الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
فلسطين

ہجری تاریخ    16 من رمــضان المبارك 1445هـ شمارہ نمبر: BN/S 1445 / 11
عیسوی تاریخ     منگل, 26 مارچ 2024 م

پریس ریلیز

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمزور قرارداد وقت کا ضیاع ہے، جب کہ نسل کشی جاریوساری ہے 

(عربی سے ترجمہ)

 

کل، بروز پیر کو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں غزہ میں "فوری جنگ بندی" کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قرارداد کی، چودہ ارکان نے حمایت کی جبکہ امریکہ نے ووٹنگ سے گریز کیا۔ قرارداد میں "رمضان کے مہینے کے لیے فوری جنگ بندی" کا مطالبہ کیا گیا، بشرطیکہ یہ "پائیدار اور دیرپا جنگ بندی" کا باعث بنے۔ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ "تمام یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے"۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ وہ "شہریوں اور شہری تنصیبات کے خلاف تمام حملوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد اور دشمنی، اور دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے"۔ قرارداد کے اسپانسرز نے "غزہ کی پٹی میں تباہ کن انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا"۔

 

یہ قرارداد، یہودیوں کی جانب سے برپا کردہ، 170 سے زائد دنوں کی نسل کشی کی جنگ کے بعد سامنے آئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو فصلوں اور مویشیوں کی تباہی تک پھیلی چکی ہے۔ یہ جنگ رہائشیوں کے سروں پر ان کے گھروں کو ڈھا دینے کی جنگ ہے۔ یہ جنگ امریکہ کی جانب سے مال اور اسلحہ کی فراہمی سمیت اس کی پشت پناہی، بھرپور تعاون اور ہر قسم کے جرائم میں امریکہ کی بھرپور شرکت کی جنگ ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک نامکمل اور کھوکھلی سی قرارداد جاری کر دی ہے۔ تاہم، یہ حقیقی قرارداد نہیں ہے جواپنی ناکامی کو تو چھپا رہی ہے، لیکن اپنے مفلوج ہونے کو نہیں چھپا سکی۔ یہ وہی سلامتی کونسل ہے جو اس بربریت اور سفاکانہ قتلِ عام اور فاقہ کشی کے محاصرے کے دوران بہری، گونگی، ساکت اور بے عمل بنی رہی تھی۔ اس طرح اس قرارداد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی حیثیت ایک آلۂ کار سے زیادہ کچھ نہیں جو امریکہ کی حمایت کرتی ہے اور امریکہ کے مفادات کے حوالے سے خاموش رہتی ہے۔

 

یہ قرارداد ’’ماہِ رمضان‘‘ میں جنگ بندی کی کال کے طور پر سامنے آئی ہے، حالانکہ نصف سے زیادہ رمضان گزر چکا ہے، جب کہ رمضان میں ایک دن کے لیے بھی قتل و غارت کا سلسلہ نہیں رکا ہے۔ اگرچہ قرارداد میں فوری طور پر جنگ بندی کی شرط رکھی گئی ہے، لیکن اس میں فوری طور پر مستقل جنگ بندی کی شرط نہیں رکھی گئی۔ اس کی بجائے، قرارداد میں ایسے امر کا مطالبہ کیا گیا ہے جو "ایک پائیدار اور دیرپا جنگ بندی کی طرف لے جائے"۔ گویا یہ قرارداد تھوڑا سا توقف کرنے کی درخواست ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ قرارداد عمومی نوعیت کے ساتھ آئی ہے جس میں مجرم کو مجرم قرار نہیں دیا گیا۔ قرارداد نے جرم کا سدِباب کرنے کا مؤقف بھی نہیں اپنایا۔ اس کے بجائے، اس قرارداد نے جرم پر خاموش رضامندی اختیار کی ہے... امریکہ نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دینے سے گریز کیا، جو کہ انہونی سی بات ہے۔ اس سے صرف ایک بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اس قرارداد سے کوئی فائدہ مند چیز نہیں نکلے گی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جان کربی نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے، جب اس نے کہا، "ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا... ہمارا ووٹ دینے سے گریز کرنا ۔۔۔ میں پھر دہراتا ہوں۔۔۔ کہ ہمارے ووٹ دینے سے گریز کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے"۔ امریکہ آج کے دن تک مجرمانہ وجود اور اس کی مجرمانہ جنگ کا سہولت کار ہے۔ یہ لمحاتی وقفے آنکھوں میں دھول جھونکنے اور غنودگی کی دواؤں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اپنی تاریک تاریخ کے ساتھ، کبھی بھی امریکہ اور استعماری طاقتوں کے لئے ان کے مفادات، جنگوں اور شر کو تحفظ دینے کے لئے ایک آلۂ کار سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ اس سلامتی کونسل سے خیر یا سلامتی کی کوئی امید نہیں۔ غافل شخص کے علاوہ کوئی بھی اقوام متحدہ کا حوالہ نہیں دیتا۔ اس سلامتی کونسل سے کسی کو بھلائی کی امید نہیں سوائے فریب خوردہ شخص کے۔ اس کی قراردادیں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے نفاذ کے ذریعے امریکیوں کے مفاد کو پورا کیا جاتا ہے۔ اس تازہ ترین قرارداد سمیت سلامتی کونسل کا ہمیشہ ایک بیکار موقف رہا ہے، خاص طور پر جب اگر یہ  یہودی وجود سے متعلق ہو۔ گزشتہ روز کی قرارداد کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو کربی نے جواب دیا کہ، "یہ ایک غیر لازم قرارداد ہے"۔ جہاں تک یہودی وجود کا تعلق ہے، تو اس کے قائدین، ہمیشہ کی طرح، قرارداد پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے، گستاخی اور تکبر سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے جرائم کو روکنے سے انکار کرتے ہوئے، یہاں تک کہ عارضی طور پر بھی روکنے سے انکار کرتے ہوئے، واشنگٹن کے لیے اپنے وفد کے دورے کو منسوخ کر دیا ہے۔

 

اگر مسلمانوں کے حکمرانوں کی جانب سے ذلت، بزدلی اور شرمناک بے حسی نہ ہوتی اور ان کی ملی بھگت اور سازش نہ ہوتی تو مسلمانوں کے خون کے بہائے جانے کی بابت قرارداد، مہینوں کی نسل کشی کے بعد بھی ’’غیر لازم‘‘ قرار داد کی حیثیت سے بحث کے لیے سلامتی کونسل میں پیش نہ کی جاتی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے غزہ کو بچایا نہیں جا سکتا۔ واحد قرارداد جو غزہ کے لیے امداد اور راحت فراہم کر سکتی ہے وہ ہے امت اور اس کی مسلح افواج کی طرف سے بزدل حکمرانوں کو ہٹانے، خلافت کے قیام اور مجرم یہودی وجود کے خاتمے کے لیے فوجوں کو حرکت میں لانے کی فوری قرارداد۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ﴾

’’اور وہ ایسے ہیں کہ جب انہیں بغاوت پہنچے تو وہ (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں‘‘ (الشوریٰ؛ 42:39)

 

ارضِ مبارک فلسطین میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
فلسطين
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.pal-tahrir.info
E-Mail: info@pal-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک