المكتب الإعــلامي
فلسطين
ہجری تاریخ | 16 من رجب 1446هـ | شمارہ نمبر: No: BN/S 1446 / 21 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 16 جنوری 2025 م |
پریس ریلیز
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ
)ترجمہ)
15جنوری 2025ء بروز بدھ کی شام غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی، اہل غزہ اور تمام فلسطین، بلکہ تمام مسلمانوں کے دل خوشی سے باغ باغ ہوگئے، ایسی خوشی جو کہ جنگ بندی کے نفاذ کے علاوہ تباہی اور محاصرے کے خاتمے کی ملی جلی توقعات کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ تاہم، فاقہ کشی، خوف اور یخ سردی کے تسلسل کے ساتھ ساتھ قتل و غارت اور وحشیانہ جلاؤ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، حالانکہ جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ غزہ اور اس کے لوگوں کی مشکل کشائی فرمائے، ان کے خوف کو امن میں بدلے۔ ہم غزہ کے شہداء کے لیے جنت، زخمیوں کے لئے شفا، بے گھروں کے لئے گھر اور مجاہدین کے لئے اعلیٰ مقام و بہترین جزا کے دعاگو ہیں۔ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہل غزہ کو ان کے صبر کے بدلے عظیم اجر عطا فرمائے، یقیناً وہ لوگ شجاعت میں ایک مثال اور صبر میں ایک نمونہ ہیں۔
اس اعلان کے ساتھ ہی، کچھ نکات پر غور کرنا ضروری ہے جو ذیل میں مذکور ہیں :
اول : 7 اکتوبر 2023ء کو، یہودی وجود کو ایک کاری ضرب لگی تھی۔ یہ ایک یادگار دن تھا، جب محصور، کم ساز و سامان اور تعداد میں نہایت کم لیکن اللہ پر مکمل ایمان اور توکل رکھنے والی جماعت نے ایک "ناقابل تسخیر" فوج کے فخر وغرور کو امت کے قدموں تلے روند ڈالا۔ اس جماعت نے اس فوج کے رعب کو توڑ دیا اور اس کی ہیبت کو خاک میں ملا دیا۔ یہودی وجود نے طوفانِ اقصیٰ کے آپریشن کو اپنے زوال کا پیش خیمہ محسوس کیا۔ جب ایک قلیل تعداد والی جماعت کی پیش قدمی کا یہ نتیجہ تھا، تو اس وجود کا کیا حال ہوتا اگر امت کے کچھ سپاہی بھی پیش قدمی کر لیتے، جنہوں نے اس وجود کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے؟
دوئم : مصر، اردن، ترکی اور پاکستان وغیرہ کی افواج اور امت پر لازم تھا کہ وہ پوری قوت سے ارضِ مقدس کو آزاد کرانے کے لیے حرکت کرتیں اور امت اللہ کی مدد پر اور بیت المقدس کی آزادی پر خوشی مناتی۔ لیکن ان غدار اور ایجنٹ حکمرانوں پر اللہ کا غضب ہو، جنہوں نے ان افواج کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے روکا۔ اللہ انہیں ہلاک کرے، جنہوں نے مغضوب قوم کو ہمارا خون بہانے، ہمارے گھر تباہ کرنے اور ہماری مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان حکمرانوں نے انہیں ہر طرح کے ظلم کے اسباب مہیا کیے تاکہ امت کو اپنے بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے قبلۂ اول کی مدد کے لیے کسی بھی حرکت سے خوفزدہ کریں۔ لہذٰا اس سے امت پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان کی عزت اور مسجد اقصیٰ کی آزادی صرف ان ایجنٹ حکومتوں کو ہٹا کر اور نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافتِ راشدہ قائم کر کے ہی ممکن ہے۔
سوئم : یہود نے اپنی پوری وحشت، قتل و غارت، تباہی وبربادی اور بربریت بھرے محاصرے سے اپنی نفرت کا کھلم کھلا اظہار کر دیا ہے، اور ان کے جرائم، ان کی درندگی کی گواہی دیتے ہیں۔ یہود کو مغرب کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ ان غدار اور ایجنٹ حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، جو غزہ کے خلاف دشمنی میں یہود سے کسی طور بھی کم نہیں ہیں۔ اس کے باوجود، یہودی وجود اپنی دھاک کی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، اور نہ ہی وہ ان مقاصد کو حاصل کر سکا جن کا اس نے اعلان کیا تھا اور جن کے حصول کا اسے وہم تھا۔ مجاہدین نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی شکست تسلیم کی، بلکہ وہ غزہ کے ہر حصے میں، یہاں تک کہ اس کے شمال میں بھی، آخری لمحات تک، یہود کو نقصان پہنچاتے رہے۔ اگرچہ یہودی وجود نے غزہ کو بالکل مسمار کر کے رکھ دیا تھا، لیکن اس کے باوجود، نہ تو وہ وہاں کے لوگوں کو بے گھر کر سکا اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو واپس لا سکا۔ اس وجود کی حقیقت کھل کر امت کے ذہنوں میں راسخ ہو گئی ہے، اگرچہ وہ قتل عام کر رہا ہے، لیکن وہ اسلام کے دلیر فرزندان کا میدانِ جنگ میں مقابلہ کرنے کے قطعی بھی قابل نہیں ہے، اور نہ ہی ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے جو شہادت اور اللہ کی راہ میں جہاد کے شوق میں پروان چڑھے ہیں۔ غزہ پر 460 سے زائد دنوں کی بمباری کے بعد بھی یہودی وجود اپنی بقا کی نسبت اپنے زوال کے زیادہ قریب پہنچ چکا ہے۔
چہارم : یہ جنگ غزہ اور پوری امت کے ذہن میں ہمیشہ رہے گی، کیونکہ یہ صرف غاصب وجود کے ساتھ جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ جنگ کفر کے سرغنہ، امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ایک جنگ اور تصادم تھا، بلکہ ان کفار سے بھی پہلے تو یہ جنگ ان غدار، بے بس اور محاصرہ کرنے والی حکومتوں کے ساتھ تھی۔ امریکہ نے یہود کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کئے رکھا، بین الاقوامی فورمز میں ان کے جرائم کی پردہ پوشی کئے رکھی اور مسلمان حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ممالک کو، یہود کو ہتھیار، خوراک، پانی اور ایندھن کی ترسیل فراہم کرنے کے لیے گزر گاہ بنائے رکھیں تاکہ وہ وجود اپنے ان خبیثانہ جرائم کو جاری رکھ سکے۔
یہ جنگ حقیقیت میں ایمان اور کفر کے درمیان ایک کھلی جنگ تھی، جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے حامی غزہ میں لڑ رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پوری دنیا اس امت کو اس کی کمزوری، تفرقہ بازی اور زخموں کے باوجود قتل کرنے کے لیے جمع ہو جائے تو بھی اگر یہ امت اپنے رب پر ایمان رکھے اور اسی پر توکل کرے تو وہ سب مل کر بھی اس امت کو شکست نہیں دے سکتے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر، اہل غزہ، مجاہدین اور سیاست دانوں کو ان قاتلوں سے سخت احتیاط برتنی چاہیے جب وہ انہی ہاتھوں سے امداد لے کر آئیں گے جن ہاتھوں سے انہوں نے یہودی وجود کو گولہ بارود اور آگ کے شعلے فراہم کیے تھے۔ غزہ کے لوگوں کو ان لوگوں سے بھی بچنا چاہیے جنہوں نے ثالثی کے نام پر محاصرہ کیا، غداری کی اور اپنی اوقات دکھائی۔ وہ غزہ اور اس کے لوگوں سے زیادہ یہودی ریاست کے قریب تھے۔
پنجم : اہل غزہ کے لیے خوشی، اطمینان اور قتل و جارحیت کے خاتمے کے اعلان والا جنگ بندی کا یہ معاہدہ، اہلِ غزہ کو ان لوگوں کے مکر اور فریب سے محفوظ نہیں کرتا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْداً نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾
"اور جب کبھی انہوں نے کوئی عہدکیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر مانتے ہی نہیں" (سورۃ البقرۃ: آیت 100)۔
یہود، غداری کرنے اور عہد توڑ دینے والے لوگ ہیں۔ اہل غزہ اور تمام فلسطین یہود کی چکی اور ایجنٹ حکومتوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے امن صرف پورے فلسطین کی آزادی سے ہی ممکن ہے۔ غزہ کے خون کا بدلہ اور اس کے زخموں کی مکمل شفا صرف ارضِ مقدس کو یہود کی نجاست سے پاک کرنے سے ہی ممکن ہے، اور یہ امت اور اس کی افواج کا فرض ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی معاہدے سے ختم ہوگا۔
آخر میں: جہاد کے معنی، مجاہدین کی بہادری، zero distance کی اصطلاح اور سجدہ ریز شہید کی تصویر امت کے ذہن سے کبھی نہیں مٹیں گے۔ بلکہ یہ پوری امت کو اسی طرح متاثر کریں گے جس طرح الجازی کو متاثر کیا تھا اور انہوں نے جہاد کے معانی، صبر اور ثابت قدمی کو زندہ کیا اور امت کو راغب کیا۔ اب یہ ایک ایسی امت ہے جو جہاد اور آزادی کی خواہاں ہے اور اسے یقین ہو گیا ہے کہ یہ حکومتیں ہی ہیں جنہوں نے اسے باندھ رکھا ہے۔ وہ ان حکومتوں کی بیڑیوں کو توڑنے، صفوں کو منظم کرنے اور عَلم بلند کرنے کے بس قریب ہی ہیں۔ غزہ کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ امت زندہ ہے اور کبھی مرتی نہیں، بلکہ یہ آزادی اور نجات کے دن کے لیے تیار ہو رہی ہے تاکہ وہ پہلے کی طرح واپس آئے اور ممالک کو فتح کرتی جائے اور دنیا کو اپنی قیادت سے ڈھانپ لے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا...».
"اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق و مغرب کو دیکھا یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی...."
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ * إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ * وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾
"اور بیشک ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ہمارا کلام گزر چکا ہے۔ کہ بیشک انہی کی مدد کی جائے گی۔ اور بیشک ہمارا لشکر ہی غالب ہوگا"(سورۃ الصافات: آیت 173ـ171)
ارضِ مقدس فلسطین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |