الأربعاء، 23 جمادى الثانية 1446| 2024/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ     شمارہ نمبر:
عیسوی تاریخ     بدھ, 02 جنوری 2013 م

ہندوستان "دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک" اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گیا

جمعہ، 28 دسمبر 2012 کو 23 سالہ ہندوستانی میڈیکل سٹوڈنٹ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، جسے 16 دسمبر کو دہلی کی ایک بس میں چھ آدمیوں نے بدترین تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے نے پورے ہندوستان میں، ہندوستانی پولیس اور حکومت کی غفلت اور خواتین کے جنسی تشدد سے بچائو کے معاملے پر ان کی سست روی کے خلاف مظاہروں کی آگ بھڑکا دی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندوستان میں زنا بل جبر ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ درندگی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے اور ہندستان میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا جرم ہے۔ لاتعداد جنسی حملوں کی تو رپورٹ ہی درج نہیں کرائی جاتی کیونکہ خواتین اپنی عزتوں کے تحفظ کے سلسلے میں اس نظام پر بالکل اعتماد نہیں کرتیں۔ اسکی ایک وجہ تو اتنے بڑے پیمانے پر اس مسئلے کا پایا جانا ہے، دوسرا یہ کہ عموماً پولیس کی جانب سے مجرموں کو تحفظ دیا جاتا ہے، نیز یہ مقدمے سالہاسال عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں اور سزاؤں کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، ہندوستان میں ہر 20 منٹ کے بعد ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور صرف گزشتہ سال میں ہی زیادتی کے 24,000 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی ذرائع ابلاغ کے ادارے نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ دہلی کی 80% خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں کے دوران زیادتی کے واقعات میں حیرت انگیز طور پر 792% اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر نسرین نواز، ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر، نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ایک طرف تو مغرب مسلسل 'جمہوریت ' کو خواتین کے حقوق اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے بہترین نظام قرار دے کر اسے مسلم ممالک کو برآمد کر رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک اپنی خواتین کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں ظالمانہ اضافہ، پولیس کی طرف سے ان کی عزت کی حفاظت کے بارے میں لاپرواہی برتنا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں حکومتی بے حسی دراصل اس لبرل ثقافت کاشاخسانہ ہے جسے بالی ووڈ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی صورت میں ریاستی سطح پر خوب اچھالا جاتا ہے اور اس کے گن گائے جاتے ہیں؛ کیونکہ اسی کے نتیجے میں خواتین کو ہر روز منظم طریقے سے بے وقعت کیا جا رہا ہے۔ اس بالی ووڈ ثقافت اور انٹرٹینمنٹ کے دیگرذرائع مثلاً اشتہاروں اور پورنوگرافی انڈسٹری نے، جس کی ہندوستان کے سیکولر لبرل جمہوری نظام نے اجازت دے رکھی ہے، عورت کو مردوں کی خواہشات پر ایک کھلونا بنا کر پیش کیاہے۔ انہوں نے معاشرے کو جنسی ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے اور افراد کو اپنی جنسی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ غیر ازدواجی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں اور عورت اور مرد کے مابین رشتوں کو سستی شے بنا کر فحاشی کومزید پھیلا رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے بے شمار مردوں کو بے حس کر دیا ہے یہاں تک کہ انہیں خواتین کی عصمت دری پر جو غم وغصہ محسوس ہونا چاہئے، وہ اس سے کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ یہ ہرگز باعث حیرت نہیں یہ ملک اب امریکہ اور برطانیہ جیسی لبرل ریاستوں کی برابری کرتا دکھائی دیتا ہے جو خواتین کے خلاف تشدد میں عالمی رہنما ہیں۔ یہ جمہوری سیکولر لبرل نظام جہاں کی نصف آبادی خوف میں زندگی گزار رہی ہے، مسلم دنیا کے لیے ہرگز قابل قبول نمونہ نہیں۔"

"یہ اسلام ہی ہے، جسے نظام خلافت کے تحت مکمل اور ہمہ گیر طورپر نافذ کیا جاتا ہے، جو خواتین کے عزت و وقار کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور درست نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ اسلام لبرل آزادیوں کو مسترد کرتا ہے اور معاشرے میں تقویٰ (خدا خوفی) کو فروغ دیتا ہے جس کے نتیجے میں مردوں کے خواتین کے ساتھ سلوک اور رویے سے متعلق جوابدہی کی ذہنیت اورفضا پیدا ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں جنسی مظاہر پھیلانے، نیز عورت کے استحصال اور کسی بھی طریقے سے اسے ایک شے کی حیثیت دینے کو حرام قرار دیتا ہے، چنانچہ عورت اور مرد کے مابین رشتے نہ تو بے وقعت ہوتے ہیں اور نہ ہی عورت کی قدر میں کوئی کمی آتی ہے۔ اسلام ایک مکمل اور ہمہ گیر معاشرتی نظام پیش کرتا ہے جو عورت اور مرد کے تعلق کو منظم کرتا ہے اور جس میں ایک باحیا لباس، دونوں صنفوں کے درمیان علیحدگی اور غیر ازدواجی تعلقات کے حرام ہونے کے قوانین شامل ہیں۔ پس جنسی خواہشات کو نکاح تک محدود کرنے سے عورت اور معاشرے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اس نظام خلافت کے سائے تلے نافذ کیا جاتا ہے جہاں ایک مستعد عدالتی نظام اپنا فرض سمجھ کر جرائم کو تیزی سے نمٹاتا ہے اور سخت ترین سزائیں نافذ کرتا ہے مثلاً خواتین کے خلاف بہتان کی سزا دُرے لگانا ہے، یہاں تک کہ اسکی عصمت دری پر سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں عورت پر ایک غلط نظر ڈالنا، اسکے خلاف غلط لفظ زبان سے نکالنا یا کوئی حرکت کرنا بھی سنگین جرم سمجھاجاتا ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاتا، نتیجتاً ان کی تعلیم، ملازمت، سفر اور زندگی گزارنے کے لیے ایک محفوظ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا ہم مسلم دنیا کی خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خلافت کو بحیثیت نظام اپنائیں جو ان کی دیکھ بھال اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے قابل اعتماد اصولوں، پالیسیوں اور قوانین پر مشتمل ہے"۔

 

ڈاکٹر نسرین نواز

ممبر مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک