بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان میں تعلیم غیر معیاری اورانتہائی ناقص ہے جس کے نتیجے میں بدحالی میں اضافہ اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے
قیامِ پاکستان کے وقت سے تعلیم کے شعبہ سے غفلت برتی گئی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے لاکھوں کروڑوں بہن بھائی اچھی تعلیم کے حق سے محروم رہے ہیں جس کواسلام نے ان کا حق قرار دیا ہے۔ خطے میں برطانیہ کے رائج کردہ استعماری تعلیمی نظام نے سائنس اور اسلامی تعلیم کو دو الگ الگ اداروں میں تقسیم کردیا یعنی عام مروجہ اسکول اوردینی مدارس۔ اس بات کو جانے بغیر کہ اس معاملے پر اسلام کی رائے کیا ہے،اس تعلیمی نظام کو اسی طرح سے جاری و ساری رکھا گیا۔ مغربی تہذیب کے برعکس اسلام میں دینی اوردنیاوی زندگی ایک دوسرے سے جدا کوئی الگ الگ چیز نہیں ہیں۔ لیکن موجودہ تعلیمی نظام ایک طرف ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو ''دنیاوی'' کام کرتے ہیں اور جو اسلام کو ایک فرد کا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں تو دوسری جانب یہ تعلیمی نظام ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو مذہبی پیشوائیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اسلام کو دنیا کی عملی زندگی میں کیسے لاگو کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام کی اس تقسیم ،یعنی دین و دنیا کی جدائی کی مغربی فکرکی وجہ سے ہماری سوچ زوال پزیر ہو گئی،مغربی افکار اپنائے جانے لگے ،مغربی احساسات بڑھنے لگے اورامت قابل اور لائق علمأ،دانشوروں اور سیاست دانوں سے محروم ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ''قیادت کا خلأ ہے''۔ موجودہ تعلیمی پالیسی کا مقصد اسلام کو عملی زندگی سے دور رکھنا اور اس کو صرف ایک علمی مضمون بنا دینا ہے جبکہ اسلام اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ متحرک، مخلص اور اسلامی تعلیمات سے آشنا افراد کو پیدا کیا جائے۔ لہٰذا خلافت لوگوں کی اسلام کی بنیاد پر اس طرح سے تربیت کا اہتمام کرتی ہے کہ وہ اس قابل ہوں کہ اسلام کو اپنی سیاسی اور ذاتی زندگیوں میں لاگو کرسکیں اور وہ یہ جان سکیں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد اسلام کو سیاسی زندگی سے بے دخل کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا کی زندگی کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت یعنی ہر شعبہ زندگی میں اس کے احکامات کی پیروی کرنا ہے ۔ یہ تربیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ امت کے بیٹے اور بیٹیاں امت کو درپیش معاشی،سیاسی،داخلی اور خارجی معاملات کے حل اسلام سے پیش کریں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اسلامی تہذیب کو اس قابل کیا تھا کہ وہ ایک ہزار سال تک دنیا کے لیے روشنی کا مینار تھی۔ اسلامی ریاست نے زبردست بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیے جنھوں نے حساب ،طب، ادویات ، فقہ اور فلکیات جیسے مختلف میدانوں میں بڑا نام پیدا کیا۔ عربی زبان جو اسلامی ریاست کی سرکاری زبان تھی پڑھے لکھے مرد و خواتین کی پہچان بن گئی تھی اور خلافت کے شہر تعلیم کے حصول کے لیے یورپی امرأ کے پسندیدہ ترین مقام بن گئے تھے۔
اس کے علاوہ موجودہ تعلیمی نظام غلط تدریسی طریقہ کار کو اختیار کرتا ہے یعنی تصورات کو احساسات سے اس طرح نہیں جوڑتا کہ ایک واضح تصویر بن جائے بلکہ ان تصورات کو رَٹایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت سوچنے سمجھنے کے عقلی طریقہ کار سے ہٹ گئی جو کہ صدیوں تک اسلامی تہذیب کا خاصہ تھی۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں مناسب سہولیات اور پیشہ ورقابل اساتذہ کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ اکثر اسکولوں میں اہم مضامین اس زبان میں پڑھائے جاتے ہیں جو کہ قرآن کی زبان نہیں یا طالب علموں کی اپنی زبان ہی نہیں ہے۔ پاکستان تعلیمی خواندگی کے لحاظ سے 2015ء میں دنیا کے 120ممالک میں سے 113نمبر پر تھا۔ حکومت کی پالیسی کی ناکامی اور ناکافی وسائل کی فراہمی تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کی زبردست پیش قدمی کا باعث بنی ہے یہاں تک کے نجی یونیورسٹیاں اب ایک عام بات بن چکی ہیں جس کے نتیجے میں والدین پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کے لیے ایک الگ گھر پر پڑھانے والے معلم یا ٹیوشن اکیڈمی کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وقت، کوشش اور پیسے میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ تعلیمی شعبے میں ان کمزوریوں کی وجہ سے اکثر قابل طالب علم مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم دنیا قابل نوجوانوں کی خدمات اور ذہانت سے محروم ہوجاتی ہے۔ پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں بچتا کہ وہ پاکستان واپس جائیں کیونکہ جو تعلیم اب وہ حاصل کرچکے ہوتے ہیں اس کی پاکستان کی صنعت اور زراعت کو ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ حکومت نے کوئی ایسا تحقیقی ادارہ قائم ہی نہیں کیا جو ایسے قابل دماغوں کو صنعتی اور زرعی شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرسکے۔
پاکستان میں تعلیم استعماری طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے اوراسلامی ورثے سے دور اور نشاة ثانیہ اور ترقی کی راہ پر چلنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے
استعماری پالیسی یہ رہی ہے کہ ایک ایسی تعلیمی پالیسی نافذ کی جائے کہ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو ان کے عقیدے سے الگ کردیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسا تعلیمی نصاب پڑھایا جائے کہ جس میں سیکولرازم،لبرل ازم،جمہوریت، انسان کی حاکمیت اعلی اور دوسرے مغربی افکار موجود ہوں ۔ اس نظام کی بنیاد برطانیہ نے اس وقت ڈالی تھی جب وہ برصغیر پر قابض تھا اور آج امریکہ ، یورپ اور استعماری ادارے جیسے عالمی بینک اس کی بہت قریب سے نگرانی کرتے ہیں۔ لہٰذا جونصابی کتب حکومت تیار کرتی ہے اور جنھیں نجی تعلیمی ادارے استعمال کرتے ہیں انھیں مغربی تعلیمی ادارے خاص پاکستان کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ مقصد ہے کہ اسلام کا ایسا تصور پیدا کیا جائے کہ یہ دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب ہے۔ یہ نصاب مغربی دانشوروں،فلاسفروں اور سائنس دانوں کے کرپٹ تصورات کو نوجوانوں کے ذہن میں راسخ کرتا ہے اور مغربی ادب اور مغربی طرزِ زندگی کے متعلق محبت پیدا کرتا ہے۔ اس تعلیمی نظام کا مقصد سیکولر شخصیات کو پیدا کرنا ہے جو انسانی مسائل کے حل کے لیے صرف اور صرف مغربی سرمایہ دارانہ نظریہ حیات اور مغربی قوانین کو اختیار کریں۔
موجودہ مدرسہ نظام میں اسلام ایک نظری(Theoretical) صورت میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کا موجودہ حقیقت (عملی زندگی)سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کئی سالوں سے مدارس کا نصاب سکڑتے سکڑتے عبادات اور اخلاقیات سے متعلق اسلامی احکامات تک محدود ہو گیا ہے جس میں کچھ وراثت،نکاح اور طلاق کے مسائل بھی شامل ہیں۔ اسلام کے دیگراحکامات ،جن کا تعلق معاملات، معیشت،خارجہ پالیسی،حکمرانی اور احتساب سے ہے ،تو ان کے متعلق غفلت برتی گئی ہے۔
تحقیق، ٹیکنالوجی اور ترقی کے لیے درکار اچھے قابل اساتذہ کی تربیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے بہت کم وسائل اور سہولیات بہم پہنچائی ہیں۔
تعلیم کواسلامی عقیدہ کے مطابق ترتیب دینا
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ)
''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔'' (التحریم،66:6)۔
اسلامی ریاست امت کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائے گی۔ اسلامی ریاست کا یہ ایک بنیادی فریضہ ہوگا کہ وہ ایک ایسی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرے جس کے نتیجے میں طلبہ میں مضبوط عقلیہ اور نفسیہ کی حامل شخصیات پیدا ہوں۔ لہٰذا وہ ایک ایسا نصاب بنائے گی جس کے نتیجے میں طلبہ میں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی صلاحیت،تجزیہ کرنے کی قابلیت اور اس بات کی خواہش پیدا ہوگی کہ وہ علم کو اللہ سبحانہ و تعالی کی خوشنودی اور معاشرے کی بامعنی خدمت کے لیے حاصل کریں ۔ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ171میں اعلان کیا ہے کہ''اسلامی عقیدے کو ہی نصابِ تعلیم کی بنیاد بنایا جائے گاتاکہ تمام معلومات کوقبول کرنے ان کی تصدیق کرنے اور ان پر اعتقاد رکھنے کے حوالے سے اسلامی عقیدہ ہی وہ پیمانہ ہو جس پر منہج تعلیم کی بنیاد ہو''۔
تعلیم کے ہر مرحلے پر تجرباتی سائنس کو پڑھانے پر زور دیا جائے گا اور اس کا مقصد نئی تحقیق اور ٹیکنالوجی کو پیدا کرنا ہوگا تاکہ خلافت صنعتی ایجادات،صحت،تعمیرات اور دوسری انسانی ضروریات کی چیزوں میں دنیا کی قیادت کرے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو حقیقی ضرورتوں سے جوڑا جائے گا جیسے صنعت، زراعت اور صحت عامہ۔ یہی وہ عمل ہے جو امت کے ڈاکٹروں،انجینئروں اور سائنسدانوں کو ان کی قابلیت کے مطابق استعمال کرنے کا باعث بنے گا ۔ یہ امت کے قابل بیٹوں اور بیٹیوں کو اس بڑے مقصد یعنی اللہ کی عبادت سے جوڑے گا جس کے نتیجے میں تخلیقی صلاحیتوں اور پیداوار میں زبردست اضافہ ہوگا اور خلافت دنیا کی طاقتورترین ریاست بن سکے گی۔ جہاں تک ثقافتی علوم کا تعلق ہے تو یہ پرائمری اور سیکنڈری کی سطح پر ایک خاص پالیسی کے مطابق اس طرح پڑھائے جائیں گے کہ وہ اسلامی تصورات اور احکامات سے متصادم نہ ہوں۔ اعلیٰ تعلیم میں یہ ثقافتی علوم دوسرے تما م علوم کی طرح ہی پڑھائے جائیں گے لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ وہ تعلیمی پالیسی اور اس کے مقصد سے ہٹ کر نہ ہوں۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 174میں ثقافتی سائنسز کے متعلق اعلان کیا ہے کہ''ان چیزوں کی تعلیم جن سے عقائد فاسد ہوتے ہیں یا عقائد کمزور ہوتے ہیں ، بچوں کے اذہان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے ان چیزوں کی تعلیم ابتدائی دو مرحلوں میں ممنوع ہو گی۔ یعنی ابتدائی اور ثانوی مرحلے میں۔''۔
دنیاوی سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ عربی اور اسلامی علوم پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے گی تا کہ بچے دینِ اسلام کے بنیادی ارکان کو مضبوطی سے اختیار کرسکیں اور اسلام کو اپنی عملی زندگی میں لاگوکرسکیں۔ اسلامی ثقافت تعلیمی سفر کے ہر مرحلے پر پڑھائی جائے گی۔ ہم اپنے سب سے زیادہ قابل بیٹے اور بیٹیوں کو اس جانب راغب کریں گے کہ وہ فقیہ بنیں تا کہ اسلام کی عملی زندگی سے تعلق کی سمجھ بوجھ بہترین ہاتھوں میں رہے۔ جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست ِخلافت کے دستور کی دفعہ173میں اعلان کیا ہے کہ'' سکول کے مراحل میں ان علوم و معارف کو پڑھانے کا مقصد طالب علم کی ایسی اسلامی شخصیت کو پروان چڑھانا ہے جو زندگی میں علمی معرکے کا شہسوار ہونے کے لیے تیار ہو یعنی ممتاز شخصیت بننے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار ہوتا کہ اسلامی امت علمی اور فکری لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہو سکے اور دنیا کی قیادت سنبھالنے کی اہل ہو جائے۔ تمام انسانوں کو کفر کی ظلمتوں سے اسلام کے نور کی طرف لائے اور خود ساختہ قوانین کے ظلم سے نکال کر انسانوں کو شریعت اسلامی کے عدل کے سائے میں لائے۔ '' اسی طرح دفعہ 175میں لکھا کہ ''اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا فعل ہے۔ آپ مردوں، عورتوں،بوڑھوں اور جوانوں سب کو اسلام کے احکامات سیکھاتے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہر نسل اور ہر عمر کے لیے ہے اس لیے تمام تعلیمی مراحل میں اسلام کی تعلیم دی جائے گی۔''
ریاست خلافت اسکولوں کے لیے سہولیات اور اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام کا بندوبست کرے گی تا کہ ان کے مضمون کے علم میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھانے کے مختلف طریقہ کار سے بھی روشناس کرایا جائے گا جس کے نتیجے میں طلبہ کے لیے اس مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ تعلیم پرائمری کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک فراہم کی جائے گی اور ہمیشہ تحقیق کو زیادہ فوقیت دی جائے گی۔ جہاں تک تعلیمی شعبہ پر اٹھنے والے اخراجات کا تعلق ہے تو خلافت تعلیمی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت کے اصولوں کے مطابق محاصل اکٹھے کرے گی تاکہ تعلیمی میدان میں تیز رفتار ترقی ممکن ہو سکے۔ خلافت عوامی اثاثوں سے بہت بڑی تعداد میں محصول حاصل کرے گی جیسے توانائی یا ریاستی ادارے جیسے بڑے بڑے تعمیراتی ادارے یا بھاری مشینری بنانے والے ادارے۔ خلافت انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرے گی جو معاشی سرگرمیوں کی نمو میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ خلافت استعماری ممالک اور ان کے اداروں کو سودی قرضوں کی واپسی سے انکار کردے گی جو پاکستان کے اخراجات کا ایک تہائی تک کا حصہ کھا جاتے ہیں اور یہ بات بھی علم میں رہے کہ مسلسل سود کی ادائیگی کی وجہ سے یہ قرضے اصل رقم کے ساتھ کئی بار ادا کیے جاچکے ہیں ۔ اگر ان تمام اقدامات کے باوجود تعلیم کے شعبے کے لیے کافی وسائل میسر نہ ہوں تو ریاست اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لیے ایک ہنگامی ٹیکس لگائے گی جو صرف اُنہی لوگوں سے وصول کیا جائے گا جو اپنی بنیادی ضروریات اور آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بھی مال رکھتے ہیں۔ خلافت امت کو ایک بار پھر پوری دنیا کے لیے علم کی روشنی کا مینار بنا دے گی جیسا کہ اس سے پہلے بھی امت کے پاس یہ اعزاز کئی صدیوں تک موجود رہا تھا۔ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ179میں اعلان کیا ہے کہ'' جس کام کے بغیر کوئی واجب ادا نہیں ہوتا ،وہ کام بھی واجب ہوتاہے ۔ لائبریریاں ، لیبارٹریاں، اور علم حاصل کرنے کے دوسرے تمام وسائل کا تعلق امت کی دیکھ بھال سے ہے جو خلیفہ پر فرض ہے اور وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ اگر اس میں کوتاہی کرے گا تو اس کا احتساب ہوگا۔''
ہجری تاریخ :14 من شوال 1443هـ
عیسوی تاریخ : اتوار, 15 مئی 2022م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان