المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر
ہجری تاریخ | 23 من محرم 1444هـ | شمارہ نمبر: 001 / 1444 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 21 اگست 2022 م |
پریس ریلیز
الوراق جزیرے کی زمین وہاں کے رہنے والے لوگوں کی ہے
اُن کو وہاں سے نکالنا یا اُن کو زمین بیچنے پر مجبور کرنا جائز نہیں
الوراق جزیرہ دریائے نیل میں سب سے بڑا قدرتی جزیرہ ہے۔ 1998 میں اس کو قدرتی طور پر محفوظ قرار دینے کا فیصلہ صادر کیا گیا پھر 2017 میں وزیر اعظم نے اس کی قدرتی طور پر محفوظ علاقہ کی حیثیت کو ختم کرکے اس کو سرمایہ کاری کا علاقہ قرادینے کا فیصلہ صادر کیا جس کے بعد 2018 میں اس کی زمین پر نئے رہائشی کمپلکس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان فیصلوں کے مطابق پولیس اور فوج نے اس جزیرے کے باشندوں کے گھر مسمار کرنے کی پے درپے مہم چلائی، ریاستی املاک پر قبضہ قرار دے کر ان کی فصلوں کو آگ لگادی۔ دوسری طرف یہاں کے رہنے والوں نے اپنی زمین سے نکالے جانے پر احتجاجی مظاہرے کیے، تصادم ہوا، دسیوں گرفتار ہوئے۔ دسمبر 2022 کو سپریم اسٹیٹ سیکورٹی کریمنل کورٹ نے اس جزیرے کے 35 باشندوں کو تصادم میں ملوث ہونے پر 5 سال سے 25 سال تک قید کی سزائیں سنائی۔ ( الجزیرہ 10/8/2022)
ہم نے دیکھا کہ جج نے اس وقت جزیرے کے باسیوں کے خلاف ریاستی اقدام کو مجبوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو اپنی سرزمین کے دفاع اور اس کو چھڑوانے کا حق حاصل ہے چاہے اس کو کسی کو کرائے پر دی ہو یا ان کے پاس اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہو۔ جج نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ:" مقدمےکی تفصیلات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ الوراق جزیرے کی زمین کا کچھ حصہ مصری اوقاف کی ملکیت ہے، کچھ حصہ وزارتِ زراعت اور تعمیراتی سیکٹر کی ہے، اور وزارت آبپاشی کو اپنے عظیم نیل کی نگرانی اور حفاظت کا حق حاصل ہے۔ مقدمےسے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس زمین پر رہنے والے بعض لوگوں نے بغیر این او سی (اجازت) کے یہاں پر اور دریائے نیل کے کناروں پر تعمیرات کی ہیں۔" (الشروق 27/12/2020 )۔
ملزمان کے وکیل خالد علی نے زوردے کرکہا کہ الوراق جزیرے کے باشندوں نے کسی ریاستی املاک پر قبضہ نہیں کیا، ان کے پاس ان کی زمینوں اور گھروں کے کاغذات موجود ہیں، اور اپنے ذاتی فیس بک پیج پر الوراق کے لوگوں کے لیے نوٹرائزڈ سیلز کنٹریکٹس اور بلڈنگ لائسنس کی تصاویر پوسٹ کیں۔ (الجزیرہ 10/8/2022 )
وزیرِ ہاوسنگ نے الوراق جزیرے کی تعمیرات کے بارے میں کہا کہ ریاست الوراق جزیرے میں لوگوں کی رضامندی سے 6 ملین جنیہ کے ایک ایکڑ خریدتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ الوراق جزیرے میں ایک ایکٹر السادات شہر میں 16 ایکڑ کے برابر ہے۔
حکومت کبھی اعلان کرتی ہے کہ جزیرہ ریاست کی ملکیت ہے اوراس کو واگزار کرنا ریاست کا حق ہے جیسا کہ دسمبر 2020 کے فیصلے میں کہا گیا جو کہ اس کی قدرتی طور پر محفوظ کی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ حکومت اس جزیرے کے باشندوں پر الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے ریاستی ملکیت میں دست درازی کی، اور پھر خود ہی یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ لوگوں سے ان کی رضامندی سے وہ زمین خریدتی ہے جس پر پہلے ریاست ملکیت کا دعوی کرچکی ہے! کیا یہ جزیرہ واقعی ریاستی ملکیت ہے اور یہاں کے باسیوں کے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جو اس پر ان کی ملکیت کو ثابت کریں؟ کیا ریاست کےلیے سرمایہ کاری اور ترقی کے بہانے اس زمین کو ان سے لینا اور ان کو اس کو چھوڑکر یہاں سے چلے جانے پر مجبور کرنا جائز ہے؟ اس حوالے سے ریاست پر کیا فرض ہے؟
اوّل: یہ جزیرہ ان تمام زمینوں کی طرح ہی ہے جنہیں اہل مصر نے آباد اور تعمیر کیا اور نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوئیں۔ یہ ان کی ذاتی ملکیت ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اس پر کاشت کرتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں اور وہاں پر رہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ أَحْيَا أَرْضاً مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ»
"جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اُس کی ہے۔"
اس لیے زمین کے بارے میں اصل حکم یہی ہے کہ اس کی تعمیر اور آباد کرنا ہی اس کی شرعی ملکیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ جج نے جس چیز کو نظر انداز کیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ ریاست کی ملکیت ہے اور ریاست کےلیے اس کو لوگوں سے واگزار کرنا جائز ہے جبکہ وہ اس پر رہائش پذیر ہیں اور اس کو کاشت کر رہے ہیں۔
دوئم: اس کو لوگوں سے لینا جائز نہیں، نہ ہی دھوکے سے اور نہ ہی زور زبردستی سے یا ترقی کا بہانہ بناکر جیسا کہ حکومت دعوی کر رہی ہے۔
سوئم: ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان کو وہاں باعزت اور پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت دے، اگر ریاست واقعی اس کی ترقی چاہتی ہے اور خدمات فراہم کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا امر مانع ہے؟ کیا ترقیاتی کاموں کےلیے ضروری ہے کہ اس کو پہلے بڑے مالدار اشرافیہ خرید لیں تاکہ وہاں خدمات فراہم کی جا سکیں؟! کیا یہ ریاست کا فرض نہیں کہ وہ اہل مصر کی دیکھ بھال کرے، ان کو تمام خدمات مہیا کرے اور ان کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنائے، یا یہ کہ باعزت زندگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور حکومت میں وہ کیا مقام رکھتے ہیں ، اور فیصلہ سازوں سے ان کی کتنی قربتداری ہے؟!
اے الوراق جزیرے کے معزز لوگو: یہ زمین تمہاری زمین ہے؛ یہ تمہارا شرعی حق ہے، اس حق سے دستبردار ہونا تمہارے لیے جائز نہیں اور حکومتی مہم کے سامنے ڈٹ جانا تم پر فرض ہے۔ اہل مصر پر تمہارے اس حق کی حمایت فرض ہے اور حکومتی درندگی سے بچنے کےلیے تمہیں یکجان ہونا ہے، اور یہی چیز اس حکومت اور اس کی درندگی کا راستہ روک سکتی ہے۔
اے مصر، الکنانہ کے باشندو: تاجر اور ٹھیکہ دار کی ذہنیت سے سوچنے والی یہ حکومت الوراق جزیرے سے ہاتھ نہیں کھینچے گی بلکہ یہ ہر اس زمین پر دست درازی کرے گی جہاں کوئی بھی نمایاں بات ہو اور سرمایہ کاری کا امکان ہو جیسا کہ اس نے ماسیبرو تکون اور اسکندریہ کے المعمورہ باغات کے ساتھ کیا ، اوریہ اس کو جبراً اور زبردستی ہتھیالے گی۔ اس وقت تمہارا حکومت کے سامنے ڈٹ جانا اور اہل الوراق پر ظلم ودست درازی سے اس کو روکنا اور ان کی زمین اس حکومت سے واپس لینا ایک شرعی فریضہ ہے۔ اگر آج تم نے ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تو حکومت تم سے ایک ایک کرکے ہر چیزچھین لے گیاور اس وقت تم کہو گے" مجھے تو اسی دن کھایا گیا تھا جس دن سفید بیل کو کھایا گیا تھا"، ہم پر حملہ اسی دن ہوا تھا جس دن ہم نے اہل الوراق کو حکومت کے سامنے تنہا چھوڑ دیا تھا۔
اے مصر ، الکنانہ کے باشندو: تمہارے لیے انصاف اور حقوق کی ضمانت جو چیز دے سکتی ہے وہ صرف نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ میں اسلام کا نفاذ ہے۔ یہ وہ فکر ہے جس سے یہ حکومت برسرپیکار ہے اور اس کےلیے کام کرنے والوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ ہم حزب التحریر نے ایک مکمل منصوبہ تیار کررکھا ہے جوکہ فورا ًنفاذ کےلیے تیار ہے،اور اسے ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس لیے ہمارے ساتھ مل کر اس اسلام کے نفاذ کےلیے کام کریں جو حق داروں کو ان کا حق واپس دلائے گی، اہل الوراق کو اور تمام اہل مصر کو انصاف کی ضمانت دے گی۔
اے کنانہ کی فوج میں موجود مخلص لوگو: جب ابن تیمیہؒ دمشق کے جیل میں تھے تو جلاد آپ کے پاس آیااور کہا: شیخ صاحب مجھے معاف کیجئے ہم تو حکم کے پابند ہیں۔ ابن تیمیہؒ نے اس سے فرمایا: "اللہ کی قسم تم نہ ہوتے تو یہ (حکمران)ظلم نہیں کرپاتے! "اللہ کی قسم تم نہ ہوتے تو حکومت مصر اور اہل مصر پر ظلم نہ کرپاتی، نہ ان پر جبر کرپاتی ، نہ تمہیں غلام بناپاتی جیسا کہ اب بنایا ہوا ہے، اور اللہ کی قسم تم پیشی کے دن، اس دن جب اللہ عزوجل تمہیں پیش ہونے کےلیے بلائے گا، تم ذمہ دار ہوگے:
﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ * مَا لَكُمْ لا تَنَاصَرُونَ﴾
" اور ان کو ٹھیرائے رکھو کہ ان سے (کچھ) پوچھنا ہے ، تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ "(الصفت، 25-24)،
تب یہ حکمران تمہیں کوئی فائدہ دے گا نہ ہی اس کے اموال نہ اس کے مناصب اور امتیازات جن کے ذریعے وہ تمہیں بھکا رہا ہے، تمہارے دین وایمان کو خرید رہا ہے، تمہاری عزت اور وفاداری مول لے رہا ہے۔ اس لیے اس دن کی تیاری کرو جب تم اللہ کے سامنے ہوگے، لوگوں نے تمہارا گریبان پکڑا ہوگا کہ اے ہمارے رب ، اُنہوں نے ہمیں نیچا دکھایا اور تیرے دشمن اور ہمارے دشمن کو ہمارے خلاف طاقت بخشی۔
اے کنانہ کی فوج کے مخلص لوگو: تم پر شرعی فرض اس حکومت کے ظلم سے لوگوں کو بچانا ہے، اور اس کی زیادتی سے لوگوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
تمہارا پہلا فرض ہے لوگوں کی دیکھ بھال کی ضمانت دینا اور ان کے حقوق اور عزت وآبرو کی حفاظت کرناہے، اس حکومت کو اس کے تمام آلات، ستونوں اور مددگاروں سمیت جڑ سے اکھاڑنا ہے، نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کی بحالی کےلیے جدوجہد کرنے والوں کو نصرہ فراہم کرنا ہے؛ جو لوگوں کو ہر ظالم سے بچائے گی اور ان کی عزت و وقار بحال کرے گی۔ یہی تمہارا کردار ہونا چاہیے، یہی تمہاری ذمہ داری ہے جس کے بارے میں اللہ عزوجل کے سامنے تم سے سوال ہوگا، اس لیے قدم اٹھاؤ، شاید اللہ تمہارے ہی ہاتھوں فتح دے ،پھر ہم اس کو ایک حقیقت کی روپ میں دیکھیں۔ اور اللہ ہم سب سے راضی ہوگا اور مصر تمہارے ذریعے اللہ کے اذن سے دیر سے نہیں بلکہ بہت جلد منور ہوگا۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے۔"(الانفال:24)
ولایہ مصر میں حزب التحریر کا میڈیاآفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ مصر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 01015119857- 0227738076 www.hizb.net |
E-Mail: info@hizb.net |