بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت و آمریت نے استعماری پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے پاکستان کو ایک صنعتی طاقت بننے سے محروم رکھا ہے
اس امر کے باوجودکہ پاکستان کے پاس وسیع معدنی ذخائر، نوجوان اور محنتی لوگ موجود ہیں اور اپنی استعداد کی بنا پر پاکستان کا شمار ''اگلی گیارہ معیشتوں''میں کیا جاتا ہے،آزادی سے لے کر آج تک اس کے صنعتی شعبے کی حالت انتہائی کمزور رہی ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کی صنعتی ترقی محض بنیادی اور سادہ صنعتی شعبے کی ترقی تھی جس میں بھاری صنعتوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ صنعتی شعبے میں ترقی جو 1980میں 8.2فیصد تھی 1990میں کم ہو کر پہلے 4.8فیصد اور پھر 3.2فیصد رہ گئی۔97-1996میں صنعتی شعبے کی ترقی منفی 0.1فیصد اور2000-1999میں 1.5فیصد ہوگئی۔1990کی دہائی میں نجی سرمایہ کاری 10فیصد سے کم ہو کر 8فیصد ہو گئی جبکہ اس دوران صنعتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا جیسا کہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI)کے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے ۔ 1990کی دہائی میں بڑی صنعتوں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں60فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس دوران ایک کے بعد آنے والے ہر دوسری حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں تیل و گیس کی پیداوار،ریفائینریز اور بجلی کے کارخانوں کے قیام میں ہر طرح کی مدد فراہم کی اور ان سے حاصل ہونے والے عظیم منافع کو بیرون ملک لے جانے کی اجازت دی لیکن دوسری جانب مقامی نجی کمپنیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئی یہاں تک کہ ایک عام سی صنعت کے قیام کے لیے بھی پہلے بائیسNon Objection Certificatesکا حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ لہٰذا یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہے کہ آج ہزاروں کی تعداد میں کارخانوں کو بیمار قرار دیاجا چکا ہے اور بحیثیت مجموعی مقامی صنعتوں کی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیاں ہماری معیشت پر اپنا قبضہ مضبوط کررہی ہیں۔
جمہوریت کبھی پاکستان کو اس کی استعداد کے مطابق مقام حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ جمہوریت مغربی استعماری پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔ دنیا کے وسائل لوٹنے والی استعماری طاقتیں یہ چاہتیں ہیں کہ پاکستان کا صنعتی شعبہ کمزور رہے، یہ خود سے اپنے معدنی وسائل کو نکالنے اور بھاری صنعتوں جیسے انجن یا جیٹ انجن سازی کی صلاحیت سے محروم رہے ، سادہ سی زرعی مشینری درآمد کرنے پر بھی مجبور رہے ،سستی اور عام سی صنعتی اشیا،ٔ جیسے بجلی کے پنکھے، آلات جراحی، کھیلوں کا سامان وغیرہ مغربی ممالک کو بر آمد کرتا رہے اور پاکستان کو مغربی ممالک کی صنعتی پیداوار کی کھپت کی ایک وسیع مارکیٹ بنا کر رکھا جائے ۔ وسیع بے روزگاری، مہنگی اشیأ، ہتھیاروں کے لیے مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی پر انحصار ،امت کے عظیم بیٹوں اور بیٹیوں کا مغربی ممالک کا رخم کرنا ،یہ وہ چند علامات ہیں جو استعماری پالیسوں کے تسلسل کا نتیجہ ہیں۔ یہ استعماری پالیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے وقت سے جاری ہے اور آج بھی جمہوریت کے ذریعے نافذ العمل ہے۔ جمہوریت محض ایک ربڑاسٹیمپ ہے جو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی استعماری پالیسی کو نافذ کرتی ہے۔
صنعتی ترقی کے احیأ کے لیے استعماری زنجیروں اور پابندیوں کو توڑنا
ایک طاقتور صنعتی شعبے کے قیام کے لیے لازمی ہے کہ فوجی صنعت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ امریکہ اور چین دنیا کے طاقتور ترین صنعتی ممالک ہیں کیونکہ ان دونوں نے جنگی صنعتوں پر توجہ مرکوز کی جس میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی، سپر کمپیوٹرز اور خلائی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے قبل جاپان اور جرمنی نے جنگوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے جس صنعتی پالیسی کو اختیار کیا تھا وہ پالیسی آج تک انھیں فائدہ پہنچا رہی ہے ۔ کار سازی کے شعبے میں ان کی ترقی دراصل ٹینک، بکتر بند گاڑیوں اور جیٹ انجن سازی کے تجربے کی مرہون منت ہے۔ عام استعمال کی اشیأ میں پیدا کی گئی جدت دراصل فوجی و خلائی ٹیکنالوجی کے ثمرات ہیں جیسا کہ کچن میں استعمال ہونے والی اشیأ، فرائی پین میں ٹیفلان کا استعمال اور انٹر نیٹ کا نظام۔ لیکن اس بات کے باوجود کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت پیدا کی، استعماریت کی وجہ سے پاکستان کو طاقتور صنعتی شعبے کے قیام سے محروم رکھا گیا ہے ۔ پاکستان کی افواج دشمن ممالک سے فوجی سازوسامان حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور ٹیلی کمیونی کیشن سے لے کر انجن سازی اور بھاری صنعتوں تک، معیشت کے اہم شعبے بیرونی اشیأ اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں ۔
صنعتی شعبے کو نجکاری(Privatization) اور قومیانے (Nationalization)کی پالیسیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔اگرچہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ ممالک نے دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکنے کے لیے صنعتوں کو مکمل قومیانے کی پالیسی کی حمایت کی ہے لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے اپنے اِس کم نظری پر مبنی حل کے ذریعے انسانوں میں موجود فطری دولت کے حصول کی خواہش کو دبادیا جو تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داریت ایک دوسری انتہأ کی حمایت کرتی ہے اور مکمل نجی ملکیت کے نظریے کو فروغ دیتی ہے۔ سرمایہ داریت اس بات کا خیال نہیں رکھتی کہ ان وسائل کو قطعاً نجی ملکیت میں نہیں دیا جانا چاہیے جن پر لوگوں کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور اہم صنعتیں اور ایسی صنعتیں میں جن میں بھاری سرمایہ کاری درکارہوتی ہے، میں ریاست کو لازماً اپنا بھر پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا نہ صرف دولت کے عظیم وسائل جہاں چند ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتے ہیں وہی یہ سرمایہ دار ایسے گروپوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو ریاست کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور قدرتی وسائل سے مالامال ممالک خصوصاً مسلم ممالک پر جنگیں مسلط کرتے ہیں۔
تحقیق و ترقی اور بھاری صنعتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن یہ دونوں شعبے ریاست کے اس تصور کی بنا پر آگے بڑھتے ہیں کہ اس نے دنیا کی صف اول کی ریاست بننا ہے۔ امریکہ ،جو کہ ابھی تک دنیا کی سپر پاور ہے، نے دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کے لیے شدید جدوجہد کی جس کے نتیجے میں اس کے یہاں ایک بہت بڑا بھاری صنعتوں کا شعبہ وجود میں آیا۔ اس نے غیر ملکی سائنسدانوں کو بھی جمع کیا جیسا کہ جرمن راکٹ انجینئرز، اور یونیورسٹیاں قائم کیں تا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کرے۔ امریکہ کے پاس وہ کچھ ہے جو کبھی خلافت کے پاس صدیوں تک موجود رہا جب خلافت کی یونیورسٹیاں یورپی اقوام کے پسندیدہ ترین مقام تھے اور دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان عربی تھی اور خلافت کی صنعتیں اور ہتھیار دنیا بھر میں اس کے رعب و دبدبے کا باعث تھیں۔ جبکہ آج پاکستان کا حال یہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین دماغ ملک چھوڑ کر ان علاقوں کا رخ کررہے ہیں جہاں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کے بہتر مواقع موجود ہیں۔
اگر ہمیں بھاری صنعتوں کے شعبے میں صفِ اول کی ریاست بننا ہے تاکہ ہم انجن اور صنعتی مشینری بنا سکیں تو پھر اس مقصد کے لیے ریاست اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اس بات کے باوجود کہ ملک میں دولت کی کوئی کمی نہیں جس میں وہ کھربوں روپے بھی شامل ہیں جو بینکوں اور اسٹاک مارکیٹوں میں موجود ہیں ،پاکستان کے ایجنٹ حکمران استعماری ممالک سے ان شرائط پر قرضے لیتے ہیں جس کے ذریعے نجی اور ریاستی شعبے میں زبردست صنعتی ترقی کو روکا جاتا ہے۔
دنیا کی صفِ اول کی ریاست بننے کے لیے عظیم صنعتی طاقت قائم کی جائے گی
خلافت کے قیام کے پہلے دن سے اسلامی ریاست اس بات کی بھرپور کوشش کرے گی کہ وہ دنیا کی صف اول کی ریاست بن جائے،ایسی ریاست کہ کوئی بھی اس کا مدمقابل نہ رہے جیسا کہ کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ صنعتی شعبے کی بنیاد فوجی ہوگی جس کے نتیجے میں بھاری صنعتوں میں بہت جلد زبردست ترقی ممکن ہوگی۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ )
''اورتم اپنی مقدور بھر قوت اور گھوڑوں کو ان کے لیے تیاررکھو، تا کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو اور اس کے سوا اُن کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔''(الانفال، 8:60) ۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 74میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ''محکمہ صنعت وہ محکمہ ہے جو صنعت سے متعلق تمام معاملات کا ذمہ دار ہے خواہ یہ صنعت بھاری صنعت ہو جیسے انجن اور آلات سازی ، گاڑیوں کی باڈی اور کیمیکل اور الیکٹرانک مصنوعات یا پھر ہلکی(چھوٹی) صنعت ہو۔ وہ کارخانے جن کا تعلق حربی(جنگی) شعبے سے ہے اس شعبے کے تحت آئیں گے خواہ ان کارخانوں میں تیار مال عوامی ملکیت میں آتا ہو یاانفرادی ملکیت میں، تمام کارخانے جنگی پالیسی کی بنیاد پر استوارہونے چاہئیں۔ ریاست پر فرض ہے کہ وہ اپنا اسلحہ خود بنائے ۔ اسے دوسری ریاستوں سے اسلحہ خریدنے پرانحصار کرناجائز نہیں کیونکہ اس سے دوسری ریاستوں کو ریاست کو کنٹرول کرنے، اورریاست کے اختیار کو، اس کے اسلحے کو اور اس کی جنگی صلاحیت کو کنٹرول کرنے کا موقع ملے گا۔یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ریاست بھاری صنعت خود ریاست کی نگرانی میں قائم نہ کرے اور اس کو ترقی نہ دے اور ایسی فیکٹریاں اور کارخانے قائم نہ کرے جو بھاری صنعت کے لیے ضروری ہیں چاہے ان کا تعلق فوجی صنعت سے ہو یا غیر فوجی صنعت سے''۔
جہاں تک نجکاری اور قومیانے(نیشنلائزیشن) کے تصورات کا تعلق ہے تو اسلام ،جو کہ دنیا کا واحد سچا دین ہے،نے اس مسئلہ کو اس کی بنیاد سے حل کردیا ہے۔ عوامی اثاثے جیسا کہ وسیع قدرتی وسائل،تیل وگیس،اوربجلی کے کارخانے عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس کے محاصل(Revenue) اوران کا استعمال تمام عوام کے لیے ہوتا ہے اور ریاست اس بات کو یقینی بناتی ہے۔ وہ کارخانے جن کی پیداوار عوامی اثاثوں کی مرہون منت ہے وہ بھی عوامی ملکیت میں شامل ہوں گے۔ اس قسم کے کارخانوں کی نہ ہی نجکاری کی جائے گی اور نہ ہی انھیں نیشنلائز جائے گا۔ اس میں کوئلہ، سونا، تانبہ جیسی معدنیات کو نکالنے اور ان کی صفائی کی کارخاے شامل ہیں ۔اس کے علاوہ تیل و گیس کی ریفائینریز ، بجلی کے پیداواری کارخانے اور ان کی تقسیم کی کمپنیاں بھی عوامی ملکیت میں شامل ہیں۔ چونکہ عوامی اثاثوں سے منسلک اس قسم کے کارخانوں کی نہ تو کبھی نجکاری ہو گی اور نہ ہی وہ کبھی نیشنل لائز کیے جائیں گے جس سے نجی شعبے میں قائم کارخانوں کودرکار پیداواری مال،بجلی ،تیل اور گیس سستے داموں میسر ہوں گی۔ اس کے علاوہ وہ کارخانے جو نجی شعبے میں قائم کیے جاسکتے ہیں ان کو کبھی نہ تو نیشنلائز کیا جائے گا اور نہ ہی انھیں عوامی ملکیت قرار دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))
''تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ(توانائی)۔''(ابو داؤد)۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 138میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ '' کارخانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت ہے ،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔ اگر یہ مواد فردکی املاک میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں داخل ہو گا۔ جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹریاں) اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہوگا تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے (Steel Mill)'' ۔اور دفعہ 139میں کہا گیا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیو نکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی طبیعت اور فطرت اور اسکی صفت میں پائیدار طور پر موجودہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں۔ اس وجہ سے جس چیز کو قومیانہ(نیشنلائزیشن) کہا جاتا ہے، شرع میں یہ کوئی چیز نہیں''۔ اور دفعہ 140میں یہ کہا گیا ہے کہ ''امت کے افراد میں سے ہر فرد کو ایسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہو ۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے''۔
ریاست خود بھاری صنعتیں قائم کرے گی جن میں انجن سازی کی صنعت بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست بنیادی صنعتی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کرے گی اور انھیں امداداور غیر سودی قرضے ، سستی بجلی اور ٹرانسپورٹ فراہم کرے گی۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 74میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ '' چنانچہ ریاست کے پاس اپنا ایٹمی پلانٹ ، ایٹمی ریکڑز ،اپنی خلائی شٹل ،اپنا میزائل پروگرام ،مصنوعی سیارے،جنگی جہاز ،ٹینک، بحری بیڑے ، ہر قسم کی بکتربند گاڑیاں الغرض ہر قسم کا بھاری اور ہلکا اسلحہ وافر مقدار میں تیار ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ریاست پر فرض ہے کہ اس کے پاس ہر قسم کی مشینیں، انجن ، کیمیکل، اور الیکٹرانک آلات بنانے کی فیکٹریاں اور کارخانے ہوں ۔ مزید برآں وہ فیکٹریاں ہونا جو عوامی ملکیت کے زمرے میں آتی ہیں یا وہ فیکٹریاں اور کارخانے جو چھوٹی جنگی مصنوعات بناتی ہیں، تمام اس فرض کی ادائیگی کے لئے ضروری ہیں''۔
تحقیق و ترقی کے شعبے کے لیے ریاست لازمی ایسی سہولیات فراہم کرے گی جس کے نتیجے میں خلافت کی صنعت دنیا کی صنعتی طاقت بن سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاست بھاری سرمایہ کاری کرے گی اور یونیورسٹیوں کے تحقیق و ترقی کے شعبے کو صنعتوں سے منسلک کرے گی تاکہ ریاست کی ضرورت کے مطابق انجینئرز، ماہر تعمیرات، ٹاؤن پلینرز، ڈاکٹرز، ماہر تعلیم اور زرعی سائنسدان پیدا کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ ریاست نجی شعبے کو بھی تحقیق و ترقی کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 162میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ ''رعایا کے تمام افراد کو زندگی کے ہر مسئلے سے متعلق علمی تجربہ گاہیں بنانے کا حق حاصل ہے اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ لیبارٹریاں قائم کرے''۔
جہاں تک صنعتی ترقی کے لیے درکار سرمائے کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح حاصل کیا جائے گا، اہم اور بنیادی صنعتوں کے ریاست کی ملکیت میں ہونے سے اور محصولات کے متعلق شرعی احکامات کے نفاذ کے ذریعے ریاست اس قابل ہوگی کہ وہ صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے ریاستی صنعتوں اور نجی شعبے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرسکے ۔ اور ان تمام اقدامات کے بعد صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے قطعاً غیرملکی اداروں یا ریاستوں کی مالی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً)
''اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مومنین پر ہر گز کوئی راستہ (اختیار یا غلبہ )نہیں دیا۔''(النساء، 4:141)۔
اس پالیسی کے نتیجے میں ریاست فوجی ٹیکنالوجی، کپڑے، ہاؤسنگ،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خودکفیل ہوجائے گی۔ غیر ملکی تجارت صرف ان ممالک سے کی جائے گی جن کے ساتھ امن کے معاہدے ہوں گے اور یہ تجارت بھی اس طریقے سے کی جائے گی کہ وہ اس قدر طاقتور نہ ہوجائیں کہ اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرسکیں کیونکہ بالآخر اسلام کو ہی پوری دنیا پر غالب اور نافذ کرنا ہے۔
ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ165میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ ''غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک کے اندر اس کی سرمایہ کاری کرنا ممنوع ہوگی۔ کسی غیر ملکی شخص کو کوئی امتیازی رعایت نہیں دی جائے گی۔"
بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت و آمریت نے استعماری پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے پاکستان کو ایک صنعتی طاقت بننے سے محروم رکھا ہے
اس امر کے باوجودکہ پاکستان کے پاس وسیع معدنی ذخائر، نوجوان اور محنتی لوگ موجود ہیں اور اپنی استعداد کی بنا پر پاکستان کا شمار ''اگلی گیارہ معیشتوں''میں کیا جاتا ہے،آزادی سے لے کر آج تک اس کے صنعتی شعبے کی حالت انتہائی کمزور رہی ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کی صنعتی ترقی محض بنیادی اور سادہ صنعتی شعبے کی ترقی تھی جس میں بھاری صنعتوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ صنعتی شعبے میں ترقی جو 1980میں 8.2فیصد تھی 1990میں کم ہو کر پہلے 4.8فیصد اور پھر 3.2فیصد رہ گئی۔97-1996میں صنعتی شعبے کی ترقی منفی 0.1فیصد اور2000-1999میں 1.5فیصد ہوگئی۔1990کی دہائی میں نجی سرمایہ کاری 10فیصد سے کم ہو کر 8فیصد ہو گئی جبکہ اس دوران صنعتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا جیسا کہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI)کے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے ۔ 1990کی دہائی میں بڑی صنعتوں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں60فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس دوران ایک کے بعد آنے والے ہر دوسری حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں تیل و گیس کی پیداوار،ریفائینریز اور بجلی کے کارخانوں کے قیام میں ہر طرح کی مدد فراہم کی اور ان سے حاصل ہونے والے عظیم منافع کو بیرون ملک لے جانے کی اجازت دی لیکن دوسری جانب مقامی نجی کمپنیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئی یہاں تک کہ ایک عام سی صنعت کے قیام کے لیے بھی پہلے بائیسNon Objection Certificatesکا حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ لہٰذا یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہے کہ آج ہزاروں کی تعداد میں کارخانوں کو بیمار قرار دیاجا چکا ہے اور بحیثیت مجموعی مقامی صنعتوں کی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیاں ہماری معیشت پر اپنا قبضہ مضبوط کررہی ہیں۔
جمہوریت کبھی پاکستان کو اس کی استعداد کے مطابق مقام حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ جمہوریت مغربی استعماری پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔ دنیا کے وسائل لوٹنے والی استعماری طاقتیں یہ چاہتیں ہیں کہ پاکستان کا صنعتی شعبہ کمزور رہے، یہ خود سے اپنے معدنی وسائل کو نکالنے اور بھاری صنعتوں جیسے انجن یا جیٹ انجن سازی کی صلاحیت سے محروم رہے ، سادہ سی زرعی مشینری درآمد کرنے پر بھی مجبور رہے ،سستی اور عام سی صنعتی اشیا،ٔ جیسے بجلی کے پنکھے، آلات جراحی، کھیلوں کا سامان وغیرہ مغربی ممالک کو بر آمد کرتا رہے اور پاکستان کو مغربی ممالک کی صنعتی پیداوار کی کھپت کی ایک وسیع مارکیٹ بنا کر رکھا جائے ۔ وسیع بے روزگاری، مہنگی اشیأ، ہتھیاروں کے لیے مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی پر انحصار ،امت کے عظیم بیٹوں اور بیٹیوں کا مغربی ممالک کا رخم کرنا ،یہ وہ چند علامات ہیں جو استعماری پالیسوں کے تسلسل کا نتیجہ ہیں۔ یہ استعماری پالیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے وقت سے جاری ہے اور آج بھی جمہوریت کے ذریعے نافذ العمل ہے۔ جمہوریت محض ایک ربڑاسٹیمپ ہے جو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی استعماری پالیسی کو نافذ کرتی ہے۔
صنعتی ترقی کے احیأ کے لیے استعماری زنجیروں اور پابندیوں کو توڑنا
ایک طاقتور صنعتی شعبے کے قیام کے لیے لازمی ہے کہ فوجی صنعت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ امریکہ اور چین دنیا کے طاقتور ترین صنعتی ممالک ہیں کیونکہ ان دونوں نے جنگی صنعتوں پر توجہ مرکوز کی جس میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی، سپر کمپیوٹرز اور خلائی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے قبل جاپان اور جرمنی نے جنگوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے جس صنعتی پالیسی کو اختیار کیا تھا وہ پالیسی آج تک انھیں فائدہ پہنچا رہی ہے ۔ کار سازی کے شعبے میں ان کی ترقی دراصل ٹینک، بکتر بند گاڑیوں اور جیٹ انجن سازی کے تجربے کی مرہون منت ہے۔ عام استعمال کی اشیأ میں پیدا کی گئی جدت دراصل فوجی و خلائی ٹیکنالوجی کے ثمرات ہیں جیسا کہ کچن میں استعمال ہونے والی اشیأ، فرائی پین میں ٹیفلان کا استعمال اور انٹر نیٹ کا نظام۔ لیکن اس بات کے باوجود کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت پیدا کی، استعماریت کی وجہ سے پاکستان کو طاقتور صنعتی شعبے کے قیام سے محروم رکھا گیا ہے ۔ پاکستان کی افواج دشمن ممالک سے فوجی سازوسامان حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور ٹیلی کمیونی کیشن سے لے کر انجن سازی اور بھاری صنعتوں تک، معیشت کے اہم شعبے بیرونی اشیأ اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں ۔
صنعتی شعبے کو نجکاری(Privatization) اور قومیانے (Nationalization)کی پالیسیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔اگرچہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ ممالک نے دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکنے کے لیے صنعتوں کو مکمل قومیانے کی پالیسی کی حمایت کی ہے لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے اپنے اِس کم نظری پر مبنی حل کے ذریعے انسانوں میں موجود فطری دولت کے حصول کی خواہش کو دبادیا جو تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داریت ایک دوسری انتہأ کی حمایت کرتی ہے اور مکمل نجی ملکیت کے نظریے کو فروغ دیتی ہے۔ سرمایہ داریت اس بات کا خیال نہیں رکھتی کہ ان وسائل کو قطعاً نجی ملکیت میں نہیں دیا جانا چاہیے جن پر لوگوں کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور اہم صنعتیں اور ایسی صنعتیں میں جن میں بھاری سرمایہ کاری درکارہوتی ہے، میں ریاست کو لازماً اپنا بھر پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا نہ صرف دولت کے عظیم وسائل جہاں چند ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتے ہیں وہی یہ سرمایہ دار ایسے گروپوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو ریاست کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور قدرتی وسائل سے مالامال ممالک خصوصاً مسلم ممالک پر جنگیں مسلط کرتے ہیں۔
تحقیق و ترقی اور بھاری صنعتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن یہ دونوں شعبے ریاست کے اس تصور کی بنا پر آگے بڑھتے ہیں کہ اس نے دنیا کی صف اول کی ریاست بننا ہے۔ امریکہ ،جو کہ ابھی تک دنیا کی سپر پاور ہے، نے دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کے لیے شدید جدوجہد کی جس کے نتیجے میں اس کے یہاں ایک بہت بڑا بھاری صنعتوں کا شعبہ وجود میں آیا۔ اس نے غیر ملکی سائنسدانوں کو بھی جمع کیا جیسا کہ جرمن راکٹ انجینئرز، اور یونیورسٹیاں قائم کیں تا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کرے۔ امریکہ کے پاس وہ کچھ ہے جو کبھی خلافت کے پاس صدیوں تک موجود رہا جب خلافت کی یونیورسٹیاں یورپی اقوام کے پسندیدہ ترین مقام تھے اور دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان عربی تھی اور خلافت کی صنعتیں اور ہتھیار دنیا بھر میں اس کے رعب و دبدبے کا باعث تھیں۔ جبکہ آج پاکستان کا حال یہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین دماغ ملک چھوڑ کر ان علاقوں کا رخ کررہے ہیں جہاں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کے بہتر مواقع موجود ہیں۔
اگر ہمیں بھاری صنعتوں کے شعبے میں صفِ اول کی ریاست بننا ہے تاکہ ہم انجن اور صنعتی مشینری بنا سکیں تو پھر اس مقصد کے لیے ریاست اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اس بات کے باوجود کہ ملک میں دولت کی کوئی کمی نہیں جس میں وہ کھربوں روپے بھی شامل ہیں جو بینکوں اور اسٹاک مارکیٹوں میں موجود ہیں ،پاکستان کے ایجنٹ حکمران استعماری ممالک سے ان شرائط پر قرضے لیتے ہیں جس کے ذریعے نجی اور ریاستی شعبے میں زبردست صنعتی ترقی کو روکا جاتا ہے۔
دنیا کی صفِ اول کی ریاست بننے کے لیے عظیم صنعتی طاقت قائم کی جائے گی
خلافت کے قیام کے پہلے دن سے اسلامی ریاست اس بات کی بھرپور کوشش کرے گی کہ وہ دنیا کی صف اول کی ریاست بن جائے،ایسی ریاست کہ کوئی بھی اس کا مدمقابل نہ رہے جیسا کہ کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ صنعتی شعبے کی بنیاد فوجی ہوگی جس کے نتیجے میں بھاری صنعتوں میں بہت جلد زبردست ترقی ممکن ہوگی۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ )''اورتم اپنی مقدور بھر قوت اور گھوڑوں کو ان کے لیے تیاررکھو، تا کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو اور اس کے سوا اُن کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔''(الانفال، 8:60) ۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 74میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ''محکمہ صنعت وہ محکمہ ہے جو صنعت سے متعلق تمام معاملات کا ذمہ دار ہے خواہ یہ صنعت بھاری صنعت ہو جیسے انجن اور آلات سازی ، گاڑیوں کی باڈی اور کیمیکل اور الیکٹرانک مصنوعات یا پھر ہلکی(چھوٹی) صنعت ہو۔ وہ کارخانے جن کا تعلق حربی(جنگی) شعبے سے ہے اس شعبے کے تحت آئیں گے خواہ ان کارخانوں میں تیار مال عوامی ملکیت میں آتا ہو یاانفرادی ملکیت میں، تمام کارخانے جنگی پالیسی کی بنیاد پر استوارہونے چاہئیں۔ ریاست پر فرض ہے کہ وہ اپنا اسلحہ خود بنائے ۔ اسے دوسری ریاستوں سے اسلحہ خریدنے پرانحصار کرناجائز نہیں کیونکہ اس سے دوسری ریاستوں کو ریاست کو کنٹرول کرنے، اورریاست کے اختیار کو، اس کے اسلحے کو اور اس کی جنگی صلاحیت کو کنٹرول کرنے کا موقع ملے گا۔یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ریاست بھاری صنعت خود ریاست کی نگرانی میں قائم نہ کرے اور اس کو ترقی نہ دے اور ایسی فیکٹریاں اور کارخانے قائم نہ کرے جو بھاری صنعت کے لیے ضروری ہیں چاہے ان کا تعلق فوجی صنعت سے ہو یا غیر فوجی صنعت سے''۔
جہاں تک نجکاری اور قومیانے(نیشنلائزیشن) کے تصورات کا تعلق ہے تو اسلام ،جو کہ دنیا کا واحد سچا دین ہے،نے اس مسئلہ کو اس کی بنیاد سے حل کردیا ہے۔ عوامی اثاثے جیسا کہ وسیع قدرتی وسائل،تیل وگیس،اوربجلی کے کارخانے عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس کے محاصل(Revenue) اوران کا استعمال تمام عوام کے لیے ہوتا ہے اور ریاست اس بات کو یقینی بناتی ہے۔ وہ کارخانے جن کی پیداوار عوامی اثاثوں کی مرہون منت ہے وہ بھی عوامی ملکیت میں شامل ہوں گے۔ اس قسم کے کارخانوں کی نہ ہی نجکاری کی جائے گی اور نہ ہی انھیں نیشنلائز جائے گا۔ اس میں کوئلہ، سونا، تانبہ جیسی معدنیات کو نکالنے اور ان کی صفائی کی کارخاے شامل ہیں ۔اس کے علاوہ تیل و گیس کی ریفائینریز ، بجلی کے پیداواری کارخانے اور ان کی تقسیم کی کمپنیاں بھی عوامی ملکیت میں شامل ہیں۔ چونکہ عوامی اثاثوں سے منسلک اس قسم کے کارخانوں کی نہ تو کبھی نجکاری ہو گی اور نہ ہی وہ کبھی نیشنل لائز کیے جائیں گے جس سے نجی شعبے میں قائم کارخانوں کودرکار پیداواری مال،بجلی ،تیل اور گیس سستے داموں میسر ہوں گی۔ اس کے علاوہ وہ کارخانے جو نجی شعبے میں قائم کیے جاسکتے ہیں ان کو کبھی نہ تو نیشنلائز کیا جائے گا اور نہ ہی انھیں عوامی ملکیت قرار دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))''تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ(توانائی)۔''(ابو داؤد)۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 138میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ '' کارخانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت ہے ،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔ اگر یہ مواد فردکی املاک میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں داخل ہو گا۔ جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹریاں) اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہوگا تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے (Steel Mill)'' ۔اور دفعہ 139میں کہا گیا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیو نکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی طبیعت اور فطرت اور اسکی صفت میں پائیدار طور پر موجودہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں۔ اس وجہ سے جس چیز کو قومیانہ(نیشنلائزیشن) کہا جاتا ہے، شرع میں یہ کوئی چیز نہیں''۔ اور دفعہ 140میں یہ کہا گیا ہے کہ ''امت کے افراد میں سے ہر فرد کو ایسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہو ۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے''۔
ریاست خود بھاری صنعتیں قائم کرے گی جن میں انجن سازی کی صنعت بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست بنیادی صنعتی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کرے گی اور انھیں امداداور غیر سودی قرضے ، سستی بجلی اور ٹرانسپورٹ فراہم کرے گی۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 74میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ '' چنانچہ ریاست کے پاس اپنا ایٹمی پلانٹ ، ایٹمی ریکڑز ،اپنی خلائی شٹل ،اپنا میزائل پروگرام ،مصنوعی سیارے،جنگی جہاز ،ٹینک، بحری بیڑے ، ہر قسم کی بکتربند گاڑیاں الغرض ہر قسم کا بھاری اور ہلکا اسلحہ وافر مقدار میں تیار ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ریاست پر فرض ہے کہ اس کے پاس ہر قسم کی مشینیں، انجن ، کیمیکل، اور الیکٹرانک آلات بنانے کی فیکٹریاں اور کارخانے ہوں ۔ مزید برآں وہ فیکٹریاں ہونا جو عوامی ملکیت کے زمرے میں آتی ہیں یا وہ فیکٹریاں اور کارخانے جو چھوٹی جنگی مصنوعات بناتی ہیں، تمام اس فرض کی ادائیگی کے لئے ضروری ہیں''۔
تحقیق و ترقی کے شعبے کے لیے ریاست لازمی ایسی سہولیات فراہم کرے گی جس کے نتیجے میں خلافت کی صنعت دنیا کی صنعتی طاقت بن سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاست بھاری سرمایہ کاری کرے گی اور یونیورسٹیوں کے تحقیق و ترقی کے شعبے کو صنعتوں سے منسلک کرے گی تاکہ ریاست کی ضرورت کے مطابق انجینئرز، ماہر تعمیرات، ٹاؤن پلینرز، ڈاکٹرز، ماہر تعلیم اور زرعی سائنسدان پیدا کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ ریاست نجی شعبے کو بھی تحقیق و ترقی کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 162میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ ''رعایا کے تمام افراد کو زندگی کے ہر مسئلے سے متعلق علمی تجربہ گاہیں بنانے کا حق حاصل ہے اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ لیبارٹریاں قائم کرے''۔
جہاں تک صنعتی ترقی کے لیے درکار سرمائے کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح حاصل کیا جائے گا، اہم اور بنیادی صنعتوں کے ریاست کی ملکیت میں ہونے سے اور محصولات کے متعلق شرعی احکامات کے نفاذ کے ذریعے ریاست اس قابل ہوگی کہ وہ صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے ریاستی صنعتوں اور نجی شعبے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرسکے ۔ اور ان تمام اقدامات کے بعد صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے قطعاً غیرملکی اداروں یا ریاستوں کی مالی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً)''اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مومنین پر ہر گز کوئی راستہ (اختیار یا غلبہ )نہیں دیا۔''(النساء، 4:141)۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ریاست فوجی ٹیکنالوجی، کپڑے، ہاؤسنگ،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خودکفیل ہوجائے گی۔ غیر ملکی تجارت صرف ان ممالک سے کی جائے گی جن کے ساتھ امن کے معاہدے ہوں گے اور یہ تجارت بھی اس طریقے سے کی جائے گی کہ وہ اس قدر طاقتور نہ ہوجائیں کہ اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرسکیں کیونکہ بالآخر اسلام کو ہی پوری دنیا پر غالب اور نافذ کرنا ہے۔
ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ165میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ ''غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک کے اندر اس کی سرمایہ کاری کرنا ممنوع ہوگی۔ کسی غیر ملکی شخص کو کوئی امتیازی رعایت نہیں دی جائے گی۔"
9رمضان 1443 ہجری حزب التحریر
10 اپریل 2022ء ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ :9 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : اتوار, 10 اپریل 2022م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان