المكتب الإعــلامي
فلسطين
ہجری تاریخ | 25 من ذي الحجة 1441هـ | شمارہ نمبر: BN/S 1441 / 14 |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 14 اگست 2020 م |
پریس ریلیز
یہ ارض مقدس فلسطین کی آزادی کا بہترین وقت ہے!!!
اماراتی حکمرانوں کی جانب سے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ایک سیاہ باب ہے جو مسلم خائن حکمرانوں کے سیاہ ابواب میں نیا اضافہ ہے
یہودی وجود کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یا ہو، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ نے مشترکہ بیان جاری کیا جس کے مطابق متحدہ عرب امارات اور یہودی وجود نے مکمل دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنےپر اتفاق کیا ہے۔ بن زاید نے کہا کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت میں دوطرفہ تعلقات کے لیےمشترکہ تعاون کے روڈ میپ پر اتفاق ہوا جس کے مطابق معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ہے ۔ معاہدے کے مطابق دونوں حکومتیں سفیروں کے تبادلے اور مختلف شعبوں میں تعاون کریں گے، جن میں سیکیورٹی، تعلیم اور صحت شامل ہیں۔ یہودی وجود کے وزیر اعظم نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیااور کہا کہ امارات اب یہودی وجود میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے گا۔ اِس کےساتھ ہی اُس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ معاہدہ سے مزید علاقوں کویہودی وجود میں ضم کرنے کا منصوبہ ختم نہیں ہوگا، اور اس کی مغربی کنارے سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ اس نے مزید کہا کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے صرف امریکی انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کا پابند ہوگا۔
خیانت پر مبنی یہ معاہدہ امت مسلمہ کے گردن پر سوار حکمرانوں کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی مسلمانوں کے دوسرے حکمرانوں کی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے سستے آلہ کار ہیں ،جو کسی شرم و حیا کا لحاظ رکھے بغیر اپنے آقا کے احکامات من و عن نافذکرتے ہیں۔ لہٰذا صرف فون کال سے ہی امارات کے حکمران سرکاری طور پر انتہائی بے شرمی سےارض مقدس کی بیشتر سرزمین پر یہودی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والوں کے گینگ میں شامل ہوگئے۔ یہ کھلم کھلا بے شرمی اور ڈھٹائی سے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں، گویا کہ یہودی وجود نے قبلہ اول، جو تین مقدس مساجد میں سے ایک ہے، اور نبی ﷺ کے مقام اسراء و معراج پر قبضہ ہی نہیں کیا ہو!
امارات کے ذلیل حکمران چند گھنٹے تک بھی اپنی خیانت پر پردہ نہ ڈال سکے کیونکہ ان کے نئے اتحادی یہودی وجود کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کردیا کہ وہ مزید علاقے ضم کرنے کی راہ پر ہی گامزن رہے گا اور اس سے دستبردار نہیں ہوگا اور یہ اس کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس فوری اعلان کے ذریعے یہودی وجود کے وزیر اعظم نے امارات کے حکمرانوں کے واہیات قسم کے بہانوں کو بہت جلد زمین بوس کردیا جو کہتے تھے کہ تعلقات قائم کرنے کے بدلے یہودی وجود مزید علاقوں کو ضم نہیں کرے گا اور مغربی کنارے پر تسلط قائم نہیں کرے گا! اپنے دین سے خیانت کرنے والے ہر خائن کا یہی حال ہوتاہے؛ دنیامیں بھی رسوائی اور آخرت کی رسوائی اور دردناک عذاب۔
مسلمانوں کے حکمران غداری میں برابر اور ایک ہیں؛ چاہے جس نے اعلانیہ گٹھ جوڑ کررکھا ہے اور تعلقات قائم کرچکا ہے یا جو دو ریاستی حل، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے ذریعے ارض مبارک کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ دو ریاستی حل جس کی بات حکمران اور فلسطینی اتھارٹی کرتی ہے،یا عرب لیگ کے خیانت پر مبنی منصوبہ یا پھر اقوام متحدہ کی قرار دادیں، سب کا نتیجہ خیانت، پسپائی اور مبارک سرزمین کے بڑے حصے سے دستبرداری ہے ۔ اور یہ سرنڈر اسلئے کہ ایک بے وقعت ریاست کا قیام ہو سکے! وہ ریاست جس کا کام یہودی وجود کی حفاظت ہو گی، اہل فلسطین کو جبر کے ذریعے قابو میں رکھنا، ان کو گھروں سے نکالنا اور تہذیبی لحاظ سے اپنے رنگ میں رنگنے پر مجبور کرنا ہو گا تا کہ وہ یہودی وجود کے سامنے اور فلسطین کی مبارک سرزمین پراس کے پرامن مستقبل کے سامنے رکاوٹ بننے کے قابل نہ رہیں۔ ہر قسم کے استعماری حل کا ہدف یہی ہے۔
جن غلام حکمرانوں نے اس جرم کو قبول کیا اورجنہوں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے بظاہر اس کو خیانت کہا یہ سب کے سب اس خیانت پر متفق ہیں۔ یہ سب یہودی وجود تسلیم کرنے پر متفق ہیں، اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اس کے ساتھ کبھی اعلانیہ اور کبھی خفیہ ساز باز کرتے ہیں۔ عرب منصوبہ (Arab initiative)جس کا کھلے عام اعلان کیا گیا ہے وہ بذات خود فلسطین کے بہت تھوڑے حصے پر برائے نام ریاست کے قیام کے مقابلے میں یہودی وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ جہاں تک اس وقت عرب لیگ کی جانب سے کی جانے والی مخالفت ہے یہ وہی برائے نام مخالفت ہے، جیسی انہوں نے انورالسادات کی مخالفت میں کی تھی جب اس نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا، اور اُس وقت عرب لیگ نے اس معاہدے کو غداری کہا تھا۔ لیکن عرب لیگ اپنی بات پر کچھ ہی عرصے تک قائم رہی یہاں تک کہ حکمرانوں کی جانب سے 1967 سے پہلے کی سرحدوں کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا جس میں فلسطینی اتھارٹی بھی شامل ہے، اور اب عملی جدوجہد یہ بن گئی ہے کہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھا جائے۔ لہٰذا یہ لوگ انور السادات سے بڑے غدار بن گئے ہیں!
مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کی طرح عرب امارات کے حکمران بھی صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے مغربی استعماریوں کی دلالی کرنے کے لیےاپنے آپ کو شیطان کو فروخت کیا ہوا ہے، جبکہ امت ان سے بَری ہے۔ امت، جس کو قرآن اور سورہ اسراء کی تلاوت سے سکون ملتا ہے، وہ ارض مقدس کی آزادی کو ہی فلسطین کے مسئلے کا واحد حل سمجھتی ہے، یہی شرعی حل ہے جس سے امت مانوس ہے جیسا کہ صلاح الدین نےحطین کی جنگ میں صلیبیوں پر جھاڑو پھیر دیا تھا۔ عنقریب امت یہ پھر دیکھ لے گی جب امت کی افواج تکبیروں کی گونج میں ایک بار پھر مارچ کریں گی، اسلام کے پرچم کو بیت المقدس کے دیواروں پر اور پورے فلسطین میں لہرائیں گی، اور یہود وجود کو ہمیشہ کےلیے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گی۔
فلسطین کی مبارک سرزمین کا مسئلہ گہری جڑیں رکھنی والی اس عظیم امت کا مسئلہ ہے جس نے دنیا کی عظیم ترین جنگوں میں کامیاب اور کامرانی حاصل کی۔ اس امت نے حطین میں صلیبیوں کو شکست دی اور عین جالوت میں منگولوں کے دانت کھٹے کیے۔ یہ امت عنقریب ایک بار پھرارض مقدس کی مدد اور اس کو واپس لینے کے لیے اٹھے گی۔ پھرارض مقدس ٹرمپ یا کسی اور کے ہاتھ میں الیکشن جیتنے کا انتخابی کارڈ باقی نہیں رہے گا جس کے ذریعے وہ سیاسی کامیابی حاصل کرے، جس کے لیے وہ امارات کے حکمرانوں کو یہودی وجود سے تعلقات قائم کرنے کا حکم دے۔ یہ اس عظیم امت کا مسئلہ ہے جو دوبارہ نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اپنے چھینے گئے اقتدار کو واپس لانے کی جدوجہد کر رہی ہے، جو ٹرمپ اور اس جیسوں کا یہ حال کرے گی کہ وہ شیطان کےسرگوشیوں کو بھلا بیٹھیں گے، اور اس طرح ٹرمپ اور مسلمانوں پر حکمرانی کرنے والے غداروں کو اکھاڑ پھینکے گی اورارض مقدس کو دوبارہ امت کے اختیار میں واپس لے آئے گی۔
ان اعلانیہ غداریوں ، جس کے باعث فلسطین کے ساتھ جو کیا گیا، کا سوائے اس کے کوئی جواب نہیں کہ امت مسلمہ کی افواج، ان کے کمانڈراور فوجی افسران اس مبارک سرزمین کے لیے متحرک ہوں ،اور یہودی وجود کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے حکمرانوں کو ملیامیٹ کردیں جو امت کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ایسے نظر آتے ہیں جیسا کہ وہ سب ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایجنٹ ہوں !
اس وقت خاموشی امت کے شایان شان نہیں بلکہ امت کو اپنی زندگی کے اس اہم موڑ پر متحرک ہونا چاہیے تاکہ یہ بادل چھٹ جائیں اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کا سورج طلوع ہو، ایسی خلافت جو ٹرمپ اور اس کے غلاموں کو مسلم حاکم سے بچانے کی کوشش نہیں کریں گی تاکہ یہ اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيباً﴾
“اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا ؟کہہ دیں ممکن ہے کہ قریب ہی آ لگا ہو”(الاعراف، 7:51)
ارض مقدس فلسطین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |