بسم الله الرحمن الرحيم
اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے مسلح افواج کے اصل کردار کی بحالی
عقل و شعور رکھنے والے ہر شخص پر واضح ہے کہ امریکہ کا افغانستان اور خطے میں اثرو رسوخ خالصتاً پاکستان ، اس کی جانب سے فراہم کی جانے والی نقل و حمل کی سہولیات، اس کی انٹیلی جنس اور اس کی پیشہ ور قابل فوج پر منحصر ہے۔ اس بات کو جاننے کے بعدکہ افواج پاکستان کو قابو کیے بغیر اس کو کامیابی نہیں مل سکتی ،امریکہ نے اس پالیسی کو اپنایا ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے لیے ایجنٹ تلاش کرے۔ امریکہ کے سیاسی و فوجی اہلکاروں کی ملک کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود لوگوں سے مسلسل ملاقاتوں اورغیر ملکی فوجی تربیتی پروگراموں کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ ان رابطوں کے ذریعے انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ کون ایجنٹ بننے کے لیے تیار ہے۔ لہٰذا خطے میں اس کی گرفت کمزور ہے اور اس صورتحال کو چند گھنٹوں میں بدلا جاسکتا ہے اگر پاکستان میں ایک مخلص قیادت کھڑی ہوجائے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کی طاقت بہت کمزور ہے جس میں کسی بھی وقت گرنے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ اس کے لوگوںمیں اس حد تک باہمی تعصب موجود ہے کہ اس وقت بھی کئی علیحدگی پسند گروپ کام کررہے ہیں جو بھارت سے مکمل علیحدگی چاہتے ہیں۔ بھارتی ریاست اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ غیر ہندوں یہاں تک کے نچلی ذات کے ہندوں کوبھی تحفظ اور خوشحالی فراہم کرسکے۔ ہندو ریاست توانائی کے لیے مسلم دنیا کے تیل و گیس کے ذخائر پر انحصار کرتی ہے جس کے تمام راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں۔
اس خطے میں امریکہ کی تمام تر حکمت عملی کا انحصار ایک تابعدار پاکستان پر ہے۔ وسطی ایشیأ کے ممالک میں داخل ہونے کے لیے اس کا انحصار پاکستان پر ہے، افغانستان میں استحکام کے لیے وہ پاکستان پر انحصار کرتا ہے اورچاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کو طاقتور بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ اپنے مخصوص محل وقوع اور طاقت کی بنا پر اس خطے کی اصل طاقت پاکستان ہے جس کی پالیسی خطے کی صورتحال پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا قومیت پرستی کے محدود نظریے کے برخلاف اس خطے میں اسلام کی بنیاد پر ایک مسلم طاقت کا قیام خطے کی صورتحال کو مکمل طور پر بدل دے گا۔ جنوبی ایشیأ اور وسطی ایشیأ کے 50کروڑ سے زائد مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اسلام ایک زبردست قوت ہے جس میں سے 200ملین مسلمان خود ہندو ریاست میں بستے ہیں۔ بھارت،بنگلادیش اور پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی بحریہ کی بحیرۂ عرب اور بحرِ اوقیانوس میں پہنچ محدود ہوجاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے تمام توانائی اور تجارتی زمینی راستے مسلم دنیا سے گزرتے ہیں۔ مسلمانوں کی کل افواج کی تعداد تقریباً 60لاکھ ہے جبکہ بھارت کی فوج 10لاکھ ہے۔ خلافت کی تحریک وسطی اور جنوبی ایشیأ میں پھیل چکی ہے لہٰذا مسلمانوں کے علاقوں کو جوڑنے کے لیے درکار عوامل بھی اس وقت موجود ہیں۔
خطے میں کئی غیر مسلم ریاستیں ہیں جن کی پاکستان کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے اور وہ بھی خطے میں اپنی سرحدوں پر امریکی موجودگی سے پریشان ہیں ۔ ان ممالک کو مسلم علاقوں میں موجود عظیم قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کی پیشکش کے ذریعے اپنے قریب کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی مستقل فوج کی تعداد 6لاکھ سے زائد جبکہ ریزرو فوج کی تعداد 5لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 3لاکھ پیرا ملٹری فورسز ، 20ہزار سٹریٹیجک پلانز ڈویژن فورسز بھی موجود ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے لڑنے واے قابل مردوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
افواج کی ذمہ داری:انسانیت کو کفر کی حکمرانی کے ظلم سے نجات دلانا
خلافت میں اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف کی سیاسی سوچ موجودہ امریکہ کے سیاسی غلاموں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ریاست کا بنیادی محور و مرکز،اس کے سیاسی اقدامات،اس کے میڈیا کا استعمال اور فوجی اقدامات،تمام کے تمام خارجہ پالیسی کے تین اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہوں گے۔
پہلا: خلیفہ حربی (دشمن) غیر مسلم ریاستوں سے حالتِ جنگ کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے گا
حربی (دشمن) غیر مسلم ریاستیں وہ ممالک ہیں جو مسلم علاقوں پر قابض ہیں یا اس جیسی کسی دوسری جارحیت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خلیفہ مسلمانوں کے وسائل کو مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے استعمال کرے گا جیسا کہ کشمیر اور فلسطین۔ اس کے ساتھ ان دشمن ممالک سے درپیش خطرے کو اس طرح بھی کم کیا جائے گا کہ مسلم علاقوں میں موجود ان کے تمام اڈوں، سفارت خانوں کو بنداور اہلکاروں کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ خلافت ان سے ہر قسم کے سیاسی اور فوجی رابطے ختم کردے گی اور دیگر غیر حربی کافر ممالک سے نئی بنیادوں پرتعلقات قائم کرے گی۔ جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے ویسے ہی خلافت اس معاملے پر کوئی نرمی نہیں دکھائے گی چاہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیاں ہی کیوں نہ بیت جائیں جیسے صلیبیوں سے مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لیے تقریباً ایک صدی تک جہاد کیا گیا۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاہدے نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ، تو یہ ر یاستیں ہمارے ساتھ حکماً دشمن (جنگی حالت میں)ہیں ۔ ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے اور ہر نئے دورے پر نئے ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے''۔ اسی دفعہ کی شق 4میں لکھا ہے کہ ''وہ ریاستیں جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہوں، مثال کے طور پر'' اسرائیل''ان کے ساتھ ہر حوالے سے حالتِ جنگ کاہی معاملہ کیاجائے گا۔ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گا گویا ہماری اورا ن کی جنگ ہو رہی ہے اگر چہ ہمارے اور ان کے درمیان سیز فائر (جنگ بندی) ہو، اور ان کا کوئی شہری ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا۔''
دوسرا: خلافت موجودہ مسلم ممالک کو اس نظر سے دیکھے گی کہ انھیں ایک ریاست میں یکجا کرنا ہے
خلافت موجودہ مسلم ممالک کو اس نظر سے دیکھے گی کہ انھیں ایک ریاست میں ڈھالا جائے کیونکہ تمام مسلمانوں کی واحد ریاست صرف خلافت ہی ہوتی ہے اور امت کواسلام کے نفاذ کیلیے خلیفہ کا لازماً کڑا احتساب کرناچاہیے۔ خلافت کے قیام کے پہلے گھنٹے سے خلیفہ مسلمانوں کے درمیان قائم ان سرحدوں کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کردے گا،مسلمانوں کی ایک واحد فوج قائم کر ے گا اور مسلمانوں کے عظیم وسائل کوایک واحد بیت المال کے تحت منظم کرے گا۔ اور حزب التحریر،جو خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے خلیفہ کی بھر پور مدد کرے گی۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ181میں اعلان کیا ہے کہ''سیا ست امت کی داخلی اورخارجی معاملات کی نگرانی (دیکھ بھال) کو کہتے ہیں۔ سیاست ریاست اور امت دونوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ ریاست خود براہ راست عملی طور پر یہ نگرانی (نگہبانی) کرتی ہے جبکہ امت اس ذمہ داری کی انجام دہی کے حوالے سے ریاست کا احتساب کرتی ہے''۔اور دستور کی دفعہ189کی شق 1میں لکھاہے کہ''وہ ریاستیں جو عا لمِ اسلام میں قائم ہیں،ان سب کو یہ حیثیت دی جائے گی کہ گویا یہ ایک ہی ریاست کے اندر ہیں۔ اس لیے یہ خارجہ سیاست کے دائرے میں نہیں آتیں۔ نہ ہی ان سے تعلقات خارجہ سیاست کے اعتبار سے قائم کئے جائیں گے، بلکہ ان سب کو ایک ریاست میں یکجا کرنا فرض ہے''۔
تیسرا: خلافت غیر مسلم غیر حربی ریاستوں سے تعلقات استوار کرے گی۔
ان تعلقات کا مقصد اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک پہنچانا ہو گا جیسا کہ اس سے پہلے خلافت ایک ہزار سال تک اس فریضے کی ادائیگی کرتی آئی ہے۔یہ امت جو آخری نبی ﷺ کی امت ہے ،کی زندگی کامقصد اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانا ہے۔ خلافت کی پوری تاریخ میں خلافت دنیا کے لیے روشنی کا مینار اور انسانیت کے لیے ہدایت کا سر چشمہ رہی ہے۔ ایک ہزار سال تک خلافت نے حکمرانی،انصاف،خوشحالی،علم اورتحفظ کے انتہائی اعلی پیمانے قائم کیے۔ خلافت نے مستقل اسلام کی دعوت کو دنیا کے چاروں کونوں تک پھیلانے اور انسانیت کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ظلم سے نجات دلانے کی انتھک جدوجہد کی۔خلافت کی افواج کا لوگ خوش دلی سے اپنے علاقوں میں استقبال کرتے تھے کیونکہ وہ کوئی استعماری فوج نہیں ہوتی تھی جو صرف لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے لیے دوسرے علاقوں پر حملہ آور ہوتی بلکہ وہ متقی مجاہدین کی فوج ہوتی تھی جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے کام کرتے تھے۔اور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اسلام کے عملی نفاذ کی برکتوں کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرلیتے تھے۔لہٰذا خلافت ان ریاستوں سے معاشی،تجارتی،اچھے ہمسائیگی اور ثقافتی تعلقات استوار کرے گی جن میں اسلام کو قبول کرنے کے زیادہ امکانات موجود ہوں۔ خلافت ان تعلقات کو استعمال کرے گی اور دنیا کے سامنے ان پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم،استحصال اور ناانصافی کو بے نقاب کرے گی ۔ خلافت اسلام کو ایک متبادل اور عملی نظام کی صورت میں پیش کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ریاستوں کے شہریوں کو ریاست خلافت میں آنے اور اسلام کی برکات کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دے گی۔ ان تمام اقدامات کا مقصد یہ ہوگا کہ ایک علاقے کے لوگوں کوخلافت میں شامل ہونے کے لیے تیار کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر جہاد کے ذریعے اس مادی طاقت کو ہٹا یا جائے گا جو اس علاقے کو اسلامی ریاست کا حصہ بننے سے روک رہی ہو۔ یہ جہاد اس معاشرے کے لوگوں پر حملہ نہیں ہوگا بلکہ صرف ان کی افواج کے خلاف جنگ ہوگی جس میں اس بات کا سختی سے خیال رکھا جائے گا کہ شہری کسی نقصان سے محفوظ رہیں بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں بھی جب خلافت نئے علاقوں میں داخل ہوتی تھی تو اس علاقے کے شہری کسی بھی قسم کے ظلم وستم سے محفوظ رہتے تھے۔
پوری دنیا تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے غیر مسلم غیر حربی ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے سیاسی چالوں پر مبنی عالمی سطح کےسیاسی عمل کئے جائیں گے جس کے نتیجے میں دشمن ریاستوں کو تنہا اور کمزور کیاجائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ184میں اعلان کیا ہے کہ''خارجہ سیاست میں سیاسی چال چلنا ضروری ہے۔ سیاسی چال کی اصل طاقت اہداف کو خفیہ رکھنا جبکہ اعمال ( کارروائیوں) کا اعلان کرنا ہے''۔اور دستور کی دفعہ 187میں لکھا ہے کہ '' امت کا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اس امت کی ریاست کی قوت ہے، اور یہ کہ اسلامی احکامات کابہترین طریقے سے نفاذ کیا جائے اور دنیا کے سامنے اسلامی دعوت کو پیہم طریقے سے پہنچایا جائے''۔ اس طرح دستور کی دفعہ 189کی شق 2میں لکھا ہے کہ '' وہ ریاستیں جن سے ہمارے اقتصادی ،تجارتی ، اچھے ہمسائیگی یا ثقافتی معاہدات ہیں ،ان کے ساتھ ان معاہدات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ ...ان کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کچھ متعین اشیاء تک محدود ہو ں گے اور ان اشیاء کی صفات معلوم ہوں۔ اور یہ ایسی اشیاء نہ ہوں کہ جس سے اُس ریاست کو تقویت پہنچتی ہو''۔
خلیفہ افواج کے تمام معاملات کی بذات خود نگرانی کرے گا
خلیفہ ان تمام معاملات اور فوج کی بذات خود نگرانی کرے گا یعنی سیاسی نقطہ نظر اور فوجی طاقت کا زبردست امتزاج ہوگا۔ خلیفہ عالمی سطح پر ایسے سیاسی اقدامات اٹھائے گا جس کے نتیجے میں دشمن ریاستیں تنہا اور کمزور ہوجائیں۔ لہٰذا فوجیں صرف اسی وقت حرکت میں آئیں گی جب حقیقی بیرونی خطرہ درپیش ہو یا کوئی اور انتہائی اہم ضرورت درپیش ہو۔ فوجوں کو خود ساختہ جنگوں میں امریکہ کے مفاد کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔اس کے علاوہ ایک سیاست دان اورایک رہنما ہونے کے ناطے خلیفہ کی نگاہ صرف فوجی مقاصد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سیاسی اقدامات کے ذریعے فوجی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ65میں اعلان کیا ہے کہ''خلیفہ ہی فوج کاسپہ سالارِ ا علی ہے وہی فوج کے لیے کمانڈر انچیف کا تقرر کرے گا اور وہی ہر بر یگیڈکے لیے کما نڈر مقر ر کرے گااور ہر بٹا لین کے لیے بھی کمانڈر مقرر کرے گا، فوج کی باقی ترتیب وتنظیم خود فوجی کمانڈر کر یں گے ، کسی شخص کو اسٹا ف کما نڈر مقررکر نے لیے اس کی جنگی مہارت او ر قا بلیت کو دیکھا جائے گا اور اس کا تقرر کما نڈر انچیف کر ے گا '' ۔ اس دفعہ میں مزید لکھا ہے کہ '' جہاد تمام مسلمانوں پر فر ض ہے لیکن جہا د کی ذمہ داری اور اس کی سر پر ستی خا ص خلیفہ کا کا م ہے ۔خلیفہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کا م کے لیے وہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے لیکن وہ نائب خلیفہ کی سر پر ستی اور نگرانی میں کام کرے گا۔ یہ جا ئز نہیں کہ خلیفہ اپنے نائب کو مکمل آزادی دے اور خود اس کی سرپرستی اور نگرانی نہ کرے ''۔اور فوجوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے دستور کی دفعہ 66میں لکھا ہے کہ ''فوج کو ایک ہی فوج بنایا جا ئے گا اور انھیں خا ص چھا ؤ نیوں میں رکھا جا ئے گا ،تاہم یہ چھاؤ نیاں مختلف صوبوں میں ہوں گی اور ان میں سے بعض کو اسٹریٹیجک ( جنگی اہمیت کے حامل) علاقوں میں بنایا جا ئے گا ، اسی طر ح کچھ فوجی اڈے ہمیشہ متحرک رہیں گے اور یہ بے پنا ہ جنگی قوت کے حامل ہوں گے ، ان فوجی چھائو نیوں یا اڈوں کوکئی ایک مجموعوں کی شکل میں منظم کیا جا ئے گا اور ہر مجموعے کو جیش (فوج)کہاجائے گاپھر ہر ایک کااپنا نمبر ہوگامثال کے طور پر 1 نمبر یا 2 نمبر یا پھر صوبوں اور عمالہ ( ضلع)کے نا م پر اس کا نا م رکھا جا ئے گا''۔ اسی دفعہ میں مزید کہا گیا ہے کہ '' اس قا عدے کے مطابق کہ' جس کا م کے بغیر کو ئی فر ض ادانہیں ہو سکتا وہ کا م بھی فرض ہے '۔ جیسے ملک کی حفاظت کا لازم ہونا ، سر حد وں پر فوج تعینات کرنا ، جنگی حکمت عملی کے مقا ما ت پر فوجی اڈے بنانا وغیرہ''۔
افواج پراٹھنے والے اخراجات
جہاں تک فوج پراٹھنے والے اخراجات کا تعلق ہے تو خلافت اس روایتی کشمکش کا خاتمہ کرے گی کہ آیا صحت و تعلیم پر خرچ کیا جائے یا دفاعی ضروریات پر۔ خلافت کی معیشت نہ تو سوشلسٹ ہوتی ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ،لہٰذا خلافت ،خلیفہ پرعائد تمام ذمہ داریوں کے لیے درکار ضروری اخراجات کے لیے بڑی تعداد میں محصولات اکٹھا کرے گی لیکن اس کے باوجود نہ تو لوگوں پر اور نہ ہی معیشت پر کوئی بوجھ پڑے گا۔ خلافت محصولات کے نظام کی شریعت کے احکامات کے مطابق تشکیل نو کرے گی تا کہ صنعتیں تیزی سے ترقی کریں جو فوجی برتری کے لیے انتہائی ضروری ہے اور ٹیکنالوجی کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار کا خاتمہ کرے گی۔خلیفہ عوامی اثاثوں کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں محصولات جمع کرے گا جیسے توانائی کے وسائل کے ذریعے، بڑے بڑے ریاستی اداروں کے ذریعے جیسے بھاری مشینری بنانے والے اداروں کے ذریعے۔ خلیفہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرے گا جس کی وجہ سے معیشت سکڑ کررہ گئی ہے۔ خلافت استعماری ممالک اور ان کے اداروں کو سودپر مبنی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کردے گی جو پاکستان کے بجٹ کا ایک تہائی حصہ سود کی ادائیگی میں کھا جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات ایک حقیقت ہے اور ساری دنیا جانتی بھی ہے کہ ان قرضوں کو سود کی وجہ سے اصل رقم سے بھی بڑھ کر کئی بار ادا کیا جاچکا ہے۔اور اگر ان تمام اقدامات کے باوجود خلیفہ کو اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو تو وہ چندے یا قرضے یا ہنگامی دولت ٹیکس کا مطالبہ کرسکتا ہے لیکن یہ ٹیکس صرف انہی لوگوں سے لیا جاتا ہے جو اپنی بنیادی ضروریات اور کچھ آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بھی دولت کے مالک ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ خلافت کے لئے اپنی افواج کوطاقتورترین فوج بنانا اور دوسری اقوام پر فوجی برتری حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کا لازمی نتیجہ صنعتی ترقی اورٹیکنالوجی کے میدان میں ایجادات کی صورت میں نکلے گا جس کے نتیجے میں معیشت تیزی سے ترقی کرے گی۔ یہ وہ تصور ہے جس کا مشاہدہ آج مغربی اقوام کررہی ہیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ ماضی میں خلافت سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی میں سب سے آگے تھی اور کئی صدیوں تک اپنے مد مقابل اقوام سے اس میدان میں بہت آگے رہی۔ہتھیار وں کی تیاری ،بحری اوربرّی جنگی صلاحیت کے حوالے سے خلافت دنیا میں سب سے آگے تھی جس کی وجہ سے خلافت کئی صدیوں تک دنیا کی واحد سپر پاور کا کردار ادا کرتی رہی۔مستقبل میں بھی ان شأاللہ خلافت اسی مقام کو حاصل کرنے کے لیے زبردست کوشش کرے گی تا کہ اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچایا جاسکے۔ لہٰذا ایک طرف خلافت مغرب پر ٹیکنالوجی کے انحصار کا خاتمہ کرے گی اور ساتھ ہی صنعتی ترقی اور تحقیق کے شعبے پر بھر پور توجہ دے گی۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ69میں اعلان کیا ہے کہ''یہ بھی فرض ہے کہ فوج کے پاس و افر مقدارمیں اسلحہ، آلات جنگ اور سازو سامان اور جنگی مہمات کے لیے لازمی اور ضروری چیزیں ہوں تاکہ ایک اسلامی فوج ہونے کی حیثیت سے وہ با آ سا نی اپنی ذمہ داری کو اداکر سکے ''۔اسی دفعہ میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ''اس کی دلیل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ
(وَ اَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُۚ اللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ)
''اور تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کو تیار رکھو کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کواور ان کے علا وہ اوروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جانتا ہے، خوف زدہ رکھ سکو اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے وہ تمہیں پورا پورا دیا جا ئے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا ''(الانفال:60)۔
جہاد وقتال کی تیار ی کر نا فرض ہے اور یہ تیاری اتنی واضح اور زبردست ہونی چاہئے کہ اس سے کفار اور دشمنوں پر رعب اور خوف طاری ہوجائے اور ریاست کے اندر منافق رعایاکوبھی دہشت میں مبتلاکرے۔ اللہ تعالیٰ نے ''( تُرْ ہِبُوْنَ ) دہشت زدہ کرتے رہو'' فرمایاہے یہ تیاری کی وجہ اور علت ہے اور تیاری اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جائے گی جب تک وہ علت پوری نہ ہو جو شرع نے بتائی ہے اور یہ علت ،دشمنوں اورمنافقین کو خوف زدہ اور دہشت زدہ کرنا ہے اس لیے فوج کو ہر قسم کا اسلحہ، آلات اورفوجی سازوسامان مہیا کرنافرض ہے تاکہ دشمن عملاً خوف زدہ ہوسکیں اورفوج جہاد کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے کے قابل ہو اور اسلام کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔''
افواج کی تربیت
جہاں تک فوج کی تربیت کا معاملہ ہے تو خلافت پہلے دن سے دنیا کی صف اول کی ریاست بننا چاہے گی تا کہ اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچایا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے خلافت اپنی فوج کو فوجی تربیت سے لے کر اسلام کے احکامات تک کی تمام تر تربیت فراہم کرے گی ۔ یہ فوجی تربیت دشمن ریاستوں کے ٹرینرز (trainers)فراہم نہیں کریں گے کیونکہ اس قسم کے تربیتی پروگراموں کو استعمال کرتے ہوئے دشمن ہم میں اپنا رعب پیدا کرتا ہے اور مسلمانوں کی جنگی چالوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔اس کے علاوہ میدان جنگ میں صحیح بنیادوں پر لڑنے کے جذبے اور میدان جنگ میں حاصل کی گئی کامیابی کو مستقل کرنے اور نئے علاقوں کے لوگوں کے دلوں کو اسلام کے لیے جیتنے کے لیے اسلامی احکامات کی تعلیم بھی انتہائی ضروری ہے۔لہٰذا افواج کی تربیت کے ہر مرحلے پر یہ واضح کیا جائے گا کہ خلافت کوئی استعماری طاقت نہیں ہے جو شہریوں کا قتل عام کرے اور اس علاقے کے وسائل کو لوٹے۔ بلکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے رحمت ہے اور خلافت نئے علاقوں کے شہریوں کا تحفظ کرے گی جیسا کہ وہ اپنے دوسرے شہریوں کا تحفظ کرتی ہے۔یقیناً ماضی میں مسلمانوں کی فوجوں کو مظلوم خود پر ہونے والے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے خود بلاتے تھے کیونکہ ان کے انصاف کی شہرت ہر طرف عام تھی۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ67میں اعلان کیا ہے کہ''فوج کے لیے انتہا ئی اعلیٰ سطح کی عسکری تعلیم کا بندوبست کر نا فر ض ہے اور جہاں تک ممکن ہو فوج کو فکر ی لحاظ سے بھی بلند رکھا جا ئے گا ،فوج کے ہر ہر فرد کو اسلامی ثقا فت سے مزین کیا جائے گا تاکہ وہ اسلام کے با رے میں مکمل بیدار اور باشعور ہو اگرچہ یہ اجمالی شکل میں ہی کیوں نہ ہو''۔اسی طرح دستور کی دفعہ 68میں لکھا ہے کہ ''ہر چھاؤنی میں ایسے کمانڈروں کی موجود گی انتہا ئی ضروری ہے جو جنگی منصوبہ بندی اور حکمت عملی ترتیب دینے میں اعلیٰ قسم کی مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں اور پوری فوج میں بھی ایسے کمانڈروں کی تعداد ممکن حدتک زیاد ہ ہونی چاہئے''۔
افواج میں شمولیت
جہاں تک افواج کی تعداد کا تعلق ہے یہ امت جہاد کی امت اور پوری انسانیت تک اسلام کی دعوت پہنچانے کی ذمہ دارہے۔اس کے کردار کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ لوگوں پر مسلط ظلم اور جبر کو ہٹا تی ہے۔ پورے معاشرے کی ترجیحات کا ان بنیادوں پر ازسرنو تعین کیا جائے گا کہ اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا اور جہاد کرنا ہی ایک اسلامی معاشرے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ62میں اعلان کیا ہے کہ'' جہاد مسلمانوں پر فرض ہے اور فوجی تربیت لازمی ہے، ہر مسلمان مرد جس وقت اس کی عمر پندرہ سال ہو جائے جہاد کی تیا ری کے لیے فوجی تربیت حاصل کرنا اس پر فرض ہو جائے گا، فوج میں با قاعدہ بھرتی ہونا فرض کفایہ ہے''۔اور دفعہ 63میں لکھا ہے کہ ''فوج دوقسم کی ہوتی ہے :ریزرو فوج (Reserve Army) ، اس میں مسلمانوں میں اسلحہ استعمال کرنے کے قابل تمام لوگ شامل ہیں، دائمی اور مستقل فوج ، ان کو ریاستی بجٹ سے دوسرے ملازمین کی طرح تنخواہیں دی جائیں گی''
ہجری تاریخ :4 من شوال 1443هـ
عیسوی تاریخ : جمعرات, 05 مئی 2022م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان