المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 28 من صـفر الخير 1445هـ | شمارہ نمبر: 1445 AH / 002 |
عیسوی تاریخ | منگل, 15 اگست 2023 م |
پریس ریلیز
تیونس سے غیر قانونی ہجرت اور یورپی امداد کے بدلے ٹھوس اقدامات!!
(ترجمہ)
ایف ٹی ڈیز ویب سائٹنے 31 جولائی سال 2023پر مندرجہ ذیل اعدادوشمار پیش کیے گئے:
- - تیونس کے ساحلوں پرغیر قانونی نقل مکانی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں اور لاپتہ افراد کی تعداد 903 تک پہنچ گئی۔
- - تارکین وطن (تیونسی اور غیر تیونسی شہری )تیونس کے ساحلوں کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد:35143
- - اطالوی ساحلوں پر پہنچنے والے تیونسی کم عمر بچوں کی تعداد:1526
- - اطالوی ساحلوں پر پہنچنے والی تیونسی تارکین وطن خواتین کی تعداد: 379
تیونس کے فورم فار اکنامک اینڈ سوشل رائٹس نے ایک رپورٹ میں یہ اعداد و شمار فراہم کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اعداد و شمار حتمی اور درست نہیں ہیں۔ تارکین وطن کی تعداد "غیر مامعمولی" ہے جو مقامی حکام یا بین الاقوامی ڈھانچے سے گزرے بغیر مختلف راستوں سے یورپ پہنچتے ہیں اور یہ تعداد کسی بھی اعداد و شمار میں ظاہر نہیں ہوتی۔ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور تارکین وطن کی سمگلنگ نیٹ ورکس کی حکمت عملی کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح ان میں تیونس کے ساحلوں سے روانگی کے اور بھی واقعات شامل ہیں جو یا تو حفاظتی نگرانی سے فرار کی کوشش کرتے ہیں اور روک دیے جاتے ہیں اور یہ اعداد و شمار بھی ظاہر نہیں کیے جاتے ہیں۔
چند روز قبل انسا (اطالوی خبر رساں ایجنسی) کے مطابق، زندہ بچ جانے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے، سانحہ کی تصدیق کی گئی کہ اطالوی جزیرے Lampedusa ساحل پر ایک او کشتی ر ڈوبنے کے واقعے میں 41 تارکین وطن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایجنسی نے نوٹ کہ واقعے میں بچ جانے والے چار افراد نے امدادی کارکنوں کو بتایا کہ وہ ایک کشتی پر سوار تھے جو تیونس کے شہر سفیکس سے روانہ ہوئی تھی اور اطالوی ساحلوں پر جاتے ہوئے ڈوب گئی۔ تارکین وطن مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے تیونس کا شہر سفیکس ایک بڑا ٹرانزٹ پوائنٹ بن گیا ہے، جس کی وجہ لیمپیڈوسا سے قربت ہے جہاں ڈوبنے کا حالیہ واقعہ پیش آیا تھا۔ سیکڑوں تارکین وطن شدید غیر یقنی صورتحال کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جس میں یا تو زندہ رہنے اور اطالوی ساحلوں تک پہنچ کر بہتر زندگی کے امکانات ہیں جو انکے آبائی ممالک میں ممکن نہیں ، یا پھر موت، گمشدگی، اور مجرموں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اپنے ہی ممالک میں بدتر حالات اور بحرانوں سے متاثریہ تارکین وطن (بشمول شامی اور افریقی)پناہ کی تلاش میں یا پھر اٹلی کی طرف نقل مکانی کے لیے تیونس کا رخ کرتے ہیں گویا تیونس ان کے لیے ایک نقطہ آغاز اور منزل بن گیا ہے، تاہم، تیونس خود اپنے آبائی ممالک سے بہتر حالت میں نہیں ہے، اس کے اپنے شہری غربت، بے روزگاری، بلند قیمتوں، اور قوت خرید میں کمی کو برداشت کر رہے ہیں—خاص طور پر انقلاب کے بعدتیونس نےجن بحرانوں کا سامنا کیا ہے اس نے اسے بدعنوان حکمرانوں کے استحصال میں مزید آ ضافہ کیا ہے جنہوں نے اسے قرضوں اور غلامی میں غرق کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ابترحالات زندگی ، بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بےروزگاری، مالیاتی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غربت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ درحقیقت، افراط زر کی شرح بلند ترین سطح (تقریباً 8.2%) تک پہنچ گئی ہے۔
ان بدعنوان افراد نے مغرب کے لیے سرخ قالین بچھا دیا ہے ، جوملک کو کنٹرول کرتے ہیں، اپنی شرائط کا حکم دیتے ہیں، اور اپنی پابندیاں عائد کرتے ہوئے فخر اور تکبر محسوس کرتے ہیں۔ ان کی تنظیمیں اور ادارے ریا ست میں پھیل چکے ہیں، ملک کی دولتضائع کر رہے ہیں، رکاوٹیں مسلط کر رہے ہیں، اور اسے قرضوں میں جکڑ رہے ہیں اور پھر ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے درآمد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہےہیں۔ نتیجے میں عوام بھوک برداشت کرتے ہیں، مٹھی بھر چینی، آٹا، یا تھوڑی مقدار میں تیل کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔
ملک کی کیا حالت کر د ی ہے اور عوام کیسی ذلت برداشت کر رہے ہیں !!
تیونس میں نوجوانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو یورپ کی طرف ہجرت کے علاوہ اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ وہ اپنے ہی ملک میں تمام مراعات کھو چکے ہیں، کیونکہ اجرت کی سطح ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔
ہمارے نوجوان مایوس ہیں، ان کے لیے تمام دروازے بظاہر بند نظر آتے ہیں۔ مواقع نہیں ہیں ، کوئی معقول زندگی نہیں ہے، اور وہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ نہ روزگار ہے، نہ کوئی باعزت زندگی، اور وہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے۔ وہ گھر بنانے اور خاندان کی کفالت کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں؟
مایوسی اب صرف ایک تصور نہیں ہے جو نوجوانوں کو متاثر کرتا ہے، بلکہ یہ حقیقت بن گئ ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے اسے لیبل کیا ہے، ایک اسیاکلچرجس نے پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کتنے خاندان موت کی کشتیوں میں سوار ہو چکے ہیں؟ کتنے بچے اور خواتین جاں بحق اور لاپتہ ہونے والوں میں شامل ہیں؟ ہر کوئی اپنی زندگی کی خاطر بھاگ رہا ہے کیونکہ یہ اپنے ہی وطن میں مرنے سے بہتر ہے۔ جہاں با عزت زندگی گزارنےکے لوازمات نا پید ہیں، اور عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص اپنے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر کھلے سمندر میں پھینک دیتا ہے، یہ جانے بغیر کہ وہ با حفاظت منزل تک پہنچ جائیں گے یا شارک کی خوراک بن جائیں گے، اور ایک ماں ان خطرات پر غور کیے بغیر جو اسے درپیش ہو سکتے ہیں ،اپنی معصوم بیٹی کو اس امید پر بھیجتی ہے کہ وہ اٹلی کے ساحلوں پر پہنچ کر پناہ حاصل کر لے گی... جب یہ کہانیاں بیا ن کی جاتی ہیں اور دہرائی جاتی ہیں، تو یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ معاملات انتہائی سنگین دہراۓ پر پہنچ چکے ہیں، اور لوگ بہتر اور ایک باوقار زندگی کی امید سے محروم ہونے کی وجہ سے اانتہاہی مجبور ہوچکے ہیں۔
اے اہل تیونس !!:
صورتحال سنگین ہے اور معاملہ سنگین ہے! نقل مکانی کے نتیجے میں ہونے والے سانحات اور ڈوبنے کے واقعات، جنہیں عام طور پر "الحرگا" کہا جاتا ہے، کو روکا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بے جان لاشیں بننے سے بچانا ہے جو غیر ملکی ساحلوں پر لہروں کی نظر ہو کر، اجنبیوں کی قبروں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ اطالوی حکام کی طرف سے رپورٹ کردہ محض ڈوبنے کے واقعات سے زیادہ سنجیدہ ہے۔
نقل مکانی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے اٹلی 23 جولائی 2023 کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرتا ہے جس کا نام"روم پراسس"رکھاجاتا ہے جس کا مقصد ، نقل مکانی سے نمٹنا ہے
اس پراسس میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن اور مختلف شعبوں میں یورپی اور افریقی ممالک کے درمیان بہتر تعاون سمیت متعدد اقدامات شامل ہیں،
کانفرنس کی سب سےشدید تشویشناک با ت تیونسی ماڈل کو نقل کرنا ہے، جیسا کہ یورپی رہنماؤں نے اپنے علاقے سے غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کے عو ض ایک بلین یورو سے زیادہ کی امداد کا وعدہ کرتے ہوئے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ہمیں واضع رپورٹس ملی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ معصوم تارکین وطن کے ڈوبنے کے واقعات اور آفات میں کوسٹ گارڈ اور حکام براہراست ملوظ ہیں ۔
ہم، حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے خواتین سیکشن سے، اس سانحے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں جس کا سامنا سینکڑوں خاندانوں کو ہوا، جس میں وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں سے محروم ہو گئے۔ ہم مجرمانہ نیٹ ورکس اور ان کےاستحصال کی مذمت کرتے ہیں جو بڑی رقم اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں کمزور اخلاقی کردار والے افراد کی مدد ملتی ہے جو مٹھی بھر پیسے، عہدے یا حیثیت کے بدلے معصوم جانیں لینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
ہم تیونس میں اپنے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مصائب، درد، محدود مواقع، اور ناامیدی کی اصل اور بنیادی وجوہات کو سمجھیں۔ ایسا کرنے سے، ہم زندگی کے تمام مسائل کے بنیادی حل تلاش کر سکتے ہیں اور انہیں تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔
اور ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ (ہدایت یافتہ خلافت) کے قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کریں۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحْلَمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولَ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول ﷺکی پکار کا جواب دو کہ جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشتی ہے۔ اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔“ [الانفال: 24 ]
شعبہ خواتین،
مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |