المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 21 من ذي الحجة 1442هـ | شمارہ نمبر: 93 / 1442 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 31 جولائی 2021 م |
پریس ریلیز
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جی ڈی پی (GDP) اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے لیکن عوام کی حالت بد سے بدتر جبکہ پائیدار اور مستحکم ترقی کی منزل خواب ہی رہتی ہے
28جولائی2021 کو وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزی ونگ نے جولائی میں پاکستان کی معاشی حالت کے متعلق اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ،" زیادہ جی ڈی پی کی جانب جاتے ہوئے بیرونی کھاتوں(کرنٹ اکاونٹ) پر دباؤ بڑھ سکتا ہے ، جس پر قریبی نگرانی رکھنے کی ضرورت ہےتاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ماضی کی طرح کسی بھی معاشی عدم توازن کے بغیر ترقی کی نئی حکمت عملی پائیدار رہے۔" اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا علی باقر نے کہا کہ "اچھی توقعات موجود ہیں کہ پاکستان میں پچھلی کئی ترقیوں کے برعکس موجودہ معاشی بحالی کے ساتھ بیرونی استحکام بھی ہوگا۔"
پچھلے چند ماہ سے حکومت جی ڈی پی میں اضافے کو اپنی زبردست کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہے اور یہ دعویٰ کررہی ہے کہ مشکل دنوں کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اب آنے والے دن ملک اور عوام کے لیے معاشی خوشحالی لائیں گے۔ لیکن اس وقتی جی ڈی پی کے اضافے کے گھن چکر سے پاکستان کے لوگ کئی بار گزر چکے ہیں۔ کیونکہ ماضی کی طرح اس بار بھی جی ڈی پی کے اضافے کے ساتھ تجارتی خسارےاور کرنٹ اکاونٹ کے توازن میں خسارے کاسلسلہ بھی ساتھ ہی شروع ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں چند سال بعد ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں پر 2018 میں کھڑے تھے جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تھی اور اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ گیا۔
اگر ہم پاکستان کے 74 سال کا جائزہ نہ بھی لیں اور صرف پچھلے 21 سال کا ہی تجزیہ کرلیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جانے والی حکومت آنے والی حکومت کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن میں زبردست خسارہ چھوڑ کر جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے، نئے ٹیکسوں اور ایسی تجارتی پالیسیوں کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے جس کی وجہ سے پیداواری یونٹ چلانے اور نئی پیداواری یونٹ لگانے کے لیے درآمدات پر انحصار باقی رہتا ہے۔ جب صورتحال اس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ پاکستان بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہو تو آئی ایم ایف سے قرض مانگا جاتا ہے۔آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن کے خسارے میں یا تو کمی آجاتی ہے یا وہ ختم ہوجاتا ہے لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف ایسی پالیسیاں بھی نافذ کرواتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کبھی بھی اپنی ضروریات کو ملکی پیداوار کے ذریعے حاصل نہیں کرپاتا، اور اس طرح یہ شیطانی چکر چلتا رہتا ہے۔ یہی حال اس وقت بھی ہے کیونکہ تیل اور اس سے تیار کردہ مصنوعات، گیس، کیمیکلز، مشینری، یہاں تک کہ دنیا کے دس بڑے زرعی ملکوں میں شامل ہونے کے باوجود گندم، چینی، کپاس، خوردنی تیل، دالیں بھی درآمد کرنی پڑرہی ہیں۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ جی ڈی پی میں اضافہ ماضی کی طرح پائیدار ثابت نہیں ہوگا۔
جب تک پاکستان سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو خیر باد کہہ کر اسلام کے معاشی نظام کو نہیں اپنائے گا کبھی بھی پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی کی منزل کو حاصل نہیں کرسکے گا۔ اسلام کے معاشی نظام میں بجلی ، گیس، اور تیل عوامی ملکیت ہوتی ہے اور ریاست ان کا انتظام چلاتی ہے جس کی وجہ سے یہ انتہائی مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گے کیونکہ درمیان میں ریفائنریز، مارکیٹنگ کمپنیوں، سپلائرز کے منافع اور کمیشن نہیں ہوں گے ۔ اسلام کے معاشی نظام میں انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ایکسائز ٹیکس اور ان جیسے تمام غیر شرعی ٹیکس نہیں ہوتے۔ اس طرح پیداواری لاگت میں زبردست کمی آتی ہے اور مقامی طور پر پیداواری یونٹ لگانے اور پیداوار بڑھانے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ملک حقیقی ، پائیدار اور مستحکم ترقی کی منزل حاصل کرتا ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیے پاکستان میں نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام بہت ضروری ہے کیونکہ خلافت میں انسان معاشی نظام، پالیسیاں اور قوانین نہیں بناتے بلکہ صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کئے گئے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں ۔
وَعَسٰۤىاَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡۚ وَعَسٰۤى اَنۡتُحِبُّوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُوَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
"عجبنہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیںکہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور (ان باتوں کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"(البقرۃ، 2:216)
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |