الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر

ہجری تاریخ    27 من صـفر الخير 1446هـ شمارہ نمبر: 1446 AH / 017
عیسوی تاریخ     اتوار, 01 ستمبر 2024 م

پریس ریلیز

حزب التحریر ہی مظلوموں اور ستائے ہوئے لوگوں کی مدد کے لئے آواز اٹھانے کی علمبردار ہے۔

حزب ہی ظالموں اور جابروں کی حقیقی اور سخت ترین مخالف ہے !

عربی سے) ترجمہ)

 

”دی نیو انڈین ایکسپریس“ نے 28 اگست 2024ء کو ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا، ”بنگلہ دیش میں حزب التحریر کا بڑھتا ہوا اثر بھارت پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے“، رپورٹ میں کہا گیا کہ ”ملک بھر میں جاری ہنگامہ آرائیوں اور عدم استحکام کے دوران، بنگلہ دیش کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے - جو کہ حزب التحریر کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ حزب التحریر ایک بنیاد پرست سیاسی تنظیم ہے جو اسلامی خلافت کے قیام اور عالمی سطح پر شریعت کے نفاذ کی خواہاں ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں اکتوبر 2009ء میں حزب التحریر پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن اس کے حامی ڈھاکہ سمیت ہر طرف مارچ کر رہے ہیں اور اس کے نظریات کی تشہیر کرنے والے پوسٹرز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 9 اگست کو، حزب التحریر کے حامیوں نے ڈھاکہ میں بیت المکرم شمالی گیٹ پر ایک ریلی کا اہتمام کیا اور بنگلہ دیش میں شریعت کی بنیاد پر خلافت کے قیام کا مطالبہ کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ خلافت بنگلہ دیش کے تمام شہریوں کے ”حقیقی انصاف اور فلاح“ کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں کو ملک بدر کرنے اور غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدوں کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ...“۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ، ”یہ ایک تشویشناک رجحان ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے حامی فوج میں بھی موجود ہیں۔ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے اور صنفی حقوق کے مخالف ہیں، اس لیے خواتین کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے“، ڈھاکہ سے ایک ذرائع نے ”دی نیو انڈین ایکسپریس“ کو  بتایا“۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاکہ، ”دریں اثنا، بھارت میں بھی خفیہ حزب التحریر کے چند ارکان کی گرفتاریاں کی گئی ہیں جو اپنا نیٹ ورک بڑھا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں اور اپنے پروپیگنڈے کو طلباء کے ذریعے پھیلا رہے ہیں... ”اگر بنگلہ دیش میں حزب التحریر کی تحریک میں شدت آئی تو اس کا اثر بھارت پر بھی پڑے گا کیونکہ بھارت میں موجودخفیہ ارکان ممکنہ طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ رابطہ کریں گے“، ایک ذرائع نے یہ بھی کہا“۔ حزب التحریر پر سوائے لبنان، یمن اور متحدہ عرب امارات کے، چین، روس، پاکستان، جرمنی، ترکی، برطانیہ، وسطی ایشیا، انڈونیشیا سمیت تمام عرب ممالک میں پابندی ہے۔ جنوری میں، برطانوی پارلیمنٹ نے اس وقت کے وزیر داخلہ جیمز کلیورلی کے ذریعہ پیش کردہ ایک مسودے کو منظور کیا تھا جس کے تحت حزب التحریر پر دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت پابندی عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی“۔

 

اخبار میں شائع ہونے والے دعوؤں کے جواب میں، ہم حزب التحریر کے مرکزی دفتر کی جانب سے درج ذیل نکات پر زور دینا چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اخبار پیشہ ورانہ صحافتی معیارات اور دیانتداری کے مطابق اس جواب کو اپنے صفحات پر شائع کرے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ قارئین اور پرستاروں کو ایک واضح تصویر فراہم کی جائے اور انہیں کہانی کے دونوں پہلوؤں تک رسائی حاصل ہو، تاکہ وہ اس معاملے پر اپنی باخبر رائے قائم کر سکیں۔

 

اول: حزب التحریر کا اسلامی خلافت کے قیام کا مطالبہ، جس سے مقصود اسلام کا نفاذ ہے، دراصل برطانوی استعمار کے چھوڑے ہوئے مسائل، جیسے ذلت، غلامی، غربت، ظلم، اور نسل پرستی سے برصغیر کو پاک کرنے کی ایک دعوت ہے۔ اس خطے نے آٹھ صدیوں سے زائد عرصہ تک اسلامی حکومت کے تحت امن، خوشحالی، اور ترقی کا دور دیکھا، اس دوران اسلامی حکمرانی نے مختلف نسلی گروہوں کو ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی سرزمین میں یکجا کیا اور ہندوستان کی معیشت کو نئی جِلا بخشی۔ یہی اقتصادی خوشحالی برصغیر کو استعماری طاقتوں کے نشانے پر لے آئی جن میں برطانیہ پیش پیش تھا۔ اسلام کے تحت عالمی معیشت میں برصغیر کا حصہ 23 فیصد تک ہوا کرتا تھا، جو اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں 27فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ کیا یہی وہ بات ہے جو اخبار کو فکر مند کئے دیتی ہے، یا یہ کہ بھارت کے مظلوم لوگ ہندوتوا کے نظام کے باعث ظلم کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ بھارت مغربی استعمار کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ یہ استعمار کبھی برطانوی استعمار کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی امریکیوں کے ساتھ، اور کبھی ان دونوں کے درمیان منقسم ہوتا ہے۔ اس استعماری نظام میں آزادی، استحکام، یا شہری امن بے وقعت اور بے معنی ہیں۔

 

دوم: حزب التحریر انسانی فطرت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کی حمایت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسان کو دو جنسوں، مرد اور عورت کے طور پر پیدا کیا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ذکر کیا گیا ہے،

 

﴿أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى * أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى * ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى* َجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى

”کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟  کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو رحم میں ٹپکایا گیا ؟  پھر لوتھڑا ہوا پھر (اللہ نے) اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا  پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت“ (سورة القیامہ؛ 75: 36ـ39)۔

 

اسی نقطہ نظر نے نوع انسان، مرد اور عورت، کی نسل کو محفوظ رکھا ہے اور دونوں جنسوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا ہے۔ الہامی شریعہ احکام ہی مرد اور عورت کے درمیان تعلقات کو منظم کرتے ہیں، اور شریعت کے قوانین خواتین کی حیثیت کو بلند کرتے ہیں، انہیں ماؤں کے طور پر اعلیٰ مقام دیتے ہیں، اور بیویوں اور دیکھ بھال کرنے والیوں کے طور پرعزت دیتے ہیں جن کی حرمت کی حفاظت کرنا لازم ہے۔ جبکہ اس کے برعکس، مغربی آزادی کے نظریات خواتین کو مردانہ ہوس کے لئے جنسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اور انہیں ایک ایسی شےکے طور پر سمجھتے ہیں جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ تو یہ اخبار خواتین کے کن حقوق کے بارے میں ”فکر مند“ ہیں؟

 

سوم: دنیا کے کئی ممالک میں حزب التحریر پر پابندی لگنا حزب کی صداقت، اس کے پیغام کی درستگی اور اس کے خیالات کی حقانیت کا ثبوت ہے۔ جن ممالک نے حزب التحریر پر پابندی عائد کی ہے، جیسا کہ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، وہ یا تو خود استعماری طاقتیں ہیں جو اسلامی امت کے اندر کسی تنظیم کو برداشت نہیں کر سکتیں، یا وہ نام نہاد تیسری دنیا کےممالک ہیں جن کا استحصال استعماری طاقتیں کرتی ہیں۔ اگر یہ ممالک ایسا نہ کریں تو وہ وسائل کو لوٹنے، استحصال کرنے اور لوگوں کو غلام بنانے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ برطانیہ اس کی ایک اہم مثال ہے، جس نے برصغیر کو صدیوں تک استعماری غلام بنائے رکھا، اور اس کا اثر آج بھی بھارت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنےاور غزہ میں یہودی وجود کی جانب سے کیے جانے والے نسل کشی کے خلاف مؤقف اختیار کرنے پر حزب التحریر پر پابندی عائد کر دی ہے۔ برطانیہ یہ بھی جانتا ہے کہ حزب التحریر جس خلافت کا مطالبہ کرتی ہے وہ بھارت کے لوگوں سمیت تمام مظلوم اقوام کو، ایسے استعماری غلبے سے نجات دلائے گی۔ تو کیا برطانیہ، جو کہ ایک تاریخی استعماری طاقت ہے، کی جانب سے پابندی اس بات کی علامت ہے کہ حزب کا پیغام ”تشویشناک“ ہے، یا یہ ایک اعزاز کی علامت ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ حزب استعماریت اور اس کے ستائے گئے لوگوں پر ظلم کے خلاف ایک باوقارحریف ہے؟

 

جہاں تک عرب ریاستوں، وسط ایشیائی ممالک اور دیگر سمیت ان دوسرے ممالک کی بات ہے جنہوں نے حزب پر پابندی لگائی ہے، تو اخبار کو بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ آمرانہ حکومتیں استعماری طاقتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ آمرانہ حکومتیں کسی بھی نظریاتی یا سیاسی تحریک کو، جو امت کی نشاۃ ثانیہ اور استعماری حکمرانی سے لوگوں کی آزادی کی وکالت کرتی ہیں، اجازت نہیں دیتیں۔ ان کی جانب سے حزب پر پابندی لگنا بھی ایک اعزاز کی علامت اور اس کے مقام کی گواہی ہے۔ خاص طور پر بھارتی اخبار کے لئے پاکستان کی جانب سے حزب پر پابندی کا حوالہ دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کیا پاکستان بھارت کے لئے ”آزادیٔ رائے“ اور ”انسانی حقوق“ کے معاملات میں ایک معیار اور حوالہ بن گیا ہے؟!

 

چہارم: ہم اخبار اور بھارت کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ حزب التحریر کا پیغام لوگوں کو سرمایہ داریت کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ہے، جو آبادی کے نوے فیصد سے زیادہ کو غلام بنائے رکھتے ہیں۔ حزب کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت کے لیے آزاد کرنا ہے، جو امیر اور غریب، اور طاقتور اور کمزور کے درمیان انصاف کو یقینی بناتا ہے۔ حزب مالیاتی اجارہ داروں اور جابرانہ حکمرانوں کے غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، تاکہ انسانیت اسلام کی عظیم حکمرانی سے فائدہ اٹھا سکے۔ بھارت کتنا خوش قسمت ہوگا اگر اس پر اسلام کی حکومت ہو، جیسا کہ صدیوں تک ماضی میں ہوا تھا۔ بھارت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حزب کے شباب کا خیر مقدم کریں اور اپنے ملک میں حق اور انصاف کے پیغام کو پھیلانے میں ان کا ساتھ دیں، تاکہ بھارت میں ایک بار پھر انصاف اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔

 

پنجم: ہمیں علم ہے کہ سنسنی خیز صحافت (tabloid journalism) میں شامل بہت سے صحافی شفافیت یا پیشہ ورانہ معیارات پر عمل نہیں کرتے۔ وہ اکثر مقامی اور عالمی اخبارات میں لکھی ہوئی باتوں کو بغیر کسی جانچ پڑتال کے من و عن نقل و چسپاں کر دیتے ہیں، یا وہ ان مقامی اور عالمی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کہنے پر شائع کرتے ہیں جو بدعنوان حکمران اشرافیہ یا ان ممالک میں ناکام حکومتوں سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے کام کرتی ہیں۔ کیا ”دی نیو انڈین ایکسپریس“ اور اس کے صحافیوں کا یہی حال ہے؟ ہر صحافی جو اپنے لوگوں کے لئے مخلص ہے، اسے خبر کو اپنے ناظرین اور قارئین تک پہنچانے میں حقائق کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے ملک اور لوگوں کے لئے بھلائی کی خواہش کرنی چاہیے۔ اور اس سے بڑی کوئی بھلائی نہیں ہے جو کہ عظیم اسلام میں ہے۔ کائنات، انسانیت اور حیات کے خالق، اللہ سبحانہ وتعالىٰ فرماتے ہیں:

 

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا“

(سورة المائدہ؛ 5:3)۔

یہاں دین سے مراد ایک طرز ِحیات، ایک نظام زندگی، اور ایک نظام حکمرانی ہے۔

 

 حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
مرکزی حزب التحریر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon
تلفون:  009611307594 موبائل: 0096171724043
http://www.hizb-ut-tahrir.info
فاكس:  009611307594
E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک