوشحالی صرف اور صرف اسی صورت میں آئے گی جب ایک بار پھر بر صغیر میں اسلام کی بالادستی کو بحال کردیا جائے جیسا کہ صدیوں تک اس سے پہلے یہ صورتحال رہی تھی۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
"تبدیلی" کے نام پر آنے والے حکمران کسی بھی طرح پچھلے حکمرانوں سے مختلف نہیں اور ہندو ریاست کے سامنے جھکنے میں انہی کی طرح کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ آپ فوراً حرکت میں آئیں اور پاکستان میں نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کی جدوجہد کا حصہ بن جائیں جو حقیقی تبدیلی کی ضامن ہے۔ مسلمانوں کی خلافت امن کے حوالے سے اسلام کے تصور کو نافذ کرے گی جس کے لیے ضروری ہے کہ طاقت و اختیار انصاف پسند امت کے ہاتھ میں ہو جو اس خطے اوردنیا پر اسلام کے قوانین کے تحت حکمرانی کرے۔ یقیناً برصغیر امن اور خوشحالی کے اس تصور سے اجنبی نہیں ہے کیونکہ صدیوں تک اس پر اسلام کے تحت حکمرانی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی خلافت بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی اداروں اور ویسٹ فیلیا کے قومی ریاست کے تصور کو رد کرتے ہوئےآپ کی دنیا اور آخرت میں عزت اور وقار کی طرف قیادت کرے گی اور کشمیر کی آزادی کے لیے افواج پاکستان کے ذریعے منظم جہاد کرے گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کرخلافت غزوہ ہند کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی بشارت کوپورا کرنے کے لیے اس خطے کے مسلمانوں کی قیادت کرے گی۔ ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ،
وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ﷺ) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ
"اللہ کے رسول ﷺنے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا۔ اگر میں نے وہ زمانہ پالیا تو میں اس کے لئےاپنی جان اور مال لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء کی صحبت میں ہوں گا اور اگر میں زندہ واپس آیا تو میں (گناہوں سے)آزادابو ہریرہ ہوں گا"(احمد، نسائی، الحاکم)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |