بسم الله الرحمن الرحيم
متحدہ عرب امارات اور بحرین فلسطین سے سنگین غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے آج یہودی ریاست کے ساتھ معاہدہ کررہے ہیں
وہ فلسطین جورسول اللہ ﷺ کا مقامِ اسراء و معراج ہے۔۔۔ ان غداروں کو اللہ اور اسکے رسول اللہ ﷺ اور ایمان والوں کا کوئی خوف نہیں ہے
'فرانس 24'چینل نے کل 14 ستمبر 2020 ءکو خبر نشر کی کہ: "منگل کو مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی جائے گی، جب متحدہ عرب امارات اور بحرین، واشنگٹن میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔۔۔۔یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں دستخط کی تقریب کے نگران ہوں گے۔۔۔ان کے ساتھ دو نوں خلیجی ممالک کے وزرائے خارجہ ہوں گے جو ڈیل پر دستخط کریں گے"۔ تو آج ، بروز منگل، متحدہ عرب امارات اور بحرین، اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ اور ایمان والوں سے بے خوف ہو کر،سیاہ دارالحکومت واشنگٹن میں رسول اللہ ﷺ کے مقام ِاسراء و معراج سے دستبردار ی کے غدارانہ معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں! اس طرح یہ انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں جو غداریوں میں ان جیسے ہیں یعنی مصر کی حکومت جس نے کیمپ ڈیوڈ میں ایک ایسا معاہدہ کیا،پی ایل او کہ جس نے اوسلو میں یہی عمل دوہرایا، اور وادی عربہ میں اردن کی حکومت!
مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ان معاہدوں پر دستخط کر نے سے قبل بھی یہودی ریاست کے ساتھ خفیہ طور پر تعلق قائم کر رکھے تھے مگر وہ محتاط تھےاور اس تعلق پر پردہ ڈالتے تھے بلکہ اسے شرمناک سمجھتے ہوئے پسِ پردہ یہودی ریاست کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر جب یہ پردہ ہٹ گیا تو اب تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان "قابلِ فخر بات"بن گئی ہے، اور انہوں نے کسی ذلت یا بے شرمی کے احساس کےبغیر اس معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم تذلیل اور بے عزتی تو ان کا مقدر بنے گی چاہے وہ اس کا اقرار کریں یا انکار کریں کیونکہ یہ تذلیل ہر اُس غدار کا مقدر بنتی ہے جو اپنے دین اور امت کے خلاف بڑےجرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ﴾
"جو لوگ جرم کرتے ہیں ان کو اللہ کے ہاں ذلّت اور عذابِ شدید ہوگا اس لیے کہ مکّاریاں کرتے تھے"(الانعام، 6:124)۔
جو ہو رہا ہے وہ ایک عظیم گناہ ہے ۔ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل امت اور اس کی افواج کے سامنے پورے زور و شور سے جاری ہے! اور مسلم افواج ان غداروں کو تہہ و بالا کر دینے اور اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لیے حرکت میں نہیں آرہیں! اور وہ مسلم ممالک جنھوں نے اب تک یہودی وجود کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں، وہ دستخط کرنے والے ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ، جیسا کہ عمان میزبان ہے اور یہودی ریاست بھی اس کی میزبانی کرتی ہے ، اور قطر یہودیوں اور غزہ کے مابین غیر جانبدار ثالث بنا ہواہے! دو مقدس مساجد (الحرمین) پر موجود سعودی حکومت نے اپنی فضائی حدود اِس انسانیت سوز ریاست کے جنگی طیاروں کے لیے کھول دی ہیں جس نے مسلمانوں کےتیسرے مقدس مقام القدس پر قبضہ کیا ہوا ہے!! اورپھر ترک حکومت ہے جو فلسطین پر قبضہ کرنے والی یہودی ریاست کے وجود کو تسلیم کرتی ہے! اور اب تعلقات کو معمول پر لانے کےگناہ کا عمل توایسے ہورہا ہے کہ جیسے یہ دو بھائیوں کے درمیان ایک معمولی معاملہ ہے اور ان کے درمیان جو اختلاف ہے وہ محض سرحدوں کی حد بندی کا ہے اور وہ بھی کچھ زیادہ بڑا نہیں !!
اے مسلمانو!
فلسطین ایک مقدس زمین ہے، یہ بیت المقدس اور نبی ﷺ کےاسراء و معراج کی سرزمین ہے۔ اگرچہ مسلمانوں پر "رُویبِضۃ" (جاہل) حکمران مسلط ہیں جو اللہ مالکِ کائنات کی اطاعت نہیں کرتے بلکہ استعماری کفار کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے دل بدستور فلسطین سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسطین اور اس کا القدس، غدار حکمرانوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔ ان غدار حکمرانوں کا قابض یہودی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا اُس دن تک کے لیےاِن کے سروں پر ذلت اور رسوائی کا تاج ہے کہ جس دن کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ،جب مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں گے،جس کے بعد فلسطین ایک بار پھر اس کے اپنے لوگوں کےہاتھوں میں ہوگا، اور کیا ہی یادگار وہ دن ہوگا جب فلسطین کی فضائیں مسلم افواج کے تکبیر کے نعروں سے گونج رہی ہوں گی۔ یقیناً نبیٔ صادق ﷺ کی جانب سے یہ ایک سچا وعدہ ہے:
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ، حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ»
"تم یہود سےلڑو گے اور انہیں اتنا قتل کرو گے کہ خوف کے مارے، یہودی یہ گمان کریں گے کہ پتھر بھی بول رہے ہیں: اے مسلمان! یہ یہودی ہے ،آ ؤاور اسے مار ڈالو"(مسلم)۔
اے مسلمانو!
مسلم دنیا میں موجود فوجی تمہارے بیٹے ہیں، تمہارے بھائی ہیں اور تم میں سے ہیں۔ ان میں مخلص لوگ موجود ہیں، لہٰذا ان کی بصیرت کو قولِ حق سے منور کردو اور انہیں فلسطین کو یہودی وجود سے آزاد کرانے پر آمادہ کرو جس نے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے ،جو فساد پھیلاتا ہے اورجس نے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مدد سے فلسطین کی زمین میں شر پھیلا رکھا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اس سے لڑنا چاہیے لیکن وہ اسے تحفظ فراہم کررہے ہیں!اگر مسلم دنیا کےحکمران یہودی وجود کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو وہ اتنے سال برقرار نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ یہود کسی کی مدد کے بغیر مسلمانوں کے ساتھ حقیقی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے:
﴿لَن يَضُرُّوكُمْ إِلاَّ أَذًى وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأَدُبَارَ ثُمَّ لاَ يُنصَرُونَ﴾
"اور یہ تمہیں معمولی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر انہیں (کہیں سے)مدد بھی نہیں ملے گی"(آل عمران،3:111)۔
یہ ہے ان یہود کی حقیقت، اور یہ ہے ان کا معاملہ ہے، لیکن ان سے لڑنے اور انہیں ہمارے گھروں سے باہر نکالنے کی بجائے مسلم دنیا کے حکمران ان سے تعلقات قائم کررہے ہیں۔اللہ العزیز الحکیم نے تو یہ فرمایاہے،
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے ،وہاں سے تم بھی انہیں نکال دو"(البقرۃ، 2:191)۔
لیکن یہ جابر حکمران یہود کے قبضے کو مستحکم کررہے ہیں!
﴿قَاتَلَهُمُ اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
"اللہ انہیں ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں "(المنافقون، 62:4)۔
اے مسلمانو!
یہ معاملہ اسی طرح حل ہوگا جیسا کہ یہ پہلے حل ہوا تھایعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی اور افواج کی پیش قدمی کے ذریعے، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمنوں کو لرزا دیں۔ اور یہ نہیں ہوسکتا ماسوائے کہ ایک بارپھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت راشدہ کوبحال کیا جائے۔ تو پھر وہ خلافت یہود ی وجود کو جڑ سے اکھاڑ دے گی جو ستر سال سے زائد عرصے سے فلسطین کی بابرکت سرزمین کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ تب فلسطین مکمل طور پر اسلام کی سرزمین بن جائے گا،نبوت کے نقشِ قدم پر قائم پیاری ریاست میں ایک پیارا علاقہ۔۔۔اور اللہ کے اذن سے ایسا ضرور ہوگا ،اس کا ہونا چار مضبوط دلائل سے ثابت ہے:
پہلا: مسلم امت بہترین امت ہے جو انسانیت کے لیے کھڑی کی گئی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾
"تم امتوں (قوموں)میں سے سب سے بہتر امت ہو،جسے انسانیت کے لیے کھڑا کیا گیا ہے"(آل عمران، 3:110)۔
اس حال پر موجودامت ناانصافی کو برداشت نہیں کرے گی، لہٰذا وہ اپنے القدس کو نہیں بھولے گی ، چاہے جابر جو بھی کر لیں بلکہ انہیں اپنے پیروں تلے کچل دے گی۔۔۔
دوسرا: اللہ کی طرف سے امت کوزمین کی حکمرانی کا وعدہ،
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ﴾
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں زمین پر حاکم بنادےگا"(النور، 24:55)۔
اور رسول اللہ ﷺ کی جانب سے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کی واپسی کی بشارت،
«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»
"اور پھر خلافت ہو گی نبوت کے نقش قدم پر"(احمد)۔
تیسرا: نبی ٔ صادق ﷺ کی یہود سے لڑائی کرنے اور انہیں قتل کرنے سے متعلق حدیث،
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ، حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ
"تم یہود سے لڑو گے اور انہیں اتنا قتل کرو گے کہ مارے ڈر کے یہودی یہ گمان کریں گے کہ پتھر بھی بول رہے ہیں: اے مسلمان! یہ یہودی ہے آ اور اسے مار ڈال"(مسلم)۔
چوتھا: ایک مخلص اور وفادار جماعت، جو اللہ کے اذن سے، اللہ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ وہ لیڈرشِپ ہے جو امت سے ،جو اس کے اپنے لوگ ہیں، جھوٹ نہیں بو لتی؛اور گہری بصیرت کی حامل ہے۔یہ اُس خیر کی جانب امت کی رہنمائی کرتی ہے جو اس کی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرے گی،اسے دونوں جہانوں میں کامیابی سے ہمکنار کرے گی اور ایمان والوں کو خوش خبری سنائے گی ۔
اور وہ امت جس کے پاس مددونصرت کےاسباب موجود ہیں، اللہ کے اذن سے ضرور اپنی خلافت قائم کرے گی اور القدس کو آزاد کرائے گی اور جابروں اور ان کے آقاؤں اور مددگاروں کی جڑ کاٹ دے گی ۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے "(الروم، 5-4)
ہجری تاریخ :27 من محرم 1442هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 15 ستمبر 2020م
حزب التحرير