الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت  سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نجکاری (پرائیوٹائزیشن) کے تصور کی حفاظت کرتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہو گئی ہے

 

پاکستان میں بجلی کے بحران کی ذمہ دار حکومت بذاتِ خود ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کر رہی ہے۔  موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری (پرائیویٹائیزیشن)کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام سختی اور مشقت میں مبتلا رہیں۔    نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے تاکہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کرسکیں۔ سال 2000ء سے 2004ء کے دوران  ورلڈ بینک نے بجلی کی قیمتوں میں اپنی نگرانی میں اضافہ کروایااور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کاجتنا بل دیتے ہیں اتنا بل وہ بجلی کے کارخانوں کی بڑے پیمانے پرنجکاری سے قبل ،گرمیوں کے اُن دنوں میں دیاکرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال اپنی انتہاءپر ہوتا ہے ۔  لہٰذا ایک طرف توبجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں تو دوسری طرف باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت  نے خود کو سود اور کیپیسٹی پے مَنٹ capacity paymentکی مد میں ان نجی کمپنیوں کا  اربوں روپوں کا مقروض کرلیا ہے کیونکہ جب بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے تب بھی حکومت کو ان کمپنیوں کے منافع کو یقینی بنانے کے لیے ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔  کئی سال سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو 2008میں ہماری کُل ملکی پیداوار کا 1.6 فیصد(161ارب روپے) تھا ، اورجون 2020میں بڑھ کر کُل ملکی پیداوار کے 5.2فیصد(2150ارب روپے) تک پہنچ چکا تھا۔ 

 

  بجلی کے پیداواری یونٹس پرسرمایہ دارانہ نظام کے کنٹرول کا فائدہ صرف استعماری طاقتوں اور موجودہ حکمرانوں کو  پہنچتاہے جبکہ عوام اس سے محروم رہتے ہیں

پاکستان میں بجلی61.8فیصد تھرمل ذرائع یعنی فرنس آئل اور گیس سے، 26فیصد ہائیڈل یعنی پانی کے ڈیموں کے ذریعے اور 7فیصد نیوکلیئر یعنی ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی ہے کہ پورا سال بجلی کی موجودہ طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔    جہاں تک تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو مسلم امہ دنیا کے50فیصدسے زائد تیل اور 45فیصد گیس کے ذخائر کی مالک ہے۔ پاکستان میں تھر میں واقع کوئلے کا ذخیرہ دنیا کے چندبڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ہے۔ جہاں تک مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے جیسا کہ سورج کی روشنی،ہوا اورپانی کی لہریں،تو امت میں ایسے بے شمار بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو ان وسائل کو استعمال میں لا کر امت کی ضروریات کو پورا کرنےکا سامان کر سکتے ہیں۔

 

   ان عظیم ذخائر کی نجکاری کے ذریعے مقامی اور غیر ملکی استعماری کمپنیاں بھر پور فائدہ اٹھاتیں ہیں ۔  یہ کمپنیاں یا تو حکمرانوں کی حمایت سے کام کرتی ہیں یا براہِ راست حکمرانوں کے لیے کام کرتیں ہیں۔  لوگوں کا معاشی بد حالی میں مبتلا ہو جانا موجودہ حکمرانوں اور ان کے استعماری آقاؤں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں کرپٹ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

 

توانائی  اور ایندھن کے ذخائر سے حاصل ہونے والے فوائدکوعوام کے لیے  محفوظ بنانا

سرمایہ داریت (کیپٹل ازم)اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو  ریاست کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کے لئے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)"(ابو داؤد)۔ لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو نجی ملکیت بنا دے، خواہ یہ کسی فرد کے لیے بنائی گئی ہو یا گروہ کے لیے ،کیونکہ یہ اثاثے مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن ریاستی اخراجات پر نہیں بلکہ صرف  لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور عوامی سہولیات پر ہی خرچ کی جاسکتی ہے ۔ یہ اصول تمام عوامی اثاثوں پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ توانائی کے وسیع ذرائع  ہوں جیسا کہ تیل، گیس، بجلی وغیرہ یا معدنیات جیسا کہ تانبے، لوہے کی کانیں یا پھرپانی جیسا کہ سمندر، دریا ، ڈیم یا پھرچراہ گاہیں اور جنگلات۔ یقیناً یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ  دنیا میں موجود تیل و گیس اور معدنیات کے بہت بڑے حصے کی مالک  ہے لیکن اسلام کے معاشی نظام کے نافذنہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غربت کی دلدل میں ڈوبےہوئے ہیں اور امت دنیا کے امور میں کوئی وزن نہیں رکھتی جبکہ ایسے ممالک دنیا کے امور پر چھائے ہوئے ہیں جو اس دولت کے بہت کم حصے کے مالک ہیں۔

 

         خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔  اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔  یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں دیے سکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد رنگ،نسل،مسلک اور مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔  خلافت توانائی جیسا کہ  پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ کردے گی جس سے ان کی قیمت میں واضح کمی واقع ہوگی۔  اس بات کی اجازت نہیں کہ لوگوں سے ان وسائل کی قیمت ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت سے زائد لی جائے، تاہم امت کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد وسائل کوغیر مسلم غیر حربی ممالک کو فروخت کیا جا سکتا ہے اوران وسائل  سے حاصل ہونے والی کسی اضافی  آمدن کو عوامی سہولیات کے منصوبوں پر ہی خرچ کرکے اس آمدن کو عوام کو ہی واپس لوٹانا لازم ہے۔  اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔

 

         حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 137میں اعلان کیا ہے کہ''تین طرح کی اشیاء عوام کی ملکیت ہوتی ہیں: (١)ہر وہ چیز جو اجتماعی ضرورت ہو جیسے شہر کے میدان۔ (ب)ختم نہ ہونے والی معدنیات جیسے تیل کے کنوئیں۔  (ج)وہ اشیاء جو طبعی طور پر افراد کے قبضے میں نہیں ہوتی جیسے نہریں''۔  دستور کی دفعہ 138میں لکھا ہے کہ '' کارخانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی  ملکیت میں سےہے،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔  اگر یہ مواد فردکی ملکیت میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں شمار ہو گا، جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹری)، اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہو تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے(Steel Mill)''۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 139میں لکھا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیونکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی نوعیت اور فطرت کی بنا پر ہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں''۔  اور دستور کی دفعہ 140میں لکھا ہے کہ ''امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے ۔  ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے''۔

 

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت  سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نجکاری (پرائیوٹائزیشن) کے تصور کی حفاظت کرتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہو گئی ہے

پاکستان میں بجلی کے بحران کی ذمہ دار حکومت بذاتِ خود ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کر رہی ہے۔  موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری (پرائیویٹائیزیشن)کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام سختی اور مشقت میں مبتلا رہیں۔    نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے تاکہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کرسکیں۔ سال 2000ء سے 2004ء کے دوران  ورلڈ بینک نے بجلی کی قیمتوں میں اپنی نگرانی میں اضافہ کروایااور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کاجتنا بل دیتے ہیں اتنا بل وہ بجلی کے کارخانوں کی بڑے پیمانے پرنجکاری سے قبل ،گرمیوں کے اُن دنوں میں دیاکرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال اپنی انتہاءپر ہوتا ہے ۔  لہٰذا ایک طرف توبجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں تو دوسری طرف باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت  نے خود کو سود اور کیپیسٹی پے مَنٹ capacity paymentکی مد میں ان نجی کمپنیوں کا  اربوں روپوں کا مقروض کرلیا ہے کیونکہ جب بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے تب بھی حکومت کو ان کمپنیوں کے منافع کو یقینی بنانے کے لیے ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔  کئی سال سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو 2008میں ہماری کُل ملکی پیداوار کا 1.6 فیصد(161ارب روپے) تھا ، اورجون 2020میں بڑھ کر کُل ملکی پیداوار کے 5.2فیصد(2150ارب روپے) تک پہنچ چکا تھا۔ 

 

  بجلی کے پیداواری یونٹس پرسرمایہ دارانہ نظام کے کنٹرول کا فائدہ صرف استعماری طاقتوں اور موجودہ حکمرانوں کو پہنچتاہے جبکہ عوام اس سے محروم رہتے ہیں

پاکستان میں بجلی61.8فیصد تھرمل ذرائع یعنی فرنس آئل اور گیس سے، 26فیصد ہائیڈل یعنی پانی کے ڈیموں کے ذریعے اور 7فیصد نیوکلیئر یعنی ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی ہے کہ پورا سال بجلی کی موجودہ طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔    جہاں تک تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو مسلم امہ دنیا کے50فیصدسے زائد تیل اور 45فیصد گیس کے ذخائر کی مالک ہے۔ پاکستان میں تھر میں واقع کوئلے کا ذخیرہ دنیا کے چندبڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ہے۔ جہاں تک مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے جیسا کہ سورج کی روشنی،ہوا اورپانی کی لہریں،تو امت میں ایسے بے شمار بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو ان وسائل کو استعمال میں لا کر امت کی ضروریات کو پورا کرنےکا سامان کر سکتے ہیں۔

 

   ان عظیم ذخائر کی نجکاری کے ذریعے مقامی اور غیر ملکی استعماری کمپنیاں بھر پور فائدہ اٹھاتیں ہیں ۔  یہ کمپنیاں یا تو حکمرانوں کی حمایت سے کام کرتی ہیں یا براہِ راست حکمرانوں کے لیے کام کرتیں ہیں۔ لوگوں کا معاشی بد حالی میں مبتلا ہو جانا موجودہ حکمرانوں اور ان کے استعماری آقاؤں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں کرپٹ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

 

توانائی اور ایندھن کے ذخائر سے حاصل ہونے والے فوائدکوعوام کے لیے  محفوظ بنانا

سرمایہ داریت (کیپٹل ازم)اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو  ریاست کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کے لئے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)"(ابو داؤد)۔ لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو نجی ملکیت بنا دے، خواہ یہ کسی فرد کے لیے بنائی گئی ہو یا گروہ کے لیے ،کیونکہ یہ اثاثے مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن ریاستی اخراجات پر نہیں بلکہ صرف لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور عوامی سہولیات پر ہی خرچ کی جاسکتی ہے ۔ یہ اصول تمام عوامی اثاثوں پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ توانائی کے وسیع ذرائع  ہوں جیسا کہ تیل، گیس، بجلی وغیرہ یا معدنیات جیسا کہ تانبے، لوہے کی کانیں یا پھرپانی جیسا کہ سمندر، دریا ، ڈیم یا پھرچراہ گاہیں اور جنگلات۔ یقیناً یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ  دنیا میں موجود تیل و گیس اور معدنیات کے بہت بڑے حصے کی مالک  ہے لیکن اسلام کے معاشی نظام کے نافذنہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غربت کی دلدل میں ڈوبےہوئے ہیں اور امت دنیا کے امور میں کوئی وزن نہیں رکھتی جبکہ ایسے ممالک دنیا کے امور پر چھائے ہوئے ہیں جو اس دولت کے بہت کم حصے کے مالک ہیں۔

 

         خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔  اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔  یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں دیے سکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد رنگ،نسل،مسلک اور مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔  خلافت توانائی جیسا کہ پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ کردے گی جس سے ان کی قیمت میں واضح کمی واقع ہوگی۔ اس بات کی اجازت نہیں کہ لوگوں سے ان وسائل کی قیمت ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت سے زائد لی جائے، تاہم امت کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد وسائل کوغیر مسلم غیر حربی ممالک کو فروخت کیا جا سکتا ہے اوران وسائل سے حاصل ہونے والی کسی اضافی  آمدن کو عوامی سہولیات کے منصوبوں پر ہی خرچ کرکے اس آمدن کو عوام کو ہی واپس لوٹانا لازم ہے۔  اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔

 

         حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 137میں اعلان کیا ہے کہ''تین طرح کی اشیاء عوام کی ملکیت ہوتی ہیں: (١)ہر وہ چیز جو اجتماعی ضرورت ہو جیسے شہر کے میدان۔ (ب)ختم نہ ہونے والی معدنیات جیسے تیل کے کنوئیں۔  (ج)وہ اشیاء جو طبعی طور پر افراد کے قبضے میں نہیں ہوتی جیسے نہریں''۔  دستور کی دفعہ 138میں لکھا ہے کہ '' کارخانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت میں سےہے،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔  اگر یہ مواد فردکی ملکیت میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں شمار ہو گا، جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹری)، اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہو تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے(Steel Mill)''۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 139میں لکھا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیونکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی نوعیت اور فطرت کی بنا پر ہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں''۔  اور دستور کی دفعہ 140میں لکھا ہے کہ ''امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے ۔  ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے''۔

19رمضان 1443 ہجری                         حزب التحریر

20 اپریل 2022ء                                     ولایہ پاکستان

 

ہجری تاریخ :19 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 20 اپریل 2022م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک